پاکستانی کلچرل آؤٹ فِٹ : رمضان کے تلفظ میں مذہب کیوں گھساتے ہو

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

پاکستانی کلچرل آؤٹ فِٹ : رمضان کے تلفظ میں مذہب کیوں گھساتے ہو

(نعیم بیگ)

میں اکثر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر اپنی ادبی اور سوشل سرگرمیاں اپنے پاکستانی اور غیر ملکی دوستوں کے ساتھ شئیر کرتا رہتا ہوں۔ میرے ان دوستوں میں غیر ممالک سے بالخصوص مغرب میں رہنے والے اردو دان، بہت سے عالمی ادب اور اردو ادب سے محبت کرنے والے دوست بھی شامل ہیں۔ انہی دوستوں میں ایک کثیر تعداد پاکستان و ہندوستان سے اردو پڑھنے لکھنے والوں کی بھی شامل ہے۔
عام طور پر ہمارے موضوعات اردو ادب اور اردو زبان و بیاں اور اس کے لسانی و ثقافتی رحجانات اور ملکی سماجی صورت حال پر ہوتے ہیں۔ یہاں پر کسی دوست کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، بلکہ اختلافی رائے آ جانے سے مکالمہ اور گفتگو مزید نکھر جاتی ہے۔ قارئین اور احباب میں کسی نظری، فکری و علمی سمت کو متعین کرنے میں جو دشواری ماضی میں رہی ہوتی ہے وہ اکثر ان مکالموں میں دور ہو جاتی ہے بلکہ اس حد تک کہ بعض اوقات جن بڑے مغالطوں کو ہم نے اسیرِ دامن کر رکھا ہوتا ہے ان سے جان چھٹ جاتی ہے۔
یہ تمہید اس لئے باندھی کہ اس بار رمضان المبارک کی آمد پر ایک بحث خوب زور و شور سے شروع ہو گئی اور وہ تھی کہ رمضان مبارک کہا جائے یا رمادان مبارک کہنا عین کارِ ثواب اور درست ہے۔
دونوں کے حق و مخالفت میں بے تحاشا دلائل سامنے آئے۔ کچھ دوستوں کے مطابق چونکہ یہ مذہبی معاملہ ہے لہذا اس میں کسی قسم کے مکالمہ، یا سوال جواب کی ضرورت نہیں۔ جو کہا گیا ہے وہی کیا جائے۔ بعض دوست اس بات پر مصر رہے کہ رمدان ہی صحیح تلفظ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی میں ’ض‘ کو ’ د‘ سے ہی پکارا جاتا ہے۔ یوں عربی میں اسے رمادان ہی پکارا جائے گا۔ عربی زبان کے اگر دیگر حروف تہجی پر نظر ڈالی جائے تو وہاں ’پ‘، ’گ‘ ’ڑ‘ او ر ’چ‘ کیلئے بھی کوئی صوتی الفاظ میسر نہیں ۔ لیکن حیرت مجھے اس بات پر ہوئی کہ رمضان کو رمدان کہہ دینا یا نہ کہنا کہاں سے مذہبی معاملہ ہو گیا ہے؟ یہ بالکل سیدھا ایک لسانی معاملہ ہے۔ جس میں ہر شخص عربی میں صیام اور اردو میں روزہ کو اپنی زبان میں آزادی کے ساتھ ادا کر سکتا ہے۔ اردو میں ہم اسے روزہ کہتے ہیں اور اس کے مہینہ کو ماہ رمضان یا رمضان المبارک کے بابرکت نام سے یاد کرتے ہیں۔ بس یہ کافی ہے۔ ہم بزور شمشیر ان الفاظ کو اردو کے اندر سمونے کے لئے مذہب کا سہارا کیوں لیتے ہیں۔
کیا ہمیں ضیا کو دیا، پاکستان کو باکستان، پیپسی کو ببسی، گدھے کو جدھے، یا چپل کو شبل کہہ کر اسے اسلامائز کرنا ہوگا؟
میں نے اپنے کسی عزیز کو اس کی کار کی نمبر پلیٹ پر الباکستان لکھا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ کہنے لگا اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک تو میں اسلامی لگتا ہوں، سبحان اللہ، دوسرا یہ کہ میرا وہ خوف کہیں اندر دب جاتا ہے جو غیر قانونی کام کے نتیجے میں پکڑے جانے کی صورت میں ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ وہ جبری ثقافتی و لسانی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے جس پر ہم گزشتہ کئی ایک دھائیوں سے عمل پیرا ہیں۔ چونکہ ہم قرآن مجید کو حکماً عربی میں پڑھتے ہیں، بھلے اسی کی تفہیم ایک عام شخص کو ملے نہ ملے، ہم تعظیم میں ذرا برابر کمی نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ ساری دنیا میں قران مجید کی تفہیم کے لئے پہلے اس کے مادری زبان میں ترجمہ کو پڑھا جاتا ہے۔ ابتدائی تفہیم کے بعد اسے قرات اور ثواب اور تفہیمِ حتمی کی خاطر اسے عربی میں پڑھا جاتا ہے۔
یہ معاملہ دانش و فہم کا ہے ناکہ صرف تعظیم و تقدیس کا۔ ہم نے موجودہ عقیدت و مذہبی تعلیمات کے اداروں کی مسلسل ترغیب سے یہ طے کر لیا ہے کہ عرب ثقافت ہی دراصل اسلامی ثقافت ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔
صحرائے عرب خود ایک کثیرالقوامی جغرافیائی و علاقائی حصوں پر مشتمل ہے۔ جن کی زبان و بیاں، رہن سہن اور ثقافت اپنی علاقائی شناخت میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک مسلم سعودی، یمنی، فلسطینی ، مصری اور صومالی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج کی دنیا میں گلف سٹیٹس کی دنیا ہی الگ ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے اردو معلیٰ ، اردوِ عالیہ، ہندی اردو اور پاکستانی اردو اب اپنی مکمل شناخت رکھتی ہیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ عرب کی ثقافت تو ظہور اسلام سے پہلے بھی یہی تھی۔ حضور اکرم (ص) کی آمد سے پہلے اور بعد میں معاشرتی رہن سہن، خوراک، ثقافتی اجتماع میں نظریاتی طور پر بہت بڑی انقلابی تبدیلی تو رونما ہوئی لیکن فزیکل اشکال وہی رہیں، سروں پر باندھنے والے عمامے وہی رہے۔ موسم کے گرم ہونے کی وجہ سے جسم کا لبادہ وہی رہا۔ ہاں خواتین میں چونکہ پردے کا حکم آیا تو اس حوالے سے وہ پابندی اپنا لی گئی، لیکن ملبوسات وہی رہے۔
یوں نظریاتی و انقلابی اسلامی تعلیمات نے ایک حد تک تو عرب کے رہنے والوں کو خدا کی وحدانیت اور اس کے احکام کی طرف نہ صرف راغب کر لیا بلکہ ثقافتی سطح پر ممنوعات اور حرام اشیاء کو روزمرہ زندگی نکال باہر کیا۔ لیکن صحرائے عرب کی ہزاروں برس کی ثقافت، زبان و بیاں اور اس کے قبائلی کلچرل اثرات وہی رہے جو آج تک موجود ہیں۔ جنہیں بدقسمتی سے ہم اسلامی کلچر سمجھ بیٹھے ہیں۔
یہی وہ بڑا مغالطہ ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیا میں رہنے والے کم پڑھے لکھے لوگوں کی ایک کثیر تعداد میں موجود ہے۔ انہوں نے قبائلی رسومات اور کلچرل آؤٹ فِٹ کو صدیوں پہلے قبول کرنے والے اسلام کا ایک حصہ سمجھ لیا اور نسل در نسل اس مغالطے کو کلچر کا حصہ بنا لیا۔
پاکستان کے تناظر میں درحقیقت ہمیں اپنے کلچرل آؤٹ فِٹ کی اب تک نہ تو ضرورت پیش آئی ہے اور نہ ہی اس ضمن میں ہم نے کام کیا۔ بد قسمتی سے ہماری یونیورسٹیوں، اسکولوں کالجوں میں میں کتابی نصاب کی طرف توجہ مرکوز رہی۔ حکومتی اداروں کی حد تک کلچرل ترقی کے کام کو شجرِممنوعہ سمجھا گیا۔ یہ ان کا بودا خیال ہے کہ چند بوسیدہ میوزیم کھول دینے سے ہم نے کلچر کو بچا لیا۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔