کتب بینی کا شوق

ایک روزن لکھاری
تنویر احمد تہامی
کتب بینی کا شوق
(تنویر احمد تہامی)
ان دنوں جب ہم یونیورسٹی ہاسٹل میں قیام پذیر تھے تو جیسا کہ دوست احباب جانتے ہیں ہمیں پڑھائی لکھائی سے ذیادہ شغف نہ تھا، لہٰذا بیشتر وقت سیر و تفریح، خوشگپوں، سیاسی و سماجی مباحثوں اور حاجی کی دکان کے چکر کاٹتے ہوئے بیتتا تھا. جب کبھی فرصت کے لمحات میسر آتے تو مرزا کے لیپ ٹاپ سے گانے وغیرہ سننے کا شغل فرما لیتے تھے. ایک دفعہ ہم سبھی روم میٹس گانے سن رہے تھے کہ ایک پرانا ہندی گانا چلا جس کے ساتھ انگلش سب ٹائٹلز (English sub-titles) بھی تھے. گانا تھا “دل کا کیا کریں صاحب” اور انگلش میں جو اسکا ترجمہ کیا گیا وہ کچھ یوں تھا:
what should i do with my heart sir
ہم نے اسی طریقہ کو اپناتے ہوئے ازراہِ مزاح روز مرہ کی ہر بات کو ایسے ہی ترجمہ کرکے بولنا شروع کردیا. مثلاً ان دنوں ایک پنجابی فلم “جنہے میرا دل لٹیا” نئی نئی آئی تھی اور ہم سب لوگ مل کر وہ دیکھ رہے تھے کہ صغیر کمرے میں داخل ہوا اور پوچھا کہ کون سی مووی دیکھ رہے ہو؟ ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا؛
The one who stole my heart
صغیر کچھ سوچتے ہوئے بولا کہ یہ جانی ڈپ کی مووی ہے ناں؟ تو ہم نے کہا نہیں یہ گِپی ڈپ کی ہے۔
 مزاح تو چلتا رہا مگر ایک بات سمجھ میں آئی کہ کسی بھی زبان کا ایک مخصوص لہجہ ہوتا ہے اور اس زبان میں کی گئی بات کو جب کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو ظاہری معنی تو نقل ہو جاتے ہیں مگر بات میں وہ اثر نہیں رہتا. وہ روح جو اصل زبان میں ہوتی ہے ترجمہ سے فوت ہوجاتی ہے.
اس بات کی مزید سمجھ تب آئی جب میں نے ایک دوست کو اپنا پسندیدہ ناول “دی الکیمسٹ” پڑھنے کیلئے دیا تو اس نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ مجھے انگلش ناول پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے. چند روز کے بعد اس سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں نے “دی الکیمسٹ” کا اردو ترجمہ پڑھ لیا ہے مگر مجھے تو یہ ناول اتنا خاص نہیں لگا. جب میں نے اس اردو ترجمے سے چند اقتباسات پڑھے تو اپنے دوست کی بات درست معلوم ہوئی کہ واقعی اس میں وہ بات نہ تھی۔
ہمارے ہاں مطالعہ کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے. بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نمک کی مقدار بھی اتنی ہے کہ اس آٹے سے جب روٹی بنے تو کھانے والا کہہ اٹھے؛ اج آٹے وچ لونڑ نئیں پایا؟
قارئین کی تعداد میں دن بدن ہوتی کمی میں جہاں دوسرے بہت سے عوامل کارفرما ہیں وہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے کافی عرصے سے اردو ادب نئے تخلیقی موضوعات کے شدید بحران کا شکار ہے. اردو شاعری ہو یا نثر ہمارے ہاں آج بھی کم و بیش  وہی موضوعات چلے آرہے ہیں جو امیر خسرو اور ڈپٹی نذیر احمد کے دور میں پائے جاتے تھے. دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر اردو شاعری کا محبوب ابھی تک بے وفا اور نکچڑا ہے. اردو ناولوں میں جو رواج پچھلے کچھ عرصے سے دیکھنے میں آیا ہے وہ بھی باعثِ تشویش ہے یعنی عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر. موضوعات کی اس قدر دہرائی سے قاری بوریت کا شکار ہوکر بالآخر مطالعہ کو ہی خیرباد کہہ دیتا ہے۔
کتاب انسانی زندگیوں پر ایک عرصے سے اپنے اثرات مرتب کرتی آئی ہے. آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی مغرب میں کتب بینی کا شوق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے. اس کی بنیادی وجہ نئے اور دلچسپ موضوعات ہیں. وہاں کے موضوعات قاری کو بور نہیں ہونے دیتے. مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تو اردو پڑھنے والے قارئین کی تعداد نہایت قلیل ہے چہ جائیکہ انگریزی پڑھنے والے ملیں. تو اسکا ایک ہی حل نکالا جاتا ہے کہ مغربی ادب کے اردو تراجم پیش کر دئیے جاتے ہیں. مگر جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں ترجمے سے بات اپنا اصل اثر کھو دیتی ہے لہٰذا مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے. قارئین کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کا سب سے مؤثر حل تو یہی نظر آتا ہے کہ اردو ادب میں نئے تخلیقی موضوعات کو فروغ دیا جائے۔
گو کہ بیسویں صدی کے آخر تک اردو ادب میں کافی رونقیں رہی ہیں مگر اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اردو ادب کو بھی گویا نظر سی لگ گئی ہے. اب کے حالات دیکھ کے تو دل خون کے آنسو روتا ہے. میرا آپ سے یہی سوال ہے کہ
What should i do with my heart sir?

1 Comment

Comments are closed.