اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین قانون ساز اور صنفی تفریق

ایک روزن لکھاری
غضنفر ہاشمی ، صاحب مضمون

اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین قانون ساز اور صنفی تفریق

(غضنفر ہاشمی)

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں شہادت کی انگلی پر گنے جانے والے چند اچھے کاموں میں ایک اچھا کام سیاسی اداروں، پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کو17 فیصد کرنا تھا جس کے تحت پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نشستیں مخصوص کردی گئیں اور ایک فارمولے کے تحت ہر سیاسی جماعت کو حاصل کردہ کل نشستوں کے تناسب سے خواتین کی نشستیں دینا تھا۔ ہر سیاسی جماعت کو اس کی حاصل کردہ مجموعی نشستوں کی تعداد کا 10 فیصد خواتین کی نشستوں کی مد میں دیا جاتا ہے چونکہ 2002ء کے انتخابات کے لئے بڑی سیاسی جماعتیں پوری طرح تیار نہیں تھیں، وفاداریاں مسلسل تبدیل کی جا رہی تھیں لہٰذا وہ جماعتیں بھان متی کا کنبہ ہونے کا تاثر دے رہی تھیں۔

ان انتخابات میں خواتین کو مخصوص نشستوں پر منتخب کرنے کا معیار صرف اور صرف جان پہچان اور اقربا پروری تھی ، کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، کسی کی بھتیجی اور بھانجی ، کسی کی بیوی اور کسی کی بھابھی اور کسی کی دوست، بس یہی معیار تھا اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان میں سے کوئی بھی بہتر کارکردگی کا مظاہر نہ کر سکی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ وہ مراعات سے فیضیاب ہوتی رہیں اور تھوڑی بہت ان کی سیاسی اور پارلیمانی نظام میں تربیت ہو گئی۔ اس تربیت نے 2008ء کے الیکشن میں بہت کام دکھایا اور کافی تعداد میں باصلاحیت خواتین جنرل اور مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ خواتین کے حقوق کے لئے قانون سازی اور دوسرے ایشوز پر پارلیمانی Cacus وجود میں آیا جس نے سیاسی، جماعتوں اور نظریاتی وابستگی سے قطع نظر خواتین کے لئے بے پناہ کام کیا۔ سب سے اہم کام چھ سات بہت ہی اہم قانون بنائے گئے جس کے لئے کافی عرصے سے جدوجہد کی جا رہی تھی۔ ان قوانین میں
Women Protection Act, Anti-Harassment Act, The Prevention of Anti-Women Practices Act, Domestic Violence Bill, Acid Control Bill, Women in Distress & Detention Fund Act.
جیسے قوانین شامل ہیں اس کے علاوہ اور بہت سے قوانین پرکام ہو رہا تھا۔

قانون سازی کے اس زبردست کام سے ہٹ کر اگر ہم خواتین کی پارلیمینٹ میں کارکردگی کا جائزہ لیں یا جماعتوں کے اندر ان کی فعالیت کو دیکھیں تو بہت زیادہ خوش کن تصویر سامنے نہیں آتی۔ کتنی ہی خواتین ایسی تھیں پورے دور میں کہ ایک دفعہ بھی پارلیمینٹ میں نہ بول سکیں۔ اگر کوئی بولنے کی جرأت کر بھی لیتی تھیں تو ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا لہٰذا اکثریت اپنے ذاتی کاموں یا مراعات تک محدود رہیں اور یہی وجہ تھی کہ کوئی خاتون ایک سیاسی مدبر شخصیت کے طور پر سامنے نہ آسکی۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ خواتین کو اہم فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں کیا جاتا۔ جماعتوں کے اندر بھی جو گروپ فیصلے کرتا ہے اس میں بھی خواتین نہیں ہوتیں یوں ان پر فیصلے مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔

مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو ترقیاتی فنڈز بھی نہیں دیئے جاتے کیونکہ ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا، چونکہ ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا لہٰذا وہ حلقے کی سیاست سیکھ نہیں پاتیں اور لوگوں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔ ان کا انتخاب چونکہ جماعتوں کی لیڈر شپ کی مرہون منت ہوتا ہے لہٰذا انہیں اپنے لیڈر کی ہر بات کو ماننا پڑتا ہے یوں پارلیمینٹ ، صوبائی اسمبلیوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر اچھی خاصی تعداد میں ہونے کے باوجود ان کا سیاسی کردار بہت غیر اہم رہا ہے۔اب آئیے موجودہ انتخابات اوران کے نتیجے میں ابھی تک بننے والی حکومتوں اور کابینہ کی صورتحال کی طرف۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لئے خواتین کا کوٹہ مزید کم کردیا جس سے بہت کم خواتین منتخب ہو کرآئیں۔ وفاقی کابینہ میں 25 میں سے صرف دو خواتین وزراء کو شامل کیا گیا ہے۔ پنجاب میں دو اور سندھ میں بھی ایک بھی خاتون وزیر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مرکزی یا صوبائی اسمبلیوں میں ابھی تک کوئی خاتون اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے لئے نامزد نہیں ہو سکی کسی خاتون کو قومی یا صوبائی اسمبلی کی کسی کمیٹی کی چیئرپرسن کے طورپر بھی نامزد نہیں کیا گیا۔ اس مائنڈ سیٹ کا مطلب یہ ہے کہ 50 فیصد آبادی میں ہونے کے باوجود خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں ہونے دینا ہے۔ اصولی طور پر مخصوص نشستوں کا یہ کوٹہ 17 فیصد کے بجائے33 فیصد ہونا چاہئے جیسا کہ 2002ء کے بلدیاتی انتخابات میں تھا۔ 33 فیصد خواتین کی نمائندگی یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل میں لازمی تھی یوں خواتین کی ایک کثیر تعداد نے اس عمل میں حصہ لیا اور سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ یہ 33 فیصد کوٹہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے بھی ہونا چاہئے۔

قانون سازی کے اعتبار سے ہی ہمارا ملک دنیا کے کسی بھی ملک سے بہت پیچھے نہیں ہے بلکہ خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے بھی کئی اہم ممالک سے آگے ہے امریکہ کے ایوان زیریں میں خواتین کی نمائندگی 18 فیصد ہے جبکہ ایوان بالا میں 22.6 فیصد، آسٹریلیا میں 24.7 فیصد اور 38 فیصد ، نیوزی لینڈ میں 27 اور 32 فیصد اور کینیڈا میں ایوان زیریں میں خواتین کی تعداد 24 فیصد جبکہ ایوان بالا میں 38 فیصد ہے اسی طرح ہمارے خطے، افریقہ، وسط ایشیاء اور دوسرے ممالک میں بھی ہم ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔

گزشتہ انتخابات اور اسمبلی میں بہت فعال اور نامور خواتین شامل تھیں جنہوں نے خواتین کے حقوق اور دوسرے حوالوں سے بہت کام کیا ان خواتین میں نفیسہ شاہ، شہناز وزیر علی، خوش بخت شجاعت، نیلوفربختیار، دونیا عزیز، بشریٰ گوہر اور دوسری خواتین شامل ہیں لیکن اب ایک دو کے علاوہ باقی سب نئی ہیں اب یہ کیسے Cocus میں کام کریں گی یا ان کی تربیت کیسے ہوگی۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے قومی کمیشن برائے وقار نسواں (NCSW) کو کوئی اہم کردار دیا جا سکتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ خواتین کو اپنی جماعت کے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کریں اور ان خواتین کی کارکردگی، کردار اور وابستگی کو اولیت دیں جنہوں نے پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ نبھائی ہے۔ فوزیہ قصوری جیسی فعال اور پارٹی کے ساتھ وفادار خاتون کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کا سلوک اچھا نہیں ہے پھر خیبر پختونخوا، خواتین کی مخصوص نشستوں میں جس قدر اقربا پروری کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے بھی بہت برا تاثر سامنے آیا ہے۔ چلیں اب ان کو کابینہ میں تو میرٹ پر نمائندگی دے دی جائے۔