آغا گل کی کہانیوں میں سانس لیتابلوچستان

(فیصل احمد گوندل)

بلوچستان، پاکستان کا ایک اہم ترین اور منفرد صوبہ ہے جو مختلف معدنیات کا ایک بڑا ذخیرہ رکھنے کی شہرت رکھتا ہے اور پھر اس کا محل وقوع اس کی اہمیت کو اور بڑھا دیتا ہے ۔ یہاں بنیادی طور پر دو بڑے قبائل بلوچ اور پشتون آباد ہیں اور ان کی اپنی ایک الگ ثقافت اور تاریخ ہے۔ بلوچستان کی تہذیب و ثقافت پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کی ثقافت کے مشابہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی پہلو میں مختلف بلکہ متضاد بھی ہے، اس میں نیر نگی ہے۔ یہاں کا قبائلی اور معاشرتی نظام بھی اپنی منفرد خصوصیات کی بناء پر ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔
بلوچستان میں تخلیق ہونے والا ادب یہاں کی تہذیب و ثقافت کے مختلف عناصر سے مالا مال ہے۔ یوں تو قریباً سبھی قابلِ ذکر ادیبوں کی تخلیقات میں کم کم یہ اثرات پائے جاتے ہیں مگر جن دو معروف ادیبوں کے ہاں ان کا استعمال تخلیقی سطح پر اور متواتر و مسلسل ہوا ہے ۔ وہ ہیں عطاشاد اور آغا گل۔
عطاشاد بنیادی طور پر شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں بلوچی زبان کے نامانوس الفاظ پہلی بار ظہور پذیر ہوئے جبکہ بلوچی ثقافت کے مختلف مظاہر بھی ان کی شاعر ی کی بنیادی پہچان ہیں۔ ان سب عناصر نے مل کر انہیں ایک الگ اور منفرد شعر ی پیکر اور لہجہ بخشا ہے جو کہ صرف انہی سے منسوب سمجھا جاتا ہے۔
آغا گل بلوچستان کے ایک باصلاحیت اور تخلیقی اپج سے مالا مال تخلیق کار ہیں۔ وہ بلوچستان کے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے سب سے زیادہ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کی تعداد پانچ ہے ۔اس کے علاوہ ان کے دو مختصر ناول اور ایک ناولٹ بھی منظر عام پر آچکے ہیں جبکہ وہ دیگر موضوعات پر بھی لکھتے آئے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں کے نام راسکوہ ، آکاش ساگر ، گوریچ، تارمہ اور گوانگو ہیں جبکہ دو ناول بیلہ اور دشت وفا ہیں ناولٹ دشت میں سفر ہے جبکہ ان کی دیگر تصانیف میں پارس لفظیں ، تاریخ کی گواہی اور شدرو مرجان وغیرہ ہیں ، یہ کتابیں تاریخی اور علمی نوعیت کی ہیں ۔
آغا گل کے افسانوی مجموعوں کے نام بلوچی الفاظ ہیں جبکہ ان کے کردار وں کے اکثر نام بھی بلوچستان میں رکھے جانے والے عام ناموں میں سے ہیں ۔ یہ نام ایسے ہیں جو کہ صرف یہاں رکھے جاتے ہیں اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں سننے میں نہیں آتے مثلاً نبو جان، گنوک اور ٹکری وغیرہ۔ آغا گل ایسے افسانہ نگار ہیں جن کی تحریر کی پہچان مقامیت اور علاقائیت ہے ان کے افسانوں میں بلوچستان کی ثقافت و معاشرت طاقت ، نمو اور اثر انگیزی کے ساتھ ابھرتی ہے ۔ ان کے مختلف افسانوں کے ترجمے اردو سے بلوچی ، براہوی ، پشتو، ہندی اور انگریزی میں ہو چکے ہیں۔ بھارت سے شائع ہونے والے ’’بہترین عالمی ادب ۱۹۹۲ء‘‘ میں ان کے افسانے ’’دوسری بابری مسجد‘‘ کو سال کا بہترین عالمی افسانہ قرار دیا گیا تھا۔
آغا گل کے مختلف افسانوں کے عنوان بھی بلوچی کے الفاظ ہیں مثلاً تارمہ (تاریکی )، راسکوہ (ایک پہاڑ کا نام) کوہ کئی (گھروندا)، ھلی ( گھوڑا ) ، اور گوریچ ( سرد ہوا) وغیرہ۔
افسانوں میں بھی کئی جگہ وہ بلوچی زبان کے الفاظ اور کہاوتیں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرتے ہیں مثلاً ایک بلوچی کہاوت جو مشہور ہے کہ داتکہ دنیاآستیس شہ مرید گوہراں مستیس ۱؂ جب تک دنیا قائم ہے شہ مرید کا جواں اونٹ مست خرام رہے گا، شہ مرید ایک معروف بلوچی لوک داستاں کا مشہور ہیرو ہے اس کا بلوچی لوک ادب و شاعری اور داستاں میں وہی مقام ہے جو مثلاً پنجابی کی ہیروارث شاہ میں رانجھا کا ہے۔
سبی کا میلہ پاکستان بھر میں مشہور ہے۔ یہ میلہ بلوچستان کی ثقافت کا ایک زندہ اور جاندار مظہر ہے جو کہ ہر سال منعقد ہوتاہے اور بلوچستان کے علاوہ ملک بھر سے لوگ اس میں شامل ہونے اور اس کی رونقیں دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں نادر اور عجیب الخلقت جانوروں کی نمائش اور خرید و فروخت ہوتی ہے جسے عالمی شہرت حاصل ہے ۔ یہ میلہ بلوچستان کی ثقافتی و سماجی زندگی کی علامت ہے۔ یہاں ایسے کئی کھیل تماشے منعقد ہوتے ہیں جو کہ بلوچستان کا خاصہ ہیں۔ پھر بلوچستانی دستکاری کے شاہکار بھی یہاں بیچے خریدے جاتے ہیں۔ اس طرح کے دیگر اسٹا ل بھی لگتے ہیں جہاں صرف ایسی چیزیں فروخت ہوتی ہیں جو کہ بلوچستان کے محنت کار سال بھر اپنے ہاتھوں سے سخت محنت کے بعد گھروں میں تیار کرتے ہیں اور جو یہاں کی گھریلو اور ثقافتی زندگی کے اہم عناصر ہیں۔ مثلاً مخصوص قسم کے برتن، کپڑے، آرائش و زیبائش کا سامان ، کشیدہ کاریوں کے اعلیٰ نمونہ جات وغیرہ وغیرہ۔
آغا گل کے کئی افسانوں میں سبی میلے کا ذکر آتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ’’نبو کے جسم سے ہلکا ہکا خون رس رہا تھا مگر نہ اس کی آنکھوں میں تکلیف کی علامت تھی نہ چہرے پر بیتے لمحوں کا خوف بلکہ ایسا پُرسکون اور مطمئن مانو سیوی (سبی) کے میلے میں بیل خریدنے نکلا ہو‘‘۔ ۲؂
یہی شہر یعنی سبی بلوچستان کی تاریخ میں سنہری لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے ۔ میر چاکر خان رند اور گہرام لاشاری کی یادگارِ زمانہ لڑائی اسی علاقے میں لڑی گئی تھی ۔ یہ دو بلوچ سرداروں اوران کے قبیلوں کی ایسی جنگ ہے جس کی بلوچ تاریخ اور ادب میں اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ وہ سبی کے اس تاریخی کردار اور اس سے منسلک دیگر تاریخی کرداروں کو بھی اپنے فکشن میں بطور ہیرو ،بطور مثال اور بطور تشبیہ کے استعمال کرتے ہیں۔ مثلا ایک اور جگہ اسی سبی کو تاریخی تناظر میں استعاراً یوں بیان کرتے ہیں۔
’’
ساتھی چٹانوں پر اچھلتے ،پھاندتے ، دیوانہ وار آگے بڑھ رہے تھے ۔ جیسے بی بی ببو کا لشکر ، جیسے چاکر کی یلغار، جیسے نصیر خان نوری کا حملہ ۔‘‘۳؂
آغا گل بلوچستان کے ان تاریخی واقعات و کردار ہی کو بیان نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے افسانوں میں بلوچستان میں نو آبادیاتی تمدن کے اثرات کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ یہاں انگریز کی آمد ، ان کی آمد کے مقاصد (یعنی روس کا مقابلہ کرنا اور گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنا) ،اس کے اثرات بلوچستان کی تمدنی زندگی پر، نئے روزگار کے مواقع کی دستیابی اور بیرون بلوچستان سے مختلف ہنر و فن جاننے والے اور اہل حرفہ کی آمد کا احوال بھی اپنے افسانوں میں جا بجا سناتے نظر آتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ آغا گل بلوچستان میں انگریزوں کی اولین آمد اور یہاں ذرائع نقل و حمل کی تعمیر کے بارے میں بھی تاریخی تناظر میں بات کرتے ہیں۔ مثلا اپنے ایک افسانے ھلی (گھوڑا ) میں وہ بلوچستان میں ریل کی آمد اور ٹرین کی پٹڑیوں کے بنانے کی کا ر گزاری اور توجیہہ بیان کرتے ہوئے بڑے دلچسپ پیرائے میں افسانے میں ان تاریخی حقائق کا تذکرہ کرتے ہیں(یاد رہے کہ یہاں ھلی یعنی گھوڑا سے مراد ریل یا ریلوے انجن ہے)وہ لکھتے ہیں :
’’
فرعون کے جادوگروں کی طرح انگریزوں نے سپولیے نکالے اور بلوچستان میں اچھال پھینکے ۔ یہ لمبے لمبے سیاہ ناگ ایک بے ڈھنگی لکیر کی طرح بڑھتے چلے گئے ۔ سیوی سے شاہرگ ،ہرنائی ، ژوب تک اور دندلی سے آب گم( مچھ) درزان، کولپور، کوئٹہ،چمن تک اور مغرب میں ایرانی سرحد دزدان تک (جسے بعد میں زاہدان کا نام دیا گیا)۔ ۱۸۳۸ء میں تاج برطانیہ نے سروے آرڈر جاری کیا تھا۔ زبردست کا ٹھینگا سر پر ، خان قلات کے پاس یہ سنپولیے نگلنے کو عصائے موسیٰ ہوتا تو ۱۸۹۴ء میں ’’معاہدہ مشکاف بولان ریلوے‘‘ ہرگز نہ کرتے۔ جس کے تحت ریلوے لائن کے دونوں جانب محض سو سو فٹ کا علاقہ تاج برطانیہ کی عملداری میں دے دیا گیا۔ یہ التزام بھی رکھا کہ جہان اسٹیشن بنانا مقصود ہو، اضافی طو رپر چوتھائی میل کا رقبہ انگریز استعمال کر سکتے تھے۔ بلوچستان میں فوجی اہمیت کے مقامات تک رسل و رسائل کی ترقی کا سبب حبِ علیؓ نہ تھابغضِ معاویہ تھا‘‘۔ ۴؂
درج بالا چھوٹے سے پیراگراف میں بلوچستان کے کس قدر علاقوں کے نام آگئے ہیں جہاں ریلوے لائن بچھائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ان کے دیگر افسانوں میں بلوچستان کے قریباً سبھی علاقوں کے نام آ جاتے ہیں مثلاً قلعہ سیف اللہ، لورالائی، خضدار، قلات، بسمہ ، تربت، پنجگور، سہراب، گوادر اور مستونگ وغیرہ وغیرہ جہاں وہ نہ صرف ان علاقوں سے قاری کو متعارف کراتے ہیں بلکہ ان علاقوں کے موسم ، آب و ہوا، جغرافیائی خط و خال، مقامی فصلیں ،دیہات اور قصبوں میں رونما ہونے والے روز مرہ سماجی و معاشرتی حالات و واقعات بھی ان کی تحریروں میں بخوبی اجاگر ہوتے ہیں بلکہ یہاں تک ہی نہیں آغا گل نے اپنے افسانوں میں بلوچستان کی قبائلی زندگی اور اس کی سادگی و پرکاری، قبائلی جھگڑے، لڑائیاں اور تصفیے ہونے کی صورتحال کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ان جھگڑوں کی وجوہات بھی بیان کی ہیں اور اجتماعی ثقافتی و تہذیبی زندگی کے ساتھ ساتھ فرد کی سطح پر بھی قبائلی افراد کی زندگیوں کا احوال قلمبند کیا ہے اور مرد و عورت کے جذباتی، نفسیاتی، احساساتی مسائل کو تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ کیا وہ عورت جو ولور کے بدلنے میں بیچی جاتی ہے یا جسے مال مویشی کی طرح قصاص اور دیت میں دیاجاتا ہے یا اس کی حیثیت ایک خادمہ ،نوکرانی یا اولاد پیدا کرنے کی ہوتی ہے اور اس کی شخصی ،ذاتی اور سماجی زندگی بطور انسان بالکل مفقود ہوکر رہ گئی ہے ، آغا گل کے افسانوں میں خصوصی جگہ پاتی ہے۔ مثلا اپنے افسانے ’’نیا دیس‘‘ میں تیرہ ۱۳ سالہ یاسمین کی شادی ستر سال کے حاجی کرم الہیٰ خاں سے ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ احساس دلاتے ہیں کہ ملک کے دیگر کچھ علاقوں کی طرح بلوچستان میں آج بھی عورت کو صرف بکاؤ مال سمجھا جاتا ہے جسے صرف زر کے عوض خریدا جا سکتا ہے ۔ جس سے کئی طرح کے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ حاجی اگرچہ پانچ وقت کا نمازی ہوتا ہے مگر پیسے اور دولت کی ہوس میں اندھا ہو کر ایک انتہائی کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرتا ہے پھر اسے پڑھانے کا شوق ہوتا ہے تو اس کے لیے ایک استاد (ٹیوٹر) کا بندوبست کرتا ہے ۔ آخر نوبت یہاں تک آتی ہے کہ لڑکی لکھنا پڑھنا سیکھ کر اسی استاد کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور حاجی کرم الہیٰ خاں کے نام ایک رقعہ چھوڑ جاتی ہے ۔
اسی طرح قومی اور عالمی سطح کے مسائل بھی آغا گل کے افسانوں کا موضوع ہیں راسکون ، اے ایسا ہی افسانہ ہے جو بلوچستان میں ایٹمی دھماکوں کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ آغا گل بلوچستان کا وہ فنکار اور ادیب ہے جس کی کہانیوں میں بلوچستان کے عوام کا دل دھڑکتا ہے ۔ وہ ان افسانوں میں چلتے پھرتے جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مسائل چاہے وہ ذاتی ہوں یا پھر اجتماعی قسم کے، نفسیاتی و جذباتی ہوں یا کہ معاشرتی اور سماجی حکومتوں کی نااہلی ہو یا پھر سرداروں اور نوابوں کی ظالمانہ بے حسی کی مظاہر،جن سے اہل بلوچستان روزانہ کی بنیاد پر نبردآزما ہیں۔ فوجی حکومت کے مظالم ہوں اور ارباب اختیار کے بنائے اور نافذ کیے ہوئے ظالمانہ اور یکطرفہ کالے قوانین یا پھر حالیہ برسوں میں جاری دہشت گردی اور خوف کی فضا ، علیحدگی پسندوں کی مہم ہو کہ آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ یا مظلوموں کو اغواء اور قتل کرنے جیسے گھناؤنے افعال کی بڑھتی ہو ئی تعداد ، آغا گل نے ان تمام موضوعات پر لکھا ہے اور دو ٹوک لکھا ہے۔ منضبط و متاثر کن لکھا ہے ان کے فن کی خوبی چھوٹے چھوٹے جملے ہیں جن میں چند لفظوں میں بلیغ باتیں بھی ہیں اورطنزیہ کاٹ بھی، وہ الفاظ کا استعمال سوچ کر کرتے ہیں اور جملوں کی ساخت اور معانی کے ابلاغ پر توجہ دیتے ہیں۔ لکھنا ان کے نزدیک ذہنی عیاشی نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد اور آدرش ہے۔ جامعہ بلوچستان کے مرحوم استاد اور معروف نقاد و ادیب ڈاکٹر فاروق احمد نے اپنی کتاب ’’بلوچستان میں اردو زبان و ادب‘‘ میں آغا گل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’آغا گل ان عوامل پر بھی غور کرتے ہیں جن کی وجہ سے فکری کساد بازاری اور انسانی بے رغبتی نے روح کو مضمحل اور نا آسودہ کر رکھا ہے۔ خصوصاً ان کے افسانے اسپیڈ بریکر میں یہ تاثر زیادہ گہرا اور معنی خیز ہے ۔
آغا گل کی نگاہ ایک معمولی جھٹکے سے انسانی فہم و ادراک کی پستی اور بلندی دونوں کا بیک وقت جائزہ لیتی ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتے ہیں۔ فکری ، معاشرتی ،معاشی، تہذیبی اور ادبی منافقت سے ہر دم برسرپیکار رہنا شاید آغا گل کا مزاج بن گیا ہے۔ بلوچستان کے جغرافیائی پس منظر میں لکھے گئے افسانے آغا گل کی قوت مشاہدہ کی سچائی ہیں اور بلوچستان کے منظر نامے سے اخذ کی ہوئی انسانی روح ہزار ہا برس کی تھکن لیے آغا گل سے بہت کچھ لکھوانا چاہتی ہے ۔ آغا گل نے افسانوں کے پردے میں مسائل سے پردہ اٹھانے کا آغاز کیا ہے ۔۶؂
آغا گل کے افسانوں میں بلوچستان کے ساتھ ساتھ عالمی منظر نامہ اور عام انسان جو دنیا کے کسے بھی حصے سے تعلق رکھتا ہو کی زندگی کے مسائل کی تصویر کشی بھی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں عالمی تاریخ کے مختلف کردار بھی سامنے آتے ہیں جبکہ وہ تاریخی واقعات بھی مختلف افسانوں میں بیان کرتے ہیں جس سے ان کے تاریخی شعور کااظہار ہوتا ہے ۔ ان کا ایک افسانے کا عنوان ہے ’’پر تھوی، غوری ‘‘ جس میں انہوں نے ان دونوں تاریخی کرداروں کو جنہوں نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ جو اس کہانی کے آغاز میں بھی ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے ہیں اور ایک دو سرے کو قتل کرنے کے درپے ہیں تاہم انجام تک آتے آتے وہ بھیڑیوں کو جو در آئے تھے قتل کرنے لگتے ہیں اور آپس میں صلح کے لیے سفید جھنڈا لہراتے ہیں یعنی بطور انسان ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ ان میں پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی لڑائی کے بارے میں جو نہ جانے کب سے جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گی ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔
غوری ! یہ لڑائی کب ختم ہو گی ؟ پر تھوی نے سوال کیا
’’
میری تمھاری؟ ‘‘
’’
نہیں پرتھوی اور غوری کی لڑائی جو صدیوں سے جاری ہے ۔ ‘‘
’’
جب تمہارے حکمرانوں کی سوچیں بدلیں گی۔‘‘ غوری بولا۔ یہاں بات صاف اور واضح ہے کہ پرتھوی غوری کے پردے میں پاکستان اور ہندوستان میں جو ایک عرصے سے تصادم کی صورتحال میں جی رہے ہیں اور ان دونوں کے کروڑوں عوام بھوکے ہیں، صحت اور تعلیم سے محروم ہیں۔
مسز مبارکہ حمید آغا گل کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ: ’’انہوں نے بلوچستان کے خاص ماحول کو اپنے افسانوں کا پس منظر بنایا ہے ۔ ان کی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کی ہیں اور ان کے سماجی مسائل کو بڑے فنکار انہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ آغا گل کے افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں مقامی زبان استعمال ہوئی ہے۔ افسانہ پڑھنے کے بعد یہ غیر مانوس الفاظ اپنی زبان کے لفظ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ انہوں نے اردو افسانے میں بلوچستان کے جغرافیائی ماحول کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی ہے۔ ‘‘
آغا گل کی ناول نگاری بھی اہمیت کی حامل ہے انہوں نے ناول اگرچہ بہت طویل نہیں لکھے مگر یہ درمیانی ضخامت کے بھی نہیں ہیں بلکہ صرف سوا سو کے قریب صفحات پر لکھے گئے ہیں’’ تاہم ان کے پلاٹ مضبوط ، کردار بلوچستان کی معاشرتی زندگی سے تعلق رکھنے والے، مکالمہ جاندار اور منظر کشی بھی خوب کی گئی نظر آتی ہے۔ ’’دشت وفا آغا گل کا ایک اہم ناول ہے ۔ یہ ناول بلوچستان کی حالیہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے رحجان کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس میں وہ حالات پیش کیے گئے ہیں جب نوجوان مایوس ہو کر پہاڑوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور پھر آزادی کے لیے جو راستہ منتخب کرتے ہیں انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مختلف کرداروں کے تال میل سے ناول میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ ناول کو پڑھتے ہوئے یو ں گماں ہوتا ہے جیسے آدمی کوئٹہ کے بازاروں گلیوں میں چل پھر رہا ہوتا ہے ۔ وہاں کے ہوٹلوں (یعنی ریسٹورنٹ )پر بیٹھا چائے پی رہا ہو اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ کررہا ہوں۔ دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر دیر تک بیٹھنا اور گپیں ہانکنا ، ہوٹلوں کے مالکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا کوئٹہ بلکہ بلوچستان کی ثقافتی زندگی کاایک لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول میں ایسے مناظر متعدد بار ملتے ہیں اور کوئٹہ کی ثقافتی زندگی کے اس رخ کی تصویر کھینچتے ہیں۔
اس ناول میں بلوچستان کی سیاست بھی موضوع بنی ہے ۔ جس سے اس کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے آتے ہیں ۔ جبکہ یہ بحث بھی ملتی ہے کہ کیا اس طرح مسائل پر آواز اٹھانی چاہیے کہ نہیں۔ اس سے آزادی ملتی ہے یا یہ ثمر آور ثابت نہیں ہوتی اوریہ بہت اہم مباحث ہیں اور بلوچستان کے حوالے سے ان مسائل کو اجاگر کرکے آغا گل نے ایک طرح سے اجتہادی کام کیا ہے کیونکہ ایسے مسائل ذاتی اور نجی گفتگو میں تو بکثرت ہوتے ہیں مگر انہیں تحریر و تقریر میں لانا آج کے حالات کے مناظر میں کوئی آسان کام نہیں اور کہنے لکھنے والے اس طرح سے خود کئی طرح کے خطرات کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن آغا گل نے جرأت کا مظاہر ہ کرکے اس قسم کے سنگین اور حساس معاملات کو چھیڑ کر پہل کاری اور ہمت کا مظاہرہ کیا ۔ ناول کے آخر تک پہنچتے ہوئے کرداروں کا جو کردار سامنے آتا ہے یا وہ جس طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھل سامنے آتے ہیں وہ چونکا دینے والا ہے۔ اس سے عام قاری ایک نئی روشنی حاصل کر سکتا ہے اور چاہے تو خود کو بدل سکتاہے اور امن اور جمہوری طریقوں سے اپنے حقوق کی جدو جہد کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ اور قائل ہو سکتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو آغا گل کا جذبہ تعمیری ہے اور یہ مثبت نتائج دے سکتا ہے ۔
حوالہ جات
۱۔ آغا گل :گور یچ:ٹائمز پریس ، کراچی ، ۱۹۹۴ء ص۷۳
۲۔ ایضاً، ص۷۴
۳۔ آغا گل :دشت وفا : ماہنامہ سپوتنک ،لاہور، ۲۰۰۸ء، ص ۱۵۹
۴۔ آغا گل :گوریچ : ٹائمز پریس، کراچی ، ۱۹۹۴ء ص۷۰
۵ ۔ آغا گل : راسکوہ : مکتبہ الحمرا ، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص ۱۲۲
۶۔ فاروق احمد ڈاکٹر: بلوچستان میں اردو زبان و ادب : قلات پبلشرز، کوئٹہ،ص۲۱۰
۸۔ آغا گل : آکاش ساگر : عالمی ادراہ ادب و ثقافت ، لاہور ۲۰۰۱ء ،ص ۳۸
۸۔ مبارکہ حمید ،مسز : بلوچستان میں اردو افسانے کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ : نوید پبلیشینز ، کوئٹہ ۲۰۰۱ء، ص ۱۳۱
****