بین الاقوامی سیاسیات اور ہمارے لکھاری

kashif raza

بین الاقوامی سیاسیات اور ہمارے لکھاری

از، سید کاشف رضا

پتا نہیں کب ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے یہ طے کر لیا کہ سماج سے سروکار تو ترقی پسند تحریک کے دنوں میں ہوا کرتا تھا؛ اب جب کہ کمیونزم کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک بھی قصہ پارینہ بن چکی، تو انھیں چاہیے کہ اپنی ذاتی محرومیوں ہی کے طوطا مینا بنانے پر اکتفا کرتے رہا کریں۔ کسی نے یہ نہ بتایا کہ سماج سے سروکار رکھنے کے لیے ادیب کا ترقی پسند ہونا ضروری نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ لائن کے دائیں ہیں یا بائیں؛ ادیب اگر اپنے سماج سے اُگا ہے تو اسے اپنے سماج کا ہی نمایندہ ہونا چاہیے۔

کسی ادیب کی کام یابی کے بہت سے پیمانوں میں سے ایک پیمانہ یہ بھی تو ہوتا ہے کہ اس کے متون اس کے سماج اور معاشرے سے کتنا اثر قبول کر سکے اور بدلے میں اپنے سماج اور اپنے معاشرے میں کتنا نفوذ کر سکے۔ اِس پیمانے پر اُس حبیب جالب کی شاعری کو دیکھیے جن کے ہم عصر جدیدیت پسند ان کی شاعری میں سے شعری عیوب تلاش کیا کرتے تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ حبیب جالب چونکہ اپنے دور میں اپنے سماج اور اس سماج کے ساتھ پیش آنے والے ہر اہم قصے اور قضیے سے متعلق رہے اس لیے ان کی شاعری آج بھی معنی رکھتی ہے۔

اورنگ زیب اور فرخ سیئر کے زمانے کے شاعر جعفر زٹلی اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں کوئی بہت بڑے شاعر نہیں تھے اور ان کے دور میں ان کی شعری لیاقت کا سکہ بھی نہیں بیٹھا ہوا تھا، لیکن فرخ سیئر کے زمانے میں جاری ہونے والے ایک سکے کی پیروڈی نے انھیں زندہ جاوید کر دیا:

سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہے تسمہ کش فرخ سیئر

اور تو اور مغرب کے جدیدیت پسند ادیبوں، شاعروں کو ہی دیکھ لیا جائے تو ان میں سے کوئی بڑا ادیب اپنے سماج اور اپنے دور کے سیاسی حالات سے کٹا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لیے ان ادیبوں کی تحریروں کا مطالعہ جب ان کے ذاتی پس منظر کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی پس منظر میں کیا جاتا ہے تو ان کی مشکل اور دقیق تحریریں بھی سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔

کسی خاص عہد سے گزرتے ہوئے یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ ہم اسے کسی خاص اہمیت سے متصف نہ کر پائیں۔ لیکن ماضی میں جھانکتے ہوئے تاریخ دان کسی گزرے ہوئے عہد کو بہ آسانی کوئی نام دے سکتے ہیں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمارے بعد کی دنیا گیارہ ستمبر دو ہزار ایک عیسوی کے بعد کے زمانے کو ایک الگ دور قرار دے گی۔ نئی صدی کا آغاز ہوتے ہی سب سے بڑی افتاد ہمارے ملک پاکستان پر پڑی ہے اور تیسری عالمی جنگ ہماری سرزمین اور اس کے قرب و جوار میں لڑی جا رہی ہے۔

ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے ہاں اس نئے دور اور اس سے منسلکہ واقعات کی realisation ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے تھی۔ لکھنے کو تو بہت سے ادیبوں نے اس افتاد کو لکھا بھی لیکن اس کی مقدار اور معیار ایسا نہیں تھا جو ملک میں جاری ادبی ڈسکورس کا رخ موڑ دیتا۔ ایسی افتاد جب مشرقی یورپ اور یہودیوں پر پڑی تھی تو دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کے ادب کا پورا نقشہ تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔

آج ہولوکاسٹ کا ادب اپنی ایک الگ اور قائم بالذّات حیثیت رکھتا ہے جبکہ مشرقی یورپ کی مزاحمتی شاعری کے طفیل ہمیں پولینڈ اور کچھ دیگر ملکوں کی شاعری مغربی یورپ کی عصری شاعری سے آگے بھی نظر آتی ہے اور ہمارے لیے زیادہ پر معنی اور متعلق (relevant)بھی۔

بہ ظاہر تو یہ لگتا ہے کہ ادیب اپنے معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے مشرقی یورپی اور یہودی متون ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ متون یورپ سمیت پورے مغرب میں ایک ایسا ڈسکورس پیدا کرنے میں کام یاب رہے جس کے نتیجے میں سامیت دشمنی (anti Semitism) ایک قابلِ نفرین جذبہ قرار پا گئی۔ کیا ہمارے ادب میں یہ قوّت ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ ادب اپنے سماج، اور اب تو عالمی سماج، سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ادیب اگر ادب سے سنجیدگی سے وابستہ ہو تو اسے کچھ نہ کچھ علم بین الاقوامی سیاسیات اور سیاسی تھیوری کا بھی حاصل کر لینا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمارے ادیب سیاسی فکر پر موٹی موٹی کتابیں پڑھنے بیٹھ جائیں لیکن جدید فکر سے اتنی آگاہی تو انھیں ضرور ہی ہونی چاہیے جو ادب و شعر میں سیاسی رائے زنی کرتے ہوئے انھیں فاش غلطیوں (pitfalls) سے بچا سکے۔ زیرِ نظر مضمون میں سیاسی فکریات کو صرف اسی حد تک چھیڑا گیا ہے جس حد تک ان کا علم، میرے نزدیک، ایک عام ادیب کے لیے ضروری ہے۔

ہماری ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ادیبوں کے ہاں ایک روحِ عصر (Zeitgeist )کی جستجو بہت اہم خیال کی جاتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس روحِ عصر کی تلاش میں بہت دور جانا نہیں پڑتا تھا اور وہ پڑوس کی دکان سے ہی دست یاب ہو جاتی تھی۔ آج کی سیاست بہت پے چیدہ ہو چکی ہے، اور روحِ عصر کی تلاش میں آپ کو بہت سے ڈپارٹمنٹل سٹور چھاننا پڑ سکتے ہیں جہاں قدم قدم پر نقالوں سے ہوشیار رہنا پڑ سکتا ہے۔ اپنے دیس اور دنیا کے سماجی و سیاسی معاملات سے سروکار رکھنے کے لیے کسی ادیب کا سوشلسٹ ہونا ضروری بھی نہیں۔ نوم چومسکی جیسے تجربہ کار مفکر نے یہ بھی کِہہ رکھا ہے کہ سیاسی صداقتوں کو اگر سیدھا سیدھا بیان کر دیا جائے تو ایک عام آدمی بھی حق، سچ اور انصاف کا راستہ آسانی سے تلاش کر لیتا ہے۔ پھر شماریات کا علم بھی تو ہے جس کے ذریعے بہت ساری چیزوں کو دو اور دو چار کی طرح ثابت کیا جا سکتا ہے۔

مگر بات تو تب ہے کہ کوئی تلاش اور جستجو بھی کرے۔ ہمارے ہاں تو عالم یہ ہے کہ عام شہری تو رہے ایک طرف، خود ادیبوں، شاعروں میں مطالعے کا رجحان انتہائی کم ہے۔ ایسے میں ان کا ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘ والا جہاں ایک کنواں تو ہو سکتا ہے جس میں نرگس کا کوئی پھول اپنا عکس دیکھ کر اتراتا پھرے، مگر کوئی ایسی کائنات نہیں بن سکتا جس کی سیر دنیا کے اور قاریوں کو کرائی جا سکے۔ اقبال نے موت کے مقابلے میں بھی فتح یاب رہنے کے لیے خودی کے ’خود نگر و خود گر و خود گیر‘ ہونے کا نسخہ بتایا تھا۔

جس ادب کی ’خود نگری‘ نرگسیت تک محدود رہ جائے ، اسے کوئی دوسرا بھلا کیوں دیکھے؟ مطالعے کی کمی ہی کے سبب ہمارے ادیبوں میں خود اپنی سماجی و سیاسی صورتِ حال سے متعلق سوچ بچار کا رجحان بھی بہت کم پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً ہمارے ادیبوں کے ہاں روحِ عصر سے عدم دل چسپی ایک ایسی معصومیت (naivety )پیدا کرتی ہے جو میری نظر میں ادبی معصیت سے کم نہیں۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔