ایدھی ایک انسان: پوری انسانیت

ایدھی ایک انسان : پوری انسانیت

از، رابی وحید

ایدھی صاحب کے جانے سے ایدھی صاحب ایک دم ہمیں اپنے ہونے کا احساس دینے لگے ہیں۔ ایدھی رخصت ہو گئے ہیں مگر اُن کا دیا ہُوا اتنا کچھ یہیں موجود ہیں کہ سکندر اعظم والی بات غلط معلوم ہونے لگی ہے۔ سکندر نے کہا تھا کہ جب میں دنیا سے جاؤں تو میرے دونوں ہاتھ خالی باہر رکھنا تا کہ لوگوں کو اندازہ ہو سکے کہ سکندر اتنے بڑی سلطنت کا مالک، اس دنیا سے خالی ہاتھ جا رہا ہے۔مگر ایدھی صاحب تو بہت کچھ دے گئے ہیں ان کے دونوں ہاتھ ہمارے لیے بھرے ہوئے ہیں۔وہ اکیلے نہیں جا رہے ان کے ساتھ پوری قوم کی محبتیں اور دعائیں بھی ہیں۔
ایدھی 1928کو بھارت میں پیدا ہوئے تھے اور قیام پاکستان کے وقت اپنا سب کچھ چھوڑ کے پاکستان چلے آئے۔ اپنی والدہ کی بیماری سے والدہ سے زیادہ لڑے رہے۔ انیس سال کی عمر میں اپنی ماں کو کھو دینے کے بعد انھوں نے ایک ڈسپنسری کھول لی، وہیں دن رات رہتے اور اپنی تمام جمع پونجی اسی ڈسپنسری پہ لگاتے رہے۔کہتے ہیں کہ ایدھی اسی ڈسپنسری کے باہر سو لیتے مگر اپنے فرضِ عین سے غافل نہ رہتے۔رفتہ رفتہ یہ ڈسپنسری ایک ادارہ بن گئی۔ ایدھی صاحب کا ادارہ صرف ایمبولنس سروس تک محدود نہ تھا۔ اس ادارے نے ہیلتھ سروس، بے سہاراافراد کی پناہ گاہ اورillegitimate بچوں کی پرورش کا بیڑہ بھی اٹھایا ہُوا ہے۔ اس ادارے کی ایک اور خاص بات نرسوں کی تربیت بھی ہے۔ اس ادارے سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں نرسیں تربیت حاصل کر چکی ہیں اور زندگی میں روزی کمانے کے علاوہ خدمتِ خلق میں مصروف ہیں۔ کیا آپ ایدھی صاحب کی ’’illegitimate‘‘بچوں کی خدمات پر ان کی عظمت کا اندازہ کر سکتے ہیں!ایدھی صاحب کہتے تھے کہ ’’ایک گناہ کرکے دوسرا بڑا گناہ کیوں کرتے ہو‘‘ یعنی وہ گناہ جس کی معافی خدا کے حضور ہو سکتی ہے وہ کرنے کے بعد ایسا گناہ مت کروجو انسانیت کا گناہ ہے جس کی معافی بھی مشکل ہے۔ ایدھی سنٹرز میں ایسے ہزاروں بچوں کو نئی زندگیاں ملیں ۔ وہ بچے آج زندگی کا اہم حصہ ہیں۔کیا وہ بچے اپنے روحانی باپ کو بھلا سکتے ہیں!
ایدھی صاحب نے اپنی زندگی کی چھ دہائیاں قوم کے لیے وقف کر دیں۔انھوں نے کسی ملک میں پناہ نہیں لی اور نہ ہی کبھی دیار غیر میں اپنا علاج کروایا۔وہ سرتا پا اس قوم کے لیے وقف تھے حتی کہ مرنے کے بعد بھی اپنی آنکھیں کسی دوسرے فرد کے لیے وقف کر گئے۔
ایدھی صاحب کا کام حکومتوں کے لیے اور ان اداروں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو اپنے مشن میں ناکام یا اتنی تشہیر کرتے ہیں کہ اُن کے کاموں میں رَس نہیں رہتا۔ایسے بہت سے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں مگر بہت سوں کا تعلق انسانیت سے زیادہ پیسے سے ہے جو دکھی انسانیت کا علاج کرنے کی بجائے استحصال کر رہے ہیں۔ ایدھی صاحب کا ادارہ اُن کے لیے ایک ہدایت نامہ بھی ہے اور نمونہ بھی۔
ایدھی نے ساری زندگی صرف ایک مشن رکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس طرح کے مشن زیادہ تر ریا کاری اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔مگر ایدھی نے کبھی نمود ونمائش کا سہارا نہیں لیا۔ انھوں نے تو وصیت کی کہ انھیں انھی کپڑوں میں دفنا جائے جو ان کے تن پہ موجود ہوں۔ ان کے ادارے کی خبریں بھی اب میڈیا کا حصہ بننا شروع ہوئیں۔ایدھی صاحب نے کبھی پیڈ (Paid)اشتہارات کا سہارا نہیں لیا۔ وہ تشہیر سے بھاگتے تھے۔لوگ انھیں خود بخود چندہ دیتے۔اُن کی وفات کی خبر اُن کے ساری زندگی کے فلسفے کے خلاف نظر آتی ہیں۔اُن کا بس چلتا تو وہ اپنی موت کی خبر کی بھی تشہیر نہ ہونے دیتے اور چپ چاپ اپنے خالق سے جا ملتے۔

1 Comment

Comments are closed.