انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (آخری قسط) 

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (آخری قسط)

ترجمہ از، نصیر احمد

چومسکی: او کے۔ اب آپ نے ٹھوس اور خصوصی سوال پوچھا ہے اور یہ سوال کافی عقل مندانہ بھی ہے۔

یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں سب لوگ مفید، پیداواری اور خود کو اطمینان بخشتا کام کر رہے ہیں۔

ظاہر ہے یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے۔ یہ بات بھی… کہ اگر یہ سب لوگ آزادی کے حالات کے تحت وہ کام کرتے جو ابھی کر رہے ہیں تو ان کا کام پیداواری اور اطمینان بخش ہو جاتا۔

بَل کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد دوسری قسم کے کاموں میں الجھی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لوگ جو استحصال کے انتظام میں دھنسے ہیں یا وہ لوگ جو صرف کی مصنوعی تخلیق میں پھنسے ہیں، یا وہ لوگ جو جبر اور تباہی کے میکانزم کی تخلیق میں رچے ہیں یا وہ لوگ جنھیں تھمتی صنعتی معیشت میں کوئی بھی جگہ نہیں دی گئی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو پیداواری محنت کے امکانات سے دور کر دیا گیا ہے۔

میرے خیال میں انقلاب کے اگر آپ خواہاں ہیں تو اسے سارے انسانوں کے لیے ہونا چاہیے۔ لیکن کارِ انقلاب تو خاص شعبوں سے متعلق انسانوں نے ہی کرنا ہے اور وہ انسان وہی ہوں گے جو معاشرے کے لیے سُود مند کام کر رہے ہیں۔ یہ مختلف اقسام کے لوگ ہو سکتے ہیں  اور اس بات کا دار و مدار معاشرے  کی نوعیت پر ہو گا۔

ہمارے  معاشرے میں تو اس کار میں میرے خیال میں دانش کار شامل ہیں۔ اس منظر میں بے مہارت مزدوروں سے لے کر مہارت یافتہ کارکن، انجنئیرز، سائنس دان، پروفیشنلز کا ایک بڑا طبقہ اور سہولیاتی پیشوں سے متعلق بہت سارے لوگ شامل ہیں جو کم از کم ریاست ہائے متحدہ میں آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد بنتے ہیں۔ شاید یہاں بھی اور مستقبل میں بھی آبادی کا ایک بہت بڑا انبوہ بنیں گے۔

اس لیے میرے خیال  میں طالب علم انقلابیوں کے ہاں ایک بات تو ہے۔ اور اگر آپ پسند کریں تو ایک جزوی بات۔ کہنے کا مطلب ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ ایک جدید ترقی یافتہ معاشرے میں تربیت یافتہ دانش ور اپنی شناخت کیسے متعین کرتے ہیں۔ یہ بات جاننا بہت اہم ہے کہ آیا یہ تعلیم یافتہ لوگ خود کو معاشرتی مینیجرز سمجھیں گے یا وہ ٹیکنوکریٹس بنیں گے یا خود کو ریاست یا کسی نجی طاقت کے نوکر جانیں گے یا پھر متبادل کے طور پر خود کو ورک فورس کا ایسا حصہ بنائیں گے جو کارِ دانش میں میں مصروفِ عمل ہے۔

اگر وہ خود کو ورک فورس کا حصہ بناتے ہیں تو وہ ترقی انگیز معاشرتی انقلاب میں ایک احسن کردار ادا کر سکتے ہیں؛ کرنا چاہیے بھی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ جابر طبقے کا حصہ ہیں۔

سوال: آپ کا شکریہ۔

ایلڈرز: (کسی اور سوال کرنے والے سے) جی پوچھیے۔

سوال: مسٹر چومسکی، آپ نے تو مجھے اُفتاد زدہ سا کر دیا جب آپ نے معاشرے کے لیے نئے ماڈل تخلیق کرنے کی دانشی ضرورت کے بارے میں کہا۔ یوٹریکٹ (ہالینڈ میں ایک شہر) کے طالب علموں کے گروہ میں یہ کرتے ہوئے ایک مسئلہ سامنے آیا ہے کہ ہم وہاں قدروں کے اسقلال کے متلاشی ہیں۔ ایک قدر جس کا آپ نے کم و بیش ذکر کیا ہے وہ طاقت کی مرکزیت کا خاتمہ ہے۔ لوگوں کو، جہاں فیصلے ہو رہے ہیں، اسی مقام پر ہی فیصلہ سازی میں شرکت کرنی چاہیے۔

یہ مرکزیت کے خاتمے اور شرکت کی قدر ہے۔ دوسری طرف ہم ایک معاشرے میں رہ رہے ہیں جو اس بات کو ضروری بنا رہا ہے کہ فیصلے عالَم گیر سطح پر ہوں، یا ایسا لگ رہا ہے۔ مثال کے طور پر فلاح کی مساوی تقسیم کے لیے شاید مرکزیت میں اضافہ ضروری لگ رہا ہے کہ ان مسائل کا حل اعلیٰ سطح پر ہونا چاہیے۔ تو آپ کے معاشرتی ماڈل بناتے ہوئے یہ تضاد سامنے آیا ہے۔ اس موضوع پر آپ کے خیالات سے مزید مستفید ہونا ہمارے لیے بہتر ہو گا۔

میں ایک اضافی سوال بَل کہ تبصرہ کرنا چاہوں گا۔ ایسا ہے کہ جنگِ ویتنام کی مخالفت کےحوالے سے آپ اپنے اس جرأت مندانہ رویے کے ساتھ ایم آئی ٹی جیسے ادارے میں کیسے گزارا کر رہے ہیں جو کہ اس بڑی جنگ  کے ٹھیکے داروں اور دانشی جنگ سازوں میں سے ایک ہے؟

چومسکی: ٹھیک۔ مجھے دوسرے سوال کا جواب پہلے دینے دیں۔ امید ہے کہ پہلا سوال میں بھولوں گا نہیں۔ ارے نہیں، میں پہلے سوال جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ دوسرا اگر بھول جاؤں تو یاد دلا دیجیے گا۔

عمومی طور پر میں مرکزیت کے خاتمے کے حق میں ہوں۔ میں اسے ایک قطعی اصول نہیں بنانا چاہوں گا۔ اگر چِہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے پر گُفت و شُنید کا ایک ایک وسیع مارجن ہے لیکن  میں اس کے حق میں اس لیے ہوں کہ میرے خیال میں مرکزی طاقت کا ایک عمومی نظام اپنے اندر میں سب سے زیادہ طاقت ور عناصر کے مفادات کے لیے پوری مُستعدّی سے کام کرے گا۔

اب  آزادانہ ارتباط اور غیر مرکزی طاقتی نظام یقینی طور پر اس مسئلے کا سامنا کرے گا جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، عدم توازن کے مسئلے کا، کہ ایک خطہ دوسرے خطے سے  زیادہ خوش حال ہے، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہم  لوگ ہم دردی اور انصاف کی تلاش کے احساسات جو میں امید کرتا ہوں کہ بنیادی انسانی احساسات ہیں، ان احساسات پر اعتماد کرتے ہوئے زیادہ محفوظ رہیں گے جو آزادانہ ارتباط کے ایک نظام کا ایک ممکنہ نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں ہم اگر ترقی کی امید کی اساس اگر انسانی جبلتوں پر رکھتے ہیں تو زیادہ محفوظ رہیں گے۔ اگر ہم ترقی کی امید کی اساس اگر مرکزی طاقت کے اداروں پر رکھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ایسا نظام بَہ ہر حال اپنے طاقت ور ترین اجزاء کے مفادات کے لیے کام کرے گا۔ ایسی صورت میں ہم لوگ اتنے محفوظ نہیں ہوں گے۔

اب یہ کچھ مبہم اور بہت عمومی سی بات ہے اور میں یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہوں گا کہ اس کا اطلاق ہر صورتِ حال پر ہوتا ہے، لیکن میرے خیال میں بہت سارے حالات میں یہ اصول کار آمد ہو جاتا ہے۔

مثلا ایک جمہوری، سوشلسٹ اور آزادی پسند ریاست ہائے متحدہ کے اس مرکزیتی نظام جو بنیادی طور پر ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے، اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کے مہاجروں کو کافی زیادہ امداد دینے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اور میرے خیال میں یہی بات کئی دوسرے کیسز میں بھی درست ہے۔ بَہ ہر حال، مجھے لگتا ہے، یہ اصول  کچھ سوچ بچار کا مستحق ہے۔

جہاں تک اس تصور کا تعلق ہے، جو میرے خیال میں آپ کے سوال میں مخفی ہے اور اس کا بہت اظہار کیا جاتا ہے کہ کوئی تکنیکی جبر ہے، کسی بھی ترقی یافتہ ٹیکنالوجیکل معاشرے کی خصوصیت کہ جو ایک مرکزیتی طاقت اور فیصلہ سازی کو یقینی بناتی ہے۔ ایسے رابرٹ میکن مارا سے لے کر جہاں تک میں جانتا ہوں، بہت سارے لوگ کہتے ہیں لیکن یہ قطعی بکواس ہے۔ اس جبر کے حق میں میری نظر سے کوئی دلیل نہیں گزری۔

مجھے لگتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے، ڈیٹا پروسیسینگ کی ٹیکنالوجی کی طرح اور ابلاغیات کی مانند اس سے بالکل متضاد اثرات ہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ متعلقہ معلومات اور متعلقہ تفہیم ہر کسی کو جلد پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اس کو مینیجروں کے ایک مختصر گروہ کے ہاتھوں میں مرتکز کرنا لازمی نہیں ہے جو تمام علم، تمام معلومات اور تمام فیصلہ سازی کنٹرول کرے۔

ٹیکنالوجی میرے خیال میں آزادی بخش ہو سکتی ہے اس میں ممکنہ طور پر آزادی بخش ہونے کی خصوصیات ہیں۔ اسے ہر چیز کی طرح، انصافی نظام کی طرح، جبر کے ایک آلے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، طاقت کی بری تقسیم کی حقیقت کے باعث۔

 میرے خیال میں جدید ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجیکل معاشرے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو طاقت کی مرکزیت کے خاتمے سے دور کرتی ہو۔ در اصل معاملہ اس سے الٹ ہے۔

دوسرے نکتے کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ایم آئی ٹی (امریکہ میں جدید ٹیکنالوجی کا ایک ادارہ) مجھے کیسے برداشت کرتا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ میں ایم آئی ٹی کو کیسے سہتا ہوں (ہنسی)؟

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایم آئی ٹی مجھے کیسے برداشت کرتا ہے تو پھر یہاں میں یہی کہوں گا کہ بندے کو سکیمی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات سچی ہے کہ ایم آئی ٹی جنگی تحقیق کا ایک بڑا ادارہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ایم آئی ٹی ان آزادی پسندانہ اقدار کی بہت ہی اہم تجسیم بھی ہے جن کی میرے خیال میں امریکی معاشرے میں جڑی بہت ہی گہری ہیں۔ اتنی گہری نہیں ہیں کہ ویتنامیوں کو بچا سکیں لیکن اتنی گہری تو ہیں کہ ویتنام سے کہیں زیادہ تباہ کن حالات کی روک تھام کر سکیں۔

یہاں میرے خیال میں بات کچھ مشروط کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں استعماری دہشت اور جارحیت ہے، استحصال ہے، نسل پرستی ہے اور اس طرح کی بہت ساری اور چیزیں بھی ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ وہاں اس طرح کے انفرادی حقوق کا احساس بھی ہے جن کی تجسیم دستاویزِ حقوق میں کی گئی ہے اور یہ حقوق محض طبقاتی جباری کا اظہار نہیں ہیں۔ یہ حقوق ریاستی طاقت کے خلاف فرد کے دفاع کی ضرورت کا اظہار بھی ہیں۔

تو یہ ساری چیزیں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ مسئلہ سیدھا سادا نہیں ہے۔ سب برا نہیں ہے اور سب اچھا نہیں ہے۔ اور یہ ایک خاص توازن ہے جس میں یہ سب ساتھ ساتھ موجود ہیں اور یہ توازن اس بات کویقینی بناتا ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو جنگی ہتھیار بناتا ہے ایک ایسے فرد کو نہ صرف برداشت بل کہ فی الحقیقت اس کی حوصلہ افزائی کرے جو جنگ کے خلاف سول نا فرمانی جیسے معاملات میں الجھا ہے۔

جہاں تک میرے ایم آئی ٹی کو برداشت کرنے کا تعلق ہے تو یہ تعلق ایک اور سوال اٹھاتا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کسی شورشی کو جابرانہ اداروں سے دور رہنا چاہیے اور ان کی اس بات کی منطق مجھے کبھی بھی سمجھ نہیں آئی۔ اس دلیل کی منطق یہ ہے کہ کارل مارکس کو برٹش میوزیم میں پڑھنا نہیں چاہیے تھا کہ برٹش میوزیم دنیا کی بد ترین سلطنت بازی کی علامت ہے اور وہاں پر ایک سلطنت نے اپنی کالونیوں کو پامال کر کے چھینے ہوئے خزانے جمع کر رکھے تھے۔

لیکن میرے خیال میں برٹش میوزیم میں تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں کارل مارکس صحیح تھے۔ وہ ایک تہذیب کے  وسائل اور لبرل قدریں  استعمال کر کے اسے ڈھانے کے معاملے میں صیحیح تھے۔ میرے خیال میں اس کا میرے معاملے پہ بھی اطلاق ہوتا ہے۔

سوال: لیکن کیا اس بات سے آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ آپ کی موجودی اس ادارے کو بالیدہ ضمیر عطا کرتی ہے؟

چومسکی: کیسے؟ مجھے سمجھ نہیں آتی، واقعی؟ میرے خیال میں ادارے میں میری موجودگی۔ تھوڑا بہت… مجھے نہیں معلوم کتنا، مگر جو ادارہ کرتا ہے اس کے خلاف طلباء کی سرگرمی فزُوں کرتی ہے۔ مجھے امید تو یہی ہے۔

ایلڈرز: کوئی اور سوال؟

سوال: میں ارتکاز کے سوال کی طرف لوٹنا چاہوں گا۔ آپ کہتے ہیں ٹیکنالوجی ارتکاز شکنی کی نفی نہیں کرتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کیا ٹیکنالوجی خود پر، اپنے اثرات پر تنقید کر سکتی ہے؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ شاید ایک مرکزی ادارے کی ضرورت ہے جو پوری کائنات میں ٹیکنالوجی کے اثرات پر تنقید کر سکے؟ میرے پَلّے یہ بات نہیں پڑتی کہ ایک چھوٹے سے ٹیکنالوجیکل ادارے میں یہ سب کیسے شامل کیا جا سکتا ہے؟

چومسکی: جی، میں مرکزی آزادانہ تنظیموں کے باہمی مذاکرات کے خلاف ہر گز نہیں ہوں۔ اس سینس میں اگر آپ چاہتے ہیں مذاکرات، ابلاغ، دلائل اور مباحثے وغیرہ وغیرہ وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ میں تو طاقت کے ارتکاز کے بارے میں بات کر رہا تھا۔

سوال: لیکن طاقت درکار ہے مثال کے طور پر کسی ٹیکنالوجیکل ادارے کو ایسا کام کرنے سے روکنے کے لیے جس کا فائدہ محض کسی خاص کارپوریشن کو پہنچے؟

چومسکی: جی ہاں لیکن میں یہ دلیل دے رہا ہوں کہ اگر ارتکاز شدہ طاقت کی اس معاملہ میں فیصلہ سازی پر بھروسا کرنے اور آزاد کمیُونِٹِیز کے آزاد اجتماعوں کی فیصلہ سازی پر اعتماد کرنے میں انتخاب کا مسئلہ درپیش ہے تو میں آزاد کمیونٹیز کے آزاد اجتماعوں کی فیصلہ سازی کو ترجیح دوں گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اجتماع نفیس انسانی جبلتوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے میں ساز گار ہو سکتے ہیں جب کہ طاقت کے ارتکاز کے نظام عمومی طور پر بد ترین انسانی جبلتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چھینا جَھپٹی کی جبلت، تباہی خیزی کی جبلت، اپنے لیے طاقت جمع کرنے کی اور دوسروں کو تباہ کرنے کی جبلت۔

اس طرح کی جبلتیں ایک خاص تاریخی تناظر میں پیدا ہوتی ہیں اور کام کرتی ہیں، اور میرے خیال میں ہم ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنا چاہتے ہیں جس میں ایسی جبلتوں کو قابو کیا جا سکے اور ان کی بَہ جائے دوسری صحت مند جبلتوں کو فروغ دیا جا سکے۔

سوال:  امید ہے آپ درست فرما رہے ہیں۔

ایلڈرز: اچھا تو خواتین و حضرات، میں سمجھتا ہوں کہ مباحثہ یہاں ختم کر دیتے ہیں۔ مسٹر چومسکی اور مسٹر فُوکُو فلسفیانہ، نظریاتی اور سیاسی مسئلوں پر آپ کی دور اندیشی پر مبنی گفتگو کے لیے اپنی طرف سے، حاضرین اور گھروں میں موجود ناظرین کی طرف سے آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔