پاکستانی معاشرے کے تہذیبی اور تاریخی دھارے

(ظفر گوندل)

برصغیر کا وہ حصہ جہاں آج پاکستان قائم ہے ۔ تاریخ کا ایک ایسا چوراہا ہے جس پر قدیم زمانوں سے مختلف نسلوں اور ثقافتوں کے قافلے باہم ملتے اور مدغم ہوتے رہے ہیں۔ وافر پانی ، سبزے کی فراوانی اور قابل کاشت زمین کی بدولت تقریباً پانچ ہزار سال قبل یہاں ہڑپہ اور موہنجودڑوجیسے شہری مراکز قائم ہوئے اور وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب نے جنم لیا جو رفتہ رفتہ سارے برصغیر میں پھیل گئی۔ بلوچستان میں مہر گڑھ کے آثار تو اور بھی قدیم ہیں اور سطح مرتفع پوٹھوہار سے دریافت ہونے والے نوادرات تو پتھر کے زمانے کے انسان کی یادگار ہیں۔ برصغیر کے مقامی اور قدیم مذہب ہندومت کی جڑیں بھی وادیٔ سندھ کی تہذیب میں پیوست ہیں۔ موہنجودڑو اور ہڑپہ کے معبد خانوں میں پوجا جانے والا بیل ہندومت کی گائے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں چوپائے زرعی معاشرے اور زرخیزی کے استعارے ہیں۔ اسی طرح ہندومت کی برہمن کلاس بھی وادیٔ سندھ کے پروہت حکمرانوں کا تسلسل ہے اور آرین نے بھی جو مظاہر فطرت کو پوجتے تھے یہیں آکر اصنام پرستی شروع کی کہ الٰہیات کے مجرد خیال کے مقابلے میں مجسم الوہی صورتوں کے سامنے عقیدت کا اظہار قدیم انسان کے لیے زیادہ پرکشش اور اس کی ذہنی سطح سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔
اسی طرح پانچویں صدی قبل مسیح میں جب کپل واستو کے نرم دل شہزادے گوتم نے اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ خدمت خلق کو شعار بنا کر ہی نروان حاصل ہو سکتا ہے اور یوں ایک نئے دھرم بدھ مت کی بنیاد پڑی ۔ یہ نیا دھرم بھی ہندوستان میں خوب پھلا پھولا۔ بدھ مت کو اس وقت تو خوب فروغ ہوا جب عظیم مگدھ سلطنت کا بادشاہ اشوک اعظم ایک واردات قلبی (ٹرامیٹک ڈس آرڈر ) کاشکار ہو کر بدھ بھکشو بن گیا اور یوں اس سلطنت کا مرکز قدیم تکشلا اور موجودہ ٹیکسلا بدھ مت کی تعلیمات کی درس گاہ قرار پایا۔ اور تخت بائی مردان میں بھی بدھ مت کی خانقاہیں قائم ہوئیں۔ بامیان افغانستان میں بدھ مت کے پیرو کاروں نے مذہبی عقیدت کی سرشاری میں پہاڑوں کو تراش کر گوتم بدھ کے دیو ہیکل مجسمے بنائے جو ابھی کچھ عرصہ قبل تک زائرین اور سیاحوں کے لیے بڑی کشش کا سبب تھے۔
تیسری صدی قبل مسیح میں جب سکندر اعظم کی قیادت میں یونانی آئے تو مقامیوں اور یونانیوں کے اشتراک عمل سے گندھارا آرٹ اور کلچر وجود میں آیا۔ یونانی جاتے جاتے دریائے سندھ کو انڈس اور ہندوستان کو انڈیا کا نام دے گئے۔ اسی طرح جب آٹھویں صدی عیسوی میں عرب اپنی قبائلی معاشرتی اقدار اور شمشیر بے نیام کے ساتھ وارد ہوئے تو اسلام بھی بڑی تیزی کے ساتھ برصغیر کے وسیع تر علاقے میں پھیل گیا۔اس سارے عرصہ میں اس خطے میں جنگیں بھی ہوتی رہیں حکمران بھی بدلتے رہے اور مذہب بھی لیکن معاشرے کا بنیادی تانا بانا پچر نگاہی رہا۔ جہاں مختلف عقیدوں اور نسلوں کے لوگ باہم ملتے اور ایک دوسرے میں مدغوم ہوتے رہے ۔ یوں ایرانی بھی آئے اور تورانی بھی اور افغانی بھی لیکن ہندوستان کا ہمیشہ سے یہ خاصا رہا کہ وہ فاتحوں کو مفتوح کرتا آیا اور آنے والوں کی اکثریت کبھی واپس نہ جا سکی۔
انیسویں صدی میں انگریز آگیا اور پھر ہندوستان ہمیشہ کے لیے بدل گیا ۔ انگریز قدیم یونانی تہذیب کے وارث اور اپنے علم اور سائنسی ترقی کی بدولت جدید تہذیب کے علمبردار تھے۔ انگریزوں کی آمد کی بدولت ہی جدید تعلیم ، سیاسی شعور قومی بیداری ، وطن اور ریاست کے جدید تصورات ، جمہوریت ،آئین، انتخابات اور آئینی اور قانونی جدوجہد کے وہ تمام راستے کھل گئے جو انجام کار قیام پاکستان پر منتج ہوئے۔ انگریز اگر ہندوستان نہ آتا تو انتخابات کے ذریعے ہندوئوں کی عددی اکثریت کی حکمرانی کا خطرہ بھی پیدا نہ ہوتا اور نہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کی ضرورت محسوس ہوتی کہ مغلوں کا تخت و تاج قائم رہتا اور بقول شخصے مسلمان ہندوستان کے سیاہ و سفید کا مالک۔
بیسویں صدی کی انڈین سوسائٹی ان تینوں تہذیبی اثرات ،مقامی ہندوستانی تہذیب ،مسلم ہندی تہذیب اور جدید تہذیب کا ایک حقیقی ، عملی اور خوبصورت امتزاج تھی جو اپنے اندر تعمیر و ترقی کے تمام امکانات رکھتی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نسلاً برصغیر کے باشندے ہیں، مذہباً مسلم اور تاریخ کے جبر نے ہمیں اکیسویں صدی میں دھکیل دیا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم جدید دنیا کا حصہ ہیں۔ مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم اپنے تشخص کے ان تینوں نمائندہ اجزاء میں سے کسی ایک کو دیگر دو کی قیمت پر نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی کوششوں کے نتیجے میں یار وایتی برائون صاحب پیدا ہوتا ہے یاوشوا ہندو پریشد کا کٹ پنتھی مہاسبہائی یا مسلم انتہا پسند۔
تاریخ کی تعبیر تو مختلف ہو سکتی ہے لیکن ماضی کو نہ تو بدلہ جا سکتا ہے او ر نہ تاریخی ورثے سے دامن چھڑایا جا سکتا ہے۔ خواہ ہم اسے پسند کریں یا نا پسند ۔ تاریخی حقائق کی ایک ایسی تعبیر و تشریح جو ماضی میں اپنی پسند اور سہولت کے ایک مخصوص نقطۂ وقت سے ایک متعین آئیڈیالوجی کے ساتھ شروع ہو کر ناک کی سیدھ میں آگے بڑھتی چلی جائے ایک روبوٹ یا کمپیوٹر کے کسی پروگرام کی میموری تو ہو سکتی ہے انسان کی نہیں۔ انسان تو جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ، شعور تحت الشعور اور لا شعور کی تہہ در تہہ گہرائیوں کا اسیر ، فطرت و قدرت کے سر بستہ رازوں کی جستجو میں مگن ایک ذہین اور ذکی الحس وجودہے۔ جو حال میں زندگی گزارتے ہوئے نہ تو اپنے ماضی سے دامن چھڑا سکتا ہے اور نہ مستقبل سے آنکھیں چرا سکتا ہے۔ ہزاروں سال پر محیط اجتماعی دانش اور عالمگیر سچائیوں کے امین تاریخی ورثے کو قوم کی اجتماعی سائیکی سے نکالنا قوم کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔ جب گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسانوں میں تاریخ کی ایک محدود اور مخصوص تعبیر” انسٹال” کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں فرقہ پرستی ، مذہبی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم افسوسناک طور پر آج کے پاکستان میں کر رہے ہیں۔ جہاں انسانی روبوٹ اپنے ہی نسلی ، لسانی اور ہم وطن بھائیوں کو ہلاک کرنے کے مقدس مشن پر مامور ہیں!