اللہ میاں کا کارخانہ از، محسن خان (ہندوستان) کے زیرِ طباعت ناول سے اقتباس

اللہ میاں کا کارخانہ ناول محسن خان
محسن خان کے اشاعت پذیر ناول کا ٹائٹل پیج، تصویر بَہ شکریہ محسن خان، ہندوستان

اللہ میاں کا کارخانہ از، محسن خان (ہندوستان) کے زیرِ طباعت ناول سے اقتباس

از، روزن رپورٹس

اسی ناول کے تعارف اور ایک اور ٹکرے کو اس لنک پر ملاحظہ کیجیے۔

ہم لوگ کلو چچا کی دکان سے جو سامان لے کر آئے تھے، اسے نصرت شیشیوں اور ڈبوں میں رکھنے لگی۔ جب اس نے شکر ڈبے میں ڈال کر پڑیا والا کاغذ پھینکا تو مجھے اس میں دو خوب صورت آنکھیں دکھائی دیں۔ میں نے اس مڑے ہوئے کاغذ کو کھول کر دیکھا۔ اس میں کسی ہیروئن کی تصویر تھی۔

ہیروئن ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھی کہ اس کی آدھی ٹانگیں اور آدھی چھاتیاں کھلی ہوئی تھیں۔ اس کی انار کی جیسی گول اور سرخ چھاتیاں بڑی خوب صورت لگ رہی تھیں۔ میں نے کاغذ تہہ کر کے اس خیال سے جیب میں رکھ لیا کہ اطمینان سے تنہائی میں دیکھوں گا۔

نصرت دلیا بنا تو لیتی تھی مگر اس میں اتنا پانی ڈال دیتی تھی کہ وہ ساگو دانے کی طرح پتلا ہو جاتا تھا۔ اسے چمچ سے کھا پانا مشکل ہوتا تھا اور پیالہ یا پلیٹ مُنھ میں لگا کر سڑوپ سڑوپ کی آواز کے ساتھ پینا پڑتا تھا۔

مجھے دلیا دینے کے بعد نصرت نے ایک پلیٹ میں دلیا نکال کر دوسری پلیٹ سے جھل کر اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا، ”اماں کو دے دوں، انھوں نے رات میں کچھ نہیں کھایا تھا۔“

نصرت دلیا ٹھنڈا کر کے اماں کے پاس لے گئی اور ذرا ہی دیر کے بعد اس نے کمرے سے جھانک کر کہا، ”بھائی جلدی آؤ۔ اماں کی طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے۔“

میں نے پلیٹ میں بچا ہوا دلیا جلدی سے پیا اور دوڑتا ہوا اماں کے کمرے میں گیا۔ اماں مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھیں اور نصرت جلدی جلدی ان کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔

اماں نے کراہتے ہوئے مجھ سے کہا، ”دوڑ کر جاؤ اور جلدی سے رخسانہ خالہ کو بلا لاؤ۔“

میں دوڑتا ہوا رخسانہ خالہ کے گھر گیا اور ان سے کہا کہ اماں کی طبیعت بہت خراب ہے، وہ آپ کو بلا رہی ہیں۔ رخسانہ خالہ نے پہلے تو یہ پوچھا کہ کیا پولیس والے پھر آئے تھے۔ اس کے بعد کہا،”تم چلو میں ذرا دیر میں آتی ہوں۔“

جب میں رخسانہ خالہ کے گھر سے واپس گیا تو اماں اوندھی پڑی تھیں اور نصرت بد حواسی کے ساتھ ان کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی نصرت نے پوچھا، ”کیا رخسانہ خالہ آ رہی ہیں؟“

”انھوں نے کہا ہے کہ میں ذرا دیر میں آؤں گی۔“ میں نے بتایا تو اماں نے کراہتے ہوئے روہانسی آواز میں کہا، ”سب ڈرے ہوئے ہیں۔ تم چچا جان کے گھر جاؤ، اگر وہ گھر پر ہوں تو انھیں بلا لاؤ۔“

میں دوڑتا ہوا چچا جان کے گھر گیا۔ قطمیر کے ڈر سے باہر ہی سے کھڑے ہو کر کنڈی کھٹکھٹائی تو چچی جان دروازے پر آئیں اور انھوں نے کہا، ”اتنی زور زور سے کنڈی کیوں کھٹکھٹا رہے ہو؟“

جب میں نے چچی جان کو بتایا کہ اماں کی طبیعت بہت خراب ہے اور اماں انھیں بلا رہی ہیں تو چچی جان نے کہا، ”وہ ابھی کسی کام میں سے گئے ہوئے ہیں۔ اپنی اماں سے کہنا کچھ دیر بعد آئیں گے۔“

چچا جان کے گھر سے واپس جا کر جب میں نے اماں کو یہ بات بتائی تو انھوں نے روتے ہوئے کہا، ”اے اللہ مجھ پر رحم کر۔“

نصرت بھی رونے لگی اور مجھے بھی رونا آ گیا۔ اسی وقت امام صاحب کا خیال آیا اور میں دوڑتا ہوا مسجد گیا۔

اس وقت امام صاحب حجرے میں بیٹھے کوئی حدیث پڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انھوں نے پوچھا کہ کیا پھر پولیس آئی ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ پولیس نہیں آئی ہے، میری اماں کی طبیعت خراب ہے، ان کے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔

امام صاحب نے کہا، ”میں نا مَحرم ہوں۔ کیا کر سکتا ہوں۔ تم کسی رشتے دار کے پاس جاؤ۔“

میں دوڑ دوڑ کے تھک چکا تھا اور اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جاؤں۔ احمد کے گھر اس لیے نہیں گیا کہ ان لوگوں نے میری مرغی کھا لی تھی اور میں ان سے بہت نا راض تھا۔

آخرِ کار جب تھک ہار کر گھر واپس گیا تو دیکھا نصرت رو رو کر اماں کے بدن کو ہلا رہی تھی مگر اماں کے بدن میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔

ہم لوگوں کے اماں کے بدن کو ہلانے اور انھیں آوازیں دینے کے بعد بھی جب اماں کے بدن میں حرکت نہیں ہوئی تو نصرت بد حواسی کے ساتھ دوڑتی ہوئی رخسانہ خالہ کو بلانے کے لیے چلی گئی۔

ذرا ہی دیر میں رخسانہ خالہ آ گئیں۔ رخسانہ خالہ نے آتے ہی پہلے تو اماں کی نبض دیکھی۔ اس کے بعد ناک پر ہاتھ رکھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اماں کی سانسیں چل رہی ہیں یا وہ مر چکی ہیں۔ پھر ان  کے ہونٹ تھرتھرانے لگے اور وہ اماں کو زور سے پکار کے ان کے بدن سے چپٹ کر رونے لگیں۔ رخسانہ خالہ کے ساتھ ہم لوگ بھی اماں سے چپٹ کے رونے لگے۔

اماں کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں۔ رخسانہ خالہ نے اماں کی آنکھوں پر ہتھیلی رکھ کر پتلیاں نیچے سرکائیں تو آنکھیں بند ہو گئیں۔

ذرا دیر تک رونے کے بعد رخسانہ خالہ نے مجھ سے کہا، ”جلدی سے اپنے چچا کو بلا کر لاؤ۔“

میں دوڑتا ہوا چچا جان کے گھر گیا۔ چچا جان گھر آ چکے تھے اور لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے انھیں اماں کے مرنے کی خبر سنائی تو وہ کچھ دیر تک میری طرف اس طرح دیکھتے رہے جیسے ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا ہو کہ میں نے ان سے کیا کہا ہے۔ پھر انھوں نے کہا، ”تم چلو میں آ رہا ہوں۔“ اور وہ چچی جان کو آواز دیتے ہوئے کمرے میں چلے گئے۔

جس وقت میں اپنے گھر واپس گیا، اس وقت تک وہاں محلے کے بہت سے لوگ آ چکے تھے۔

مرد باہر کھڑے تھے اور عورتیں کمرے میں ایک دوسرے کے پہلو سے جھانک جھانک کر اماں کے جنازے کو دیکھ رہی تھیں اور رخسانہ خالہ پنکھا جھل کر اماں کے جنازے سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ ذرا دیر کے بعد چچا جان اور چچی جان بھی آ گئے۔ ان کے ساتھ یوسف اور رخسار بھی تھے۔

جب چچا جان کمرے میں آئے تو پردے والی عورتیں وہاں سے ہٹ کر آنگن میں چلی گئیں۔ چچا جان نے کچھ دیر تک اماں کو دیکھا، پھر وہ باہر چلے گئے۔ چچی جان نے نصرت سے اماں کی بیماری اور مرنے سے پہلے کی کیفیت پوچھی۔ نصرت رو رو کر بتانے لگی تو مجھے بھی رونا آنے لگا۔ میں کمرے سے نکل کر کوٹھری میں چلا گیا اور اندھیرے میں کھڑے ہو کر دیر تک روتا رہا۔

اماں کے آخری دیدار کے لیے کہیں اور سے کوئی آنے والا تو تھا نہیں۔ اس لیے سجاد چچا اور دوسرے لوگوں نے چچا جان کو یہ مشورہ دیا کہ گرمی زیادہ ہے۔ لہٰذا بہتر ہو گا کہ تدفین عصر کی نماز کے بعد کر دی جائے۔ چچا جان کو یہ بات مناسب لگی اور وہ جلدی جلدی تدفین کا انتظام کرنے لگے۔

جب اماں کا جنازہ قبرستان لے جایا جانے لگا تو نصرت دوڑتی ہوئی باہر آئی اور کہنے لگی، ”میں بھی اماں کے ساتھ قبرستان جاؤں گی۔“

جب لوگوں نے اس سے کہا کہ لڑکیاں قبرستان نہیں جاتیں تو وہ پچھاڑیں کھانے لگی۔

رخسانہ خالہ نے نصرت کو چپٹایا اور سمجھا بجھا کے اندر لے گئیں۔

قبرستان میرے گھر کے قریب ہے۔ اماں کا جنازہ ذرا سی دیر میں قبرستان پہنچ گیا۔

امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد چچا جان قبر میں اترے۔ اب دو محرم لوگوں کی ضرورت تھی جو اماں کے جنازے کو قبر میں اتار سکتے۔ چچا جان کے علاوہ محلے میں اماں کا کوئی محرم نہیں تھا، اس لیے جنازے کو قبر میں اتارنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ کچھ دیر کی پس و پیش کے بعد چچا جان نے سجاد چچا اور رفیق چچا سے کہا، ”آپ لوگ آ جائیے، مجبوری ہے کیا کیا جائے۔“

سجاد چچا اور رفیق چچا نے دوسرا والا کفن لپیٹ کر اماں کی پیٹھ کے نیچے کیا اور اماں کا جنازہ آہستہ آہستہ قبر میں اتار دیا۔

جس وقت اماں کو قبر میں اتارا جا رہا تھا، قبر سے ذرا دوری پر ایک کٹی ہوئی پتنگ کا سرا گھاس اور پیڑوں کو چھوتا ہوا جا رہا تھا۔ دانش دیکھ رہا تھا۔ اس نے تیزی سے دوڑ کر سِرا پکڑ کے پتنگ تان لی۔

پتنگ میں مانجھا بہت تھا۔ دانش نے جلدی جلدی پتنگ اتاری اور مانجھے کا تکلاّ کرنے لگا۔ تکلّا کرتے وقت اماں کی قبرکی طرف بھی دیکھتا جا رہا تھا کہ کہیں قبر میں مٹی تو نہیں ڈالی جا رہی ہے۔

جس وقت قبر میں مٹی ڈالی جانے لگی، اس وقت تک وہ تکلّا کر چکا تھا۔ اس نے تکلّا جیب میں رکھ کر پتنگ اٹھائی اور آ کر چپکے سے سب کے پیچھے کھڑا  ہو گیا۔ وہ پتنگ کو اپنے پیچھے چھپائے تھا، مگر کانپیں دکھائی دے رہی تھیں۔ پتنگ خوب بڑی سی اور خوب صورت تھی۔

اس دن اگر میری اماں کی جگہ دانش کی اماں مری ہوتیں تو وہ پتنگ مجھے مل گئی ہوتی۔

جب چچا جان نے اماں کو قبر میں ٹھیک سے لٹا دیا تو امام صاحب نے کہا،”چہرے کا رخ قبلہ کی طرف کر دیجیے۔“

چچا جان نے اماں کے چہرے کا رخ قبلے کی طرف کر دیا۔ اس کے بعد سجاد چچا نے چچا جان کو بنگے پکڑائے۔ مجھے یاد ہے کہ اماں کی قبر کے لیے سات بنگے بنوائے گئے تھے اور یہ بات مجھے اس لیے یاد رہ گئی کہ بنگوں پر نمبر لکھے تھے۔ چھ نمبر کا بنگا رکھے جانے تک اماں کا کفن دکھائی دے رہا تھا اور جب ساتواں بنگا رکھا گیا تو اماں کا جنازہ بالکل چھپ گیا۔

بنگے برابر کرنے کے بعد چچا جان قبر کے اوپر آئے اور قبر میں مٹی ڈالی جانے لگی تو مجھے رونا آ گیا۔ چچا جان نے مجھے چپٹایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔ امام صاحب نے کہا، ”رونے سے تمھاری اماں کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔ رو مت، ان کی مغفرت کی دعا کرو۔“

جب گورکن نے پھاؤڑے سے مٹی کھینچ کر قبر اونچی اور سڈول کر دی تو چچا جان نے دوسرا والا کفن قبر پر پھیلا دیا۔ اس کے بعد سب نے ہاتھ اٹھا کر اماں کی مغفرت کی دعا کی۔ میں نے بھی اللہ میاں سے کہا کہ میری اماں کو جنت میں رہنے کے لیے خوب اچھی جگہ دیجیے گا۔

فاتحہ کے بعد امام صاحب درخت کے سایے میں کھڑے ہو کر زندگی اور موت پر خطبہ دینے لگے۔

دھوپ بہت تیز تھی۔ اس لیے کچھ لوگ چلے گئے اور کچھ لوگ پہلو بدل بدل کر اور پیشانی کا پسینہ پونچھ پونچھ کر خطبہ سننے لگے۔

جب امام صاحب کا خطبہ ختم ہوا اور سب لوگ جانے لگے تو میں مڑ کر اماں کی قبر کو دیکھنے لگا۔ چچا جان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ”چلو ہم لوگ کل پھر فاتحہ پڑھنے آئیں گے۔“

اس دن کی ایک اور بات مجھے یاد ہے۔ جس دن میری اماں مری تھیں، اسی دن ذیشان کی بہن کی شادی تھی۔ قبرستان سے گھر جاتے وقت میں نے دیکھا اماں کی تدفین کے بعد عالم صاحب ذیشان کے ابا کے ساتھ شاید نکاح پڑھانے جا رہے تھے۔ مجھے ذیشان کی بہن کی شادی میں نہ جا پانے کا بہت افسوس تھا۔ شادی میں ہم لوگوں کا بلاوا آیا تھا۔ میں اور نصرت بہت دنوں سے شادی میں جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ میں نے اپنا پیلا والا کرتا اور پاجامہ اسی لیے ایک بار بھی نہیں پہنا تھا کہ اسے شادی میں پہنوں گا۔ نصرت نے اپنے جمپر پہ اماں سے لچکا گوٹا لگوا لیا تھا اور اسے شادی کے لیے سینت کے رکھ دیا تھا۔

اماں کی تدفین کے بعد جب میں چچا جان کے ساتھ گھر پہنچا۔ محلے کے اور لوگ جا چکے تھے۔ صرف رخسانہ خالہ رہ گئی تھیں۔ وہ چچی جان سے ابا کے بارے میں راز دارانہ طریقے سے کوئی بات کر رہی تھیں۔ چچا جان کو دیکھتے ہی خاموش ہو گئیں۔

رخسانہ خالہ اپنے گھر سے کھچڑی پکا کے لے آئی تھیں۔ انھوں نے مجھ سے اور نصرت سے کہا، ”تم لوگ ہاتھ منھ دھو کر کھچڑی کھا لو۔“

مجھے اماں کے مرنے کا بہت غم تھا مگر دن بھر دوڑنے بھاگنے کی وجہ سے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس لیے میں زیادہ انکار نہیں کر سکا مگر نصرت انکار کرتی رہی۔ جب چچا جان اور رخسانہ خالہ نے اسے سمجھاتے ہوئے یہ کہا کہ اگر تم کھانا نہیں کھاؤ گی تو اماں کی روح کو تکلیف پہنچے گی تو وہ کھانے بیٹھ گئی۔

جس وقت ہم لوگ کھچڑی کھا رہے تھے گولے دغنے کی آوازیں آئیں۔ اس کے بعد شادیانے بجنے لگے۔ رخسانہ خالہ نے کہا، ”اب کسی کو کسی کے مرنے کا غم نہیں ہوتا۔“

جب ہم لوگ کھچڑی کھا چکے تو چچا جان نے کہا، ”اب تم لوگ اپنا ضروری سامان لے لو اور ہمارے ساتھ چلو۔“

چچی جان نے چونک کر چچا جان کی طرف دیکھا تو چچا جان نے کہا، ”اب یہ دونوں یہاں اکیلے کیسے رہ پائیں گے۔“

چچی جان نے ان کی بات کا کوئی جواب تو نہیں دیا، مگر ان کے چہرے پر جو نا گواری کی کیفیت تھی، اس سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ چچا جان کے فیصلے سے متفق نہیں تھیں۔

ہمارے پاس ضروری سامان میں چپلوں اور کپڑوں کے علاوہ اور تو کچھ تھا نہیں۔

چپلیں تو میں پہنے ہی ہوئے تھا، ہاں کپڑے جو ادھر ادھر پڑے تھے، سمیٹ کر ایک پوٹلی بنا لی اور جب میں نے تخت کے نیچے سے وہ چپلیں نکالیں جن کے پٹوں میں سُتلی بندھی تھی تو چچی جان نے کہا، ”کیا اب یہ کوڑا کباڑ بھی لے چلو گے؟“

میں نے وہ چپلیں تخت کے نیچے پھینک دیں۔

نصرت نے اپنے کپڑے سلیقے سے تہہ کر کے تخت پر رکھے۔ اپنی وہ چپلیں اٹھائیں جو عید میں پہننے کے لیے ابا کے ساتھ لے کر آئی تھی۔ کھونٹی سے اماں کا برقعہ اتار کر کپڑوں کے ساتھ رکھا اور دوڑ کر وہ ٹیڑھی پٹری اٹھا لائی جس پر اماں بیٹھا کرتی تھیں۔

چچی جان نے کہا کہ یہ پٹری کس کام آئے گی تو نصرت رونے لگی اور اس نے پٹری کو اپنے سینے سے چپٹا کے کہا، ”یہ میری اماں کی پٹری ہے۔ میں اسے اپنے پاس رکھوں گی۔“

چچا جان نے نصرت کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بڑی محبت سے کہا، ”کوئی بات نہیں، تم اسے لے چلو۔“

ہم نے اپنے سامان کی پوٹلیاں اٹھائیں اور دروازے میں تالا لگا کے چچا جان کے گھر کی طرف چل دیے۔

About محسن خان 4 Articles
محسن خان، ہندوستان میں مقیم اردو کے سینئر ادیب و فکشن نویس ہیں۔