صحت کے مسائل اور سندھ کے سورما

لکھاری کی تصویر
اسد لاشاری، صاحبِ مضمون

(اسد لاشاری )
پاکستان کو اس وقت بے شمار مسائل کا سامنا ہے جس میں صحت اور تعلیم سرفہرست ہیں سو آج ہم ان دونوں میں سے ایک یعنی صحت کے حوالے سے بات کریں گے بالخصوص ایڈز اور سندھ کے حوالے سے بات کی جائے گی ، اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ ایڈز کا وائرس کب کب کہاں اور اور کیسے شروع ہوا اور پاکستان میں یہ وائرس کب پہنچا؟ 1988سے ہر سال دسمبر کی پہلی تاریخ کو دنیا بھر میں ایڈزکا دن منایا جاتا ہے ، اس دن ایڈز سے متاثرہ انسانوں سے یکجہتی کا اعلان کیاجاتا ہے ، اور آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں گو کہ ابھی کچھ دن دسمبر کے آنے میں باقی ہیں اگر ابھی سے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائی جائیں تا کہ اس وائرس کو مزید پھلنے سے روکا جا سکے ،شاید ہماری چھوٹی سی کاوش سے کسی کی جان بچ جائے۔ ماہرین صحت کا خیال ہے کہ ایڈز کی شروعات 1940کے آخر میں ہوی تھی ،جب کہ کچھ ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ کانگو کے لوگ جنگلات میں جا کرChimpanzee) (بن مانس کا شکار کر کے گوشت کھایا کرتے تھے وہاں سے یہ وائرس پھل کر انسانی آبادی میں منتقل ہوا تھا اور سب سے پہلے ایڈز سے متاثر ہونے والے شخص کا تعلق 1959 Republic of the Congo سے تھا۔ شروعات میں اس وائرس کو simian immunodeficiency virus کہا جاتا تھا ۔کانگو کے جنگلات سے نکلا یہ وائرس جنگل میں آگ کی طرح افریکہ کے ساحل کناروں ،صحراؤں ، سمندروں اور بیابانوں سے ہوتا ہوا ،امریکہ، آسٹریلیا اور ایشیا تک پھل گیا ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزشن کے مطابق 80 کی دہائی سے لے کر اب تک 35)ملین( یعنے ساڑھے تین کروڑ افراد ایڈز کے کارن موت کا شکار ہو چکے ہیں۔جب کہ ابھی بھی دنیا بھر میں36.7 ملین افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، تاریخ میں سب سے زیادہ انسان اگر کسی بیماری کی وجہ سے اجل کا شکار ہوے ہیں تو وہ ایڈز ہے۔ پاکستان میں 1986 کو پہلا ایچھ آئی وی ایڈز پازیٹو کا مریض داخل کیا گیاتھا، شروع کے 15 سالوں ملک بھر میں صرف 1549 مریض رجسٹرڈ کیے گیے تھے ،لیکن 2003 کے بعد یہ وائرس پاکستان میں بہت تیزی سے پھلا ہے۔عالمی ادارہ برائے صحت 2016 کی رپوٹ کے مطابق پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے، جب کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام آف پاکستان کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ماہرین صحت کہتے ہیں کہ یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو ہسپتالوں تک پہنچتے ہیں جس کے اعداد و شمار حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔ ہزاروں کیسز تو ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے پاکستان صحت کی عالمی درجہ بندی میں 188 ممالک میں سے149 نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان اپنی GDP کا صرف 2.6فیصد صحت پر خرچ کرتاہے۔
وائرس پھلنے کی وجوہات اور علامات ۔
(1)بے خبری کے عالم میں ایڈز سے متاثرہ خاتون ، مردیا پھر کسی Transgender سے جنسی میلاپ کرنے سے یہ وائرس لگ سکتا ہے۔ امریکہ میں سب پہلا متاثرہونے والا شخص Gay تھا۔2009کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ پیشہ ور سیکس ورکرز کام کر رہے ہیں، جن میں ایک لاکھ پچیس ہزار خواتین ہیں جویہ کام کر رہی ہیں۔ جب کہ 35 ہزار Transgendersور اتنی ہی تعداد ہم جنس پرستوں کی ہے جو یہ قبیح کام کرتے ہیں ۔ جب کہ حفاظتی اقدام نہ اٹھانے کے برابر ہیں ۔ یہ تو 2009 کی تحقیق ہے ابھی یہ تعداد تین لاکھ سے بڑھ چکی ہوگی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس موضوع پر بھی تحقیق ہونی چاہیے ۔ (2)منشیات فروشوں کو استعمال شدہ سرنج بار بار لگانے سے یہ مرض لاحق ہوتا ہے ۔پاکستان میں سب سے زیادہ 27 فیصد منشیات فروش اس مرض میں مبتلا ہیں ان کو یہ مرض ایک ہی سرنج کو بار بار استعمال کرنے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے ۔(3)کسی غیر معیاری لیبارٹری سے خون چڑھا ہو،(4) ایک بلیڈ سے بار بار شیو بنانا بھی اکثر ایڈز کا باعث بن سکتا ہے اکثر دیکھا ہو گا کہ گلی کوچوں، چوراہوں اور رسڑک کنارے حجام بیٹھے ہوتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے جائیں اس لیے وہ ایک ہی بلیڈ کو بار بار استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ وائرس پھلتا رہتا ہے ۔(5) ایڈز متاثرہ افراد کے ساتھ میل جول اور ساتھ کھانے پینے میں احتیاط نہ کرنے سے بھی یہ وائرس لگ سکتا ہے۔
یہ تو ہو گئی وجوہات اب تھوڑا علامات کی بات ہو جائے کہ اس کو پہچانا کیسے جائے۔ (1)ایڈز کی وجہ سے مسلسل قوتِ مدافعت کم ہوتی رہتی ہے، (2) وزن کا کم ہونا اور مسلسل گرتے رہنا (3)بخار ہونا اور مسلسل رہنا(4)ڈائیریا ہو اور ٹھیک نہ ہو (5)دیر تک منہ کاپک جاناچھالے ہو جانا اور ٹھیک نہ ہونا،(6) ٹی بی یاپھر خشک کھانسی،(7)جوڑوں کا درد،(8) رات کو حد سے زیادہ پسینہ آنا،(9)جسم میں عجیب و غریب داغ اور سوراخ ہو جانا۔ اگر اس طرح کے اثرات کسی کو ہوتے ہیں تو فوراً ڈاکٹرز سے رابطہ کرنا چاہیے۔لوگوں میں آگاہی نہ نے کی وجہ سے یہ مرض بہت تیزی سے پھل رہا ہے۔ آج پاکستان کا شمار ساؤتھ ایشیائی ممالک میں ایڈز سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے لیکن پھر بھی کوئی مناسب فورم نہیں جوڑا جا سکا۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ گنتی کی چند چیزوں کو زیرِبحث لایا جاتا ہے ،لیکن معاشرے کے سنجیدہ مسائل پر غور و فکر کرنے کی کوئی زحمت ہی نہیں کی جاتی اور نہ ہی کوئی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ جس ملک کے حکومتی نمائندے اپنا کام سماجی تنظیموں کے سپرد کر دیں اور خود غفلت کی گولی کھا کر گہری نیند سو جائیں تو ایسے میں عوامی سطح پر ایسے دن منانے کی توقع رکھنا تھوڑا عجیب لگتا ہے ۔ پاکستان میں جتنی اس موضوع پر تحقیق ہونی چاہیے وہ نہیں ہو رہی،جتنا اخباروں میں لکھا جانا چاہیے اتنا نہیں لکھا جا رہا، جتنی
میڈیا میں بات ہونی چاہیے وہ نہیں ہو رہی اور جتنا اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں اس بیماری کے حوالے سے سیمینارز وغیرہ ہونے چاہئیں وہ نہیں ہو رہے ۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جامعات، اسکول ، کالجز اور میڈیا میں ایڈز جیسی جان لیوا بیماریوں کے بارے میں بات نہیں کی جائے گی تو پھر عوامی سطح پرشعور کیسے آئے گا اور لوگوں کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ کیسے دور ہوں گی؟ لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی چیز بیٹھی ہوی ہے کہ یہ وائرس ان کو لگتا ہے جو زانی اور عیاش ہوتے ہیں، حالانکہ اس کی وجوہات کئی اور بھی ہو سکتی ہیں۔اب ہمیں آنکھیں کھولنی پڑیں گی ، اگر ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو پھر افریقہ کی طرح ہماری بھی ایک پوری نسل اس وائرس کی نظر ہوجائے گی، اگر حکومتِ وقت نے اس وائرس کو پھلنے سے روکنے کے لیے کوئی مناسب اقدام نہ اٹھائے تو افراد کی قلت پڑ جائے گی، اگر افراد کی قلت پڑ گئی تو پھر سندھ کی طرح ملک بھر میں ہڑپہ، ٹیکسیلا اور موہن جو دڑو سے نادر نمونے چن چن کر وفاقی اور صوبائی سطح پراعلی انتظامی عہدوں پر فائز کر نے کے لیے ڈھونڈ کر لانے پڑیں گے، جو یا تو خاموشی سے اپنا کام کریں گے یا پھر خود ہی خاموش ہو جائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے گا ۔
بات انتظامی عہدوں پر فائز افرا کی ہو رہی تھی تو اس سے یاد آ یا کہ جس طرح گورنر سندھ کی صحت خراب ہے یہی حال صوبے کی صحت کا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ صحت کے مسائل صوبہ سندھ میں ہیں جہاں ھیپاٹائٹس سے متاثرہ افراد کی تعداد پچاس لاکھ ہو چکی ہے ، ذیابطیس کے مریض بھی سندھ میں سب سے زیادہ ہیں، قحط بھی سندھ میں، ڈینگی اور ایڈز سے متاثرہ افراد کا تعلق بھی سندھ سے ہے ا ور سندھ کے اندر لاڑکانہ ڈویزن سب آگے ہے جہاں پے در پے لوگ اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پچھلے ڈیڑھ ماہ میں صرف لاڑکانہ ڈویزن کے اندر ایچھ آئی وی ایڈز کے 100 نئے مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جب کہ رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 1400ہو چکی ہے اور غیر رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 6278 ہو چکی ہے۔ اب تک15 مریض اس وائرس کی وجہ سے ابدی نیند سو چکے ہیں اور نہ جانے کتنے اور اجل کا شکار ہونے باقی ہیں ۔ ہزاروں کیسز تو ایسے ہیں جو صرف اس ڈر کی وجہ سے نہیں بتاتے کہ کہیں معاشرہ انہیں اپنی دھارا سے نکال نہ دے، اس خوف کی وجہ سے وہ خاموشی سے عذاب نما زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یا پھر کسی دوسرے شہر کا رخ کر تے ہیں جہاں یہ مہلک بیماری پھلانے کا سبب بنتے ہیں۔ آج صوبے بھر میں غیر معیاری خون کا کاروبار کرنے والی بلڈ بینکس لوگوں کاخون نکالنے، چوسنے اور بیچنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتیں ایسی بلڈ بینکس کو غیر معیاری لیبارٹیز اور عطائی ڈاکٹرز کا تعاون حاصل ہوتا ہے یہ سب مل کر بھٹو کے چاہنے والوں کو ایک ہی سرنج بار بار لگا کر بھٹو کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں شاید ان کے ذہنوں میں یہ خیال آتے ہوں کہ جب بھٹو ہی نہیں تو پھر ان لا وارثوں کے زندہ رہنے کا کیا فائدہ ؟ بھٹو سے یاد آیا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر کی پارٹی پچھلے نو سالوں سے بر سرِ اقتدار ہے لیکن ان نو سالوں میں صرف عوام کا استحصال کیا ہے۔ آج ان کے کا رناموں کی بدولت سندھ سب سے زیادہ زوال پذیر اور پسماندہ صوبہ بن چکا ہے ۔ ان کی نا اہلی کی وجہ سے کہیں حکومتی مشینری گل سڑ رہی ہوتی ہے تو کہیں میسر تک نہیں ہوتی،اس کی مثال نوشہروفیرز اور شیخ زید ہسپتال لاڑکانہ کی دی جا سکتی ہے ۔ نوشہرو فیروز میں رواں ماہ کے دوران ادویات کی گاڑیاں بھر کر بڑی مقدار میں ضایع کی گئی ، دوسری جانب لاڑکانہ میں شیخ زید ہسپتال برائے خواتین کے لیے حکومت کے روایتی اعلان کے مطابق ایڈز سینٹر تو قائم کیا گیا لیکن ابھی تک وہاں ایچھ آئی وی ایڈز کی ٹیسٹ لینے کے لیے جو مشینری چاہیے وہ نہیں پہنچائی جا سکی۔
یہ تو سندھ کے سورماؤں کی بات ہو گئی اب ذرا وفاق کے نمائندوں کی بات ہو جائے وفاقی نمائندے بھی سندھ کے سورماؤں سے کم نہیں ان کے پاس مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نہیں ، اپنے اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں اس کی مثال پی ٹی آئی کے اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب خیبر پختونخواہ یاترا کی دی جا سکتی ہے2014 میں بھی وزیر اعظم نے ایسا کیا تھا اور 2016 میں بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا ۔ وزیر اعظم صاحب نے ایک جگہ تقریر کرتے وقت کھڑے کھڑے کوہاٹ کو جدید شہروں کی صف میں لا کھڑا کرنے کی بات کی تھی جس میں جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتال ، عالمی معیار کی یونیورسٹیز بنا ئی جائیں گی۔ تقریر سنتے وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وزیرِ اعظم میاں نواز شریس نے سڑکوں کو بنانے کے لیے چار ارب روپے ہاتھوں ہاتھ بانٹ دیے ہوں اور ٹھیکے داروں کو کو ٹاسک دیا گیا ہو کہ جلسہ پورا ہونے سے پہلے سب ترقیاتی کام مکمل ہو جانے چاہئیں۔ دوسری جانب اس وقت سندھ کی آنے والی نسلیں ایڈز جیسی مہلک بیماری کی وجہ سے معاشرہ سے کٹ کر گھر کی چار دیواری تک محدود ہو رہی تھیں۔ سندھ کی عوام اس وقت بھی آپ کی منتظر تھی اور آج بھی منتظر ہے ہم امید کرتے ہیں آپ بغیرکسی دباؤ کے سندھ یاترہ کرنے ضرور آئیں گے اور کوہاٹ کی طرح لاڑکانہ میں بھی چار ارب کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کریں گے، ایڈز کے نئے سینٹرز کے قیام کا اعلان کریں گے، منشیات فروشوں، جسم فروشوں اور ضمیر فروشوں کے خلاف وفاقی سطح پر ان کے خلاف کارروائی کریں گے صرف یہی نہیں تھر، بدین اور ٹھٹہ میں بھوک و افلاس، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہونے والی اموات پر سندھ حکومت کو کھری کھری سنائیں گے آپ اگر اتنا کچھ نہیں کر سکتے تو صرف اعلان کرنے ہی آ جائیں شاید آپ کے آنے سے صوبے میں بڑھتی ہوی احساس کمتری ختم ہو جائے۔