ہم تنقید و سوال سے کیوں ہیں

ایک روزن لکھاری
ظہیر استوری ، صاحب مضمون

ہم تنقید و سوال سے کیوں ہیں

(ظہیر استوری)

        کسی بھی تھیوری یا آئیڈیالوجی اس وقت تک مکمل ثابت نہیں ہو پاتی جب تک اس پر تنقید کے دروازے نہ کھولے جائیں۔ اگر یہ تھیوری اپنے ناقدین کو مطمئن کرنے میں دلچسپی نہ لے تو یہ اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ تنقید ہی  اس کی پختگی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے اور اسی سیڑھی کی بنیاد پر تھیوری تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔

انسان کے شعوری ارتقا کا دارومدار اس کے نظرئیے اور اعتقادات پر اُٹھنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈنے میں ہے نہ کہ ناقدین کا منہ بند کرانے میں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے شعوری ارتقا میں بھی بلوغت کا اثر بڑھتا جاتا ہے اور یہی بلوغت پرانے نظریات اور رسم و رواج کے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آتا ہے۔ انسانی تاریخ شعور اور نظریات کی اس جنگ سے بھری پڑی ہے اور یہی ٹکراؤ کچھ نظریات کے ٹوٹنے اور کچھ نئے نظریات کے وُجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔ ان نظریات کے ٹوٹنے کا واحد سبب ان نظریات میں عدم برداشت کے عنصر کا موجود ہونا ہے۔ اس ٹکراؤ کی سب سے بہترین مثال دنیا کے مذاہب ہیں۔

نظریات جتنے جامد ہونگے اتنا ہی ان کے ٹوٹنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ سقراط کو زہر کا پیالہ بھی انہی نظریات سے ٹکراؤ کے باعث “نصیب” ہوا۔ 16 ویں صدی میں عیسائیت کو “پروٹسٹنٹس” کا سامنا بھی یہی نظریاتی ٹکراؤ کے باعث کرنا پڑا۔ یہی وہ نظریاتی ٹکراؤ ہے جس کی بنیاد پر اسلام کو بھی فرقوں کی شکل میں ایک دائمی اندرونی چپقلش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ دور میں مذہب کا لبرلزم سے ٹکراؤ بھی  اسی کی ایک شکل ہے۔ دینی مدارس کا نصاب اس ٹیکنالوجی سے بھرپور زمانے کے ساتھ چلنے والا نہیں بلکہ ہر مسلک میں اپنی تاریخ اور دفاع کے علاوہ کوئی قابل ذکر چیز ہوتی نہیں ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بنیاد پرست اور ماڈریٹ کے بیچ ایک تناؤ پیدا ہو چکا ہے۔ اسی تناؤ کے باعث مذہبی طبقے کو “دین بچاؤ” اور “دفاع دین” جیسی اصطلاح کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

سوال کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے اور یہی سوال کرنے کی جبلت ہی انسانی شعور کے بلوغت کی نشانی ہے۔ اگر اُٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں ملے تو انسان ان نظریات اور افکار سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا الگ راستہ بنا لیتا ہے اور انہی راستوں سے  “باغی” پیدا ہوتے ہیں۔ مسلمان خصوصاَ برصغیر میں وقت کی ضرورت سے زیادہ جذبات سے فیصلے کرتے آئے ہیں چاہے وہ دین کے معاملات ہوں یا زندگی کے دوسرے شعبے۔ ایک نسل یہ فیصلے کر جاتی ہے اور آنے والی نسلیں ان فیصلوں کے صحیح یا غلط ہونے پر آپس میں لڑتی ہے۔ بالکل اٗسی طرح جیسے تحریک خلافت کر دوران خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے مسلمانوں کو ہجرت کا فتویٰ دے کر بے گھر کر دیا گیا تھا۔ تحریک خلافت کے دوران برصغیر کے نامور علما اور مفتیوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر مسلمانوں پر ہجرت فرض کا فتویٰ صادر فرمایا جس کے باعث تقریباَ30  ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے اپنی زمین جائیداد بیچ کر افغانستان کی طرف ہجرت شروع کر دی مگر افغانستان نے یہ کہہ کر مزید پناہ دینے سے معذرت کر لی کہ بھیا ہم خود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پاتے ہم اتنے مسلمان بھائیوں کی مہمان نوازی کیسے کریں گے؟ جب یہی لوگ واپس اپنے وطن کی طرف لوٹے تو اُن کے پاس نہ گھر تھا نہ زمینیں تھیں کیونکہ جانے سے پہلے وہ اپنا سب کچھ بیچ چکے تھے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ بانی پاکستان اس تحریک کا حصہ نہیں بنے تھے حالانکہ یہ ان کی سیاسی زندگی کے گولڈن پیریڈ کے دن تھے۔

پاکستان جو کہ ایک مسلم ریاست ہے جہاں 96 فی صد مسلمان بستے ہیں اس کے باوجود اسلام بچاؤ اور دفاع اسلام جیسی کانفرسز کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ حالانکہ مذہب کے لئے جتنی قربانیاں اس ملک نے دی ہیں شاید ہی کسی اور نے دی ہوگی۔ مذہب کے نام پر جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ سارے مسلمانوں اور “اسلام کو بچانے” کا ٹھیکہ شاید اس ملک کو وراثت میں ملا ہے چاہے وہ تحریک ہجرت ہو یا افغانستان سے “کافروں” کو بھگانے کے لئے مجاہدیں بنانا ہو، سب کام ہمارے ذمے ہیں۔ خلافت کو بچانے کی غرض سے دیئے گئے فتوؤں کی وجہ سے ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔ افغانستان میں سویت یونین جیسے “کافروں” کو واپس بھجوانے کے لئے مجاہدین بنانے کی ضرورت پیش آئی اور یہی مجاہدین بعد میں “دہشت گرد” بن کر آپ کے ہی گلے پڑ گئے جن سے آج تک نمٹ رہے ہیں۔

ایسے جنونی فیصلوں کی وجہ سے ہی ہمارا معاشرہ عدم برداشت اور دہشت گردی جیسی لعنتوں سے واقف ہوا۔ موجودہ دور میں بھی عدم برداشت اس قدر ہے کہ صرف نظریات کے اختلاف کی وجہ سے خون تک بہایا جاتا ہے۔ کسی کو سوال کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ حالانکہ قرآن خود “دین میں کوئی جبر نہیں” اور “غور و فکر کرو” جیسی نصیحتیں کرتا ہے۔ غور و فکر ہوگا تو سوالات سامنے آیئں گے اور یہی سوالات کا جواب اچھے انداز میں ملے تو پھر بدنامی کیوں ہوگی تو کانفرنسز کی ضرورت کیوں پیش آئے گی۔ مگر بد قسمتی سے مذہبی طبقہ اس حق کو بھی استعمال کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ معاشرے میں خوف و ہراس اس حد تک ہے کہ سوال کرنے والا پہلے تو سوال کرنے سے ہی گریز کرتا ہے کہیں واجب القتل کا فتویٰ نہ لگ جائے۔

ان سوالات کا تحمل سے جواب دینے اور سوال کرنے والے کو مطمئن کرنے کے بجائے اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر قانون اور عدالتوں کی موجودگی کے باوجود اپنے ہاتھوں سے اس کا صفایا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب آپ اس طرح سوال کا حق بھی چھینے لگیں گے تو پھر بغاوت تو ہو گی نا۔ جب نظریات کو جامد اور اس قدر مشکل بنائیں گے تو پھر آپ کو ایسے ہی دفاع اور بچاؤ کی ضرورت پڑے گی۔ اگر اس دفاع اور بچاؤ والی صورتحال سے نکلنا ہے تو ہمیں سوال کرنے کا حق دینا ہوگا اور اس کا جواب تحمل اور برداشت سے دینا ہوگا نہ کہ خون بہا کر۔ ورنہ آنے والے وقتوں میں بھی، جب دنیا کی آدھی آبادی چاند اور مریخ پر بس رہی ہوگی، ہم اسی بحث میں اُلجھے ہوئے ہونگے کہ کون صحیح اور کون غلط۔