غیرتوں کے قتل: ریاست نے بھی آخر آنکھ جھپکی ہے

دو روز پہلے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں دو اہم ترین قوانین کے مسودوں کی منظوری دی گئی۔ ان میں سے ایک مسودہ قانون غیرت (؟؟) کے نام پر ہونے والے قتل کے متعلق تھا۔ دونوں قانونی مسودے پارلیمان میں سب سی بڑی حزب اختلاف کی جماعت جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے منجھے ہوئے اور سنجیدہ رکن فرحت اللہ بابر کی جانب سے پیش کئے گئے۔ ان مسودوں کا منظور ہونا اہم سمت کی طرف ایک نمایاں قدم ہے۔

بلاشبہ غیرت کے نام پر قتل کو اخلاقی و انسانی طور پر ہم کسی طرح بھی غیرت نہیں کہہ سکتے۔ لیکن چونکہ غیرت کے تصور کی تشکیل ہمارے اردگرد کے پدر سری معاشرے میں جن کے ہاتھوں میں ہے، وہ اسے غلط العام میں غیرت کے نام پر ہی منسوب کرتے آ ئے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود غیرت (کے قحط کے باعث) ہونے والے یہ قتل شماریات کے سرد خانے میں بھی اپنی غیر اخلاقی آگ کی تپش کا احساس دلانے سے باز نہیں رہتے۔ اعداد و شمار کے ایک حساب میں 2008 سے 2015 کے درمیان 3000 خواتین کو اس قحط غیرت کے ہاتھوں نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے بالکل حالیہ ایک اور اندازے کے مطابق ابھی پچھلے اکیلے ایک سال، یعنی 2015، میں اس طریق سے 1096 کی تعداد میں خواتین کشی کے واقعات ذرائع ابلاغ کے ریڈار پر نمودار ہوئے؛ ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سامنے آنے والی گنتی سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

نئے قانون کے مسودے کے منظور ہونے سے گو کہ ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قحط غیرت سے سر زد ہونے والا یہ جرم ختم ہو جائے گا۔ لیکن پہلے کی طرح جرم کرنے والے کی ریاستی طرفداری کا ابھرنے والا احساس البتہ ضرور کچھ مدھم پڑے گا۔ ایسا ہم دو باتوں کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں؛ ایک تو یہ کہ ریاست نے اپنے تصور سزا و جزا کی آنکھ کو جھپکا ہے۔ مزید یہ کہ ریاست نے اپنے اس ارادہ و یقین کو پیش منظر میں لانے کی سعی کی ہے کہ کوئی فرد جو ریاست کا شہری ہے، اس کی جان و جسم کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس کے جسد کی کسی انداز سے بے حرمتی ہونا، یا انتہائی اقدام کے طور پر اس کا قتل ہو جانا، محض اس کا ذاتی اور خاندانی معاملہ نہیں رہا۔ بلکہ پورے معاشرے اور ریاست کے خلاف عمل سمجھا جائے گا۔ یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں۔ اس تبدیلی کے رستے میں قصاص و دیت کے قوانین سے مذہبی جذباتی وابستگی کے کوہ گراں حائل ہیں۔ ان بھاری رکاوٹوں سے عقلی مکالمہ و مذاکرہ کرتا یہ مسودہ قانون، تخلیقی سوچ اور بند رستوں میں نشان راہ نکال لانے، تنگ سرنگوں کے سروں سے روشنی کا نشان ڈھونڈ لانے کے سلسلے میں ایک اہم اثر لینے کے لائق تمثیل ہے۔ اس مسودہ قانون کی منظوری ترقی پسند، انصاف پسند اور انسان دوست طبقات معاشرہ کے لئے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔

لیکن اس کامیابی کو ہر چند کہ نشان منزل تو کہا جاسکتا ہے، لیکن کسی طور بھی فی نفسہ منزل سمجھ لینا تخیل و فکر کی پختگی نہیں ہوگی۔ کوئی بھی قانون اپنی حیثیت میں مکمل نہیں ہوتا؛ اس میں سقم موجود رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ ضروری باتیں نہیں بھولنا ہونگی۔ کچھ ضابطے کی کار روائیوں کے بعد یہ قانون نافذالعمل ہونے کے مرحلے پر آ جائے گا۔

لیکن کیا اس ایک قانون کے بن جانے سے یک بیک معاشرے کے اندر فوری طور پر کوئی انقلابی فکری تبدیلی کی توقع باندھی جا سکتی ہے؟ وہ معاشرہ جس کی ایک کثیر تعداد طاقتور کلامیوں اور بیانیوں کے چرب زبانوں والے کے زیر اثر عصرِحاضر کی روح سے دور پرے اپنے سنہری زمانوں کے کسی سحر میں مبتلا ہے۔ عمومی تعلیم و اخلاقیات سے کوسوں فاصلے پر بسنے والے ایسے خصائص کے حامل معاشرے کے غیرت و عدم غیرت کے تصورات کو متبادل اور تازہ تصورات کی آکسیجن کی اشد ضرورت رہے گی۔ قوانین کی منظوری اور ان کے نفاذ و عمل در آمد کے وزیراعظم کے عزم و ارادے کے ساتھ ساتھ کچھ اور زیادہ کام بھی ضروری ہے۔ یہ زیادہ ضروری امر عوام کی اس کثیر تعداد کو غیرت سے نتھی کر کے انسانی جان لے لینے کے مسئلے کی بابت درست نکتہ نظر اپنانے میں مدد دینے کے لئے ایک مسلسل اور پر تاثیر بحث و کلام کی تقاضا ہے۔ ان چیلنجز کے واضح نشانات کا اندازہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران جناب حافظ حمداللہ اور جمشید دستی صاحب کے ان مسودہ جات کی منظوری کے دوران رواں ہونے والے تبصروں سے کیا جا سکتا ہے۔ حافظ حمداللہ کے لئے اس طرح کی قانون سازی ہمارے معاشرے پر کسی مغربی ثقافت کو لاگو کرنے کی سازش ہے تو جمشید دستی اس قانون سازی کو بھارتی جارحیت کے خطرات کی فضا میں ایک عبث کار روائی قرار دیتے ہیں۔ مختصرا، بس یاد رہے کہ اگے کی طرف چلتے رہنے کی آس با معنی ہوگئی ہے، ستانے کا ہر گز وقت نہیں۔