ہمیں وژن اور وسائل درکار ہیں یا مشکلات سے جنگ

(قاسم یعقوب)
وژن اور وسائل کی بحث میں پہلے ان دونوں میں بنیادی فرق پہچاننا ضروری ہے۔
وژن اُس صلاحیت کو کہتے ہیں جو موجود(Presence)اورغائب(unseen)دونوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
وژن اُس قوت کا نام بھی ہے، جو موجود میں آئندہ کو تعمیر کر سکتی ہے، یہ قوت، تخلیقی قوت ہوتی ہے۔ وژنری ہونا مستقبل کو حال میں تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں ادارہ یا شخص وژنری ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مستقبل کو آج کے آئینے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کیا مستقبل کو آج میں دیکھ لینا کافی ہوتا ہے؟ ہر وہ شخص جو موجود یا حال میں کچھ مستقبل کو پیش کر سکتا ہوتو کیا وہ وژنری کہلائے گا؟ اگر نہیں تو ہمیں ’’وژن ‘‘ کی اس تعریف سے بھی آگے جانا ہوگا۔
’’وژن‘‘ اصل میں اُس تخلیقیت سے جڑی ہوئی قوت ہے جوموجود(Presence)کو بہتر کرنے یا بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جو اپنے اردگرد کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے تبدیل بھی کر سکتی ہے۔کسی (نظام، شے) کی ’ درستی‘ تخلیقی عمل نہیں جب کہ یک سر ’تبدیل‘ کر دینا ایک ’تخلیقی‘ کارگزاری ہے جو صرف وژنری افراد کا خاصا ہے۔
وژنری(Visionary)شخص کی مندرجہ ذیل خوبیاں ہوسکتی ہیں:
۱۔ وہ اپنے ماحول، حالات اوربیانیوں پہ اکتفا نہیں کرتا اور نہ اُسی کو حتمی سمجھتا ہے۔
۲۔ وہ اپنے اختیارات سے زیادہ اپنے اعتماد کو سامنے رکھتا ہے۔
۳۔ وہ تخلیقیت کے بل بوتے اپنے ذہن میں کئی بیانیوں اور منصوبہ جات کو پہلے ہی سے تیار رکھتا ہے یا موجود یا حال کے بیانیوں، ماحول اور حالات میں اُس کے اندر سے متبادل بیانیے اور ماحول پیدا کرتا رہتا ہے۔
۴۔ موجود(Presence)کی صورتِ حال اُس شخص کے لیے ناکافی ہوتی ہے، یہ بھی وژنری شخص کی خاصیت ہے کہ وہ ادھورا پن، نا تکمیلیت اور عدم توازن کو پہچان بھی لیتا ہے۔ ایک ’’غیر وژنری‘‘ آدمی ان خامیوں کی از خود نشان دہی نہیں کر سکتا۔
۵۔ وژنری شخص یاا دارہ پہلے سے موجود منصوبوں یا بیانیوں پر عمل کرنے کی بجائے اپنی تخلیقیت یا اپنے بیانیوں اور منصوبوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
۶۔ وژنری موجود(Presence)سے زیادہ موجود کے عدم توازن اور ادھورے پن کی تکمیل پر دھیان دیتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں اپنے سوال کی طرف:
’’قومی اہداف کی تکمیل میں ہمیں وژن کی ضرورت ہوتی ہے یا وسائل کی؟‘‘
سوال میں تین اہم نکات اٹھائے گئے ہیں:
۱۔قومی اہداف ۲۔ وژن ۳۔ وسائل
یہ قومی اہداف کیا ہوتے ہیں؟قومی اہداف کو متعین کون کرتا ہے؟بیوروکریسی؟، حکومت، عوام یا دانش ور؟____کیا وہ تمام اہداف جو حکومتوں کا ہدف رہے ہیں وہی ہمارے قومی اہداف ہیں؟ قومی اہداف ایک کثیر معنیاتی بیانیہ ہے ، جو ہر فرد کے ہاں مختلف ہو سکتا ہے۔ ہر فرد کی اپنی سوچ کے مطابق قومی اہداف مختلف ہوسکتے ہیں۔
حکومتوں کے ہاں اہداف صرف وہی ہوتے ہیں جو انھیں درپیش ہوتے ہیں، جن کے سہارے وہ ووٹ لے سکیں، جن سے مخالف جماعتوں کو زیر کیا جا سکے۔ مثلاً ہم با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ حذبِ اختلاف میں سیاسی جماعتوں کے اہداف حکومت مخالف ہوتے ہیں اور یونہی حکومت میں انھیں کام کرنا پڑتا ہے تو اُن کی ساری کوشش حزبِ اختلاف کو زیر کرنے میں صرف ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ تمام کام جس سے عوام کی فوری ضرورت پوری ہو جائے، حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ایسے منصوبہ جات جس سے عوامی حمایت میں اضافہ ہونے کا اِمکان ہو، حکمران جماعت کی ترجیحِ اول میں رہتے ہیں۔بہت کم ایسا ممکن ہوتا ہے کہ حکمران جماعت یا حزبِ مخالف سیاست کا ہدف حقیقی قومی ایشو ہو۔
عوام یا فرد کے ہاں بھی یہ صورتِ حال مختلف ہوتی ہے۔ فرد جن مشکلات سے دوچار ہوتا ہے، وہ اُسی قسم کے اہداف کوقومی ضرورت قراردینے کی کوشش کرتا ہے۔بیوروکریسی اور انتظامی مجبوریاں تو اہداف ہی انھیں کہتی ہیں جو ان کے نزدیک زیادہ سہولت مند ہو یعنی اُن کی ’’طاقت اور ترقی‘‘ کے لیے ممد ثابت ہو۔
قومی اہداف کا تعین دانش ورانہ سطح پر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ دانش ورانہ سطح اشیا کو اُن کی سیاسی اور انتظامی مجبوریوں سے الگ کر تی ہے اور قومی اہداف کو قوم کے تعمیراتی نقطہ نظرسے دیکھتی ہے۔ قوم سے اگرملک کے باشندوں کا کلچر، تاریخ، ذہنی استعداد اور نفسیات مراد لی جائے تو قومی اہداف میں قوم کے مزاج کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے، کسی سیاسی ، سماجی قوتوں کے تناظر میں اہداف متعین نہیں کیے جانے چاہیے۔
وسائل(resources) کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ نمایاں ترین معاشی(Economic) اور قدرتی(Natural)وسائل ہوتے ہیں۔
معاشی وسائل ملک میں موجود سرمایہ اور افرادی قوت پر منحصر ہوتے ہیں۔عموماً غریب ممالک معاشی مسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو پاتے۔
قدرتی وسائل بھی ملک کی ترقی اور قومی اہداف کی تکمیل کے لیے نہایت ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی(ecology) وسائل بھی کہلائے جاتے ہیں۔یہ حیاتیاتی (Biotic) اور غیر حیاتیاتی(Aboitic) دونوں قسم کے فیکٹرز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حیاتیاتی فیکٹرز میں آبی اور زمینی جانوروں کی پرورش، جنگلات وغیرہ شامل ہیں جب کہ لا حیاتیاتی فیکٹرز میں قدرتی معدنیات، سازگار زمین، پانی کے کثیر ذرائع وغیرہ شامل ہیں۔
جب ہم وسائل کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایک بہت اہم فیکٹر صلاحیت (Skill)بھی ہوتا ہے۔ یعنی وژن جس صلاحتیوں کے سہارے عملی جامہ پہن سکے۔ صلاحیت بھی وسائل(Resources) میں تصور کی جاتی ہے۔اگر صلاحیت موجود نہیں یا بہت کم تعداد میں موجود ہے تو وژن نامکمل رہ سکتا ہے۔ کلاسیکل مارکسزم میں اسے بھی ’’زمین، سرمایہ اور محنت‘‘ کے ساتھ گنا جاتا تھا ۔صلاحیت محنت کا ایک حصہ سمجھی جاتی۔ جدید معاشیات میں صلاحیت الگ سے ایک شعبہ تصور کی جا رہی ہے۔ ویسے بھی اب محنت(Labour)کا تصور مشین نے تبدیل(Replace) کر لیا ہے۔
وژن کا سارا دارومدار وسائل پرہوتاہے۔ جب کہ وسائل کا استعمال ضرورت کے تحت جنم لیتا ہے۔ انسانی ضرورت اورانسانی وژن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ وژن موجود کو بہتر اور برتر دیکھنے کا کام ہے جب کہ وسائل کا استعمال اُن ضروریات کے تحت بھی ہوسکتاہےجوانسانیاحتیاج کے تصور سے جنم لیتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرقوم کے پاس وسائل نہیں تو وژن کا ظہور مشکل ہوگا، وہاں ایسے اذہان ملنا مشکل ہو جاتے ہیں جو وژنری ہوں۔یا دوسرے لفظوں میں وژنری اذہان وسائل کی موجودگی میں پروان چڑھتے ہیں۔اگر کوئی وژن وسائل کی غیر موجودگی میں پیدا بھی ہو جائے تو وہ وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے ناکام ہوجاتا ہے۔یا وسائل کی عدم فراہمی اُسے مشکلات سے دوچار کرتی ہے ۔ یہ مشکلات(Hurdles)بذاتِ خود بہت اہم فیکٹر ہے جو وسائل اور وژن کے درمیان خالی جگہ پر موجود رہتا ہے اور انھیں ایک دوسرے سے نہیں ملنے دیتا۔یہ فیکٹر مشکل، رکاوٹ، ناسازگاری کہلا سکتا ہے۔
جہاں تک ہمارے سماج کا مسئلہ ہے ہمارے پاس قومی اہداف کی تکمیل کے لیے وسائل کی کمی نہیں یعنی قدرتی اور معاشی دونوں طرح کے وسائل بے حساب موجود ہیں۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وژنری اذہان کا پیدا ہونا کوئی ناممکن بات نہیں۔ یہاں مسلسل وژنری اذہان کا ظہور ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہ ترقی پذیر فلسفہ معاشرتی سطح پر موجود ہے جس سے قوم کو ترقی یافتہ بنایا جا سکتا ہے مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہُوا ہمیں وژن اور وسائل کے درمیان ایک اور فیکٹر مشکلات(hurdles)کا سامنا ہے جو وژن اور وسائل، دونوں کو نگلنے کی صلاحیت سے ’’مالا مال‘‘ ہے۔
یہ مشکلات مندرجہ ذیل قسم کی ہیں:
خود غرض افراد کی خواہشات کا ’’طاقت‘‘ میں منتقل ہوجانا۔
وژنری اور ’’غیر وژنری‘‘ افراد میں فرق نہ کرنا۔
اپنے قومی اہداف کو پہچان نہ پانا۔
اپنے وژنری اذہان سے وسائل کو استعمال نہ کروانا۔
نااہل اشرافیہ کا طاقت ور ہونا اور وژنری افراد کو حاشیے پہ رکھنا۔
بار بار عدم جمہوری طاقتوں کا طاقت ور بننا۔
حب الوطنی کا غلط تصور رائج کرنا۔ حب الوطنی کے تصور کو اپنے قومی اہداف کی پہچان کرنے کی بجائے صرف ’’طاقت ور اشرافیہ‘‘ سے محبت تک محدود رکھنا۔
مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ وژنرری افراد کی جگہ’’ غیر وژنری‘‘ افراد کا غلبہ پا جانا۔

ہمارے پاس اپنے قومی اہداف کی تکمیل کے لیے وژن بھی ہے اور وسائل بھی مگر دونوں کے درمیان ہمیں بہت سی’’ مشکلات‘‘ کا سامنا ہے جو ان دونوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتیں، کام نہیں کرنے دیتیں۔ ہمیں وسائل کی فراہمی یا افراد کے وژنری ہونے کی اثبات و نفی کرنے سے زیادہ ان مشکلات کو پہچانا ہوگا جو قومی اہداف کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔