شہری زندگی وبال: فطرت کے خلاف لڑتا ہُوا انسان

(ریحان انصاری)

انسان کی معاشرتی و تہذیبی زندگی سدا سے دو اہم حصوں میں منقسم رہی ہے۔ ایک دیہی اور دوسری شہری۔ دیہی زندگی محدود جغرافیہ، محدود مسائل، محدود وسائل، محدود معاملات اور محدود معمولات سے عبارت رہتی ہے۔ اس کے برعکس شہری زندگی میں حرکت و برکت کا ایک بے پایاں اور بے قابو سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ دیہی زندگی ویسے توسادہ نظر آتی ہے لیکن اس میں پیچیدگی زیادہ ہوا کرتی ہے۔ تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور اکثر اوقات ان کے حصول کے لیے دیگر جگہوں کا سفر ناگزیر ہوا کرتا ہے جو دیہاتیوں کے لیے اپنے آپ میں خود ایک پیچیدگی ہے۔ دوسری جانب شہری زندگی میں سہولیات اور آسانیاں کہا جا سکتا ہے کہ محض ایک ہاتھ کے فاصلے پر مل جاتی ہیں۔

شہر کی بے کیف اور سڑکوں یا مشینوں پر بھاگتی دوڑتی زندگی کا اپنا ماحول بے حد سادہ سا ہے۔ بظاہر یہ تجزیہ بڑا اَٹ پٹا سا لگتا ہے لیکن شہر میں (فرداً فرداً) سبھی کے شب و روز یکساں سے ہیں، معمولات دن میں شاید ہی کبھی تبدیل ہوتے ہیں، منٹ اور گھنٹے کی مخصوص و متناسب تقسیم کاموں پر حاوی رہتی ہے۔ دن کے چوبیسوں گھنٹے الگ الگ عوامی طبقات میں جدا جدا انداز سے تقسیم ہوتے ہیں۔ جب کام کے اوقات جنھیں Duty hours کہتے ہیں سے لوگ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے لیے سوچنا شروع کرتے ہیں؛ اپنے اہل و عیال کے لیے سوچنا شروع کرتے ہیں۔ بھاگتی دوڑتی زندگی کا یہ سلسلہ مشینوں کی ایجادواستعمال سے قبل کم کم تھا۔ یعنی ایک یا دو صدیوں پہلے لوگ گاؤں کے کسی قدر پرلطف، دیدہ زیب، خوشنما و خوش آواز چرند و پرند کے درمیان پرسکون ماحول میں گذارا کر لیتے تھے۔ مرغ کی بانگ یا چھتوں کی دراز میں چڑیوں کے گھونسلوں سے چہچہاہٹ اور پائیں باغ میں شاخوں پر چہکنے والے پرندوں کی موسیقی ریز آواز پر صبح خیزی ہوتی تھی۔مسجدوں سے اذان، معبدوں اور مندروں کی گھنٹیوں کی آواز سے نغمگی و سرور پھوٹتا تھا، اور مویشی بھی اپنی اپنی آواز کے ساتھ سب کو قریب بلاتے تھے۔ شہری زندگی میں یہ سب ناپید ہے۔
آدمی ترقی کرتا گیا۔ گاؤں چھوٹتا گیا۔ شہر بستا گیا۔ ترقیات کا بنیادی محرک ہے جسم و دماغ کے افعال کا خوبصورت آہنگ اور تال میل۔ سائنس نے اس تال میل کو زندگی دی اور نتیجہ کے طور پر آج زیادہ تر انسان شہروں میں بستے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس کی زندگی کو پُرآسائش اور پُرسہولت ضرور بنا دیا مگر ساتھ ہی اس کے لیے نئے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ہمیں دونوں پہلوؤں پر غور کرنا ہے۔
ہمارا جسم اصل میں مجموعہ ہے اعضا اور نفس (روح) کا۔ اعضا پر روح کا عمل (کنٹرول) ہوتا ہے تو مختلف نظام کام کرتے ہیں۔ جیسے نظامِ اعصاب، دورانِ خون، تنفس، ہاضمہ اور اخراج کے نظام۔ ان سب کا اعتدال پر قائم رہنا ہی اچھی صحت کا ضامن ہے۔ اس اعتدال کی برقراری کے لیے جسم کی تین بنیادی ضروریات ہیں۔ ہوا پانی اور غذا۔ یہاں ایک مفکر کا قول نقل کرنے کا جی ہو رہا ہے: ’’صحتمند سماج کسی بھی ملک کی اصل دولت ہے۔‘‘ سماج کی صحت بہت سے پہلو رکھتی ہے مگر ہم یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ سب سے بڑا اور اوّلین پہلو عوام کی جسمانی صحت ہی ہوگا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ دنیا کی بیشتر آبادی اب شہروں میں بستی ہے اور اس کے تمدنی تقاضوں کی بنیاد پر ہوا، پانی اور غذا کو وافر اور معیاری طور سے مہیا ہونا چاہیے۔ سچ پوچھیں تو انھی تینوں یعنی ہوا، پانی اور غذا کے تلوث، آلودگی اور عدم اعتدال سے انسانی صحت بگڑتی ہے۔ جسم کے مختلف نظام گڑبڑی کا شکار ہوتے ہیں، اور انجام کار نفس یعنی روح بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ان تینوں کا تعلق آپ پر اختصار کے ساتھ واضح کردیں۔ تاکہ جسمِ انسان پر طرح طرح کے امراض اور لاچاریاں کس طرح حملہ کرتی ہیں اس کا اظہار آسان ہو جائے۔
ابتدا میں شہری زندگی کے مسائل بیشمار تھے۔ آبادی کے لحاظ سے پانی اور غذا کی وافر فراہمی اور حصول مشکل تھا۔ تازہ غذائی اجناس صرف موسموں میں ملتی تھیں۔ گندے اور استعمال شدہ پانی کا نکاس کئی صدیوں تک ایک مسئلہ بنا رہا تھا۔ سائنس اور مشینوں کے جدید دور میں یہ تمام معاملات بخوبی حل کر لیے گئے ہیں۔ ان کے سبب ذرائع حمل و نقل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، عوام کی غذائی عادات و اطوار تبدیل ہوئے ہیں، اب غذائی اجناس سال بھر دستیاب رہتی ہیں۔ گندے پانی کے نکاس کا نظام تکنیکی طور پر بیحد اطمینان بخش ہو چکا ہے۔ اس کے سبب ہونے والے صحت کے خطرات کم سے کم ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب چند ایسے عوارض بڑھ گئے ہیں جنھیں بیماریاں نہیں ’’لاچاریاں‘‘ کہنا چاہیے ؛ مگر لائف اسٹائل ڈسیزز (Lifestyle Diseases) کے نام سے ان کی جماعت بندی کی گئی ہے۔ ان میں ذیابیطس، دل کے امراض، ہائی بلڈپریشر، ذہنی تناؤ (Stress) ، آنکھوں کی تکان یا Computer Eye Syndrome جیسے مستقل عوارض شامل ہیں۔
شہری ماحول میں کام کاج کا انداز کچھ ایسا ہے کہ انفرادی کام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ کسی بھی فرد کی مجموعی قابلیت و صلاحیت کے استعمال کی بجائے اس سے بندھا ٹکا کام عادت کے بطور لیا جاتا ہے اور بالکل مشینی انداز میں صبح سے شام کی جاتی ہے۔ وقت کی سخت پابندی کے ساتھ۔ جبکہ مجموعی صلاحیتوں کا استعمال صبر اور انتظار کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس عادتانہ کام کے انداز کے سبب آدمی اپنے بدن کے بعض اعضا کو کام کے پورے وقت استعمال بھی نہیں کرپاتا۔ مثلاً مسلسل کئی گھنٹے بیٹھ کر کام کرنے والے کا پیر استعمال میں نہیں آتا۔ ایک ہی جسمانی پوزیشن میں رہ کر کام کرنے والے جسم کے دوسرے جوڑوں کی حرکت خاطرخواہ نہیں ہوپاتی۔ اس کے برعکس کوئی مخصوص عضو ضرورت سے زیادہ حرکت کرتا ہے۔ یہ سب بے اعتدالی ہے۔ امراض کا پیش خیمہ ہے۔ آنکھوں اور اعصاب کو تھکانے والے کام کی بہتات ہے۔ ذہن کی تکان اور عضلات کے کم استعمال کی وجہ سے آدمی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ دیہاتی زندگی کے کام کی صورتیں پورے جسم کو متوازن طور پر متحرک رکھتی ہیں جبکہ نئے دور کے آدمی کو اصلی کام شروع کرنے سے بہت پہلے سے ہی ذہنی تناؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ یوں کہ گھر سے آفس کو روانہ ہونے کے لیے راستے بھر کی دشواریاں، ہمسفروں کی تلخیاں، بھیڑ بھاڑ کی کوفت، بار بار گھڑی میں وقت دیکھنا، یہ ایسی چھوٹی چھوٹی الجھنیں ہیں جو کام کے شروع ہونے سے قبل ہی اس کے دماغ میں گھر کرتی ہیں۔
عجیب و غریب قسم کا مشینی شور بھی ہر جگہ اور ہر لحظہ موجود ہے۔ آپ ان سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ سونے کے بعد بھی یہ آپ کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ راستوں پر دندناتی گاڑیوں کا شور، الیکٹرانک مشینوں (ٹی وی، کمپیوٹر وغیرہ) کا شور، دوسری مشینوں کا شور، اشتہاری میڈیا کے ذریعہ تو ایسی ایسی صورتیں اور آوازیں پیدا کی جاتی ہیں کہ جن کا تصور بھی عام زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ یہ سب مل ملا کر ذہنی تناؤ، الجھن اور گھبراہٹ و بے چینی جیسے عوارض کی پیداوار کرتے ہیں۔
ذہنی تناؤ راست طور سے دل اور ہضمِ غذا کے نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ دورۂ قلب یا ہائی بلڈ پریشر وغیرہ لاحق ہوتا ہے۔ پیٹ کا اَلسر، ذہنی تناؤ کی صورت میں شدید انداز سے وجود میں آتا ہے۔ ن دونوں نظام یعنی دل اور معدہ و ہضم کی خرابیاں تنفس اور اخراج کے نظام کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ عموماً پینتیس تا پینتالیس برس کی عمر والوں کو ہوتا ہے۔ یہ ایسی عمر ہے کہ جب کوئی بھی شخص کاروبار اور دیگر معاملات میں عمر کے کسی دوسرے حصے کی مناسبت زیادہ مصروف رہتا ہے۔ ذہنی تناؤ کسی بھی شخص کے جسم کی وہ تبدیلیاں ہیں جو بیرونی عوامل کے سبب ہوتی ہیں۔ یہ حرارت ہو، تبرید ہو یا کوئی کیمیائی شئے ہو یا پھر امراض ہوں۔ گردوں کے اوپری قطب پر غدود ٹوپی کی مانند سجے ہوتے ہیں انھیں غدۂ فوق الکلیہ یا Adrenal Glands کہتے ہیں۔ ان سے کیمیائی مادّے بنام ہارمون خارج ہوتے ہیں جو جسم کے بڑے کام کے ہوتے ہیں۔ ان سے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ (کون و فساد) یا wear and tear کا کام انجام پاتا ہے۔ انھی کا اخراج متاثر ہوجائے تو ذیابیطس، تھائرائیڈ کے امراض، اور پیٹ کا السر نیز برتاؤ کے امراض Behavioral Diseases پیدا ہوتے ہیں۔ مریض چڑچڑا، کاہل اور کھویا کھویا سا رہتا ہے۔
فضائی آلودگی بھی شہروں میں دیہاتوں کے مقابلے چار گنا زیادہ ملتی ہے۔اس کے نتیجہ میں کہنہ کھانسی، پھیپھڑوں کا کینسر، دیگر تنفسی امراض، جلدی امراض اور کینسر، دل نیز خون کی نالیوں کے امراض، کئی قسم کی الرجیاں اور دوسرے مضر و مہلک عوارض کی پیدائش ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کا سبب صنعتی کارگاہوں سے نکلنے والے زہریلے اجزا، موٹرگاڑیوں سے پیدا ہونے والا دھواں، سیسہ، سنکھیا اور دیگر دھاتی اجزا، تیزابی گیسیں، کاربن مونوآکسائیڈ، فارمالڈیہائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، امونیا، دیگر زہریلی گیسیں اور انھی کی مانند سیکڑوں دوسرے زہریلے اجزا ہیں جن کا سائنسی تجزیہ کیا جا چکا ہے۔ یہ سبھی ہمارے بدن کے مختلف نظام کے لیے ضرررساں ہیں۔یہ تنہا تنہا بھی مضر ہیں مگر جب ایک دوسرے سے مل جل کر Synergistically حملہ آور ہوتے ہیں تو زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔
فضائی آلودگی کے مقابلے میں آبی آلودگی جسم کو زیادہ آسانی سے نقصان پہنچاتی ہے اور بسا اوقات یہ نقصان زیادہ خطرناک بھی ہوتا ہے۔پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے مگر یہی بیماریوں کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جراثیم اور زہریلے اجزا پیٹ میں بہت آسانی سے داخل ہوتے ہیں اور امراض پیدا کرتے ہیں۔ شہروں میں پینے کے پانی میں صنعتی آلودگیوں کا تلوّث یا ملاوٹ مل سکتی ہے۔ ان آلودگیوں میں بلیچنگ ایجنٹ، صابونی اجزا، پٹرولیم اور تیل کے اجزا، دھاتیں اور اَدھاتیں، جراثیم کش یا کیڑامار دوائیں، رنگ اور تابکار اجزا شامل ہیں۔ یرقان، جگر کے دیگر امراض، تائیفائیڈ بخار، پولیو وغیرہ ایسے ملوث پانیوں سے ہی پھیلا کرتے ہیں۔
غذائی آلودگیوں کے سبب نظامِ ہضم کے چیدہ چیدہ امراض کی پیدائش ایک مسلسل عمل کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان میں اسہال (ڈائریا)، ہیضہ (کالرا)، یرقان (جانڈیس) اور دیگر امراض بہت عام ہیں۔علاوہ ازیں پیٹ کے کیچوے، آنتوں کے بیشتر امراض و کینسر کی پیدائش بھی غذائی آلودگی کی مرہونِ منت ہے۔
گوکہ یہ تمام کیفیات علیحدہ علیحدہ دنوں اور حالتوں میں وجود پایا کرتی ہیں اس لیے مجموعی طور پر ان سے تحفظ کی کوئی اکلوتی صورت ممکن نہیں ہے بلکہ ہر مرتبہ حسبِ ضرورت اقدامات کرنے پڑیں گے، تاہم یہ مشورہ ضرور دیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی قسم کے حالات چند افراد میں یکساں نظر آئیں اور ان کے کام کاج و معمولات میں حارج ہوں تو انھیں اپنے قریبی ڈاکٹر سے صلاح و مشورہ کے ساتھ ضروری اقدامات اٹھانا چاہیے تاکہ ہمارے سماج میں صحت کا بول بالا رہے اور امراض کا منہ کالا رہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ’’صحتمند سماج ہی کسی بھی ملک کی اصلی دولت و سرمایہ ہے‘‘۔
ذہنی تناؤ
آئیے ہم کچھ باتیں شہری زندگی کے سب سے اہم عارضہ ’ذہنی تناؤ‘ پر مزید کریں۔ یہ ایسا عارضہ ہے جس کے لیے نہ کوئی جنس مخصوص ہے اور نہ کوئی عمر۔ ہر کسی کی زبان سے ’’آج کل بہت ٹینشن ہے یار‘‘… ادا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ پرانے دور میں یہ کتنا عام رہا ہوگا اور اس کی کیا صورتیں رہی ہوں گی کیونکہ پرانی طبی کتب میں اس کا تذکرہ الگ سے موجود نہیں ملتا۔ البتہ نئے زمانے میں کتابوں میں اسٹریس (Stress) کے عنوان پر بالکل جدا مضمون ہی نہیں ملتا بلکہ اس موضوع پر پوری پوری کتابیں بھی موجود ہیں۔

انٹرنیٹ کی ویب سائٹس کو کھنگالیں تو آپ کو ہیلتھ کی کیٹگری میں ہر سائٹ پر اسٹریس کے عنوان پر متعدد مضامین نظر آئیں گے جو پوری تفصیل اور گہرائی کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اس باب میں اگر پرانی طبی کتب سے رہنمائی حاصل کرنا ہے تو حواسِ خمسہ باطنہ کے ضمن میں ’’ھمّ و غم‘‘ اور ’’فکر و تردّد‘‘ کے ذیل میں یا مالیخولیا Melancholia کے زیرِ عنوان کچھ رہنما باتیں مل جائیں گی۔ حکیم کبیرالدین صاحب نے اس کا فلسفہ یوں لکھا ہے کہ ’’یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں روح کسی واقعی یا خیالی موذی سے بھاگ کر اندر کی طرف چلی جاتی ہے۔اس کا اصل سبب نامعلوم ہے مگر متقدمین کا خیال ہے کہ یہ مرض غلبۂ سودا سے پیدا ہوتا ہے‘‘…
جدید دور میں اسی ذہنی تناؤ کو موٹیویشنل لیکچررس Motivational lecturers نگیٹیوز Negatives (منفیات)کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے سبب آدمی کے دل میں شکوک و شبہات، خوف، وحشت، بے بھروسگی، غصہ اور افسردگی وغیرہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے نتیجہ میں صحت پر خاصہ اثر پڑتا ہے۔ دردِسر، قلبی امراض، ہائی بلڈپریشر، ہاضمہ کی خرابیاں، پیٹ کے اَلسر، نیند کی گڑبڑی وغیرہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ایک ذہنی تناؤ نارمل ہوتا ہے۔ یہ وجود کے مقصد کے لیے ضروری ہے۔ اسے عام زبان میں ’’احساسِ ذمہ داری‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہر فرد کی اپنی استطاعت کے مطابق یہ موجود ہوتا ہے۔ آدمی اس کے سہارے زندگی پلان کرتا ہے۔ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ دوسرا اضافی ہوتا ہے جو مادّی فوائد کی چاہت یا خواہشات کے سبب وجود میں آتا ہے۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ مثبت رہیں یا منفی ذہنی تناؤ سے ہمیں چھٹکارا یا مَفر نہیں ہے۔ مختلف حالات اور مختلف عمر میں اس کی قدر و مقدار بھی الگ الگ ہوتی ہے۔
ذہنی تناؤ سے تحفظ کی کچھ تدبیریں
دنیا میں اس وقت سیکڑوں تدابیر اور طریقۂ علاج رائج ہیں جنھیں ذہنی تناؤ سے متاثر لوگوں کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
٭کوئی یوگا کا مشورہ دیتا ہے، کوئی مراقبہ کا، کوئی پوجا اور کسی عبادت کا، کوئی نیچروپیتھی اور ہولسٹک Holistic میڈیسین کا، کچھ لوگ ٹونے ٹوٹکے اور عملیات کو راہِ نجات بتلاتے ہیں تو کوئی کاڑھا، جوشاندہ اور گھول پلاتا ہے۔ غرض ایک طویل فہرست ہے جس کا مقصود صرف روحِ انسانی اور نفسیات کی اصلاح و سکون ہے۔
٭ اُن عوامل کو پہچان کر ان سے گریز کریں جو مستقل طور سے آپ کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔
٭ زندگی کی بہترین منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور منفیات سے بچتے رہیں۔
٭ خود میں وہ بصیرت پیدا کرنا چاہیے جو ہر قسم کے حقائقِ زندگی کو قبول کرتی ہے، ان کا استقبال کرتی ہے۔ پھر اس بصیرت کی باقاعدہ پرورش کرنا چاہیے۔
٭ نقصان کے لیے خود کو ہمیشہ تیار رکھیں؛ کسی کھلاڑی کی مانند۔ کیونکہ نقصان کی صورت میں آپ رنجیدہ و مایوس نہیں ہوں گے، آئندہ بہتر پرفارمنس کے لیے خود کو تیار کریں گے؛ اور فائدہ کی صورت میں آپ کو حقیقی خوشی حاصل ہوگی۔
٭ اپنی قوتِ ارادی (self confidence) کو مضبوط بنائیں۔ اور اس کابہترین طریقہ خالقِ کائنات سے مدد و استعانت کی چاہ میں مضمر ہے۔ اس کی عبادت میں مخفی ہے۔
٭ ٹینشن کی دوائیں ایک محدود و مختصر مدت کے لیے ہوا کرتی ہیں۔بوقتِ ضرورت۔ لیکن ساری زندگی میں ایڈجسٹمنٹ آپ کی اپنی ذمہ داری ہے اور سوجھ بوجھ کی متقاضی ہے۔
٭ اچھی غذاؤں کا استعمال کریں۔ وزن کو اعتدال پر رکھیں۔
٭ بے وجہ و بے سبب قرض لینے سے بچیں۔
٭ معمولی ورزش کی عادت و معمول بنائیں۔ آہستہ آہستہ گہرے سانس لینے سے بدن کو راحت ملتی ہے۔
٭ سگریٹ نوشی، تمباکوخوری، نشہ، چائے، کافی وغیرہ کے استعمال سے بچیں۔
٭ کام اور معمولات سے کچھ دنوں کے لیے چھٹی لینا اور پُرفضا مقامات کی سیر کرنا چاہیے۔
٭ پرسکون نیند کے لیے تدبیر کرنا اور اس پر استقلال کے ساتھ جمے رہنا چاہیے۔
٭ بڑے بڑے سپنے سجانے اور ناقابلِ عمل منصوبے بنانے سے حتی الامکان گریز کریں۔ ناکامیوں پر مغموم نہ ہوں اور شاعر کے اس حال سے عبرت حاصل کریں کہ:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

(بشکریہ ’’اُردو دریچہ‘‘)