کشمیر میں دو جڑواں گاؤں’’ کنن ‘‘ اور’’ پوش پورہ ‘‘ کی کہانی (پہلا حصہ)

( عطش بلال ترالی)
کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے Do you remember Kunan poshpora? ۔یہ دراصل ایک انگریزی کتاب کا نام ہے ۔ جو 2016میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب حقیقت میں اس رات کی داستان ہے جب کشمیر میں دو جڑواں گاؤں ’’کنن اور پوش پورہ‘‘ میں23 فروری 1991کی رات تقریباً ۱۷۰ سے زائد فوجیوں نے ۵۵ سے زائد عورتوں کے ساتھ عصمت دری (mass rape ) کیا اور مردوں کے ساتھ بھی بے دردری سے جسمانی تشدد کیا ۔ یہ کتاب دراصل ان مظلوموں کے انصاف کی وہ کہانی ہے جو آج ۲۵ سال گز رنے کے بعد بھی انصاف خلا میں ہی معلق ہے۔اس کے لکھنے والے کشمیر کی پانچ لڑکیاں ہیں۔جن کا نام ایثار بتول، افرابٹ، سمرینا مشتاق، منزہ رشید، اور نتاشا راتھر ہے۔ یاد رہے کہ اس کتاب کو انڑنیشنل ڈیولمپنٹ ریسرچ سنٹر IRDC کینڈا کی طرف سے S.V.I یعنی sexual violence and impunity کے تین سالہ پروجیکٹ کے تحت لکھوا یا گیاہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد ایک ہی تھا کہ سویت ایشا ء میں کس طرح عورتوں کے ساتھ عصمت دری کی جاتی ہے اور پھر یہ مرتکب ( ملزم) آسانی کے ساتھ سزا سے بری ہوتے ہیں۔اس پروجیکٹ کے ساتھ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے نو advisors کام کر رہے تھے۔اس پروجیکٹ کے تحت ابھی تک ان پانچ ملکوں میں تقریباً آٹھ کتابیں عورتوں کے جنسی تشدد پر لکھی گئی ہیں،جن میں کشمیر کے ماس ریپ پر “Do you remember kunun poshpora”ایک نہایت ہی کتاب ہے ۔
بنیادی مآخذ کے ساتھ اس case کے بارے میں روشنی ڈالتی ہے۔اس پروجیکٹ کا مقصد تھا کہ کس طرح ہم عصر سیاست کی آرڈ میں عورت کس طر ح جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔اس کتاب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح متضاد خطوں ( وار زون )میں عورتوں پر جنسی تشدد کر کے اس کو جنگ کا ہتھیار بنایا جاتا ہے۔جس سے دبے ہوئے لوگ ظلم کے خلاف اپنی آواز کبھی بلند نہیں کر سکتے ہیں۔یہ ہر war zone یعنی جنگی میدان میں اپنایا جاتا ہے۔کیوں کہ پھر ان لوگوں کی نفسیات میں خوف ایسا رچ بستا ہے کہ وہ کبھی ظلم کے خلاف آواز بلند کر نہیں کر پاتے ہیں۔
اس کتاب کے پہلے صحفے پر ہی ایک مشہور عورت اور سوشل اکیٹوسٹ عورت ارن دتی رائے کا قول ہے ’’it is a little revolution in itself ’’یہ کتاب ایک چھوٹا سا انقلاب ہے ‘‘ اتنا ہی نہیں بلکہ کتاب کے تیسرے صحفے پر بھی ایک مظلوم عورت کا مقولہ اس طرح ہے ۔جو پوری کتاب کی جان ہے۔
’’ we know that if we remained silent , they would do it again , if not in our village then somewhere else”
’’ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم اس بار خاموش رہیں ، تو وہ یہ حیوانیت اور جنسی تشدد ( mass rape)
اگر ہمارے گاؤں میں نہیں تو کسی اور بستی میں ضرور انجام دیں گئے۔‘‘
یہ کتاب کل ملاکر سات ابواب پر مشتمل ہے ۔جو ان پانچ لڑکیوں نے بڑی محنت اور لگن اور بنیادی مآخذ اور حقائق کے ساتھ تحریر کیں ہیں۔اس کتاب کا ہر ورق سچائی اور حقیقت کی تحریروں سے سجا ہوا ہے۔ کتاب آفرید فریدی کے ایک نظم ’’ بونی تل‘‘ ’’چنار کے نیچے‘‘ beneath the chinarسے شروع ہوتی ہے یہ نظم بھی ظلم و جبر کی عکاسی کرتی ہے۔اور جبریت کی وہ تصویر پیش کرتی ہے جس سے ہرذی حس انسان چونکتا ہے۔اس کے بعد کتاب کا تمہید صبا حسین صاحب نے خوبصورت لکھا ہے ۔ جو پوری کتاب کا نچوڈ محسوس ہوتا ہے ۔جو اس کتاب کی شہ رگ کا کام کرتی ہے۔کم لفظوں میں پوری کتاب کا خلاصہ لگتا ہے ۔اس کتاب کے سات بواب یوں ہے۔
kunan poshpora and women in kashmir(1) ( کشمیر میں عورت، اور کنن پوش پورہ)
2)) making sense of the kunun poshpora mass rape : sexual violence and impunity in kashmir
(3) that night in kunun poshpora ( کنن پوش پورہ کی وہ رات)
(4) life in kunun poshpora today( کنن پوش پورہ میں آج کی زندگی)
(5) inquiries and impunities(تحقیقات اور پھر سزا سے اِ ستشنا)
(6) people who remember( وہ لوگ ، جو ابھی اسے یاد رکھے ہیں)
(7)the recent struggle .an insiders view ( حال کی جدو جہد اور اس کیس کے بارے میں واقف کاروں کی رائے)
کنن پوش پورہ کیا ہے؟ دراصل یہ کشمیر میں دو جڑواں گاؤں کے نام ہیں۔جو یہ حادثہ گٹھنے کے بعد ایک ہی نام بن گیا ہے۔یہ دونوں گاؤں کشمیر کی راجدانی سری نگر کے شمال میں ۸۰ سے لے کر ۹۰ کلو میٹر کی دوری پر ڈسٹرک کپوارہ میں آباد ہیں۔یہ کپوارہ سے ۲۰ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ۔جو انٹر نیشنل سرحد سے نزدیک ہیں۔یہ کہانی اس جنسی تشدد کی ہے جو فوج کی ایک وحشتیانہ حرکت تھی۔پولیس کے بیان کے مطابق ۲۳ فروری ۱۹۹۱ء میں تریہگام آرمی کیمپ سے ۴ راج پوتانہ ریفلز اور 68 mountain brigde کنن پوش پورہ کو اپنے حصار میں لینے کے نکلتے ہیں ۔ پہلے وہ ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر آف پولیس محمد سلطان کو انفارم کرتے ہیں جس پر وہ ان دو پولیس کالنسٹیبل عبدل الغنی اور بشر احمد کو ان کے ہمراہ بھیج دیتا ہے۔عبدل الغنی اسی گا ؤں کا ساکن ہوتا ہے۔یہ رات بہت ہی سرد ہوتی ہے کیوں کہ ہر طرف برف کی موجودگی اور منفی موسم ہونے کی وجہ سے ہر شے منجمد ہوتی ہے اور اسی رات میں فوج کنن پوش پورہ پہنج کر پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لیتی ہے۔اور رات کے گیارہ بجے مساجد پر اعلان کر کے سب مردوں کو باہر نکلنے کے کہا جاتا ہیں،جس کو کریک ڈون کہتے ہیں۔اور مردوں کو بولا جاتا ہے کہ عورتوں کو گھروں میں اکیلا چھوڈا دو اور مردوں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جمع ہوتے ہی ان پر جسمانی ظلم اور مار پیٹ شروع ہو جاتی ہے اور جو لوگ ضعیف العمر ہوتے ہیں ان کو فوج بعد میں زبردستی سے ان کے گھروں کے دروازے توڑ دیئے جاتے ہیں اور ان کو گھسیٹ کر باہر نکالا جاتا ہے اور اس دوران روشنی کے ہر اس آلات کو توڑ دیا جاتا ہے۔جو روشن ہوتا ہے یعنی لالٹین سے لے کر بجلی بلبوں تک کو نہیں بخشا جاتا ہے۔اور لوگوں کو third degree کا torture کیا جاتا ہے۔اور اس کے بعد باقی فوجی گھروں میں جاکر عورتوں پر جنسی تشدد کا پہاڑ گرا دیتے ہیں۔اور تقریباً ۵۰ سے زائد عورتوں کے ساتھ بے دردی اور بے رحمی سے عصمت دری کرتے ہیں اور پوری رات یہ حیوانیت کا ناچ جاری رہتا ہے۔اسی تناظر میں ایک عورت جو اس حیوانیت کا شکار ہے کہتی ہے۔
’’ تین آرمی والوں نے مجھے پکڑ کر اور ۸ سے لیکر دس آرمی والے مجھ سے باری باری عصمت دری (ریپ) کرتے رہے۔ان کے پاس بڑی بڑی بیٹریاں تھیں۔ان کو جلا کر روشن کرتے تھے اور میری ننگی جسم کو دیکھتے رہے اور پھر فحش کمنٹس پاس کرتے تھے۔وہ میرے ساتھ یہ حیوانیت کا کام تقریباً۴ گھنٹے کرتے رہے ۔جس سے میں بعد میں بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔‘‘ (صفحہ نمبر ۸۳)
اتنا ہی نہیں بلکہ جو بچے شیرخوار تھے ان کو ان کی ماؤں سے جدا کیا گیا اور حیوانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بچے کو کھڑکی سے باہر برف پرپھینک دیا گیا اور اس کی ماں سے عصمت دری کی گئی اور اور بہت سارے فوجیوں نے مل کر اس کے ساتھ بھی حیوانیت کا اسیا سلوک کیا جس سے وہ بھی بے ہوش ہو گئی تھی ۔عبدل الغنی کانسٹیبل کہتا ہے ۔
’’ جب میں صبح گاؤں میں ایک گھر کے آنگن میں پہنچا تو میں نے ایک بچے کو بے ہوشی کی حالت
میں برف پر چلا تے ہوئے پایا میں گیا اور اس سے اٹھایا جس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی مگر میں
نے اس اٹھا کر اس گھر کے ورنڈا پر رکھا ،جو نہی میں اند ر گیا تو دیکھا کہ ایک عورت بے ہوش
پڑی تھی،میں نے اس پانی پلاکر ہوش میں لایا اور بولا آپ کا بچہ باہر ہے زندہ ہے اس سے
اندر لے آئے۔مگر وہ اس حالت میں نہ تھی کہ اس کو اندر لاتی اور جب مرد باہر سے آیا تو پھر
اسی نے اس کو گھر کے اندر لے لیا۔‘‘
اسی رات میں ایک survivour یعنی مظلوم کا ایک رپورٹ جو اس نے jkccs and sgkpکے سامنے پیش کیا ہیں۔ وہ کہتا ہے
’’ میں نے رات میں جب چیخ و پکار کی آوازیں سن لی اور مجھے لگا کہ کچھ آوازیں میرے سحن
میں بھی ہو رہی ہے جو نہی میں نے کھڑکی کی اور جھانکا تب تک آرمی والے میرے آنگن میں
گھس گئے تھے اور بنا اجازت باقی لوگوں کی طرح میرے گھر کے دروازے تھوڑ کر مجھے بھی اپنے گھر
والوں سے جدا کیاگیااور میرے گھر میں بھی تین عورتیں تھیں۔جو نہی مجھے گھسیٹ کر عبدل الغنی
ڈار اس عمارت میں لیا گیا جہا ں انہوں نے انٹراگیشن سنٹر بنایا تھا ۔اور لوگوں کو بے دردی
سے مار پیٹ کر رہے تھے اور کچھ لوگوں کو برف پر ننگے جسم لٹادیا تھا اور وہاں چیخ و پکار کا ایسا
عالم تھا کہ آوازیں فلک بوس تھیں۔‘‘ صحفہ نمبر 79
عبدل الغنی جو ایک کانسٹیبل کی حثیت سے فوج کے ساتھ گیا تھا اور کنن گاؤں کا رہنے والا تھا۔جب یہ حال دیکھتا ہے تو وہ کچھ عورتوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے مگر آرمی والے اس کو ایک گوشالے میں بند کرتے ہیں اور پھر اس کو صبح صادق کے وقت دروازہ کھول کر رہا کرتے ہیں۔یہ ایک عین شاہد ہوتا ہے جو سب کچھ جانتا تھا مگر یاد رہے اس چشم دید گواہ کوبھی فوج 1993میں بربریت سے مار ڈالتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے عین شاہد کو مٹادیتی ہے۔یہ واقعہ صحفے نمبر 85 پر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
اور اس کیس کے پہلا F.I.R بد قسمتی کی وجہ سے 15 دن کے بعد درج ہوا تھا ۔آگے آنے والوں ابواب میں سب تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
2)) making sense of the kunun poshpora mass rape :
sexual violence and impunity in kashmir
اس باب میں بھی عصمت دری اور جنسی تشدد کا بیان ہوا ہے ۔ااس باب میں یہ دکھا یا گیا کہ کس طرح 51 سے زائد عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کو گورمنٹ مشینری نے بہت سارے اکاذیب کا سہارا لے کر اس پورے واقعے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور کیسے آفت رسیدہ( مظلوم عورتوں) کو انصاف دینے کے بجائے ان پر ہی دغابازی اور غداری کا الزام لگا دیا۔ f.i.r درج کر نے کے بعد بھی کس طرح پولیس نے بعد میں اس کیس کو کہuntrace کہہ کر بند کیا۔اس کے بعد جتنی بھی رٹ دائر کی گئی تھی سب کو اسی طرح نکارا گیا۔۱۹۹۱ سے لے کر ۲۰۰۴ میں ان لوگوں نے state human rights commission کی ایک vedict سے اس کیس کو ایک بار دوبارہ جانچ پڑتال ہوئی ۔لیکن پھر بھی گورمنٹ کے ہتھکنڈوں سے اس بار بھی وہی نتیجہ ملا جو پہلے ملا تھا۔ اس باب میں کنن پوش پورہ کی جغرافیہ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تاریخ کے کچھ اہم موڑ اور پنوں کا ذکر بھی کیا ہے۔جس میں دکھایا گیا غلامی کا آغاز کیسے ہوا کشمیر میں کہ کس طرح armed struggle کا وجود ہوا اور
کس طرح1987 کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے مسلم ،یونیٹ، فرنٹ(M.U.F) کو کس طرح دھوکے اور طاقت سے ہرا کر شکست دی اور پھر لوگوں کو تب سے سیاست سے بھروسہ ہی اٹھ گیا اور پھر armed struggle شروع ہوئی جو رائے شماری اور حق اداریت کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس باب میں کنن پوش پورہ کے ماس ریپ کے علاوہ کشمیر میں اور بھی بہت سارے ایسے واقعات کا ذکر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔جیسے جنوری ۱۹۹۲ میں ریشی پورہ انت ناگ میں 5 راشڑیا ریفلز نے ایک گھر میں جاکر پہلے دولڑکیوں کے باپ کو اغوا کیا اور پھر ایک میجر نے بڑی بیٹی اور ایک سپاہی نے چھوتی بیٹی کے ساتھ ۹۰ منٹوں تک عصمت دری کی اور بعد میں ان کے گھر کو آگ لگا دی ۔اور پورے گھر کو جلا دیا اور بعد میں یہ دونوں بہینیں رات کے وقت ندی کے کنارے ایک غسل خانے میں ساری رات گزارتی ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ۱۰ دسمبر ۱۹۹۲ میں چک پورہ شوپیاں میں ۹ عورتوں کے ساتھ 22 grenadiers آرمی نے ریپ کر دیا جس میں ایک گیارہ سال کی معصوم لڑکی کے ساتھ ایک ساٹھ سال کی بوڑھیا بھی تھی۔اس کیس کو بعد میں untrace کہہ کر ختم کر دیا اور کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ۔
اس کتاب کے صفحہ نمبر ۵۲ اور ۵۳ پر یہ واقعات تفصیل سے بیان ہوئے اور کشمیر کے پازی پورہ میں جب آرمی والوں نے گھات لگا کر ۸ سے لے کر نو عورتوں کا ریپ کیا اور پھر نعرے لگا ئے جے ہند جے ہند کہہ کر پورے فضا گونج اٹھی تھی۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ریپ کر کے جے ہند کا نعرہ لگانا ہندوستان کی آرمی نے کس طرح ریپ کاnotion کتنا nationhood کے ساتھ جوڑا دیا ۔اور کشمیری عورت کا ریپ کر کے ہندوستان کی عزت میں کیسا اضافہ ہوتا ہے۔یاد رہے ماس ریپ( mass rapes) ہر وار زون میں ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔جس سے اس قوم کی نفسیات پوری طرح مفلوج ہو جاتی ہے اور پھر وہ کبھی اپنے حق مانگنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔اوریہ تدابیر اس لیے اپنائے جاتے ہیں تاکہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہ ہو جائے۔بلکہ کشمیر جیسے وار زون میں جنسی تشدد نہ صرف عورتوں کے ساتھ ہوا بلکہ اس جنسی تشدد کے ہزاروں کی تعداد میں مرد بھی شکار اس کے شکار ہوئے ہیں۔لیکن ان کے ساتھ یہ ایک torture کے طور پر استعمال کیا گیا ہیں۔بلکہ یہاں ان مردوں کو torture کے دوران ان کے private parts کو الکٹرکshocks دے کر ان کو ہمیشہ کے لیے ناکارہ کر دیا۔
اس باب میں کشمیری عورت کے ساتھ ساتھ منی پوری عورتوں کے ساتھ فوج کے ہاتھوں جنسی تشدد کابیان بھی ہوا ہے ۔جس میں ایک عورت کی خون آشیام داستان بھی ہے کہ کس طرح 17 assam riffles نے11 جولائی 2004 کو ایک منی پور کی عورت کو رات میں گھر سے اٹھایا اور پھر کھیتوں میں اس کا ریپ کر کے گو لیوں سے اڑا دیا جاتا ہے اس کے جسم میں پھر تقریباً ۳۶ گولیاں لگائی جاتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ گولیاں اس کے پرا ئیوٹ پارٹ میں بھی لگا ئی جاتی ہے۔اس باب میں بہت سارے جنسی تشدد کا بیاں تفصیل اور تحقیق کے ساتھ بیان ہو ئے ہیں۔جس سے پڑ ھ کر ہرذی حس انسان کے رونگٹے کھڑ ے ہو تے ہیں۔اور بیاتا گیا کہ کس طرح AFPSA کے آرڈ میں کشمیری، منی پوری اور چتیس گڑھ کی عورتوں کے ساتھ کس طرح جنسی تشدد ہو رہا ہیں۔اور جنسی تشدد کرکے ان کو کس طرح سے سزا سے چھوٹ مل جاتی ہیں۔ہر گورمنٹ بھی ان ساتھ کندے سے کندے ملائی ہوئی ہوتی ہیں جس سے ان کے ارادے مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔اسی لیے کبھی یہ mass rapes تو کھبی یہ individual rapes انجام یتے رہے ہیں۔
that night in kunun poshpora(3) ( کنن پوش پورہ کی وہ رات)
اس باب میں کنن پو ش پورہ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس رات کیا ہوا تھا ،جو ہم پہلے باب میں بیان کر چکے ہیں ۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح آرمی نے l لوگوں سے زبر دستی سے noc لیا ااور ان دونوں پولیس والوں سے بھی جو ان کے ہمراہ بھیج دیئے گئے تھے۔جن میں عبدل الغنی کا نام قابلِ ذکر ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ مردوں کی مار پیٹ کا وہ بھیانک منظر بھی دکھایا گیا۔کہ کس طرح رات ختم ہونے کے بعد مرد حضرات رینگتے ہوئے برف پر اپنے گھروں کی اور جا رہے تھے کیوں کہ ان کو اتنا torture کیا گیا تھا کہ وہ چلنے کے قابل نہ تھے اور جو نہی وہ اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو سب نے اپنے عورتوں کو ننگی حالت کے ساتھ خون میں لت پت دیکھ کر فلک بوس چیخے لگائے ۔durri,s story بھی اس باب میں ایک ایسی کہانی ہے جس سے اس کیس کی سچائی چھلکتی ہے۔یہ باب پولیس کی تپتیش،عبدل الغنی کی کہانی کے ساتھ سا تھ مظلوموں کا medical examination اور گاؤں کا رپورٹ ٹھوس شواہد کے ساتھ ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس باب میں ان فو جیوں کے نام بھی ظاہر ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ گاؤں والوں کی دستخطی مہم اور ان کاغذات کی تصویروں کو پیش کیا گیا ہے۔اور اس میں گاؤں کا ایک چھوٹا سا نقشہ بھی بنایا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کن کن گھروں میں آرمی نے یہ حیوانیت کا کام انجام دے کر انسانیت کو شرمسار کیا ہے۔
(4) life in kunun poshpora today( کنن پوش پورہ میں آج کی زندگی)
اس باب کو سمرینا مشتاق نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ تحریر کر کے کنن پوش پورہ میں لوگ ۱۹۹۱ کے بعد آج تک کیسے وہ لوگ اس رات کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔اور یہ بھی بتایا گیا کہ ایک رات کے خوف اور حیوانت کے کام نے کس طرح لوگوں کی زندگی پر اثر ڈال رہی ہے اور یہ برے اثرات خالص سماجی نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی بھی ہوتے ہیں۔
اس ماس ریپ (mass rape) سے ان دونوں گاؤں پر لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم بری طرح سے متاثر ہوئی ہے کیوں ان دونوں کے گاؤں کے بچوں کو آج بھی دوسرے گاؤں کے بچے ماس ریپ والے گاؤں سے پکارتے ہیں۔جس سے یہ بچے ذہنی humalition کا شکار ہوتے ہیں اور اس باب میں دکھایا گیا کس طرح یہاں کے بچے متاثر ہوئے ہیں ایک بچی یہ کہہ کر سب آنکھوں کونم کر دیتی ہے۔:
’’ میں نے گریجویشن کی ہے ۔لیکن یہاں تک آتے آتے میں نے ہر روز اپنے ہم جماعتوں کی
بے عزتی برداشت کی ہے کیوں کہ وہ مجھے ہمیشہ طعنے دے کر کہتے تھے کہ
آپ ماس ریپ والے گاؤں سے تعلق رکھتی ہواور آپ کی ماؤں کے ساتھ آرمی والوں نے
ریپ کیا ہے۔تب سے اب تک دہائیاں گزر گئیں اور ہمیں آج بھی بری نظر سے دیکھا جاتا
ہے۔اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔اب لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اب
انٹرنیٹ پر آپ کی ماؤں کی تصویریں بھی دستیاب ہیں۔اب ہم کو معلوم ہوا ہیں کس کس
عورت کے ساتھ ریپ ہوا ہیں۔ ‘‘ صحفہ نمبر ۱۰۸
اتنا ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کے ساتھ لڑکوں کو یہ مسائل بگھتنے پڑتے ہیں اور بہت سارے لڑکوں نے میڈل کلاس پاس کرنے کے بعد ہی تعلیم کو الوادع کرنا پڑا کیوں کہ ہر ایجوکیشنل انسٹویٹ میں ان کو
اچھوت جیسا ہی سمجھنے لگے تھے۔رفیدہ کی کہانی بھی ایسی ہے جس سے پڑھ کر ہر ایک کی آنکھ آنسو سے چھلکتی ہیں۔رفیدہ کی ہی بیٹی کو آرمی والوں نے کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا جب وہ شیر خوار بچی تھی جس سے ’’مہر‘‘کی ایک ٹانگ ہمیشہ کے ٹوٹ گئی اور ۲۵ سال گزرنے کے بعد بھی چل نہیں سکتی ہے اور ہمیشہ کے لیے اباہیچ ہو گئی ۔‘‘
اس باب میں یہ بھی دکھایا گیا کہ کس طرح ایک رات نے ان دونوں کو ہمیشہ کے تباہ و برباد کر دیا ہے لڑکیوں کی شادی کرنے میں کتنی اڑچنیں آتی ہے۔ہر کوئی ان سے شادی کرنے سے نکارتے ہیں اور ان لڑکیوں کو اتنے مشکل کمپومریز کرنے پڑ تے ہیں کہ ان کو اپنی عمر سے دوگنا عمر والے لوگوں سے کام چلانا پڑتا ہیں۔یہ سلسلہ یہاں تک ہی نہیں رکتا ہے بلکہ جو بھی generation آتی ہیں وہ اس ماس ریپ کے شکار ہوتے آرہے ہیں ۔ہندوستانی آرمی کی حرکت سے یہ دونوں گاؤں ہمیشہ کے لیے شکار ہو گئے ہیں۔اس رات کے بعد ان دونوں گاؤں کے سماجی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔
اسی باب کے میں صحفہ نمبر ۱۱۴میں بیاتا گیا کہ یہ لوگ بڑے سے لے کر بچے تک post traumic stress ,disorder ( ptsd) جیسے بیماریوں کے شکار ہیں جن میں blackouts, dizzy spells, forgotfulness ,short term memory loss, اور hypertension کے بھی سخت شکار ہیں۔ان میں کچھ عورتیں جو ریپ کے شکار ہوئے تھے۔آج بھی جسمانی طور معذور ہیں اور آج بھی عزت سے نامحروم ہیں۔لیکن ایک بات ضرور ہے ہم سب کو انہیں عزت دینا چاہیے اور عزت سے دیکھنا چاہیے۔حقیقت میں یہ عورتیں بہادر ہیں جنہوں نے آج ۲۵ سال گزرنے کے بعد بھی اپنی لڑائی جا ری رکھی ہوئی ہیں۔انہوں نے اتنا برداشت کر کے مزاحمت کا جھنڈا اپنے ہاتھوں سے گرنے نہیں دیا ۔واقعی میں ہم سب کو ان عورتوں اور مرد حضرات کو سلام کہنا چاہیے اور دل و دماغ سے ان کا عزت کرنا چاہیے کیوں کہ یہ آرمی نے کیا تھا اس میں ان معصوم لوگوں کا کوئی دوش نہیں تھا ۔یہ عورتیں دونوں سٹیٹ اور آرمی سے لڑتے رہے جو اس کیس کو ہمیشہ دفن کرنا چاہتے تھے۔یاد رہے آرمی ، سٹیٹ اور پولیس نے ان کے کیس کو دفن کرنا چاہا تھا مگر ان لوگوں کی ہمت نے اس کیس کو کشمیر کی تاریخ میں ایک ظالم کے ظلم کا ایک نیا باب تحریر کیا۔جو ہر generation کو یاد رہے گا۔ صفحہ نمبر ۱۱۸

(جاری ہے)