گھریلو خواتین کے ڈائجسٹ

(شہلا قربان)

ا
ڈائجسٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنٰی خلاصہ، انتخاب ، مجموعۂ مضامین کے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈائجسٹ سے مراد ایسی کتابی صورت ہے جس میں ہر عمر ، ہر ذوق اور ہر طبقہ فکر کے قاری کے لیے مختلف النوع مطالعہ جاتی مواد موجود ہو۔
ڈائجسٹ کی مختصر تاریخ :۔ برصغیر میں سر سید نے ”سپیکٹر” اور ”ٹیٹلر ” سے متاثر ہو کر ”تہذیب الاخلاق ” کا اجرا کیا تھا۔ جس میں ہر قسم کے علمی ، تحقیقی اور سائنسی مضامین شائع ہوتے تھے۔ سرسید کے پیش نظر مسلمان قوم کی تہذیبی اور اخلاقی دلچسپی تھی اور ساتھ ہی ساتھ عام آدمی کی دلچسپی اور ذوق کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا۔ یہی نقطہ نظر ڈائجسٹ کے اجراء کی بنیاد بنا ، لہٰذا ہم ”تہذیب الاخلاق ”کو ہی ڈائجسٹ ادب کی تاریخ کا نقطہ آغازتسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ڈائجسٹ کا آغاز ۱۹۶۰ء سے ہوتا ہے جب قریشی برادران یعنی الطاف حسین قریشی اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے پاکستان میں ”اردو ڈائجسٹ” کی اشاعت کا آغاز کیا۔ قریشی برادران دراصل امریکی ڈائجسٹ ”ریڈرز ” سے متاثر تھے۔ جوکہ اپنے مضامین کے تنوع اور معلومات عامہ کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے اور دنیا کی تیرہ زبانوں میں ہر ہفتے ایک کروڑ کی تعداد میں چھپتا ہے۔
”اردو ڈائجسٹ” کی مقبولیت کتاب دوستی کے فروغ کا باعث بنی اور بعد ازاں کراچی سے ہی ”سیارہ ڈائجسٹ ” اور ”حکایت ڈائجسٹ” بھی شائع ہونے لگا اور یوں کراچی میں ڈائجسٹ صحافت نے خوب زور پکڑا اور ”سب رنگ ” جاسوسی ” ”سسپنس” ”الف لیلہ” جیسے ڈائجسٹ آئے اور بعد ازاں خواتین کے لیے ڈائجسٹوں کا ایک سیلاب امڈ آیا جن میں ”خواتین””پاکیزہ”،”شعاع”،”کرن” اور دوسرے بہت سے خواتین ماہنامے شامل تھے۔ڈائجسٹ کے قارئین میں خواتین کی تعداد نسبتاً زیادہ رہی اور وہ بھی گھریلو خواتین، کیونکہ گھریلو خواتین کے لیے ڈائجسٹ ایک بہترین ذہنی تفریح ثابت ہوا جو کہ مناسب ترین قیمت میں تفریح طبع کے تمام پہلوؤں سے لیس ہو کر خاتون خانہ کی دلی بستگی کا سبب بن گیا۔ ڈائجسٹ کی نمایاں ترین خوبی یہی رہی ہے کہ اس میں تقریباً ہر فرد کی دلچسپی کا سامان موجود ہوتا ہے ۔ لہٰذا قاری کو ایک ہی رسالے میں تاریخ ، سیاسیات ، رومانویت ، جرم و سزا ، مزاح، طربیہ ، طبی معلومات ، باورچی خانے کے مشورے،بنائو سنگھار ،قانونی مشورے ، ستاروں کی چال ، خوابوں کی تعبیر غرضیکہ ہر قسم کی حسب منشاء تحریریں مل جاتی ہیں۔ گویا کہ ڈائجسٹ ”عمرو عیار کی زنبیل” ہے کہ جس میں دنیا بھر کے ہر مسئلے کا حل موجو دہوتا ہے اور ذہنی تفریح کا باعث بھی۔ ڈائجسٹ کے قارئین میں ۹ سال کی عمر سے لے کر نوے سال کی عمر کے بوڑھے افراد تک شامل ہیں۔
گھریلو خواتین ڈائجسٹ کیوں پڑھتی ہیں؟ ڈائجسٹ کے مطالعہ سے کس قسم کی ذہنی و قلبی تسکین ہوتی ہے؟ ڈائجسٹ کا مطالعہ وقت کاٹنے کا ذریعہ ہے یا معلومات حاصل کرنے کا اور خاص طور پر خواتین میں ڈائجسٹ ادب کے مطالعہ کی نفسیاتی وجوہات کیاہیں ؟ان سوالات کے جوابات کے حصول کے لیے ایک شماریاتی سوالنامہ ترتیب دیا گیا اور پھر حاصل کردہ جوابات کی روشنی میں، ان نفسیاتی وجوہات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا جو ڈائجسٹ ادب کا مطالعہ کرنے والی خواتین کے رحجان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ شماریاتی سوالنامہ خاتون کی تعلیم، پیشہ، عمر اور ازدواجیت کے مندرجات کا احاطہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات پر مشتمل ہے۔
۱۔ آپ کیا کیا پڑھتی ہیں؟
۲۔ کون سے ڈائجسٹ کا مطالعہ کتنے عرصے سے کررہی ہیں؟
۳۔ ڈائجسٹ میں سب سے زیادہ شوق سے کس قسم کی تحریریں پڑھتی ہیں؟
۴۔ ڈائجسٹ کہانیوں میں کس قسم کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں؟
۵۔ کیوں اچھی لگتی ہیں کیا کسی ذاتی مناسبت سے ؟
۶۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ڈائجسٹ کا مطالعہ ماحول سے فرار ہے؟
۷۔ گلوبل ویلج میں ڈائجسٹ ادب کے مطالعہ کی اہمیت و افادیت ؟
جو حقائق مندرجہ بالا سوالات کے ذریعہ حاصل ہوئے ان جوابات کے نتائج کو ہم نے بلحاظ عمر تین طرح کے نظریاتی گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا نظریاتی گروہ( اٹھارہ سے بیس سال )
اس نظریاتی گروہ میں زیادہ تر نو عمر لڑکیاں جو کہ طالبات بھی ہیں، شامل ہیں کیونکہ کمپیوٹر کے اس جدید دور میں نئی نسل کی نمائندہ خواتین کے ڈائجسٹ مطالعہ کے بارے خیالات و نظریات معلوم کرنا اہمیت کا حامل ہے۔
سوالنامے /سروے سے پتہ چلا کہ نوجوان خواتین اکثر و بیشتر ڈائجسٹ ادب کا مطالعہ کرتی ہیں لیکن نئی نسل کی خواتین ڈائجسٹ کے رومانوی ادب میں سر تا پا غرق ہونے کو بالکل تیار نہیں کیونکہ وہ آج کی سائنسی اور حقیقی دنیا میں رہ رہی ہیں اور خوابوں کی غیر حقیقی دنیا ”قصۂ پارینہ” بن چکی ہے۔ ان نوجوان خواتین کے جوابات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ آج کی نوجوان لڑکیاں معلوماتی ادب کو بھی بہت ترجیح دیتی ہیں اور انھیں اپنے مذہب سے بھی جذباتی لگائو ہے ۔روح کی طبعی اور جبلی فطرت انھیں ذہنی تفریح پر راغب ضرور کرتی ہے چنانچہ ہلکی پھلکی رومانوی تحریریں انھیں شگفتہ ضرور رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں جوابات کی روشنی میں ہم یہ جان پائے ہیں کہ آج کی نوجوان خواتین ہمت و حوصلے اور خود اعتمادی سے بھرپور ہیں اور وہ دنیا کو کھنگالنا چاہتی ہیں ۔ مزید بہت کچھ جاننا چاہتی ہیں اس لیے وہ سائنسی ، سیاسی تجزیے ،معلومات عامہ، مذہبی صورت حال اور عالمی صورت حال سے مکمل طور پر با خبر رہنا چاہتی ہیں۔ نوجوان خواتین حقیقت پسند اور (A Fool Paradize)میں رہنا پسند نہیں کرتیں اس لیے ڈائجسٹ ادب کے مطالعہ کو ماحول سے فرار نہیں بلکہ محض وقت گذاری کا ایک اچھا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ مزید یہ کہ ان جوابات سے یہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں کہ نوجوان گروہ کا رحجان (باوجود ڈائجسٹ یا میگزین مطالعہ کے) اپنی نصابی تعلیم کی طرف ہے اور وہ نصابی مطالعہ کو ہی اپنے لیے اہم ترجیح قرار دیتے ہیں ۔ البتہ کہیں کہیں تناسبی حوالے سے چند فیصد خواتین ،ڈائجسٹ کی رومانوی فضا میں رہنا پسند کرتی ہیں اور ایسا انھی حالات میں ہوتا ہے جہاں فرد کی کرداری تشکیل میں کوئی نفسیاتی یا جذباتی عنصر وابستہ ہو نیز یہ کہ جوان نظریاتی گروہ کی نمائندہ خواتین کمپیوٹر معلومات کو ہی پسندیدہ ذریعہ معلومات شمار کرتی ہیں البتہ کتاب یا ڈائجسٹ کو بھی غیر اہم تصور نہیں کرتیں اور وقت گزاری کے لیے ذہنی تفریح کا درجہ دیتی ہیں۔
دوسرا نظریاتی گروہ (تیس سے پچاس سال )
اس گروہ کے جوابات سے جو تحقیقاتی نتائج سامنے آئے ہیں ان سے مجموعی طور پر پتہ چلا کہ گھریلو خواتین خانہ میں سے بیشتر مجموعی طور پر ڈائجسٹ کا مطالعہ کرتی ہیں اور اکثریت زمانہ طالب علمی سے ہی ڈائجسٹ کا مطالعہ کرتی آ رہی ہیں۔ اس گروہ کی خواتین کے جوابات سے یہ صورت حال بھی واضح ہوئی ہے کہ اس عمر کی تمام تر خواتین نے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ڈائجسٹ کا مطالعہ ضرور کیا ہے اور یہ حقیقت ہمارے بڑے شہروں کی سماجی صورت حال میں واضح دکھائی دیتی ہے۔
اس گروہ کے سروے سے یہ شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ گھریلو خواتین بھی حالات حاضرہ سے باخبر رہنا پسند کرتی ہیں اور دنیا کی معلومات رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اپنے معاشرتی و سماجی سیدھے سادے گھریلو ماحولیاتی ڈھانچے کے باوصف اسی فیصد خواتین کا ذہنی معیار ان خواتین سے کافی بہتر ہوتا ہے جو ڈائجسٹ کا مطالعہ نہیں کرتی تھی۔
تیسرا نظریاتی گروہ(پچاس سے ستر سال)
ڈائجسٹ یا رسالہ پڑھنے کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے یہ نظریہ ہمارے سروے کے مطابق ہمارے تیسرے نظریاتی گروہ کے نتائج سے سامنے آیا ہے ۔ آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے جب ڈائجسٹ متعارف کرایا گیا اس سے بہت پہلے پاکستان میں اور اس سے بھی پہلے برصغیر میں ادبی افسانے ، ناول ، داستانیں لکھنے اور پڑھنے کا رواج مروج تھا۔ لہٰذا اسی تناظر میں جب ڈائجسٹ اپنے اندر رنگا رنگ جہتیں لے کر شائع ہوا تو ہماری گھریلو خواتین جو افسانوی ادب کے مطالعے کی گرویدہ تھیں۔ انھوں نے فی الفور ڈائجسٹ کے ابتدائی مرحلے میں اس کا والہانہ استقبال کیا اور اس کو اپنی گھریلو زندگی کے معمولات میں فوری طور پر شامل کرلیا۔ ہمارا تیسرا نظریاتی گروہ ایسی ہی خواتین کی نمائندگی کرتا ہے جنھوں نے ڈائجسٹ کے ابتدائی دور سے ہی اسے اپنی زندگی میں لازم و ملزوم کیا۔ اس گروہ کے جوابات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ڈائجسٹ پڑھے لکھے گھرانوں کے معمولات میں شامل تھا ۔ گھریلو خواتین عام ادب کی بجائے سسپنس ، ایڈونچر اور کہانیاں پڑھنے میں دلچسپی لیتی ہیں جو کہ مغرب سے درآمدی ادب کے ترجمے پر بنیاد رکھتی ہیں۔ اس گروہ کی خواتین کے رحجان سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ہماری پختہ عمر کی گھریلو خواتین سادہ منظر نامے سے نظر ہٹا کر جدیدیت کے رحجانات کو پسندکرتی ہیں ۔ ایسی جدیدیت جس میں ذہانت کے ساتھ مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا جاتا ہے، رکاوٹوں کو دور کیا جاتاہے اور خاص طور پر یہ ذہنی رحجان بتاتا ہے کہ ہماری گھریلو پختہ عمر خواتین میں ذہنی صلاحیتوں اور شعوری حسیات کی کس قدر صلاحیت موجودہے۔ اس کے علاو ہ اس نظریاتی گروہ کی خواتین کی پیدائش زیادہ تر ساٹھ اور ستر کی دہائی سے تعلق رکھتی ہے جبکہ کمپیوٹر ہمارے سماجی معاملات میں بالکل دخیل نہیں تھا لہٰذا گھریلو خواتین کے لیے ڈائجسٹ ادب کا مطالعہ بہترین ذہنی تفریح کا ذریعہ تھا اور ہر ماہ خواتین بے چینی سے ڈائجسٹ کے شمارے کا انتظار کیا کرتی تھیں۔
ان سوالوں کی روشنی میں ہم نے خواتین کی معلومات ، ذوق ، پسند اور مختلف ادبی رحجانات کا جائزہ لیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس گروہ کی خواتین چونکہ ڈائجسٹ کے ہر گوشے کا مطالعہ کرتی تھیں جن میں اقوال زریں، اشعار اور لطائف وغیرہ بھی شامل تھے لہٰذا ان خواتین کوسنجیدہ اور معلوماتی ڈائجسٹ جیسے ”اردو ڈائجسٹ ” والدین کی طرف سے نہ صرف پڑھنے کی اجازت تھی بلکہ تاکید بھی تھی ۔ تیسرے گروہ کے موصولہ جوابات سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ ہماری بزرگ خواتین کس قدر باخبر اور باشعور ہیں اور مزید یہ کہ ان کے علم اور معلومات کا معیار کس قدر بلند تر ہے۔ ان کی دنیاوی ڈگریاں کوئی قابل ذکر نہیں مگر حافظے اور معلومات میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ علاوہ ازیں حاصل کردہ نتائج سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈائجسٹ ادب ابتدا سے ہی تاریخی ، سیاسی ، مذہبی اور سائنسی معلومات خواتین کو مہیا کرتا رہا ہے تو جو خواتین باقاعدگی سے ڈائجسٹ کا مطالعہ کرتی رہی ہیں ان کی معلومات اور ان کی خود اعتمادی دیگر خواتین کی نسبت کہیں زیادہ ہے جو ڈائجسٹ کا مطالعہ نہیں کرتی رہیں۔مجموعی طور پر اس سروے سے ہمارے سامنے جو نتائج آئے ہیں ان کو چیدہ چیدہ الفاظ میں مختصرا ًاس طرح بیان کیا جا سکتا :۔ہماری بیشتراور ہر عمر کی خواتین ڈائجسٹ ادب کے مطالعہ کی عادی ہیں۔ شہری علاقوں میں یہ تناسب ذرا کم اور چھوٹے شہروں اور قصبوں میں یہ تناسب زیادہ ہے ۔ اور کمپیوٹر دور میں تو یہ تناسب پچھلی دو دہائیوں میں مزید کم ہوا ہے۔
٭ خواتین کی اکثریت ڈائجسٹ ادب کے مطالعہ میں ایڈونچر اور مغربی فکشن کو پسند کرتی ہیں۔
٭ سنجیدہ اور پختہ عمر کی خواتین تاریخی ، اسلامی اور سیاسی تحریروں کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔
٭ جو قدر مشترک ہے اور ہر عمر کی خواتین میں ڈائجسٹ ادب کے مطالعہ کے حوالے سے پائی جاتی ہے وہ مذہبی رحجان ہے۔ جہاں تمام عمر کی خواتین مذہبی اور اسلامی تحریروں کو پسند کرتی ہیں۔
٭ ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ہر دور میں ہماری خواتین نے معلوماتی ادب کا مطالعہ کیا خواہ وہ مطالعہ تاریخی ہو یا اسلامی ،ادبی یا سیاسی، ہماری گھریلو خواتین اپنے گھریلو امور اور ذمہ داریوں کے علاوہ مطالعہ کرنا پسند کرتی ہیں۔
٭ مختصراً ہماری گھریلو خواتین بھی اتنی ہی متحرک ، پراز معلومات، خود اعتماد اور فعال ہیں جتنی کہ باہر کے ماحول میں نوکری کرنے والی یا اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین۔ گویا ڈائجسٹ نے پچھلے زمانوں میں معلومات اور تفریح مہیا کرنے کا وہی کام سرانجام دیا ہے جو کہ آج کے دور میں کمپیوٹر کررہا ہے۔ ہاں مگر نہایت حوصلہ افزااورخوش آئند پہلو اس ساری کاوش کا یہ ہے کہ ہماری گھریلو خواتین کسی بھی صورت ذہنی معیار، یا جستجو کی لگن سے کم نہیں اور زندگی کے ہر میدان میں خواہ وہ ذہنی ہو یا عملی پورا اترنے کی کما حقہ’ صلاحیت رکھتی ہیں۔
٭٭٭٭