اے برطانیہ تو نے کیا کِیا: نظر نقطہ نقطہ کہ پارہ پارہ 

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

اے برطانیہ تو نے کیا کِیا: نظر نقطہ نقطہ کہ پارہ پارہ 

از، روزن رپورٹس 

1.برطانیہ کے انتخابی نتیجے نے ایک بار پھر اس سوال کو اجاگر کیا ہے کہ کیا political correctness سے انتخابات جیتے جا سکتے ہی‍ں؟ جیریمی کوربِن نے اپنی سیاست اور انتخابی مہم میں ہر قسم کی فتنہ انگیزی اور نفرت کا انکار کیا؛ انسان دوستی کو مقدم رکھا، لیکن ان کی قیادت میں لیبر پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی اپنے سربراہ کی تمام تر لَغو گوئیوں کے با وُجود جیت گئی۔

برنی سینڈرز کے ساتھ یہی امریکہ میں ہوا جہاں وہ پرائمریز کا مرحلہ ہی پار نہ کر پائے۔

تیسری دنیا میں بھی چلن ایسا ہی ہے۔ بھارت میں انتخابی جیت نفرت بیچنے والوں کو ملی۔

پاکستان میں عمران خان نے بھی پراپیگنڈے اور سیاسی تقسیم کو ہوا دے کر الیکشن لڑا اور ماضی کی نسبت انہیں زیادہ پذیرائی ملی۔

ترکی میں اردگان کی سیاست بھی خوف بیچنے کے گرد گھومتی ہے۔ ایرانی سیاست کا حال بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔

ایسے میں یہ سوال زیادہ دیر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جمہوریت اگر لوگوں کی مرضی کا نام ہے اور لوگ نفرتوں اور تقسیم کو پسند کرتے ہیں تو یہ نظام کب تک اور کہاں تک ایسے چل پائے گا؟

از، صلاح الدین صفدر 

2. مجھے تقریباً یہی بات کہنا ہے، لیکن زیادہ غصہ جمع ہونے کی وجہ سے چپ رہا ہوں۔ دنیا میں ووٹرز myopic زیادہ ہو گئے ہیں۔

ماحول سے، اقلیت سے، مستقبل سے کچھ نہیں، صرف میری ساتھ والی سیٹ پر کون ہے، وہ نا ہو۔ گلیاں سُنجیاں چاہییں۔ میرا دشمن دوسرا ہے؛ اس طرح پوری دنیا دو قومی نظریے کے چھوٹے پن کا شکار ہو چکی ہے۔

بڑی شناخت، اجتماعیت، مشترکہ عصریت و مستقبل انہیں خالی ڈھول کی آواز جیسے دعوے لگنے لگ گئے ہیں۔ کیا یہ کانوں کا دوش ہے، یا پھر…

یہ جو cosmopolitanism نام کی چڑیا ہے سردی میں ٹھٹھرتی جاتی ہے، یا گلوبل وارمنگ میں پگھلتی جاتی ہے۔

 کرارے پکوان اور فاسٹ فوڈ جنریشن کے ووٹنگ کے رجحان فاسٹ فوڈی ہی ہیں:

بھلے امریکہ، بھلے برطانیہ، بھلے بھارت، بھلے پاکستان، بھلے یہاں، بھلے وہاں۔

اسی سمے یاد آیا کہ کینیڈا بال بال بچ گیا۔ شاید وہاں شوہدا پن ابھی دودھ کے دانتوں کی عمر میں ہے۔

مختصراً:

معاشرے جیسی کوئی چیز نہیں، صرف افراد ہوتے ہیں۔ مارگریٹ تھیچر

آئیے ایک ایسے معاشرے  جیسے اصول کا دفاع کریں جو ہر کسی کا خیال رکھ سکتا ہے۔ جیریمی کوربِن

از، یاسر چٹھہ 

3. پرانے لیبر پارٹی والے ہار گئے ہیں۔ وہی عجائب پر اتفاق جاری ہے۔  ٹھیک ہے بھئی، بہت سارے لوگ خود غرض، نفرت آمیز، سطحی اور بے وقوف بننا، اور رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اس ڈھلائی میں ہی ڈھلنا چاہتے ہیں جو انتہائی امیروں نے ان کے لیے تیار کی ہے۔ اور وہ قائدین کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں جن کا وہ خود کو عکس بنانا چاہتے ہیں۔

ہم دردی کی راہ پر سے چلتے چلتے کیسی خود غرضی، اور اس سے کیسے شوہدے پن کے تھیٹر تک نفرت انگیز احمقانہ پن کا کتنا سفر باقی ہے۔ اگر مستقبل قریب میں اس عجیب و غریب اتفاق کو مسترد نہیں کیا گیا تو مستقبل قریب میں بَہ جُز تاریکی کچھ نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ثقافتی احیاء کے تیز گام گھوڑے پر سوار یہ صارفینِ کرام کچھ سالوں تک دو بارہ شہریت آمیخت اور جمہوریت کی جانب واپس نہیں لوٹیں گے۔ شہریت اور جمہوریت کا ایک نیا ماڈل بھی کہیں سامنے، کسی افق پر نظر میں نہیں آتا۔

از، نصیر احمد

4. ایسا ہونا نا گزیر تھا۔ مجھے اپنے آپ میں کسی خاص زعم کا احساس کسی طور نہیں؛ بہت سارے لوگوں نے یہ سب حالات آتے ہوئے دیکھے۔ ٹوریز، Tories، کے آگے بند باندھنے کا کسی اپوزیشن پارٹی میں دم خم نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ برنی کے حامی، ٹرمپ کو کبھی نہیں آنے دینا کے نعرے مارنے والے، اور کئی ایک دیگر افراد اور گروہوں نے کہا کہ ہیلری کلنٹن بد ترین ممکنہ امید وار ہیں؛ کیوں کہ ان کے بَہ قول وہ بہت غیر مقبول تھیں، اور وہ اپنے کندھوں پر گزرے وقت کا بہت بوجھ اٹھائے پھرتی تھیں؟ لیکن آخر میں وہ بھاری اکثریت سے مقبول ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں؟

اچھا، تو جیریمی کوربِن کی مقبولیت کے ساتھ تو بہت ہی بھدی صورتِ حال صورت پذیر ہوئی۔ ان کو تو توقع سے آدھی پذیرائی بھی نا حاصل سکی! اور وہ انہیں ابھی ابھی عام انتخابات میں بہت برے طریقے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیبر پارٹی کے حامی ان کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ یا تو لیبر کی سربراہی چھوڑ دیں، یا پھرکوئی واضح قدم اٹھائیں، یا بریکسٹ کے بارے میں ایک واضح پیغام دیں، اور ٹوریوں کے خلاف مؤثر انداز سے رہنمائی کریں۔ جیریمی کوربِن سننے سے انکاری رہے اور اپنی پارٹی کو حالات سے غیر متعلق کرتے رہے۔ …

سنہ 2000 کے بعد کے سارے سالوں میں برطانیہ اہم معاشی اور معاشرتی مسائل سے ساتھ نبرد آزماء رہا ہے۔ بریکسٹ، Brexit، اور یہ عام انتخابات تو محض علامات ہیں، جس طرح ٹرمپ ازم کا عروج ہماری (یعنی امریکیوں کی سیاسی و معاشی حالت کی محض ایک) علامت ہے، اور ہم اس کا تریاق تلاش کرنے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔

از، مارٹین کلیئر، واشنگٹن پوسٹ منتخب تبصرہ جات کی ای میل کا ترجمہ