جون ایلیا ،بولتے کیوں نہیں: ’’آبلے پڑ گئے زبان میں کیا‘‘

(نسیم سید)
   جون ایلیا کے لئے لکھنا  مشکل ہے۔۔ بہت مشکل ۔۔ مشکل اس لئے کہ  کون سے جون ایلیا ؔ پر بات کی جائے،  اس نا  بغئہ  فکر کے  کونسے پہلو کو گرفت میں لیا جائے  کہ انکا تخلیقی وجود  ادب کی کسی ایک نہیں بلکہ تمام اصناف سے جڑ ا ہوا ہے ، اس کثیر الجہات  کی کس جہت  کا بیان ہو کہ جون ایلیاؔ صرف ا یک بے مثال شاعر ہی نہیں ایک  باکمال اور بے مثال نثر نگار بھی  تھے ۔وہ  نثر نگار جس کا کو ئی ثا نی نہیں مو جودہ دور میں ۔  وہ صر ف ایک فلسفی ہی نہیں  ایک ماہر لسانیات بھی  تھے  ۔ جون ایلیا نے  با با ئے فار سی ر ودکیؔ   اور  فردوسی ؔ،  نظیری ؔ، رومی اؔور حا  فظ ؔجیسے اسا تذہ کے سا منے زانوئے   تِلمّذ  تہہ کیا  اور انہیں اپنا مرشد اور استاد  مانا ۔ فارسی کے ان اساتذہ کے حوا لے سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے  ہیں’’  میں نے ایک تلمیذ کی طرح انکا مطالعہ کیا ۔  کسی اردو شاعر کو میں نے اس طرح نہیں پڑھا اس گروپ کو میں ’’  دوستوں کے گروپ ‘‘  کی شکل میں دیکھتا  تھا  کسی حد اس کی  وجہ یہ تھی  کہ مجھے علم تھا کہ  انہوں نے بھی انہی اسا تذہ کا مطا لعہ کیا ہے  جن کو میں نے پڑھا ہے۔ اس اعتبار سے میں ان سبھی کو اپنے ایسے ہم سبق سمجھتا تھاجنہوں نے ایک ہی دا  نشگا ہ میں  زانو ئے   تِلمّذ  تہہ کیا۔   بے شک ان میں سے چند میرے سینئر ہو سکتے تھے  ۔ مثال کے طور پر  اگر مجھے  نویں درجے کا طالب علم سمجھ لیا جا ئے تو میرے مقابلے میں  غالبؔ اور میرؔ  فا ئینل ایر کے طلبہ تھے ۔ تاہم تھے تو ہم ایک ہی کالج کے سا تھی لیکن فارسی کے عظیم اساتذہ ۔۔وہ  تو مرشد تھے ،  استاد تھے اور اردو کے تمام بڑے شعرا نے ان عظیم فارسی اسا تذہ سے کسب فیض کرنے کا اعتراف کیا ہے ‘‘
وہ  مغر ب اور مشرق کے فلسفیوں کا  اپنی  نگارشات مین  تقا بلی تجز یہ  اس تفصیل سے پیش کر تے ہیں کہ انکے مطالعے کی گہرائی  اور تقا بلی فکر  پر دل عش عش کر اٹھتا ہو  ۔  انکے برسہا برس کے عمیق مطا لعے  نے ہی ان سے بیان دلوایا کہ  ’’ مغر بی نظا م فکر میں افلا طون اور ارسطو  جس منصب پر قائم ہیں ہماری روا یت میں وہی مقام ابن سینا اور فارابی کا ہے‘‘  جون ایلیا نے  عربی اور فارسی  مفکریں  کی  نگارشات و افکار کا  مطالعہ  ہی نہیں کیا بلکہ انکے تراجم  بھی اردو میں کئے ہیں ، انہوں نے ا سلامی تاریخ صرف پڑھی نہیں  بلکہ  اموی، عباسی اور فاطمی دور کے تما م ا ہم کرداروں کو اپنے لکھے ہوئے ڈارموں میں زندہ کردیا  ان کرداروں کی زبانی تاریخی واقعات  کو مکالمہ بنا کے  انہیں زبان دے کے ہزاروں افراد کے سا منے  لا  کھڑا کیا ۔ وہ کہتے ہیں’’ میں ان ڈراموں کے پیش نظر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسلامی تاریخ پڑھی نہیں دیکھی ہے ۔ ۶۸۰  ء  کا وہ منظر  میرے سامنے  کی بات ہے جب  عبید الہ ابن زیاد بن مسلم بن عمر باہلی ، شریک بن اعور حا رثی  اور دوسرے لوگوں کے سا تھ سیاہ عمامہ باندھے  ہوئے رات کے وقت کوفے میں داخل ہوا تھا ۔ ابن زیاد کے لشکر نے توا بین کے قائد  سلیمان بن صرو خزاعی  اور ان کے سا تھیوں کو میرے سامنے خون میں نہلا یا تھا  ۔  خاندان برمکہ ،  آ ل نوبخت  اور آل بو یہ کے افراد میرے دیکھے بھالے ہیں۔ابوالسرایا بسا سیری ؔ، فاطمی امام مستنصر باللہ ؔ، ابن کلس  بدر الجمالی اور ابن علقمی میرے لئے کئی صدی پہلے کے لوگ نہیں تھے ۔ میرے لڑکپن کے لوگ ہیں ۔ میں نے انہیں بولتے چالتے چلتے پھر تے دیکھا ہے ‘‘    یہ ہے وہ جوں ایلیا جس  کے  بارے میں لکھنا  جس  کی فکر کی  تہیں کھو لنا  ان کو ہو بہو دنیا کو دکھا نا آ سان نہیں  ۔ شاید یہ انکے  اسی علم کی ہیبت ہے کہ  اردو دنیا
میں انکے نام پر ایک  با معنی سناٹا طا ری ہے ۔ جون ایلیا  کے فن کے  مداح  لاتعدا د ہیں،  بے شمار ہیں  مگر اس فن پر گفتگو اگر ہو ئی بھی ہے تو اچٹتی سی  اور نہ ہونے کے برابر  جس پر حیرت ہے۔
 یہ شکوہ  یا  دکھ یا حیرت  یا سوال   وقت کا  شاعروں ادیبوں تنقید نگارون کے اژ دھما م  سے ہے۔۔  اس  غم کو ، اس  چشم پوشی کو  اور  اس سوال کو اپنی زند گی میں  ہی  جون ایلیاؔ نے بڑے دلدوز انداز میں رقم کر دیا تھا
کیا مری فصل ہوچکی ؟ کیا مرے دن گزر گئے؟
 یہ  ایک مصر ع نہیں  جون ایلیا کے مداحوں کے  دلوں کی ہوک ہے  اور یہی مجھ سے میری کنکر بھر بساط کو کا ئی لگے  تا لاب میں پھینکے
 کا مطا لبہ کرتی رہی ہے۔
جون ایلیا کے مضا میں کے موضوعات  کی وسعت  و  بیکرانی اور اسلوب کی رنگا رنگی ،  انکی شاعری   کا منفرد لہجہ  اس لہجے کہ گہرائی  جون ایلیا ؔ  کے فن پر تفصیلی  گفتگو  کا تقا ضہ کرتی  ،مگر اب وہ دور نہیں رہا  جب فن کے قدردان ہوا کرتے تھے ۔  اب  کچھ اور ہی تما شے ہیں ۔  ایک  منہنی  سی شاعر ی پر  ڈھائی سو  صفحات  کی کتاب  اور  کئی درجن  مضامین  کے بارے میں  بہت معتبر  بہت مشہور ادیب  نے  بتایا کہ  فی مضمون  پانچ ہزار  دئے گئے ہیں ۔۔  اول تو ممکن نہیں  لیکن  اگر ایسا ہوا کہ یہ مضمون  انکی نظر سے گزرا  جن مشہور ادیب کا میںنے حوالہ دیا ہے  تو  شاید  انکے ا ندر موجود  گدھ اس بات کو بر سر عام  کہنے پر مجبور کردے ۔  ان تماشون کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب جانتے ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں ۔ اور سب خاموش ہیں کہ اس کے علا وہ کوئی چارہ نہیں۔
ایسے میں جون ایلیا جیسے  شاعر کو  تو  رائیگا ن  جا نا ہی  تھا جسے پتہ ہی نہیں تھا کہ کتنے برس  مقتدر  ادبی شخصیات  کی
چا کری کرنی پڑتی ہے کسی  سند  اور  کسی افتخار  کی  مہر اپنے نام کے ساتھ لگوانے کے لئے ۔  جون ایلیا  کے لہو  میں
 پشت ہا پشت کی  اعلیٰ روایات کی  وہ گونج تھی کہ  وہ  اپنے  آ پ سے تو در بدر ہو سکتے تھے مگر شہرت کا  کا سہ لئے  کسی ادب کے امیر و وزیر کے درپر حا ضری لگوانا ان کے بس کی بات تھی ہی نہیں۔۔۔ سو  ۔۔جونؔ  را ئیگاں گئے ، اس رائیگانی پر انہوں  نے صبر کیا  اور اپنے صبر کو تصویر  کیا   کہ انہیں اتنا ہی  آ تا تھا ۔
یہ عہد وہ  ہے کہ دانشوران عہد پہ بھی
منافقت کی شبیہوں کا خوف طا ری ہے
نماز خوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو
قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے
 جون ایلیا کے چا ہنے والے ، انکے فن کے حضور دو زانو ہونے ، انکی شاعری  کی تلا وت کرنے والے ، انکی  نثر کے ہر  لفظ  پر رقص کرنے  وا  لے لاتعداد ہیں ،  وہ  چپ نہیں رہیں گے ،  وہ  جون  کے لکھے ہر لفظ پر انگلی رکھ  رکھ کے پڑھائیں گے ، اونچی اونچی آ واز میں سنائیں
گے اس بے حسی کو اس سنا ٹے کے جو ان کے نام پر طاری ہے۔
جون ایلیا ؔ  صرف  شاعری کا ہی ایک بہت بڑا نام نہیں  ہیں  انکی  نثری تخلیا قات  ، انکے فلسفیانہ مضا میں ،  انکی  انکی منطق  کے حوالے سے عالمانہ گفتگو ،  انکی تنقیدی بصیرت  جس  مقام سے مخاطب کرتی ہے  وہ  ششدر کر دیتی ہے
  انکے قا ری  کو ۔  مجھے  اس  مضمون میں  انکے  قلم کے اس  جوہر کے صر ف چند نمونے پیش کرنے ہیں  کہ انکی   پہچان صرف شاعر ی تک  محدود ہے   ۔  اس مضمون  میں جو تفصیلات  آ نی چاہئے تھیں وہ  اس کو کتابی شکل دینے کے موقع پر  پیش کرونگی۔
جون ایلیا ؔ  کی نثری تخلیقات جن کی تفصیل انکے مجموعے  شا ید پر درج  ہے  اس حوالے سے انکے بہت قریبی دوست سے جب میں نے سوال کیا کہ یہ کتابیں  کیا کہیں دستیاب ہیں تو  وہ مسکرائے  ـ ’’ یہ کتابیں ان کے خواب ہیں ‘‘   جون ایلیاؔ
   سے جو واقف ہیں  وہ  اس بات سے بھی بہت اچھی  طرح واقف ہیں کہ جون  کا علم   اپنی شہرت کے لئے کسی جھوٹ کا محتا ج نہیں تھا  جون ؔ   ہر گز ہر گز  کتابوں کے تصوراتی نام شائع کرنے کی اجات دے  نہیں دے سکتے تھے  ۔  یہ  درست ہے   کہ جون ڈارمے کے ایک  منجھے ہوئے ادا کار تھے   لہذا دنیا کے اسٹیج پر بھی  جب جی چاہے ادا کاری کے خوب خوب جوہر دکھاتے تھے   مگر  علم کے  سمندر میں کنارے  پر پائوں بھگو کے  اور چند لہروں میں بھیگ کے خود کو تیراک اور غوطہ خور ثا بت کرنے والوں میں نہیں تھے کہ  انکا تو بچپن ہی اس سمندر کی موجو  ں کے ساتھ کھیلتے گزرا  تھا   انکے بچپن  کے ہاتھ میں پتنگ کی ڈور کے بجائے منطق کی  ڈور تھی ، انکی جوانی عہد عتیق ،   بابل و  نینوا اور تا ریخ کے کھنڈرات  کی پرتیں الٹتے  اور ان کھڈرات کو پڑھتے گزری ۔ دنیا بھر کی زبانوں  کو انہوں نے سیکھا نہیں  بلکہ  انہیں اپنی رفاقت میں لے لیا ۔ عربی اور  فارسی سے عا شقی کی ، عبرانی   اور انگریزی سے یا رانہ گانٹھا   اور اردو کو مسند و تکیہ  کیا  ۔  انکے عشق کی دیمک نے انکے وجود کو چا ٹ لیا تو وہ خود  سے لا تعلق  ضرور ہو گئے مگر وہ  اس عالم سے کیسے
 لا تعلق ہو سکتے تھے  جو  انکی بھری پری شادا ب کمسنی سے  لیکے لہلہا تے  ہوئے افکار کی جوانی  اور  پھر  ا نکے   اطراف کی    اور انکے اندر کی بے کراں  تنہا ئیوں میں انکا  غمگسا  ر تھا ۔  وہ اپنی محویت میں گم  اس ہمزاد  سے محو کلام رہتے تھے    ۔
جون ایلیا ؔ کا خود سے لا پرواہ  اور  لاتعلق  طریق  زندگی  لوگو ں کو جو بھی  رائے قائم کرنے پر مجبور کرتا ہو مگر وہ جانتے تھے  کہ کونسے عالَم میں رکھتا تھا انکے اندر کا عالِم  انہیں تبھی تو کہا تھا  انہوں نے ۔
 ’’میں بے ہوشی میں بھی بے ماجرا نئیں  ‘‘
یہ وہ جون  ایلیا ہیں جن کو میں نے تھوڑا  سا جانا مگر جو انکو بہت جانتے ہیں وہ گواہی دینگے کہ جب بات علمی لہجے میںہورہی ہو  تو  لسانیات کی ہو تاریخ کی ہو منطق کی ہو  شاعری کی ہو،  قوا  ئدِ شاعری کی  ہو  یا اردو فارسی اور عربی کے  کلاسیکی شعراء کی  وہ پورے ثبوت  کے ساتھ بے تکان بو لتے تھے  اور  اس تصد یق  کے سا تھ گفتگو کرتے کہ بڑے بڑے نامور ادیب ششدر رہ جاتے تھے ۔ جون  ایلیا سے  بھی کبھی ان  کی تصنیفا ت و تراجم  میسح بغداد۔ حلاجمطالعہ طواسین،  مسائل تجرید ، رسائل اخوان الصفا  ، اخبار الحلاج  ، اسماعیلیت شام و عراق میں ۔ اسماعیلت جزیرہ
 عرب میں،  اسماعیلت یمن میں، حسن بن صباح  کے حوالے سے بات نہیں ہوسکی  کہ ان سے ملا قاتیں ہمیشہ انکی دو شخصیتوں سے  ملا قات پر مبنی ہوتی  تھیں،  ایک وہ  جون ایلیا  ؔ جو  اپنی  بہت  گہری خامشی او ر بے تحا شہ بے دلی  کے  صحرائوں میں ٹھوکریں کھاتے خود سے یوں دور نکل جاتے تھے کہ اپنے ارد گرد کا  کہ   انہیں ہوش ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ ایسے میں انہیں مخا طب کرنا بہت مشکل ہوتا تھا  یا پھر وہ جون ایلیاؔ  جو گفتگو کررہے ہوتے تو  اپنے مخاطب کو جیسے کو ئی نشہ  آ ور مشروب  انڈیل انڈیل کے  دئے چلے جاتے کہ انکی گفتگو  میں دھت ہو کے  سوال جواب کی سدھ بدھ ہی نہیں رہتی تھی۔ لہذا  ’’شاید ‘‘  پر دی گئی کتابوں کی فہرست صرف انکا خواب تھی نے  مجھے عجب سی بے چینی میں بھی  مبتلا رکھا  اور میری کھو ج کو  بھی مہمیز کیا کہ میں ان  کتابو ں کے حوا لے کہیں  تلا ش کروں  اس سلسلہ میں میری اس کھوج کو  جناب خرم علی  شفیق کا  ۳  جنوری ۱۹۹۵ ؁  کا ڈان  اخبا ر کا  ایک  مضمون خو  ش آ یا ۔ خرم علی شفیق  کے مضموں سے  جون ایلیا کے ا ن تصنیفات اور ترا جم  کا کچھ سرا غ ملتا ہے جو  انہوں نے اسلا  می تاریخ اور فلا سفی  کے تراجم و تحقیق کے حوالے  اسماعیلی   ورلڈ اسلامک سینٹر میں انجا م دیا ۔ خرم علی نے  جون ایلیا ؔ سے اپنے مکا لمے  کی جو تفصیل لکھی ہے  وہ  جو ن ؔکے مفکرانہ خیالات  کی نشاند ہی کرتی ہے۔
  جونؔ کہتے ہیں
ـ ’’ میں  ( ورلڈ اسماعیلی )  سینٹر میں  اسلامی تاریخ اور فلسفے پر کا م کر تا تھا ۔  میں نے اخوان الصفا کی خفیہ تنظیم کے مرتب کردہ انسائیکلو پیڈ یا  کی با ون جلدوں کا  اردو ترجمہ کرنے کی پیشکش کی ۔ اس انسا ئیکلو پیڈیا نے روسو اور والٹیئر جیسے انقلابی  مفکرین کے ساتھ ساتھ اٹھارھویں صدی کے فرانسیسی انسائیکلو پیڈیا  اور  لغت نگا روں کے تحریک دی  ۔
در اصل ان  با ون جلدوں میں  علم الا  عدر اور ریا ضی سے لیکے علم نجوم، مو سیقی ، اور پراسرار علوم تک بہت سے
متنوع موضوعات کا ا حا طہ کیا گیا تھا ۔  میں اس  انسائیکلو پیڈ یا کی  بیس جلدوں کا  تر جمہ کرچکا تھا ۔۔ انیس سو سا ٹھ کے
اواخر میں اسما عیلی سینٹر کراچی سے لندن منتقل کریا گیا  ا س طرح  یہ پروجیکٹ  نا مکمل رہ گیا  اور اس کے بعد میرے
 تر جمے کے مخطو طا ت کی پانچ جلدوں کے علا وہ باقی گم ہو گئیں ‘‘
خرم علی  (  خرم علی اسی سینٹر  میں  ایک اطلاع کے مطا بق  جون ایلیا کے ساتھ کا م کرتے تھے   مگر اس کی تصد یق  میرے پا س نہیں ہے ) نے اسی حولے سے گفتگو کرتے ہوئے  لکھاہے
’’ ان کے مطالعے کا ایک اور اہم  موضوع حلاج  تھا۔ حلاج مسلمانوں کے دور حکومت کی تیسری  صدی کے صوفی شہید تھے۔ حلاج کے اس مطالعے میں  اٹھارہ سال کے عر صے اور تین سو سے زیا دہ  ماٗ خذوں کا ا حاطہ کیا گیا تھا ۔
اشک  آ میز آ نکھوں کے سا تھ  انہوں نے بتا یا کہ ان کی محنت کا ثمر یعنی حلاج کے مخطو طا ت  ان کی ذا تی زندگی کے
حوادث کی  نذر ہو گئے ۔سو یہ ہوا کہ  جون ایلیا ؔ نے  اسلامک سینٹر  میں تصنیف و تالیف  کا جو کا م کیا  ، جو محنت کی ،  جو وقت لگایا  اور جن بیس والیم پر انسائیکو پیڈیا کے کا م کیا وہ ذیادہ  لندن کے اسلامک سینٹر کی ملکیت ہے  ْ؎۔جو پانچ جلدیں انہوں  نے  محفوظ کی تھیں ذاتی
کام کی اس میں سے  شاید  دو ایک محفو ظ ہو ں مگر باقی کا کوئی پتہ  نہیں عوام کو شاید ان  کے قریبی دوستو ں کو اسکا کچھ علم ہو ۔
حقی صاحب  نے ایک بار مجھے بتا یا تھا کہ کمپوٹر پر محفوظ  کی ہوئی انکی ایک فائل کسی طرح ڈیلیٹ ہو گئی تو  پورا ہفتہ  وہ سو نہیں سکے تھے  صدمے سے ۔ جون  ایلیا کی تو برسہا برس کی محنت کا ثمر  تھا  انکا وہ کام  ۔۔ یہ نقصا ن صرف جوں ایلیا کا نہیں بلکہ  اردو ادب کا وہ  نقصان ہے  جس کی تلا فی ممکن ہی نہیں ان کئی ہزار صفحات میں جوں ایلیا نے اپنی فلسفیانہ فکر ، اپنے  جدا گانہ طرز نگارش ،  اپنے استد لال  اور عربی اور فارسی پر اپنی  دسترس کے جو جوہر دکھائے ہونگے افسوس  کہ وہ شاید ضائع ہوگئے یا شا  ید کسی  غیر  محفوظ فا ئل میں محفوظ ہو گئے  اسکا کھوج لگانا اب مشکل ہے مگر ہمارے پاس  ـ ’’ شا ید ‘‘   کے  پیش لفظ کی صورت میں جو ۳۰  صفحا ت ہیں یہ اندازہ لگانے کے لئے کا فی ہیں کہ وہ  کئی ہزار صفحا ت  کیسے نادر،  کیسے قیمتی اور کتنے انمول ہونگے ۔   شاید کے  دیباچے کے حوالے سے معروف شاعر فر حت شہزاد سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بے سا  ختہ کہا ’’ شاید ایک کتاب نہیں ہے یہ جون ایلیا کی دو کتا بیں ہیں ‘‘    اور یہ بات جس جس نے شاید کا دیبا چہ پڑ ہا ہے اس کے دل کو لگے گی کہ  یہ تیس  صفحا ت  دراصل کو زے میں سمندر کی  حقیقی مثا ل ہیں  ۔ اس کی ہر سطر ، اسکا ہر بیان  انکے علم  کی گہرائی کا   وہ ثبوت ہے جس کی نظیر نہیں ۔ جوں ایلیا  کی شاعری  ہو یا انکا کوئی نثر پارہ  ان کی زبان میں ایسا   تغزل ہے  ایسا والہانہ پن ہے  وہ معنی آ فرینی ہے ،فکر و خیال کی وہ رفعتیں ہیں زبان کو برتنے کا وہ ہنر اور ایسا سلیقہ ہے کہ  ا نکا  کہا  انکے ہی لہجے کی سند   بن گیا ہے ۔  اپنے تعارف کا یہ انداز دیکھئے
’’  میں دو آ بئہ گنگ و جمن کے حالت خیز،   رمزیت آ میز اور دل انگیز  شہر امروہہ میں پیدا ہوا ‘‘
اپنے  امروہہ کے  گھر  کا  ذکر کرتے کرتے ہوئے کہتے ہیں
’’وہ ایک مشرقی رویہ مکان تھا ۔ اس کا طرہ  دالان آ خر شب سے آ فتاب کا مراقبہ کرتا تھا ۔ اس مکان میں رات دن
روشنیِ طبع  اور روشنائی کی روشنی پھیلی رہتی تھی ‘‘
اسی   روشنیِ طبع اور روشنائی کی روشنی  نے جون ایلیا  کے  بچپن کی  آ یا گیری کی  ۔
’’  جب میں نے ہوش  کی  آ نکھیں کھو لیں تو اپنے گھر میں  صبح سے شا م تک شاعری، تاریخ ، مذا ہب ِ عالم ، جدید علم
ہیئت   اور فلسفے کا  دفتر کھلا دیکھا اور بحث مبا  حثہ  کا ہنگا مہ گرم پایا ۔  اس  تمام سر گرمی کا مرکز ہمارے با با
علامہ سید شفیق حسن ایلیا تھے ۔ وہ کئی علوم کی جامع تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے ۔ یعنی عربی ،   انگریزی ، فارسی ، عبرانی اور سنسکرت ۔  وہ قلم ہی نہیں مو قلم کے بھی  آ دمی تھے ،  دانتے کے بعد با با شاید پہلے آ دمی تھے جنہوں نے  کا ئنات کی نواحی اور ضواحی سے معاملت رکھنے  کا فنی ثبو ت مہیا کیا تھا ۔  انہوں نے جنت اور جہنم کا ایک نقشہ بنا یا تھا ۔ اس نقشے میںانہوں نے اپنے وجود کے باطن ِ  باطن اور کامنِ کامن کے جلال و جمال  کو کمال احسا س آ گینی کے ساتھ پیش کیا تھا ۔
انہوں نے جنت میں اپنی ذات ِ ذات اور صفاتِ صفا ت کے تمام روف  اور عطوف رنگ کھپا دئے تھے ۔ اب رہا  جہنم تو
میں انہوں نے بے حد جارحانہ ، سفاکا نہ اور  بینا ئی سوز رنگ استعمال کئے ۔ ان کے تمام جاننے والے جانتے ہیں کہ انہوںنے زندگی میں
ایک بار بھی غصہ نہیں کیا  مگر میرا خیال ہے کہ انہوں نے زندگی میں ایک بار ضرور غصہ کیا تھا یہ جہنم انکا غصہ تھا‘‘
  اس  بیان کے بعد جون ایلیا  کے دو سطری  بیان کو پڑہیں  اور  اس بے  پناہ شاعر  و نثر نگار ، ماہر لسانیات و فلسفی  کے  داخلی  کرب کا  اندازہ لگائیں۔
’’یہ دو بعدی  جہنم  ان کے  ار تیا بی ،   لا ا د ری  اور زندیق بیٹے  جون ایلیا کے حق میں سہ بعدی ہوگیا ہے اور وہ اس جہنم کے درکِ  اسفل میں جل رہا ہے، بھڑک رہاے ، دہک رہا ہے  مگر را کھ نہیں ہوتا ‘‘
یہ آ گ کونسی تھی جس میں  وہ جل رہے تھے ؟
 یہ آ گ  صر ف انکے ناکام عشق کی  آ گ نہیں تھی  یہ صرف  ایک عورت سے جدا ئی کا جہنم نہیں تھا ۔۔ اس سے انکار نہیں کہ انکے  آ خری دنوں میں  اس نا کام عشق کی وحشت  انکی روح کو دھجی دھجی کرکے ان میں ہر طرف اچھا لتی رہتی تھی مگر  انکے اندر جو  شعلے بھڑک رہے تھے اس  کی نشا ند ہی تو ان کی  ابتدا ئی تحریروں سے ہی ہو جاتی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ  یہ  آگہی کا جہنم تھا ۔ یہ علم کی  آ  گ تھی یہ انکی سیاسی بصیرت کی  تپک تھی ، یہ  طبقاتی تفریق  کے دھکتے ہوئے الائو تھے  ان کے سینے میں  جس  میں خود کو  وہ چارو ں طرف سے گھر ا ہوا اور بے بس و مجبور پاتے تھے .سنئے  جون ایلیا کے الفاظ میںکہ وہ کس جہنم میں آ گہی کے جل رہے ہیں۔
’’:  ہماری قوم کے بڑوں نے راستی کو بھلا دیا اور جھگڑوں  کو اس کی حدوں سے  آ گے بڑ ھا دیا ۔
:ہمارے خواب اور ہماری خوا ہشیں ،  اقتدار کے سموں  سے روندی گئیں  اور ہماری خوشیان حب جاہ کی چکی میں باریک پیسی  گئیں۔
:ہما رے ایوا نوں میں دانائی ترک ہوئی اور فراست پسپا ۔
: ہم مصیبت کے ٹا ٹ پر بیٹھے اور پشیمانی کی خا ک ہم نے  اپنے سروں پر ڈا لی ۔
:  اپنے بڑوں  کی طرف ہم نے دیکھا  اور چاہا کہ وہ اپنی پر نخوت انا کے زرہ بکتر اتاریں اور عجز و  انکساری کا لبادہ پہنیں
: ہم نے چاہا کہ وہ  حا کمیت کے چوک میں کھڑے ہوں تو ان کے ہا تھوں میں انسان پرستی اور خرد دوستی کا نصاب ہو اور
 آ نکھوں میں  آ نکھو ں میں عدل اور انصاف کے خواب۔
:  وا ئے ہو ان پر جنہوں  نے  ہماری خوہشوں کو ببو ل کے کا نٹو ں پر بچھا یا  اور ہمارے خوا بوں کو خزان کے سپرد کیا ۔
: وا ئے ہو ان پر جنہوں نے برد باری کا ذ خیرہ  دریا برد کیا اور تحمل کے کھلیان کو آ گ لگا ئی۔
:   ایسا کیوں ہوا لوگو کہ تم پر وہ مسلط کئے گئے۔۔۔ جو کئے گئے ؟
:   یاد کرو لوگو!  کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطا بق ہی ان کے حا کم منتخب کر تی ہے،
:  اے لو گو !  زمانہ ان ہی سے منہ پھیر تا ہے  جو خود سے منہ پھیریں۔
:  تاریخ  ۔۔۔۔  قوموں  اور گروہوں کو ان کے  حق سے کم   کر تی ہے اور نہ ذیادہ۔
:   جغرا فیہ ۔۔۔۔۔۔ ان ہی سے رو ٹھتا ہے  جو اپنے دریائوں،  پہاڑوں، سمندروں، کھیتوں۔ کھلیانوں، بستیوں ،باغوں
اور با  غیچوں کی نگہدا ری نہیں کر تے ۔
ہم نے جھوٹ کی بیسا کھی سے دنیا میں اپنا قامت بڑھا نے کی کو شش کی اور منہ کے بل گرے۔
: ہم نے اپنے جغرا فیہ کو مال غنیمت جا نا  اور اس سے محض سمیٹنے کو اپنا حق سمجھا۔  آ ج ہم اپنے حال  پر زارو قطار روتے ہیں اور اپنی بد بختی کی ذمے داری کھبی تاریخ ، کبھی جغرا فیہ ، کبھی دوستوں اور کبھی دشمنوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں
:  حقا ئق کا آ ئینہ ہمارے سامنے ہے  لیکن ہم اس کے روبرو نہیں  ہوتے ،  ہم کبھی اپنی تاریخ میں قریب اور بعید کی
غلطیوں پر نظر تو کریں،  کبھی اپنے جغرا فیہ   سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے ہمارے ہا تھوں کتنے زخم اٹھا ئے ہیں۔
: ہم  ۔۔۔۔ جنہیں دوسروں سے  حساب فہمی کا عا ر ضہ ہے ، ہم کبھی اپنا حسا ب بھی دیں، کبھی اپنے نامہ اعمال پر ایک نظر تو ڈا لیں ، تب ہی ہم اس کے اہل ٹھہریں گے کہ اپنے نا دان اور نا عا قبت اندیش بڑوں سے کہہ سکیں کہ انہوں نے راستی کو بھلا دیا  اور جھگڑے کو اس کی حدو ں سے آ گے بڑ ھا دیا۔
لیکن  عزیزو  ں  !  پھر اس کی نوبت ہی کیوں آ ئے گی ؟
تم حیران و  سر گرداں ہو میرے اس جملے پر ۔۔۔۔!
شاید تمہیں یاد نہیں رہا ،  ابھی چند  سا عتوں  پہلے میں نے تم سے کہا تھا کہ تاریخ  محکوموں کے اعمال کے مطا بق ہی انکے حا کم مقرر کرتی ہے!
:  کیا واقعی ،   تم اب بھی نہیں سمجھے کہ میں تمہیں کیا سمجھا رہا ہوں؟
جون ایلیا کے  ’’ انشا ‘‘     میں چھپنے و الے بے شمار مضامیں  سے یہ صرف ایک مضموں ہے  یہ انکی بے کنار فکر کی صرف ایک موج کی نشاندھی ہے۔یہ انکی  انشاپردازی  کا صرف ایک ورق ہے ، یہ انکی فلسفیانہ فکر  کی صرف ایک جھلک ہے
اور یہ انکے سیای شعو ر اور   تاریخ  و جغرافیہ سے  واقفیت کی صر ف ایک  مثال ہے .
جون ایلیا  نے  ادب ، فلسفہ تا ریخ جغرافہ جس مو ضوع کو بھی چھوا اس کو سر سری طور پر  بیان نہیں کیا  دوسروں کی  تحریر سے  بڑے بڑے مفکرین کے  حوالہ جا ت اکٹھا کر کے اپنے قاری کو مر عوب کرنے کی کو شش نہیں بلکہ  پورے وثوق کے ساتھ اپنے علم  اپنی تخقیق اور اپنے دلا ئل  کے ساتھ بیا ن کیا ۔  خدا  اور کائنات  منطقی قیاس کی گرفت میں پوری طرح کبھی بھی نہیں  آ  سکے ۔ مذہب اور خدا عقل کی دسترس سے ہمشہ باہر رہے  ، فلسفی شاعر جون ایلیا نے  اس بات کو اثبا ت کیا ہے  مگر  اپنے دلا ئل کے  سا تھا اور اپنے لفظوں میں  انہوں نے اپنی  نثری تخلیقات میں اس موضوع پر  کھل کے گفتگو کی ہے  وہ کہتے ہیں
’’  میں اپنی شدید ارتیا بیت کے با وجو د یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کرہ ارض بلکہ ہماری اس کہکشاں کے کسی بھی سیارے پر کسی ایسے ذہن کا وجود فرض کرنا ممکن نہیں جو لفظ  ’’ خدا ‘‘  کے مفہوم کی تشر یح کر سکے  ‘‘   ۔
 جون  ایلیا ؔ  اس مو ضو ع  پر  بیکن ، کانٹ  اور پلوٹی نس کے  منتقی استد لا ل کو پیش کرتے کر تے  ہوئے   اپنے مطالعے کا دبدبہ  قاری
کے دل پر نہیں بٹھا تے   بلکہ   ذا تی استد لال سے ثا بت کرتے ہیں کہ کتنا افادہ کیا ہے انہوں نے  ان   فلسفیا نہ  افکا ر  سے  وہ کہتے ہیں۔
’’  میں حلاج  کے خطبات کی طرف بھی اشارہ کرونگا ۔ موجود کا مطلب ہے ، ارسطو کے دس مقولات،  کانٹ کے بارہ
 مقولات، اور ہیگل کے ( شاید)  سترہ مقولات  میں محدو د ہو جا نا ۔ دنیا کے کسی فلسفی نے میرے علم کے مطا بق  آ ج تک وجود اور موجو د کی تعریف کرنے میں کا میا بی حا  صل نہیں کی ۔   ہم لغوی اور نصا بی طور پر وجود کی ایک ہی تعریف
 کرسکتے ہیں  اور وہ ہے ما ہیت کا خارج میں پا یا جا نا ۔  جب ہم یہ کہتے ہیں کہ  خدا موجود ہے تو  ہم اسے ایک ما ہیت قرار دیتے ہیں۔ ہر موجود شے ہے۔ اگر  ہم  کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے تو اسکا  مطلب  یہ ہے کہ خدا شے ہے  ۔ اگر اس کا یہ
 مطلب نہیں  تو پھر اس کا ایک  ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ  خدا لا شے ہے ۔ لا شے کے دو مفہوم ہو تے ہیں ایک
 لا محدو د اور یہ کہ وہ  شے مو جود نہ ہو  ۔۔۔  کچھ اور ہو  ۔ یہی  وہ سوال ہے جس کا جواب ما بعد الطبعی فکر کے تما م نمائندو ں کو  دینا ہے۔ فلسفہ وجود اور  وجودیت سے بحث کرتا ہے اور سا ئنس مظا ہر وجود سے بحث کر تی ہے‘‘
 منطق سے جڑے ہوئے ما بعد الطبعیات ، سائنس اور شاعری کے باب میں  جون ایلیا کا فر مان دیکھئے
’’منطق جب  انتاج اور استنتاج کے متدرج عمل میں غیر متدرج ہو جا ئے تو ما بعد الطبعیات وجود میں آ تی ہے ۔ منطق جب  انتاج اور استنتا ج  کے استخراجی اور اتقرائی عمل میں متدرج رہے تو  سا ئنس وجود میں آ تی ہے ۔ اور منطق جب
احساس کی مکا نیت اور زمانیت مین تخیل اور جذبے کے جمالیا تی آ ہنگ کے سا تھ صورت پذیر ہو تو شاعری وجو د میں آ تی  ہے ۔ یعنی شاعری کے چار عناصر ہیں۔ تعقل، احساس، تخیل ، اور جذبہ۔  جبکہ سائنس بلا واسطہ یا بالواسطہ طور  پر صرف احساس  سے تعلق رکھتی ہے ۔  مذ ہب تخیل سے تعلق رکھتا ہے۔ فلسفہ صرف تعقل سے تعلق رکھتا ہے اور شاعری ا حساس ، تخیل، تعقل، اور جذبے چارو ں عنا صر کی جامع ہے۔
میں نے  گفتگو کے آ  غاز میں عرض کیا تھا کہ جون نے منطق ہو یا ادب ،  سائنس ہو  یاشاعری  اور اس کے  قوائدو
ضوابط ،  جس مو ضوع پر بھی با ت کی ہے ٹھوس دلائل کے ساتھ بات کی  اور یوں کہ کوزے میں سمندر اور حباب  میں دریا  دکھادیا ہے ۔  جون کی گفتگو کو اپنے الفاظ میں ڈھال کے بیان کرنے کے بجائے میں بار بار انہیں کوٹ کرنے  پر مجبور ہوں   تاکہ اپنی کہی ہوئی بات ثا بت کر سکوں۔  جون نے شاعری  کو جزو پیغمبری  نہیں مکمل پیغمبری کہا ہے ۔
’’   شاعری میرے ماحول میں جزوے پیغمبری  نہیں بلکہ مکمل   پیغمبری  سمجھی جا تی تھی ۔  وہ با با کی زبان میں ایک الوہی
آ ہنگ،  قدوسی  ترسیل، اور قدیسی  تر نیم  کی حیثیت  رکھتی تھی ‘‘
’’  شعر کو عربی لفظ سمجھا جا تا ہے اور اسے شعور کا مادہ قرار دیا جا تا ہے۔  لیکن حقیقت  کچھ اور ہے ۔ شعر   عبرا نی  لفظ
شیر  کا معرب ہے ۔  اس کے معنے ہیں ،  راگ، خوش آ وازی،  اور خوش آ ہنگی  ۔ میرے خیا ل میں وزن  شعر کی بنیا دی
 شرط ہے ۔ جب ہم مکالمات افلا طون ؔ   یا   نطشےؔ   کی تحریروں کی داد دیتے ہیں تو انہیں شاعری  کہہ اٹھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ایک چیز
ہے تحسین اور ایک  چیز اصطلا ح ۔ ہمیں ان دو چیزوں کو  خلط ملط نہیں کرنا چا ہئے ۔ ہم افلا طون ،
قس ا بن سا عدہؔ ،  گلستان سعدی،  آ سکر وائلڈؔ  اور  میر امّنؔ  بہترین شاعر کہہ کر یا د نہیں کرینگے  بلکہ انہیں اعلی ادیب کہیں گے ‘‘
نثری نظم  کے حوالے سے طویل بحثیں ہوچکی ہیں اور ہنوز جاری ہیں ۔ گو جون نے  یہ  نثری نظم کے بحث مبا حثہ میں
 حصہ نہیں لیا لیکن اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اس موضوع پر بھی  جو کہا اس سے انکار یا اختلاف کیسے ممکن ہے۔
’’ شاید‘‘  کا پیش لفظ  لکھتے وقت جون کی ذہنی حالت  ابتر تھی ۔ انہیں روشنی سے آ وازوں سے اور لوگوں سے ڈر لگتا تھا
وہ کہتے  ہیں ’’  میرا دماغ دماغ نہیں ، بھوبل ہے،آ نکھیں ہیں کہ زخموں کی طرح تپکتی ہیں‘‘  مگر  ’’    میں اب بھی اپنے خوا ب نہیں ہارا ہوں۔ میری آ نکھیں تپکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہریں اب  بھی میری پلکوں کو چھو تی ہیں‘‘  ۔
اللہ اللہ !  یہ جوں  کا  پیش لفظ اس عالم کا لکھا ہوا ہے ۔۔۔ ایسی اذیت ناک  کیفیت دل و دماغ کی ،  ایسی بے دلی  ۔۔ اس  عالم یا س  میں بھی جب قلم اٹھا تے ہیں تو علم کا  ایک سمندر  ٹھاٹھیں مارتا نظر  آتا ہے  انکی تحیریر میں ۔  انکے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا سوائے خوابوں کے ۔  انکے وجود کو اپنے سموں سے روند تی حقیقتیں  ان کے خوابوں  کو  بھی ان کے ساتھ روند ڈا لیں گیں  انہیں معلوم تھا  ۔  ٹوٹے  ہوئے،  ریزہ ریزہ بکھرے ہوئے ،  مایوسیوں کے گھپ اندھیرے میں خود پر تا لے ڈا لے  ہوئے  جون نے خود کو ادھر ادھر سے  بٹو را  اور  ۔۔  آ خری با ر اپنے ہر خیال کو ، کو ہر سوچ کو ہر خواب کو پوری سچا ئی کے سا تھ لکھ ڈا لا ۔ کسی موج نے دل کی ممکن ہے آس دلائی ہو’’  شاید جون ،  شاید ۔۔۔ اہل ادب  تمہاری شنا خت  کو سینے سے لگا لیں ‘‘   ممکن ہے جونؔ  زیر لب زرا سا مسکرادئے ہوں ،  ایک  لمحہ کو امید کی کو ئی کرن جھلملا ئی ہو اور سو چا  ہو  ’’ شاید ‘‘   معلوم نہیں اس  ’’ شاید ‘ ‘  سے  کتنی امیدیں  وابستہ ہو گئی ہوں  انکی جب انہوں نے  اسے  اپنے مجموعے کے نام کے طور پر منتخب کیا ہوگا  ۔۔ مگر نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا  عنبریں جاوید کو انکی برسی کے موقع پر  ایک بھی مضموں نہیں ملا۔۔۔   کسیے ملتا  کہ  یہاں تو  ’ ’   میں ‘‘ کی اسقدر چیخ پکار ہے کہ کان پڑی
آ وا ز نہیں سنا ئی دیتی  ۔۔۔  میر ا قامت ، میری کتا ب ،  میری  کہا،   میرا ایوارڈ ، میرا گروپ  ۔ میں بڑا کہ تو بڑا کی   ایسی دھکم پیل ہے  کہ اللہ کی پناہ !   اس دھکم پیل میں جون ؔ ٹکر  ٹکر  دیکھ رہے ہیں  سبکی طرف  اور انکی  آ واز شاید  کہیں  نوحہ کر رہی ہے:
میری ہر بات بے اثر   ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا؟
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آ بلے  پڑ  گئے  زبان مین  کیا  ؟
جون ایلیا  فکری ، ذہنی  اور سماجی  انقلا ب کے خوا ب لکھتے رہے اور  انکی آ نکھیں یہ خواب روتی رہیں
انکی نا کام محبت بے دلی کے صحرا انکے وجود میں بچھا تی رہی  اور یہ صحرا انکی خاک اڑا تا  ا نپر سے گزرتا گیا  مگر  بے دلی
 کے اس صحرا میں انکے وجود کی  نشانیاں  قندیل کی طرح روشن  ہیں ۔ روشئی طبع ار روشنا ئی کی روشنی  انکے نام کے چراغ جلا ئے ہا  تھ بلند
کئے  باد مخالف کے سامنے ڈٹی ہو ئی ہے ۔
مصروف کوئی کا تب  غیبی  ہے  روز و شب
کیا  ہے  بھلا   نو  شتئہ   دیوار  کچھ  سنا  ؟
  ہیں اس قا مت  سو ا بھی  کتنے قامت
پر اک  حالت ہے جو اس کے سوانئیں
ذرا بھی مجھ سے تم غا فل  نہ    رہئیو
میں بے  ہوشی  میں بھی بے ماجرانئیں
 جون ایلیا کو نا دیدہ افق سے اٹھنے والے بادلوں کا  انتظار تھا  کہ وہ   اس آب نیساں سے  ان سمتوں،  چھتنار پیڑوں اور پودو ں کو دھونا چاہتے  تھے جو تا ریخ کی گر د افشانی سے گرآ لود تھے ۔ شاخوں کو  ہوائوں اور شعلوں کو  اور سب سے بڑھ کے اس دنیا کو دھونا چاہتے تھے ۔  وہ یزدان، اہرمن اور انسان کو  دھونا چاہتے تھے  مگر یہ نہیں ہو سکا تو جون نے اپنے
یہ  آنسو  آ پ سب کے نام لکھ دئے ۔۔۔۔   وہ سب  جو ان  کی  خواب کتاب لکھں گے ۔