مدارس اسلامیہ کا نصاب اور عصر حاضر کے تقاضے

مدارس اسلامیہ کا نصاب

مدارس اسلامیہ کا نصاب اور عصر حاضر کے تقاضے

(محمد عارف باللہ)

ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے اکثر مدارس میں مروج نصاب تعلیم ’’درس نظامی‘‘ کے نام سے معروف ومشہور ہے۔ اس کو بارہویں صدی کے مشہور عالم اور مقدس بزرگ مولانا نظام الدین سہالویؒ نے اپنی فکراور دور اندیشی کے ذریعہ مرتب کیا تھا۔ مولانا کا مرتب کردہ نصاب تعلیم اتنا کامل ومکمل تھا کہ اس کی تکمیل کرنے والے فضلاء جس طرح علوم دینیہ کے ماہر ہوتے تھے اسی طرح دفتری ضروریات اور ملکی خدمات کے انجام دینے میں بھی ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس لئے علوم دینیہ اور علوم عصریہ کی کوئی تفریق نہ اس ملک میں تھی اور نہ دوسرے ممالک میں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نصاب دینی تقاضوں کے ساتھ ساتھ دنیوی تقاضوں کی تکمیل کے لئے بھی کافی تھا۔ اس لئے کہ اس کی ترتیب میں مولانا نظام الدینؒ نے دینی واقفیت بخشنے والی کتابوں کی شمولیت کے ساتھ ساتھ وقت اور حالات پر بھی نظر رکھ کر حالات وزمانہ کے تقاضے کے مطابق مروج فنون وزبان کی کتابوں کو بھی اس میں شامل کیا تھا۔

مولانا نظام الدینؒ بارہویں صدی یعنی سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ کے عہد کے ہیں اس زمانے میں فارسی زبان ملکی اور سرکاری زبان تھی اور منطق وفلسفہ کو یہ اہمیت حاصل تھی کہ یہ فنون معیار فضیلت تھے اسی طرح علم ریاضی (علم حساب) کی بھی بڑی اہمیت تھی ،چنانچہ مولانا نے اپنی ترتیب میں حالات کے تقاضے کے مطابق قرآن حدیث فقہ اور ان کے متعلقات کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے عصری علوم کو شامل کیا اور حالات سے ہم آہنگ اور میل کھانے والا نصاب مرتب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ نصاب اس وقت بہت ہی مقبول ہوا اور اس وقت کے تقریباً تمام مدارس میں رائج ہوگیا۔ فارسی اور منطق وفلسفہ کی شمولیت اس وجہ سے قطعا نہیں تھی کہ یہ دینی علوم تھے یا یہ کہ دینی علوم کا ایسا ذخیرہ ان میں موجود تھا کہ ان کے بغیر تعلیم شریعت نامکمل رہتی،بلکہ ان کی شمولیت کا محرک صرف اور صرف ملک کے وقتی حالات تھے، جیسا کہ اس کی تائید مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی تحریر سے ہوتی ہے :

درس نظامی کے ابتدائی عہد میں جو فارسی زبان اور دیگرعلوم ، منطق ، فلسفہ ، ریاضی اور حساب وغیرہ کو اعلی پیمانے پر رکھا گیا تھا، یہ تو ظاہر ہے کہ یہ فنون ہمارے دینی علوم نہ تھے، نہ قرآن وسنت اور علوم دینیہ کا سمجھنا فی نفسہ ان پر موقوف تھا، سکندر لودھی کے زمانہ سے پہلے ان میں سے بعض چیزوں کا تو رواج ہی نہ تھا اور ریاضی، حساب وغیرہ جو رائج تھے، وہ بھی اس لئے نہیں کہ قرآن وسنت یا دین کا سمجھنا ان پر موقوف تھا بلکہ صرف اس لئے کہ ایک عالم دین ، ملکی ، سیاسی اور دفتری معلومات میں بھی قابل وماہر تعلیم یافتہ انسان سمجھا جائے۔ فارسی زبان ظاہر ہے کہ قرآن وسنت کی زبان نہ تھی مگر سلطنت کی دفتری زبان بن گئی تھی، اس لئے تمام علمائے عصر اس میں بھی وہ مہارت پیدا کرتے تھے کہ اس میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نظر نہ آئیں اور اسی وجہ سے اس درس کا فاضل حکومت میں بھی ہر عہدہ ومنصب کے قابل سمجھا جاتا تھا ( جواہرالفقہ جلد نمبر ۵؍ رسالہ : اسلام کے قرن اول میں تعلیم کا نصاب)

اسی طرح رئیس القلم مولانا مناظر احسن گیلانی ’’درس نظامیہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ عام طور پر درس نظامیہ کے نام سے جسے شہرت حاصل ہوگئی ہے اس کے متعلق لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے صرف دینی تعلیم کا نظام تھا درحقیقت اس نصاب میں اس عہد کی دفتری زبان فارسی کی نظم ونثر وانشاء وغیرہ کی بیسیوں کتابوں کے ساتھ ساتھ حساب ،خطاطی وغیرہ کی مشق کرانے کے بعد اعلی تعلیم عربی زبان کی کتابوں کے ذریعہ دی جاتی تھی۔

گویا درس نظامی درحقیقت علوم دینیہ اور علوم عصریہ کا ایک حسین چشمہ تھا جس سے دینی علوم کی نہریں اور عصری علوم کی نہریں دونوں بہتی تھیں اس سے دینی ضرورتوں کی بھی تکمیل ہوتی تھی اوردنیاوی زندگی میں بھی راہ چلنے کی روشنی اس سے ملتی تھی، اس کی تکمیل کرنے والے دین کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی ’’ید طولی‘‘ رکھتے تھے‘‘

اور اگر سنجیدگی اور ہر قسم کی تنگ نظری سے الگ ہو کر غور کیا جائے تو مولانا مرحوم کا یہ نظریہ اور نصاب کی ترتیب میں ان کا مقرر کردہ اصول (جس کی روشنی میں انہوں نے اپنا نصاب مرتب کیا) بالکل صحیح اور لائق تحسین تھا۔ اس لئے کہ انسان سے ایک طرف شریعت کے مطالبات اگر وابستہ ہیں تو دوسری طرف اس دنیا میں اس کی زندگی کی وجہ سے اس کے ساتھ دنیاوی معاملات اوردنیاوی ضرورتیں بھی وابستہ ہیں اور شریعت اسلامیہ کا تقاضا صرف یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا سے مکمل منہ موڑ کر صرف اپنی زندگی کو عبادت خانوں کے اندر محصور کرلے اور اس کے دائرہ میں ہی رہتے ہوئے اپنی زندگی کے لمحات گزارے ،ہاں ! یہ ایک حقیقت ہے کہ دین کو ترجیح اور درجہ اول دیتے ہوئے اپنی دنیا کو بھی پابند دین بنانے کا اسے ضرور پابند بنایا گیا ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے جب کہ دین سے واقفیت ہو، اس لئے دین کی تعلیم اولین فریضہ ہے، اور اس کے بغیر انسانی زندگی کا مرضی رب العالمین کے مطابق ہونا ناممکن ہے۔ اور یہی مطلب ہے ہمارے سرکار حضورﷺ کے اس مبارک ارشاد کا ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘

لیکن ثانوی درجہ میں دنیا کے علوم کے حصول کی ضرورت بھی مسلم ہے اسی لئے شریعت نے اس سے کسی بھی نص شرعی میں منع نہیں کیا ہے، بلکہ تاریخ اور صحابہ کے حالات وواقعات سے تو علوم دنیویہ کے حصول کی تائید ہی ہوتی ہے۔ صحابہ کرام جو کہ خدا کی مرضی کے خلاف ایک لمحہ گزارنا پسند نہیں کرتے تھے اور نبیﷺ کے پاک ارشادات کے ایسے دیوانے تھے کہ ایک ایک لفظ کو اپنے حافظہ میں جمع کرتے تھے اوردین کی جان کاری کے لئے ہمہ تن کوشاں رہتے تھے، انہوں نے بھی دنیاوی معاملات کو حل کرنے کے لئے دنیوی علوم حاصل کیا ہے۔ اور بعض صحابہ کو رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم بھی دی ہے۔ چنانچہ دفاعی قوت کے استحکام کے پیش نظر بعض صحابہ کرام آلات حرب کی کاریگری سیکھنے میں مشغول ہونے کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کرسکے، حافظ ابن کثیر ومشقیؒ (م ۔ ۷۷۴) نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں دو صحابی : عروہ ابن مسعود اور غیلان بن سلمہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات آلات جنگ کی صنعت سیکھ رہے تھے اس لئے غزوہ حنین اور محاصرئہ طائف میں شریک نہ ہوسکے ۔

’’ولم یشهد حنینا ولا حصار الطائف عروة بن مسعود ولا غیلان بن سلمة کانا بجرش یتعلمان صنعة الدبابات والمجانیق والضبور (البدایہ والنهایہ : ۴؍۳۹۵)

’’ غزوہ حنین اور محاصرئہ طائف میں عروہ ابن مسعود اور غیلان بن سلمہ شریک نہیں ہوئے اس لئے کہ وہ دونوں مقام ’’جرش‘‘ میں دبابوں ، مجانیق (قلعہ شکن توپ) اور ضبور (جو ٹینک کی جگہ استعمال ہوتے تھے) کی صنعت سیکھ رہے تھے ‘‘

اسی طرح نبی پاک ﷺ نے عربی سے ناواقف لوگوں سے ’’ مراسلاتی تعلق قائم کرنے اور ان کو دین کی دعوت دینے کے لئے حضرت زید بن ثابتؓ کو ‘‘ زبان یہود‘‘ سیکھنے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے آپ کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اس کو سیکھنا شروع کیا اور صرف پندرہ ایام میں اس سے مکمل واقف ہوگئے۔ (البدایہ والنہایہ : ۴؍۱۰۵)

حضور اکرمﷺ کا حضرت زید بن ثابتؓ کو’’ زبان یہود‘‘ کے سیکھنے کا حکم دینا، مفاد اسلامی کی خاطر دوسری زبانوں کو سیکھنے یا دوسروں کے فنون سے واقفیت حاصل کرنے کے بارے میں شرعی فیصلہ کے لئے ایک بہترین دستاویز ہے اور اس پر غور کر کے قانون اسلام میںاس کی حیثیت واہمیت معلوم کی جاسکتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے علم وتعلیم کا اصل محور تو کتاب وسنت کو ہی قرار دیا ، البتہ سیاسی ، سماجی اور معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے عام دنیا کے لوگوں کی طرح وہ بھی دنیوی علوم کو سیکھتے رہے۔ تا کہ اس کے ذریعہ مفاد اسلامی کا حصول بھی ہو اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل میں دوسروں کی محتاجگی کی پریشانی وذلت درپیش نہ ہو۔

تعلیم وتعلم کے سلسلے میں صحابہ کرام کے اسی طریقہ کو اسوہ بناتے ہوئے مولانا نظام الدین صاحبؒ نے ’’درس نظامیہ‘‘ کو مرتب کیا کہ دین اور دنیا دونوں کی تعلیم اور دونوں سے واقفیت بخشنے والی کتابوں کو اس میں شامل کیا اور اس زمانہ میں جن علوم وفنون کی زیادہ اہمیت تھی اور جن کا سکہ رائج تھا ان کتابوں کو اس نصاب میں اہمیت دیتے ہوئے کثیر تعداد میں شامل کیا۔ چنانچہ منطق وفلسفہ اور فارسی کی کتابوں کی اس نصاب میں کثرت اسی بنیاد پر تھی۔

اب حالات ماضی سے بالکل بدل چکے ہیں۔ منطق وفلسفہ کے اکثر نظریات کی دنیا میںمانگ باقی نہیں رہی ہے اور جدید سائنس نے ان کی جگہ لے لی ہے ، اور ہیولیٰ ، صورت جسمیہ کی تحقیق وتفتیش کے بجائے خلاوں میں پرواز کرنے اور دنیا سے ہٹ کر ایک دنیا بسانے کی تحقیق وجستجو جاری ہے ، فارسی زبان کی وسعت اتنی محدود ہوگئی ہے کہ وہ صرف ایک مخصوص علاقہ کی زبان کی حیثیت سے متعارف ہے اور اس کی جگہ عربی اور انگریزی نے لے لی ہے ، ہر طرف انگریزی اور اس کی اصطلاحات کی گرم بازاری ہے ، پوری دنیا کو اس نے اپنے دامن میں جمع کرلیا ہے اور اپنی اہمیت کا لوہا ایسا منوایا ہے کہ پوری دنیا میں عملی طور پر اسے اول درجہ کی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔

لیکن ان حالات میں مدارس اسلامیہ کا نصاب عصر حاضر کی دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کے اسباب سے بالکل خالی ہے ، دینی ضرورتیں تو اس سے بلاشبہ مکمل ہو رہی ہیں اور دینی اعتبار سے ان کا نصاب بہت ہی مفید ہے لیکن دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ان کے پاس منسوخ شدہ سکوں کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

حالات اور طلبہ کی ذہنی حیثیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نصاب میں جزوی تبدیلی تو ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس تبدیلی میں مولانا نظام الدینؒ کے اصول کو بالکل ہی سامنے نہیں رکھا گیا ہے ، چنانچہ جزوی تبدیلی میں پہلے سے زیر درس بعض کتابوں کی تخفیف تو کی گئی ہے لیکن عصر حاضر کے تقاضے کے مطابق کسی نئی کتاب یا کسی نئے فن کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے اورآج تک منطق وفلسفہ کی علمی موشگافیاں اور قیل وقال جاری ہیں جس کا فائدہ کچھ نظر نہیں آتا۔ نتیجتاً مدارس کے فضلاء کے پاس دینی ذخیرہ تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن دنیوی ضرورتوں اور تقاضوں کا ان کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا۔

یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ انگریزی زبان سے واقفیت تو دور کی بات ہے کہ وہ داخل نصاب ہی نہیں ، عربی زبان جو کہ ذریعہ تعلیم ہے اور ساری کتابیں اسی زبان میں پڑھائی جاتی ہیں ،نحو وصرف اور ادب کی متعدد کتابوں کی تکمیل کی جاتی ہے ،لیکن مدارس کے فضلاء میں ۷۵؍ فیصد طلبہ کی عربی زبان سے واقفیت کا یہ حال ہوتا ہے کہ نہ تو وہ کسی عربی سے گفت وشنید کرسکتے اور نہ اپنا مافی الضمیر عربی میں ادا کرسکتے اور نہ ہی اس مبارک زبان میں شائع ہونے والے اخبارات ومجلات کو پڑھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،راقم الحروف کو ’’فرد خانہ‘‘ ہونے کی وجہ سے اس کا شدید احساس ہے اوراس پر افسوس بھی !

آخر کیا وجہ ہے کہ انگریزی کے طلبہ تو بخوبی انگریزی سے واقفیت حاصل کرلیتے ہیں اور مادری زبان کی طرح اس پر قادر ہوجاتے ہیں لیکن عربی پڑھنے والے طلبہ عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے ؟

اس انحطاط کی وجہ صرف یہ ہے کہ عربی ادب کی کتابوں کو اس انداز سے نہیں پڑھا اور پڑھایا جاتا کہ اس سے زبان پر قدرت حاصل ہو، بلکہ چند ابواب کی تکمیل کرنے کو ضروری خیال کرتے ہوئے ترجمہ اور مطلب کے سہارے کتابوں کو مکمل کرلیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے مدارس میں داخل درس کتاب ’’مقامات حریری‘‘ کا حال یہ ہے کہ سال بھر میں اس کے پندرہ یا بیس مقامات مکمل کئے جاتے ہیں، طلبہ اور اساتذہ دونوں کی توجہ صرف اس کتاب کے نادر الفاظ کو یاد کرلینے اور اس کے ترجمہ کو رٹ لینے پر مرکوز ہوتی ہے، اس جیسے جملوں کی مشق وغیرہ کا خیال کبھی دل میں گذرتا ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحان کے موقع پر طلبہ اس کے ترجمہ کو زبانی یاد کر کے امتحان دے لیتے ہیں۔ اور امتحان کے ختم ہوتے وہ یاد کردہ ترجمے اور الفاظ بھی ذہن سے غائب ہوجاتے ہیں اور طلبہ کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ حالانکہ یہ کتاب مقصود بالذات نہیں ہے۔ مقصود بالذات تو عربی زبان سے واقفیت ہے، تا کہ قرآن وحدیث کی فہم میں کوئی دشواری نہ رہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عربی زبان تحریروتقریری مشق وتمرین کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے، ہاں عربی ادب کی اعلی کتابوں کے ذریعہ حاصل شدہ عربی زبان کو مزید با ادب اور عمدہ بنایا جاسکتا ہے۔

آج مدارس اسلامیہ کے فضلاء اور اس میں زیر تعلیم طلبہ کی حالت وصلاحیت ارباب حل وعقد کو یہ آواز دے رہی ہے کہ مدارس کے نصاب پر مولانا نظام الدینؒ کے اصول کی روشنی میں غور کیا جائے اور منطق وفلسفہ کے ’’سکہ غیر رائج الوقت ‘‘کے بجائے عصری تقاضوں کے مطابق کتابوں کو داخل درس کیا جائے اور اس میں پیدا شدہ تعطل وجمود کوختم کر کے ماضی کی طرح آج کے فضلاء کو بھی ہر میدان کا شہسوار بننے کا موقع دیا جائے، اگر ہمارے اسلاف اپنے زمانہ کی ضروریات کے پیش نظر فارسی زبان کو اپناسکتے ہیں اور یونانی منطق وفلسفہ کو داخل نصاب کرسکتے ہیں جو کہ ہمارے دینی علوم نہیں ،تو کیا وجہ ہے کہ یونانی منطق وفلسفہ کی سرد بازاری اور جدید سائنس اور انگریزی زبان کی گرم بازاری کے باوجود ہم جدید علوم کو نصاب کا جزء نہ بنائیں ،حالانکہ آج انگریزی اور جدید علوم کے ذریعہ اسلام کی اشاعت اتنی ہوسکتی ہے جتنی ماضی میںممکن نہ تھی۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کے احساس نے ہمارے اسلاف کو بھی تڑپایا ہے اور ان کے دل سے بھی آواز نکلی ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں :

درس نظامی جو اب تک ہمارے مدارس میں رائج ہے ، علوم دینیہ کی حفاظت واشاعت کے لئے تو بلاشبہ کافی ہے مگر ملکی ، دفتری ضروریات آج بالکل بدلی ہوئی ہیں ان میں ہماری قدیم منطق وفلسفہ اور قدیم ریاضی اور فارسی زبان کام نہیں دیتی، آج فارسی زبان کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے اور قدیم معقولات کی جگہ نئی سائنس اور فلسفہ نے نیز دوسرے علوم جدید نے لے لی ہے اگر ہمارے متقدمین اپنے زمانہ کی ضروریات کے پیش نظر فارسی زبان کو اپناسکتے ہیں ، یونانی منطق وفلسفہ اور ریاضی کی تعلیم کو نصاب کا ایک بڑا جزء بناسکتے ہیں تو ان کا اتباع آج اس میں نہیں کہ ہم اس وقت بھی وہی منسوخ شدہ سکے لے کر بازاروں میں پھریں بلکہ وقت کی ضروریات کے مطابق انگریزی زبان اور فنون جدیدہ (کمپیوٹر) کو پڑھنا پڑھانا وہی درجہ رکھے گا جو اس زمانہ میں فارسی زبان اور یونانی فلسفہ کا مقام تھا اگر آج اس حقیقت کو سمجھ کر ہمارے علماء فارسی زبان کی جگہ انگریزی کو اور یونانی فلسفہ کی جگہ جدید سائنس اور فلسفہ کو دیں تو اس میں نہ علوم دینیہ کی تعلیم میں کوئی غلط تصرف ہے اور نہ یہ اسوۂ اسلاف ہی سے مختلف ہے۔ مضر اسباب سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے انگریزی زبان اور عصری علوم وفنون کو پوری کوشش اور توجہ سے حاصل کیا جائے تو وہ پچھلے منطق وفلسفہ سے زیادہ اسلامی عقائد اور اسلامی علوم کے خادم نظر آئیں گے۔(جواہر الفقہ  ج : ۵؍رسالہ : اسلام کے قرن اول میں تعلیم کا نصاب)

خلاصئہ کلام یہ ہے کہ حالات اور اس کے تقاضے بدل گئے دورحاضر کے تقاضوں کو سمجھ کر دور حاضر سے ہم آہنگ ایسا نصاب تیار کیا جائے جس کا اصل محور تو کتاب وسنت ہی ہو اور اصل اور فرع کا امتیاز باقی رکھتے ہوئے ماضی کی طرح آج کے رائج علوم کو نصاب کا جزء بنایا جائے تو دین کی تفہیم وتشریح آسان ہوسکتی ہے ،اس لئے کہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی حیثیت داعی کی ہے اور عوام کی حیثیت مدعو کی ہے اور داعی قوم مدعو کی تشنگی کو اسی وقت دور کرسکتا ہے جب کہ داعی کے اندر ایسی صلاحیت ہو جس سے وہ اپنے دل کی آواز کو مدعو کے دل کی آواز بنادے اور اس کے لئے بہت سے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ داعی کے پاس وہ زبان ہو جس سے مدعو واقف ہو اور آج اس حقیقت کے انکشاف کی چنداں ضرورت نہیں کہ ایک طرف مدارس کے فضلاء کے پاس عربی فارسی سے مخلوط اردو زبان ہے تو دوسری طرف عوام کی زبان کا بیشتر حصہ انگریزی ہے کہ اکثریت کا اعتبار کرتے ہوئے اسے انگریزی زبان ہی کہہ دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ اور اس کے غلبہ کا سیلاب دن بدن ایسا بڑھتا جارہا ہے کہ مستقبل میں اسے ’’مادری زبان‘‘ کا درجہ مل جانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔

لیکن جدید علوم اور انگریزی زبان کے اضافے کے ساتھ ساتھ فارسی اور منطق وفلسفہ کو نصاب سے بالکلیہ خارج کردینا بھی مناسب نہیں ہے اس لئے کہ ماضی میں ان کے غلبہ کی وجہ سے ہماری دینی کتابوں میں منطق وفلسفہ کے بہت سے اصطلاحات موجود ہیں اسی طرح بہت سی اہم اور مستند دینی کتابیں فارسی زبان میں ہیں اس لئے اپنے اسلاف کی تحریروں اور ان کے جمع کئے ہوئے علمی ذخیروں سے واقفیت کے لئے منطق وفلسفہ کی اصطلاحات اور فارسی زبان سے واقفیت ضروری ہے۔ اس لئے نصاب کی ترتیب نو میں ’’الضرورة تتقدر بقدر الضرورة ‘‘ کے پیش نظر فارسی زبان اور منطق وفلسفہ کو بقدر ضرورت شامل کیا جائے اور ظاہر ہے کہ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے فارسی زبان کو ’’رسمی طور ‘‘ پر داخل کرنے کے بجائے اہمیت کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام انتہائی ناگزیر ہے اور موجود طرز تعلیم اس کے لئے ناکافی ہے رہی بات منطق وفلسفہ کی تو اس کی جتنی ضرورت اب باقی رہ گئی ہے اس کی تکمیل کے لئے منطق وفلسفہ کی چند ابتدائی کتابیں پڑھ لینا کافی ہے اور موجودہ زیر درس کتابوں میں سے صرف ’’تیسیر المنطق‘‘ ، ’’مرقات‘‘ ، اور ’’مبادی الفلسفہ‘‘ سے اس ضرورت کی تکمیل ہوسکتی ہے۔

گویا آج ذمہ داری دوہری ہے کہ ماضی کے ورثہ کی حفاظت اور حال ومستقبل کے تقاضوں اور ضرورتوں کی تکمیل دونوں ہمارے ذمے ہیں اس لئے مزاج شریعت کی روشنی میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہی اس مسئلہ کا حل ہے ورنہ علمی انحطاط کے اس سلسلہ کا منطقع ہونا مشکل ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہ نکلے گا کہ اسلام کی غلط تشریح اور غلط اشاعت کو ہم محدود طریقے پر تو روک سکیں گے لیکن عالمی سطح پر اور وسیع پیمانے پر اسلام کی صحیح تصویر کو پیش کرنا ہمارے بس کی بات نہ ہوگی اور نئے شکار کے لئے ہمارے پاس پرانے بوسیدہ ناقابل انتفاع جال کے سوا کچھ اور نہ ہوگا۔ اور حال میں ماضی کی غفلت کی سزا افسوس اورندامت کی شکل میں جو ہمیں مل رہی ہے مزید اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔