پاکستان میں خطاطی کا فن اور اشرف القلم فاؤنڈیشن

عثمان غنی رعد
عثمان غنی رعدؔ

پاکستان میں خطاطی کا فن اور اشرف القلم فاؤنڈیشن

از، عثمان غنی رعدؔ

آکسفرڈ کا نام لیں تو سٹیفن ہاکنگ، ایم آئی ٹی کا نام لیں تو کُوفی عنان، ایچی سن کا نام لیں تو عمران خان، یَیل کا نام لیں تو جارج ڈبلیو بش، ڈاکٹر عبدالسلام اور علامہ محمد اقبال کا نام لیں تو جی سی یونی ورسٹی، اور لاہور کا نام ہمارے ذہن میں آ جاتا ہے۔

کچھ جگہوں کو لوگوں سے، اور کچھ لوگوں کو جگہوں سے ہی جانا جاتا ہے۔ اسی طرح نسبتیں بدلتی رہتی ہیں۔ کیوں کہ نسبت بڑی عمدہ چیز ہے کہ اسی سے انسان کا دنیا میں دار و مدار ہے۔

اسی طرح شعبوں کی مناسبت سے بھی لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ جیسے پاکستان میں خطاطی کا نام لیں تو محمد اشرف ہیرا کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔ محمد اشرف ہیرا نے اپنے نام کی مناسبت سے خطاطی کی ایک فاؤنڈیشن بھی بنا رکھی ہے جس کا نام اشرف القلم فاؤنڈیشن ہے۔

اس سے پہلے کہ اس فاؤنڈیشن پر خامہ فرسائی کروں، مناسب ہے کہ اشرف ہیرا کی بابت تھوڑی بات ہو جائے۔ کیوں کہ مفصل ان کا ذکر کرنے کی یہ جاہ نہیں۔

محمد اشرف ہیرا لاہور میں پیدا ہوئے، مگر اپنے فنی سفر کا آغاز حافظ آباد سے کیا۔ آپ خطِ کوفی کی تمام طرزوں میں دنیا بھر میں صفِ اول کے خطاط کہے جا سکتے ہیں۔

آپ نے بارہ سال کی ہی عمر میں ارسیکا (IRCICA) ترکی کے عالمی مقابلےمیں انعام جیت کر دنیا کو حیران و ششدر کر دیا اور دنیا کے سب سے کم عمر فاتِح خطاط کا اعزاز حاصل کیا، جس پر آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا۔

اس کے علاوہ یہ پاکستان کے پہلے خطاط ہیں جنھوں نے کسی بین الاقوامی مقابلۂِ خطاطی میں اوَّل انعام حاصل کیا۔


آپ کے ذوق کی نذر دیگر متعلقہ تحریریں:

بلوچ کا رقص  از، ڈاکٹر شاہ محمد مری


ترکی، سعودی عرب، مصر، چین، جاپان، الجیریا، دبئی، لیبیا، ایران، اردن اور عراق سمیت متعدد ممالک میں 31 سے زائد دفعہ عالمی مقابلوں میں انعامات جیت چکے ہیں۔ 50 سے زائد دفعہ قومی و صوبائی انعام بھی اپنے نام کروا چکے ہیں۔

پاکستان کی نمائندگی کرنے میں آپ پاکستان کے واحد شخص ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ اوَّل انعامات جیتے ہیں۔ آپ نے اسلام کے قدیم خطِ کوفی کو ایک نئی طرز عطا کی اور اس کی مکمل بارہ تختیاں بھی خود ہی ترتیب دیں اور ان کا نام قلم الاشرف رکھا، جو اَب دنیا بھر میں جانا اور لکھا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے کئی صدارتی ایوارڈ اپنے نام کر چکنے کے علاوہ، پاکستان سے تین دفعہ صدارتی ایوارڈ اور چار دفعہ وزیرِ اعظم ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ایران کے ایک عالمی مقابلے میں جج کے فرائض انجام دے کر آپ دنیا کے سب سے کم عمر جج ہونے کا اعزاز بھی تا حال رکھتے ہیں۔ آج کل تین یونی ورسٹیوں میں استادِ خطاطی کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک ادارہ اشرف القلم فاؤنڈیشن کے نام سے چلا رہے ہیں۔ جس کے ذریعے یہ ملکی سطح کے کئی ایک خطاطی کے مقابلے منعقد کروا چکے ہیں اور مستقبل میں عالمی سطح کے مقابلوں کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔

وبائی صورتِ حال نے جہاں دنیا بھر کی معیشتوں اور انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے، وہاں علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے نسبت رکھنے والے بھی بہت سے مشاغل اس کی لپیٹ میں آ کر متاثر ہوئے ہیں۔

مگر پچھلے کئی سالوں کی طرح اس سال بھی اشرف القلم فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام ہونے والا یہ مقابلۂِ خطاطی متاثر نہ ہوا، بل کہ اور بھی نئی امید کی کرنیں لے کر ہمارے پاکستان کے خطاطی شعبے کو منور کرتا چلا گیا۔

اس سال اس فاؤنڈیشن نے خطاطی کی سرگرمیوں کو بَہ حال رکھنے کے لیے آن لائن مقابلۂِ خطاطی کا بند و بست کیا اور نہایت شان دار اور کام یاب نتائج دیکھنے کو آئے۔

یہ مقابلۂِ خطاطی 6 جون 2020ء کو منعقد ہوا اور تمام منصفین نے بیٹھ کر نہایت ایمان داری سے فیصلہ کیا، جب کہ مقابلے کے لیے ملک بھر سے کئی نو جوانوں اور مَشّاق خطاطوں نے شرکت کی۔

فن پارے کی مقابلے میں شمولیت کے لیے ضروری تھا کہ فن پارہ قرآنِ مجید کی کسی آیت، یا سورۃ کے نام کی خطاطی  پر مشتمل ہو۔ جو روایتی طرزِ خطاطی کے (traditional calligraphy) اور جدید طرزِ خطاطی (modern calligraphy) میں ہو سکتا تھا۔

اس فاؤنڈیشن کے اس آن لائن مقابلے پر اگر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو  پتا چلتا ہے کہ مقابلے میں 507 خطاطوں نے ملک بھر سے شرکت کی، اور 685 فن پارے مقابلے میں انعامات کی دوڑ میں شامل ہوئے۔

فن پاروں کے معیارات کو دیکھتے ہوئے 462 کو مقابلے میں شرکت کی اہلیت حاصل نہ ہو سکی۔ 18 فن پاروں کو مسترد کر دیا گیا اور 2 خطاطوں نے اپنے فن پاروں کو مقابلے میں شامل کرنے سے پہلے ہی معذرت کر لی اور اپنے فن پارے واپس منگوا لیے۔

 203 فن پاروں کو  مقابلے میں شامل کیا گیا، جن میں سے 80 کو بعد از بِسیار باریک بینی اور اصولوں پر پرکھنے کے انعام کے لیے منتخب کر لیا گیا۔

ان 80 فن پاروں میں سے 39 کو  فاتِح قرار دیا گیا۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں سے37 شہروں کے خطاطوں نے مقابلے میں شرکت کی۔ کل 507 خطاطوں میں سے  128 مرد اور 379 خواتین تھیں۔

اس مقابلے کے منصفین کی کمیٹی کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ملک بھر سے ہیروں کو اکٹھا کر کے ایک مالا بنائی گئی ہے اور یہ سب کے سب ہیرے ایک بڑے ہیرے کے ساتھ مل کر پاکستان کے چہار سُو روشنیاں بکھیرنے میں مصروف ہیں۔

اس کمیٹی کے تقریباً سبھی افراد کسی نہ کسی بین الاقوامی مقابلے میں پاکستان کا نام روشن کر چکے ہیں۔ جن میں صائمہ فہد (ڈپٹی سیکرٹری)، ثمرہ افضال (سیکرٹری مقابلہ جات)، بلال خالد (مینجمنٹ ہیڈ)، ظفر اقبال (جوائنٹ سیکرٹری)، عائشہ محمود (میڈیا ہیڈ)، حنا آصف (ہیڈ رکن)، ماورا محمود (رکن)، رومیل ارسلان (پی۔ آر۔او)، اسماء عادل (رکن)، حسن رضا (رکن)، یَشفَع احسان (رکن)، مدثر علی زیب (رکن) شامل ہیں۔

مقابلے کے روایتی طرزِ خطاطی میں اوّل آنے والوں میں احمد ظفر (یونی ورسٹی آف سرگودھا) اور محمد وحید ہیں جو پاکستانی نژاد ہیں، مگر حالیہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔

دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے بھی دو دو خطاط ہیں جن میں فاروق احمد (راول پنڈی)، محمد یحییٰ (فیصل آباد) اور شافع بن سعید (بارانی یونی ورسٹی، راول پنڈی)، شکیل خان (پشاور) بالترتیب شامل ہیں۔

اسی طرح جدید طرزِ خطاطی میں بھی دو دو خطاطوں کو اول، دوم اور سوم پوزیشنز کے لیے منتخب کیا گیا جن کے نام اور شہر بالترتیب یہ ہیں: زبیر اکرم (فیصل آباد)، دانش خان (ڈیرہ اسماعیل خان)، ماریہ عامر (کراچی)، ثنا اللہ (یونی ورسٹی آف پشاور)، ماریہ اشرف (آئی ایل ایم کالج، گجرات)، عبدالسمیع (نقش سکول آف آرٹس، لاہور)۔

مقابلے کے شُرَکاء اور منصفین کی ٹیم پر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں خطاطی کے شعبے کو ترقی دینے میں اشرف القلم فاؤنڈیشن کا ہاتھ کسی بھی سرکاری و نجی ادارے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

اس بات میں بھی شک نہیں کہ اس  فاؤنڈیشن کے بانی جناب محمد اشرف ہیرا بھی کسی یونی ورسٹی، یا خطاطی کی ٹکسال سے کم نہیں، جو یقیناً خود میں ایک جامِعُ العلُوم شخصیت کے مالک ہیں۔

بَہ حیثیتِ قوم ہمیں ہر روز کسی نہ کسی شخص کی عظمت کو نہ سَراہے جانے کی شکایت رہتی ہے اور ہم یہ کہتے بھی رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اہلِ علم اور صاحبِ کمال لوگوں کی قدر کرنی چاہیے۔

نہیں تو وہ ہم سے رُوٹھ کر کسی اور دیس سدھار جاتے ہیں جس کا ہمیں بہت پچھتاوا رہتا ہے۔

شاہد احمد دہلوی نے کہا تھا کہ کسی بھی زندہ قوم کا یہ شِعار ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہلِ کمال سے ہر گز غافل نہیں ہوتے۔ مگر ہمارا حال بالکل الٹ اور عجیب ہے کہ ہم بعد از مرگ اسی شخص کے گیت گانے شروع کر دیتے ہیں جو زندگی بھر ہم سے صرف توجہ کا طالب ہوتا ہے۔

خواجہ حیدر علی آتشؔ کا اسی ضمن میں ایک شعر دیکھیے:

بعد شاعر کے ہو مشہور کلامِ شاعر

شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا

ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے صاحبِ کمال اور ہُنروَر لوگوں کی عزت کریں اور ایسے فن کاروں کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں۔

کیوں کہ یہی لوگ ملک و ملت کا سرمایہ اور ہمارے پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔ اشرف القلم فاؤنڈیشن نے جہاں ایسے ہی فن کاروں کے فن کو عزت دی ہے اور اُنھیں اور اُن کے کام کو سراہا ہے، وہاں اس فاؤنڈیشن نے پاکستان میں خطاطی کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت بھی کی ہے۔ اس لیے پوری قوم ان کی ممنونِ احسان ہے اور انھیں مبارک باد بھی پیش کرتی ہے۔

لکھاری عثمان غنی رعدؔ، شعبۂِ اردو، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوایجز، اسلام آباد میں درس و دریس سے وابستہ ہیں۔