اپنی ہم زاد سے ایک مکالمہ

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

اپنی ہم زاد سے ایک مکالمہ

(منزہ احتشام گوندل)

میری ہم زاد میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ تم چائے بنانے میں سست ہو تو کوئی بات نہیں،یہ کوئی بہت بڑا جرم نہیں.تم سے برتن ٹوٹ گیا ہے پریشان مت ہو.ہر وہ چیز جو گرنے سے ٹوٹ جاتی ہے اس کی ایک میعاد ہوتی ہے.لپ اسٹک لگاتے وقت تمہارے دانتوں پہ لگ جاتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں،تم ایسے بهی اچهی ہے.تمہاری آنکھ کا سرمہ پهیل جاتا ہے تو کیا ہوا،یہ اتنا ہی بے ضرر ہے جتنا بچے کے گھر کے کام والی کاپی پہ غلطی.تم اونچی ایڑھی کا جوتا پہن کے نہیں چل سکتی تو کیا ہوا،کیا جوتوں کے کارخانوں میں سپاٹ تلووں کے جوتے نہیں بنتے ہیں.تم موٹی ہو گئی ہو تو بهی اچھی لگتی ہو۔

میری ہم زاد! میں تو تم سے ہر حال میں محبت کروں گی.تم مجهے ہرشکل میں عزیز ہو.تمہاری کچھ حالتیں مجهے رلاتی ہیں تو کچھ اداس کرتی ہیں.تب مجهے بہت بے بسی کا احساس ہوتا ہے کہ میں تمہاری خاطر کچھ نہ کر سکی.جیسے ابهی کل کی بات ہے میں نے “ایک روزن”سے جھانک کےدیکھا تھا۔ دیکھو یہ “ایک روزن” بهی کتنا بڑا سہارا ہے نا جہاں سے میں روزن پہ ایک آنکھ رکھ کے دوسری طرف دیکها تها.اس پار جہاں ایک نسائی آنکھ کو جهانکنے کی اجازت نہیں.ہاں تو پنڈال کے اندر “مجرا”ہو رہا تها.وہاں کپڑے کی عارضی دیوار کی اس طرف تم تنہا تهیں اور اس طرف میں تنہا تهی.میں کپکپا رہی تهی شاید تم پر بهی یہ کیفیت طاری ہو.

تمہارا بدن تها.خوبصورت سانچے میں ڈهلا ہوا لچکیلا بدن،اور بدن کے زاویے تهے.کتنے ہی ہاتھ تهے.اور جتنے ہاتھ تهے اتنی آنکهیں تهیں.اور جتنی آنکهیں تهیں ان سے نصف زبانیں تهیں. میری ہم زاد! تب مجهے حسن اور خوبصورتی بے معنی سے لگے.سارے عالم سے میرا اعتبار اُٹھ گیا.کبهی کوئی مرد اپنا “وسط”برہنہ کرکے ناچے اور سینکڑوں عورتیں دیکهیں….آہ ایسا نہیں ہو سکتا..عورت اتنی بدذوق نہیں ہو سکتی کہ اپنی بصارت کو ایسے تماشے سے آلودہ کرے.تمہارا چہرہ اور تمہارے تراشیدہ ریشمی بال یہ سب اس لیے تو نہیں تها.تب غم کسی چشمے کی طرح میرے اندر سے پهوٹا اور میں نے چاہا کہ میں اپنی آنکهوں کے پانی سے تمہاری روح کے وہ سارے کیچڑ دهو ڈالوں جو تمہاری روح پہ بوجهه بنے ہوئے ہیں.کتنی میری ہم جنس ہیں جو صبح شام حسن کی ابتلا میں ہیں میں اس روزن کے دوسری طرف حسن کی قدر افزائی دیکهه رہی ہوں.

میری ہم زاد! تمہارے ہاتهه پتهر کوٹیں تم گوبر سے اپلے تهاپو تم بیر اور امرود بیچنے کے لیے دس کلو میٹر پیدل چلو تم دفتر میں بیٹھ کے قلم چلاو تم بهٹے پہ کام کرو، مشاطگی کرو دایا گیری کرو کچھ بهی کرو.مجهے تمہاری اور کسی حالت کا اتنا دکھ کبهی نہیں ہوا.جتنا تمہیں مجرا کرتے دیکھ  کر ہوا ہے. میری ہم زاد میں تم سے محبت کرتی ہوں.تمہاری مددگار ہوں.تمہارے لیے دعا گو ہوں.میں نے اب تک تم سے جو حسد اور نفرت کی ہے اس کے لیے مجهے معاف کردو….تم کسی بھی ملک ،وطن اور خطے کی ہو.تمہارا کوئی سا بھی مذہب ہو.تمہاری شکل کیسی ہی کیوں نہ ہو میں خود کو ان دائروں میں قید نہیں کرتی.تمہاری سیاہ جلد اور موٹے ہونٹ میرے محبوب ہیں.تمہارے سنہرے اور کهردرے بال مجهے پسند ہیں.تم کچھ بهی ہو ماں ہو،بیٹی ہو،بہن ہو یا بیوی ہو ہر روپ میں پسندیدہ ہو.

ہم زاد! جب انسان مرتا ہے اس کی قیامت تب ہی آ جاتی ہے.ہر سانس کے ساتهه حیات کی پونجی ختم ہورہی ہے.یہ حسد،نفرت اور انتقام کے جذبے تب بہت پست لگیں گے جب تم میرا ہاتھ پکڑ کے محبت کی وادی میں قدم رکهو گی.وہ ایک ایسی سرزمین ہے جس کی کوئی شرط کوئی پیمانہ نہیں بجز محبت کے.بس اپنے باہر کے خانے اور اپنے اندر کے خوف اتار پھینکو اور میرے ساتھ محبت کی وادی میں داخل ہو جاو.