ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں !

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

(اصغر بشیر)
کسی بھی فرد، گروہ یا معاشرے کی تباہی کے لیے اس میں نظم و ضبط کا فقدان کافی ہے۔ ایک فرد ، گروہ یا معاشرہ کی خوشیوں اور کامیابیوں کا براہ راست تعلق ان کے اندر موجود نظم و ضبط کی کیفیات سے ہے۔ نظم و ضبط کا مطلب کسی بھی لحاظ سے یہ نہیں ہے کہ انسان کو سزا دے دی جائے یا پھر یہ کہ انسان ایک محدود دائرہ کار میں زندگی گزار ے۔ نظم و ضبط دراصل ان اعمال، افعال اور خیالات کا نام ہے جو بالآخر انفرادی و اجتماعی ارتقاء و ترقی پر منتج ہوتے ہیں۔ نظم و ضبط کی کمی وہ حالت ہے جو بالآخر ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ناکامی کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مزید براں یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعہ ہم ملکی اور معاشرتی سطح پر گھمبیرمسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ اسی طرح تعلقات کے مسائل، معاشی خسارہ اور شخصی طبعی مسائل بھی اسی وجہ سےزندگیوں میں درآتے ہیں۔
اس کو ایک سادہ مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک کمپیوٹر کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی آپریٹنگ سسٹم موجود ہو۔ اگر اس میں کوئی آپریٹنگ سسٹم نہیں ہوگا تو وہ جتنا مرضی اچھا کمپیوٹر ہو اس سے ہم چھوٹے سے چھوٹا کام بھی نہیں لے سکیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر وہ صلاحیت موجود نہیں ہے جو اس کی طاقت کو ایک خاص رخ میں موڑ دیتی ہے۔ یہی بات انسان کے لیے بھی درست ہے کیونکہ انسان کا دماغ ایک کمپیوٹر کی مانند ہے جو کہ اس کے تمام اعمال اور افعال کو کنٹرول کرتا ہے۔ایک انسان جس کا دماغ نظم و ضبط کے اصولوں سے عاری ہے وہ ایک ایسے کمپیوٹر کی مانند ہے جس سے کوئی کام نہیں لیا جا سکتا ۔ ایسا دماغ نمود ونمائش اور حیلے بہانےجیسے وائرس سے مسلسل متاثر ہو کر اپنی کارکردگی کا معیار گراتا رہتا ہے۔
ہمارے عام مشاہدے میں یہ باتیں آتیں ہیں جیسے مجھے مناسب خوراک کے لیے وقت ہی نہیں ملتااس لیے موٹاپا بڑھتا جا رہا ہے۔ میری تنخواہ نہیں بڑھتی اس لیےمیرے سر سے قرض نہیں اترتا۔ میں ہر وقت پریشان رہتا ہوں کیونکہ مجھے آرام کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ہماری درمیان اس لیے نہیں بنتی کیونکہ وہ ہر وقت کسی نئی چیز کا تقاضا شروع کردیتی ہے۔میں پریشانی ختم کرنے کے لیے سگریٹ پیتا ہوں۔میرے ساتھ کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ پہلے کیا کم مصیبتیں تھیں جو اک نئی مصیبت گلے پڑگئی ہے۔یہ اور اس طرح کی ہزاروں مثالیں دراصل ہمارے اس اندرونی رویے کی طرف اشارہ کرتیں ہیں جن کے تحت ہم لوگ اپنے کام ، الفاظ اور رویوں کو درست ثابت کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے استعمال کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ہر شخص کے مسائل مختلف ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان مسائل سے نپٹنے کے لیے دوسروں سے مختلف انداز اور طریقہ کار اختیار کرتا ہو لیکن انسانی زندگی میں نظم و ضبط کا فروغ ہی سب کامستقل حل رہا ہے۔ ۔
ہمارے معاشرے میں نظم و ضبط کے فقدان کی جڑیں سکول اور گھرکے ماحول میں تلاش کی جا سکتی ہیں کیونکہ یہی وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں پر بچے اپنے تشخص کی تشکیل کرنا سیکھتے ہیں اور انہیں اپنی شخصی، سماجی اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے۔ہمارے ہاں اس کا الٹا تصور پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں والدین پہلے بچے پر تجربے کرتے ہیں ۔ اس کی پرورش میں ہونے والی غلطیوں کو سدھار کر دوسرے بچے پر اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ یوں یہ تجربات جاری رہتے ہیں یہاں تک کہ بچوں کی تعداد ایک معاشی دباو بن کر ان کی زندگی کے سارے معاملات کو درہم برہم کردیتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ والدین کے پاس تجربہ تو ہوتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ذرائع نہیں ہوتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو پرورش کے ابتدائی مراحل سے نظم و ضبط کی تعلیم دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ والدین کو بھی تعلیم دی جائے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کو معاشرے کے کارآمد فردبنا سکتے ہیں۔
والدین کے بعد دوسرا تربیت کار استاد ہوتا ہے حکومتی اداروں کو چاہیے کہ نصاب تعلیم میں تعلیم و تربیت کے ان پہلووں کو بھی شامل رکھیں جو کہ بچوں کو تنظیم، خود پر قابو پانا، خواہشات کو دبانا اور ناامید ہوئے بغیر کوشش کرنے کی مشق کروائیں اور اسے اپنی تربیت کا مستقل حصہ بنائیں۔
ایک اور اہم چیز جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ایک عام انسان اپنی زندگی میں جو بھی کچھ سوچتا ہے اس کو کسی نہ کسی نے زندگی میں کسی نہ کسی طرح سے کیا ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو دیکھے کہ انہوں نے کس طرح اپنی زندگی میں مقصد کو حاصل کیا کیونکہ کہ دوسروں کی مشقت دیکھ کر انسان کو اپنے لیے محنت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔کسی معاشرے میں نظم و ضبط کا اس کے افراد کے ساتھ براہ راست تعلق ہوتا ہے ۔ اگرافراد کے اعمال درست ہو جائیں تو معاشرے کی قسمت خود بخود درست ہو جاتی ہے۔

افراد کے ہاتھو ں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اس لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے تئیں خود انتظامی کا مظاہرہ کرئے پھر ہی معاشرے کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ نظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے پایا جانے والا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہر طرح کے فیصلوں کو درست ثابت کرنا چاہتا ہے کیونکہ کوئی بھی انسان نہیں چاہتا کہ وہ دوسروں کے سامنے غلط نظر آئے۔ اسی صورت حال میں انسان اپنے فیصلوں کو ثابت کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کار پورے معاشرے پر پھیل جاتا ہے اور لوگوں کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ نقطہ نظر اور زندگی گزارنے کا طریقہ کار ان کی فطرت کا حصہ ہے اور وہ لوگ ہمیشہ سے ایسے ہی سوچتے اور رہتے آئے ہیں۔
نظم و ضبط کو زندگی میں لانے کے لیے ضرور ی ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اندر پائے جانے والے رویوں کا بہتر طور تصور حاصل کرئے اور اسے پتہ ہو کہ وہ زندگی کے کس پہلو میں اپنی کس مجبوری یا کمی چھپانے کے لیے اس نے کون سے حیلہ بہانہ استعمال کیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کا پتہ نہیں چلتا اس وقت تک اس کا مستقل حل نہیں کیا جا سکتا۔ پس جب ہم اپنے بہانوں کی پہچان حاصل کرلیتے ہیں، اس کے بعد ہی ہم اپنے اصل مسائل کو حل کرنے کا سوچنے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بطور انسان ہم غلطیاں کرتے رہتے ہیں لیکن کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کم از کم یہ تو ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر وہ اصول پیدا کریں جن کے ذریعہ ان غلطیوں کے ہماری زندگیوں پر کم سے کم اثرات ہوں۔
ہم بطور انسان ترقی و ارتقا ء کی ہمیشہ سے تلاش میں رہے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب یہ کوششیں خاص اصول دائرہ کار میں ہوں تو اس سے نہ صرف شخص کو فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا مجموعی طور پر معیار زندگی بھی پروان چڑھتا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشروں میں ہر کوئی شارٹ کٹ کے چکروں میں ہوتا ہے اور راتوں رات اپنی سوچ کو پورا کرنے کے لیے افراد کسی بھی اصول کو توڑنے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے معاشروں میں زندگی کی ہر چیز اور زندگی کا ہر پہلو زوال پذیر ہونے لگتا ہے۔ جیسے ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔ ان سارے مسائل کا حل انسان کے دماغ میں چھپا ہوا ہے۔ انسان کی سوچ اس کی راہ متعین کرتی ہے۔ اگر سوچ بدل لی جائے تو سب کچھ بدل سکتا ہے۔ جیسے مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ اچھی صحت کے لیے، اپنی گھر میں خوشیاں لانے کے لیےاور امن و سلامتی کے لیے آدمی کو چاہیے کہ نظم و ضبط سیکھے اور اپنے ذہن پر قابو پانا سیکھے۔ اگر ایک آدمی اپنے دماغ پر قابو پا سکتا ہےاسے روشنی و بصیرت کا راستہ مل سکتا ہے اور پھر ساری دانائی اور نیکی قدرتی طور پر اس کی طرف رجوع کرئے گی۔