زیرو پیریڈ کی کہا نی

اکرام اللہ ملک

آسمان سے گراکھجور میں اٹکاکا عملی نظارہ دیکھنا ہو تو ہمارے کالج کے زیرو پیریڈ کا احوال دیکھ لیں ۔سکول میں اسمبلی کے ستائے شاہیں بچے جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج آتے ہیں تو کالج گیٹ سے بھی ذرا پہلے انکا استقبال رانجھاصاحب کرتے ہیں۔اور ان کو دیکھ کے بچوں(اور اساتذہ) میں عمومادو طرح کے رد عمل متوقع ہوتے ہیں جس پر بحمداللہ ہر دونو ں فریق ہمیشہ پورے اترتے ہیں۔پہلا رد عمل یہ کہ بھاگ جائیں اور دوسرا یہ کہ جلد ی سے بھاگ جائیں۔ اسکے بعد کالج کے خدائی فوجدار انہیں گھیر کر اور بعض اوقات ہانک کر کالج کے کرش ہال (جس کو بعض اساتذ ہ کریش ہال بھی لکھتے ہیں)تک لاتے ہیں جہاں پر کالج کاکلریکل سٹاف ان کے اردگرد ایک حفاظتی حصار بنا کے کھڑاہو جا تاہے اور ریکارڈ کے لیے اس وقت تصاویر بھی لی جاتی ہیں۔اس دوران کالج کے اساتذہ جو عموما گھر سے نکلتے نکلتے لیٹ ہو جاتے ہیں، بمشکل ڈائس تک پنجتے ہیں اور ایک عظیم خطبہ دیتے ہیں۔
ان خطبات کو ہم پانچ اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں اول درجہ اصلاحی و اسلا می خطبات ، دوم ڈینگی خطبات ،سوم ڈنگ ٹپاؤ خطبات ، چہارم صدارتی خطبات جبکہ آخری قسم کا ذکر بعد میں کیاجائے گا۔اؤ ل قسم کے خطبات میں سب خطبات آتے ہیں کیو ں کہ تما م خطبات بچوں اور میرے جیسے گمراہ لوگوں کی اصلاح کے لیے کیے جا تے ہیں بس خطبہ کا اختتامیہ ڈینگی پر کرنا لازمی ہے کیوں کہ ڈینگی سے ڈرنا نہیں مقابلہ کرناہے۔ دوسری قسم کے خطبات صرف باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر قاضی ناصر مسعود صاحب اورپروفیسر مرزا طارق صاحب کا استحقاق ہیں۔ جبکہ ڈنگ ٹپاؤ خطبات عموما ایسے موقع پر دیے جاتے ہیں جب تلاوت کے بعد بچوں سے تین سے چار بار نعت شریف پڑھانے کے بعد بھی نو نہ بجیں تو با امر مجبوری بچوں پر رعب جھاڑنے کے لیے اور رانجھا صاحب کے رعب سے بچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔جبکہ صدارتی خطبات ہر خطبہ کے اختتام پر صدر زیرو پیریڈ جناب رانجھا صاحب (پرنسپل کالج )دیتے ہیں جو عموما پہلے ہونے والے کسی بھی خطبہ کا اثر زائل کرنے کے لیے آب حیات ثابت ہوتے ہیں ۔
اگر چہ اس علمی خزانہ کا صفحہ قرطاس پہ لانا ممکن نہیں تاہم اس خطبہ کے بعد لکھی جانے والی رپورتاژ سے کچھ اقتباسات آپ کی خد مت میں حاضر ہیں ۔ اقتباسات تو درکنار ان خطبات کے صر ف عنوان پڑھنے کے بعد ہی آپ کو اقبال کے خطبات کی علمی حیثیت مشکوک ہوتی نظر آئے گی۔خطبات کی اقسام کے تناظر میں پروفیسر صاحبان کی بھی اقسام ہیں( سوائے شعبہ ریاضی کے پروفیسرز کے) جو صرف مخصوص موضوعات پر ہی اپنا دہن کھولتے ہیں۔شعبہ ریاضی کو دو نابغہ روزگار ہستیاں نصیب ہوئی ہیں۔ایک تھے ’ہمارے بہت ہی پیارے دوست‘ مدثر الرحمان ، اسلام آباد سے تعلق تھا اور اب داغ مفارقت دے کے دولتالہ کالج میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔اردو نثر میں تعلی کی صنف متعارف کروانے کا سہرا انہیں کے سر ہے۔موصوف زویر پیریڈ کی رپورٹ میں اپنانام ہمیشہ ’’جناب پروفیسر مدثر الرحمان صاحب نے فرمایا ‘‘ کے سنہری حروف میں لکھتے تھے۔جبکہ شعبہ ریاضی کے سربراہ (کیونکہ اب وہ اکیلے ہی ہیں)قمر سلطان صاحب(جنہیں ہم پیار سے میراسلطان اور کچھ احباب تیراسلطان بھی کہتے ہیں) کالج کی واحد شخصیت ہیں جن کامطالعہ اور دائرہ تحقیق باقی تما م پروفیسرز صاحبان سے زیادہ ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ رانجھا صاحب انہیں ہمیشہ ڈاکڑ کہہ کے بلا تے ہیں۔ آپ نے اخلاقی، مذہبی، سائنسی ،معاشرتی اور مابعدطبیعات جیسے دقیق موضوعات پر لیکجر دے کے ثابت کیا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ قمر سلطان صاحب کے علمی مر تبہ کا تعین کرنے کی میری مجال نہیں ۔’’عالم برزخ،ڈینگی اللہ کا عذاب،ڈینگی کی علامات اور وقت کی پابندی ،برمودہ مثلث،جنات کی حقیقت، روح کیا ہے،عالمی اور قومی تعلقات ‘‘جیسے موضوعات پر زیرو پیر یڈ میں انہو ں نے گفتگو کی ان عنوانات ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کتنے نادر الکلام اور قادر الکلا م واقع ہو ئے ہیں۔بس مجھے ڈر ہے کہ کسی تحقیقی ادارے کی نظر ان پر پڑ گئی تواس کے بعد ہمارے کالج میں پیدا ہونے والے ایک بہت بڑے علمی خلا ء کا دھڑکا ہمیشہ دل کو لگا رہتا ہے۔اسلامی و اصلاحی خطبات کاذخیرہ سب سے زیادہ ہے ۔شعبہ اسلامیات کے پروفیسر خالد کھوکھر صاحب اور میر ی باری ایک دن ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے میں زیرو پیریڈ میں خطاب کرنے سے عموما محروم ہی رہا ہوں۔جس میں ان کے علم اور میر ی ازلی سستی کا حصہ برابر ہے۔ اس کمی کو CTI اسلامیات حضر ت ظاہر سلطان صاحب نے بخوبی پورا کیاہے۔حضرت نے عظیم اصلاحی خطبات کے علاوہ اردو زبان میں ’ڈیوٹی ڈاکڑ‘ کے بع ’’ڈیوٹی پروفیسر‘‘ کی ترکیب متعارف کروا کے اردو کی وسعت پر انگلیا ں اٹھانے والوں کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کردیے ہیں۔ جبکہ زیرو پیر یڈ کی رپو رتاژ میں آپ ہمیشہ لکھتے ہیں کہ زیرو پیریڈ کا ’انجام ‘ قومی ترانہ پر ہوا۔کیونکہ دوسرے علوم کی طرح میر ا اسلام کے بارے میں علم میرے عمل سے بھی کم ہے اس لیے ان خطبات پر لب کشائی سے پہلے اس موضوع پر دیے جانے والے خطبات کے عنوان آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔انسان کی حقیقت اور اللہ سے لگاؤ،آخرت بہتر بنانے کے طریقے، اخلاقیات اور حب الوطنی ، ہمارے اعمال اور بد امنی، قرآن مجید کے سائنسی انکشافات، حضرت موسیٰ اور نمرود کا مکالمہ،آسمانی آفات اور ان سے بچنے کے قرآنی احکامات،دور حاضر میں روحانیت کی ضرورت ، قیامت کے دن کی ہولناکیاں وغیرہ جیسے بیش قیمتی موضوعات پر لب کشائی کی جاتی ہے۔ اب یہ حسن اتفاق ہے یا ان خطبات کی کرامت کہ اس علمی خزانہ کی تاب نہ لاتے اوسط ہر چوتھے دن ایک بچہ زیرو پیریڈ میں بے ہوش ہوتاہے۔میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے طبی وجوہات کے علاوہ علمی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔اسی قسم کے خطبات میں کیمسٹری کے پروفیسر ہمارے محترم قاضی فیصل رشید صاحب(لیکچرر کیمسٹری) فرماتے ہیں کہ زلزلے ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں اب میرے کج ذہن میں یہ سوال آتاہے (کیوں کہ میں نے سن رکھا ہے کہ زلزلے چاند اور دوسرے ستاروں پر بھی آتے ہیں)کہ چاند پہ کون سا محترمہ نرگس کا رقص ہوتاہے یا وہاں کونسے نصیبولال کے گانے چلتے ہیں۔
جبکہ ان خطبات میں سب سے اہم خطبات صدارتی خطبات ہی ہیں کیونکہ BOSS IS ALWAYS RIGHT ۔یہ خطبات عموما پانچ سے سات منٹ پر محیط ہوتے ہیں لیکن اپنی علمی ، تحقیقی اور موضوعاتی کثیر جہتی میں بڑے بڑے خطبات کو مات دیتے ہیں۔رانجھاصاحب (پرنسپل کالج )کے خطبات عموما ایک نصیحت سے شروع ہو کر ۔۔۔۔پر ختم ہوجاتے ہیں۔جس کے بعد رانجھا صاحب تما م حاضرین کو للکار کر کہتے ہیں کہ ترانہ زور کے ساتھ ایسے پڑھیں کہ سڑک پر سے گزرنے والے لوگوں کو پتا چلے کہ یہاں ایک باغیرت قوم کے نمائندے کھڑے ہیں۔
جبکہ آخری قسم کے خطبات کو خفیہ خطبات کا نام دیے جا سکتاہے کیونکہ وہ لڑکیوں کے زیروپیریڈ میں رانجھا صاحب (کالج پرنسپل) اور شاذونادر یونس ملک(وائس پرنسپل) صاحب دیتے ہیں اور راقم الحروف کی وہا ں تک ابھی رسائی نہیں۔لیکن مخصوص ذرائع کے مطابق وہاں پر کچن گارڈننگ سے لے کے طبی مسائل تک مفصل اور مدلل گفتگو کی جاتی ہے۔جبکہ لڑکیوں کو مختلف بیوٹی ٹپس کے علاوہ کاسمٹکس کے استعمال سے پید ا ہونے والے ممکنہ اور ناممکنہ مسائل کا حل بھی تجویز کیا جاتا ہے۔