انتقادی و اجتماعی ضمیر کے نمائندے اخلاقی فلسفے کاظہور

Professor M Hussain Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

انتقادی و اجتماعی ضمیر کے نمائندے اخلاقی فلسفے کاظہور 

سقراط نے اپنے فلسفے میں ایک ایک غیر متغیر انسان کا انتخاب کر لیا تھا جو اجتماعی ضمیر کا نمائندہ ہے۔ وہ اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کرنے والا ان کا خلقی ضمیر کا فلسفہ ہے جو تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے، اور وہ مشق گیان اور دھیان سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ علم کہیں خوابیدہ اور کہیں ظاہر ہر نفس میں موجود ہے۔ الٰہیات و خدا کے بارے میں انتاج و تحدید کے بارے میں میں بھی قطعیت پیدا کی۔ ان کے نزدیک جس طرح خدا کی ہستی کا اقرار ممکن ہے، اسی طرح ان کا انکار بھی ممکن ہے۔

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

سقراط سے قبل یونان میں مادی و طبعی علوم و فلسفہ پر فلاسفہ کام کر چکے تھے، جن میں طبعیات، حیاتیات، فلکیات اور مابعد الطبعیات جیسے موضوعات نمایاں طور پر شامل ہیں، اور علمی دنیا کے مطالعے کو  مادے کی حرکت، ماہیت اور کیفیت تک محدود رکھا گیا۔ لیکن سقراط یونان کے پہلے فلسفی ہیں جنھوں نے فلسفۂِ اخلاق کی نہ صرف بنیاد رکھی، بَل کہ زہر کا پیالہ پی کر سچائی اور ضمیر کو ابدی حیات سے بھی ہم کنار کیا۔

سقراط طبعی علوم کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک انسانی نفس و ضمیر ہی صداقت تک رسائی پا سکتے ہیں ورنہ طبعی علوم کے ذریعے حقیقت تک انسانی فہم کی رسائی ممکن نہیں۔ زندہ ضمیری، روشن فکر سے ہی صداقتِ علمی کا حصول ممکن ہے۔ حسنِ معاشرت اور نظامِ مملکت، اعلیٰ اقدار سے قائم رہتا ہے اور ذہین لوگوں کو ہی عنانِ حکومت اور امورِ مملکت سر انجام دینے چاہییں۔ دانش و اخلاق اس چیز کا تقاضا نہیں کرتے کہ تضادات و نقائص سے معمور چیزوں کو سندِ جواز عطا کی جائے۔

فلسفۂِ اخلاق سے بہترین تہذیب و معاشرت کا بنا رکھی جا سکتی ہے۔ غیر معقول اور غیر عقلی رجحانات، معتقدات اور بَہ دیہات کو شک کی نظر سے نہ دیکھنا ضروری ہے، بل کہ ان کے خلاف بغاوت کرنا بھی انسانی ضمیر پر فرض عائد ہوتا ہے۔ معاشرتی و سیاسی ہستیوں اور مذہبی معبدوں کو عملی و فکری اخلاقی عینک سے دیکھنے سے سچائی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، جس کی بناء پر ان کے وجود اور تقدس کا خیال باطل ہو جاتا ہے۔

یونان کی دیویوں اور دیوتاؤں کے وجود کا انھوں نے انکار کر دیا تھا۔ مقتدر سیاسی طاقتوں کو انھوں نے اقتدار کے لیے موزوں قرار نہیں دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ صرف اہلِ دانش و صاحبِ صلاحیت افراد ہی حکومت و اقتدار کے لیے موزوں ہوتے ہیں، اور ان کے لیے اعلیٰ اخلاقی اقدار و اوصاف سے متصف ہونا بھی ضروری ہے، اور یہی اخلاقی دانش کا تقاضا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے آپ کو پہچانو، ایک طرح سے عرفانِ ذات، خود آگہی اور خود شناسی کی تعلیم دیتے ہیں کہ جب تک عرفانِ ذات حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک اشیا و معاملات کی صداقت کا علم بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

شعور و وجود کی آگہی علم کے بند دروازے کھول دیتی ہے۔ اندر جھانکنے سے باہر کی بے ہنگم اور بے ترتیب دنیا زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ جب تک اندر کا دِیا روشن نہ ہو باہر اندھیرا ہی چھایا رہتا ہے۔ جتنی بھی سماج  و معاشرت میں بے ڈھنگی نظر آتی ہے وہ ہماری اخلاقی تنزلی کی وجہ سے ہے۔ وہی مثالی معاشرہ ہوتا ہے جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار سکّۂِ رائجُ الوقت کی طرح نافذ ہوں۔

نظامِ حکومت و معاشرت کو بہترین سانچے میں ڈھالنے کے لیے اعلیٰ اخلاقی اقدار یعنی عدل و انصاف کو لازمی قرار دیتے ہیں، جس سے ایک پُر امن اور فلاحی سوسائٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ عوامیت میں دانش و بینش اور تجربے کی کمی ہوتی ہے، جب کہ صاحبِ علم و دانا دانش و فراست سے متصف ہوتے ہیں اور حکومتی کارِ منصبی کے لیے یہ زیادہ موزوں ہیں۔

یہاں ان کی مراد دولت مند اشرافیہ ہر گز نہیں بل کہ رموزِ سیاست، دانش و حکمت کے حامل افراد ہیں، کیوں کہ اعلیٰ اخلاق علم و بصیرت سے جڑا ہوا ہے۔ سقراط کا فلسفہ حکومت و سیاست سے مکمل جڑا ہوا ہے جو کسی بھی لخاظ سے امورِ مملکت میں کسی بھی قسم کے نقص و تضاد کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بھی قسم کے مبہم اور غیر عقلی نظریہ کو اختیار کرنے کو گناہِ کبیرہ سمجھتا ہے، جس کا سدِّ باب اخلاق و ضمیر کی قوت سے ہوتا ہے اور آخری شکل میں جان عزیز جان آفریں کے سپرد کرنے کی عملی تعبیر سے ممکن ہوتا ہے، جس کی انھوں نے خود مثال پیش کر دی۔

جامد اور مطلق نظریات و عقائد کو تشکیک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ علم کے بارے میں ان کا فرمان ہے کہ میں بس یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ یہاں ان کی منکسر المزاجی سے زیادہ علم کی صحت کے بارے میں شک کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنے سوفسطائی فرقے کی اتباع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیر یقینی ہوتا ہے؛ وہ مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ ہم کسی بھی سطح پر نظریات و عقائد پر آنکھیں بند کر کے ایمان نہیں لا سکتے۔ سائنسی علوم  کو کامل یقین کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ کائنات کی تکوین و اختتام کے بارے میں حتمی طور پر کچھ جان نہیں سکتے۔ جس سے مترشِّح ہوتا ہے کہ عقیدے کے ساتھ جینا سرا سر گُم راہی ہے۔

ایک ہی یقینی علم ہے جس میں ایقان و ایمان لایا جا سکتا ہے، وہ عرفانِ ذات کا ہے۔ جب تم اپنے آپ کو سمجھ لو گئے تو زندگی کا مقصد واضح ہو جائے گا اور اس بات کا بھی بَہ خوبی علم ہو جائے گا کہ اصل نیکی کیا ہے۔ اخلاقیات ہی وہ واحد علم ہے جس کی مشعل سے چیزیں اپنی اصل شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ باقی فلسفہ اور سائنس کے علوم یقینیت کی حدوں کو پھلانگ نہیں سکتے۔ حقیقتِ مطلق کا علم  نفس کی شمع روشن کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

انھوں نے جہاں تمام علوم کے بارے میں تشکیک کا اظہار کیا وہاں اخلاقیات کو ایجابی علوم کے دائرے میں بھی شمار کیا ہے۔ فلسفۂِ یونان میں انھوں نے اخلاقیات کو پہلی بار یقینی علم کا منصب عطا کیا۔ ان کی تعلیمات پر فیثاغورث اور بدھ مت کے افکار کی پرچھائیاں پڑتی ہوئی نظر آتی ہیں، مگر وہ رہبانیت کے بھی قائل نہیں۔

مادی و دُنیَوی لذات سے ہم آہنگ رہ کر مَن کی دنیا میں ڈوبنا چاہتے ہیں۔ فطری حسن و مادی لذت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ مگر ارض و سما میں قائم کیے گئے کسی بھی مطلق سیاسی و سماجی اور مذہبی بت کی علمی و حقیقی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں جو اخلاقیات کا اعلیٰ درجہ ہے۔ کیوں کہ عقل و ضمیر ہی ان کے نزدیک کَسوٹی کا معیاری پیمانہ ہیں۔ عقل کو روایات و عقائد کا غلام بنانا نہیں چاہتے۔

سوفسطائی علم کا معیارِ واحد انسان کو قرار دیتے تھے کہ انسان ہی اشیا کے معیار کا پیمانہ ہے؛ مگر اس سے مراد فردِ واحد سمجھی جاتی تھی۔

سقراط نے اپنے فلسفے میں ایک ایک غیر متغیر انسان کا انتخاب کر لیا تھا جو اجتماعی ضمیر کا نمائندہ ہے۔ وہ اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کرنے والا اس کا خلقی ضمیر کا فلسفہ ہے جو تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے، اور وہ مشق گیان و دھیان سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ علم کہیں خوابیدہ اور کہیں ظاہر ہر نفس میں موجود ہے۔ الٰہیات و خدا کے بارے میں انتاج و تحدید کے بارے میں میں بھی قطعیت پیدا کی۔ ان کے نزدیک جس طرح خدا کی ہستی کا اقرار ممکن ہے، اسی طرح ان کا انکار بھی ممکن ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ سے مراد زمین میں خدا نما ہستیاں، اور  مذہبی و روحانی اتھارٹیاں ہیں تو ان کا انکار لازمی ہے۔ لیکن خدا سے مراد وہ مطلق سرمدی اور غیر منقسم ذاتِ باری تعالیٰ ہے تو اس کا اقرار واجب ہے۔

سقراط نے فلسفۂِ اخلاق کو الٰہیات کے ساتھ بھی مربوط کر دیا تھا۔ ان کے فلسفے میں اجتماعی ضمیر کا تعلق ایک واحد سرمدی ذاتِ باری سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور وہ زندہ ضمیرِ انسانیت کی بقاء اور خیر کا نمائندہ ہے۔ وہ ضمیر کو خلقی سمجھتے ہیں کہ اخلاقی اقدار نیکی و بدی، انصاف و نا انصافی، شجاعت و بُز دلی، دانائی و حماقت رحم دلی اور ظلم وغیرہ کی صفات انسانی نفس میں پائی جاتی پیں۔

انسانی روح سچائی و صداقت کی حامل ہوتی ہے۔ اس بناء پر اخلاق بھی عالم گیر ہوتا ہے وہ کسی مقید دائرے کے ارد گرد سفر نہیں کرتا۔ سوال کرنے سے علم و شعور کے باب وا ہوتے ہیں۔ سوال کرنے سے علم کی گھتیاں کھلتی ہیں اور فکر و نظر کے الجھے ہوئے گیسووں کے لیے شانہ کا کام کرتی ہیں۔

خاموشی اور عقیدہ پرستی گھٹن اور جھوٹی ہستیوں کی بقاء کا جواز پیدا کرتی ہیں اس لیے ان کے فلسفۂِ تعلیم کا انداز متکلمانہ اور سوال و جواب پر مبنی تھا۔ بازاروں کے چوراہوں پر فکری نشستیں منعقد کرتے تھے اور حاضرین مسلسل سوال کرتے تھے اور  یہ جواب دیتے جاتے تھے۔ ہر قضیہ کی گُھتیاں سلجھنا شروع ہوجاتی تھیں اور ان کو منطقی انجام تک پہنچاتے تھے اور بحث و مباحثہ کرنے والوں کی تبحر و زُعمِ علمی کو صداقتِ علمی کے درجے پر پہنچا کر دَم لیتے تھے۔ جس میں ان کے نظریات کو باطل ٹھہرایا جاتا تھا، جس کو سقراطی اِستِہزاء بھی کہا جاتا تھا۔

دانش و حکمت کی منتہاء تک پہنچنا اور اس کا حصول ان کے فلسفۂِ اخلاق کا طرّۂِ امتیاز تھا۔ جہاں صداقت، اخلاق و ضمیر باہم اکٹھے ہو جاتے تھے۔ صداقت کا یہ بلند معیار کسی سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہزار خوف ہو، لیکن زبان ہو دل کی رفیق۔ یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق کی وہ زندہ مثال تھے۔ ایک سنگ تراش سے معلمِ اخلاق کی بلندیوں پر پہنچے، مگر ضمیر کی دنیا میں سنگ تراشی کی سختی آخری سانس نکلنے تک قائم رہی۔ عقل و ضمیر کے فیصلوں کے سامنے ایک باطل نظام کے خلاف ڈتے رہے۔ سمجھوتے اور در گذر کے مواقع بھی دیے گئے مگر ضمیر کی فتح  اور صداقت کا عَلَم بلند کرنا زیادہ عزیز تھا۔ حاکمِ وقت سے جان بخشی کی درخواست سے زیادہ زہر کا پیالہ پینا، ابدی زندگی اور حق کی فتح کے لیے ضروری تھا۔

تاریخِ عالم کے وہ پہلے اور واحد زندہ جاوید فلسفی تھے جنھوں نے ضمیر اور عملی اخلاق کی فتح کا جامِ شہادت خوشی سے نوش فرمایا۔ سقراط کے اخلاقی فلسفے نے وہ قندیل روشن کی جو نظامِ معاشرت کی اصلاح اور بقاء کے لیے ہمیشہ جلتی رہے گی، اور یہ وہ قندیل ہے جو سوائے عقل و ضمیر کے مخصوص دائرے کے کسی نظریے اور کلیے کی پابند نہیں۔ ضمیرِ انسانی میں وہ بے پناہ قوت ہے، جو فرد کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کو تبدیل کر دیتی ہے۔

سیاسی و سماجی زندگی کی ترقی و تطہیر اسی سے ممکن ہے، مگر اخلاق عملی اجتماعیت کا آئینہ دار ہو اور صداقت علمی اس کا جوہر ہو۔ مادی ترقی کا جوہر اخلاق نہ ہو تو اخلاق حَسَنہ کے بر عکس اخلاقِ رزیلہ سے سماجی تضادات و نا ہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سماجی تبدیلی اجتماعی ضمیر کی بیداری کے بغیر نا ممکن ہے، اور اجتماعی ضمیر کی بیداری مقتدر ہستیوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتی ہے۔ سقراطی تعلیمات کا یہی خلاصہ ہے۔

جس طرح سقراط فلسفۂِ اخلاق کو ایک یقینی اور مکمل علم قرار دیتے ہیں، مگر دوسری طرف اس پر اعتراض بھی عائد ہوتے ہیں کہ اخلاقی قدریں معاشی و اقتصادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی بناء پر ان کو یقینی و حتمی علم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ خلقی نہیں ہو سکتا، یہ پیداواری قوتوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے، کیوں کہ زرعی عہد کی اخلاقی قدریں صنعتی عہد کی قدروں  سے یک سَر مختلف ہیں۔

فلاحی ریاستوں اور سماج میں بسنے والے لوگوں کا اخلاق استحصال زدہ شہریوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر مذہب اور کلچر کے شہریوں کے مزاج و اخلاق میں تبدیلی و فرق نمایاں طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ اس بناء پر اخلاق ایک متغیر قدر کا نام ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اخلاق معاشی قدروں کے تابع ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، لیکن خیر و بھلائی کا جذبہ انسان میں خلقی طور پر ودیعت ہوتا ہے۔

اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اخلاق کا مظاہرہ احتیاج و ضروتوں کے پیشِ نظر کیا جائے، بل کہ خیر کا پہلو انسانی شعور کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتا ہے، چاہے انسان نے اس کو اپنی بقاء کے لیے اختیار کیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ بھلائی کا تصور مسرت آفرینی کا باعث بنتا ہے، بھلائی اور مسرت اس بناء پر انسانی سرشت کا حصہ بن جاتے ہیں، اور یہ اخلاق کا پہلو اجتماعی انسانی بہبود کا سبب بنتا ہے۔

بلند تر اخلاقی سوچ ظن و تخمین سے پاک ہوتی ہے،جس  نے مروّجہ قوانین و ضوابط کو  اپنی آخری خطرے کی شکل سے محفوظ کر رکھا ہے۔ تنہائی و آزادی میں اخلاقی قوت ہی برائی کو روکنے کا سبب بنتی ہے۔ اخلاقی بلندی ہی شر کے خلاف بر سرِ پیکار ہوتی ہے۔ سماجی تضادات کا قلع و قمع عقل و شعور اور روشن ضمیری سے ہی ہوتا ہے۔ اخلاق زندہ ہے تو انسانیت زندہ ہے، اس بناء پر اخلاقی قدر صرف عقل و منطق کی کسوٹی پر فیصلہ نہیں کرتی، بل کہ اس سے پرے اور بلند تر خاموش ضمیر کی آواز بھی ہوتی ہے۔

سماجی و اقتصادی قدریں کتنی ہی کیوں نہ بدل جائیں، اخلاق و ضمیر کا شجر ہمیشہ ہَرا رہے گا، کیوں کہ شعور میں اس کا پودا پروان چڑھتا ہے۔ اس بناء پر یہ خلقی ہوتا ہے، اور اکتساب سے بھی یہ مزین ہوتا ہے اور جب اجتماعیت کا عَلَم بردار بن جائے تو یہ اس کی معراج ہے، جہاں یہ خیرِ محض بن جاتا ہے۔

انسان کے اندر اجتماعی جبلتیں بھی ہوتی ہیں جو انسانیت کی بقاء کی آئینہ دار ہیں۔ معاشی و سائنسی ترقی نے انسانیت کے بہت سے مسائل حل کر دیے ہیں، مگر کیا مسائل کے حل سے اخلاق اضافی ہو گیا ہے۔ انسان کے تمام مسائل حل بھی ہو جائیں پھر بھی ضمیر و اخلاق انسانی مسرت کے لیے ایک دائمی قدر کے طور پر قائم رہے گا۔

لیکن سقراط کا نظامِ اخلاق اپنے اندر بہت سے پہلو اور جِہتیں رکھتا ہے۔ جس میں تنقید اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، فکر و نظر کی شمع جلائے رکھنا اس کا مرغُوب پیشہ ہے۔ شر و برائی کے ساتھ وہ سمجھوتہ نہیں کرتے۔ عقیدہ اور روایات سے زیادہ عقل و شعور اور خود آگہی سے کام لیتے ہیں۔ وہ مروجہ خیالی بتوں کی پرستش نہیں کرتے۔

وہ سیاست و معاشرت کے نقائص و تضادات کی نفی کرتے ہیں۔ وہ کوئی مسلم و حتمی نظام نہیں دینا چاہتے کیوں کہ وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم صرف اتنا جان پائے ییں کہ ہم کچھ نہیں جانتے سے یہی مراد ہے کہ پردۂِ غیب سے بہت سے معجزے رُو نما ہونے والے ہیں۔

لیکن موجودہ صورتِ حال ہمارے عقلی و منطقی فیصلوں کی پابند ہے، اور یہ وہ یقینِ کامل کا مرحلہ ہے جس کی تصدیق ان کا ضمیر زہر کا پیالہ نوش کر کے کرتا ہے کہ یہ علم یقینی بھی ہے، خلقی بھی ہے اور صداقت علمی کا آئینہ دار بھی ہے۔ عالم گیر بھی ہے اور غیر طبقاتی بھی ہے۔ انسانی شعور و وجود سے ہم آہنگ ہو کر مثلِ آفتاب کائنات کے ذرے ذرے کو روشن کرتا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا کی عملی صورت سقراط کی شخصیت میں بہ درجۂِ کمال نظر آتی ہے۔