خیرات کے کلچر کا بیانیہ

خیرات کے کلچر کا بیانیہ

از، عامر رضا

نیو مارکسسٹ اور فرینکفرٹ سکول کے مفکر لیوئس التھیوسے کے مطابق پولیس ، فوج  اور عدلیہ  وہ ادارے ہیں جو کہ سرمایہ داری کو بزور طاقت نافذ کرتے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سرمایہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے  کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو کہ لطیف  اور غیر مری طریقے سے سرمایہ داری کی بقا کے لیے کام کرتے ہیں ۔ان اداروں میں  نظام تعلیم ، دانشور اور میڈیا شامل ہیں ۔

وہ دانشور جو کہ بڑی بڑی کارپوریٹ  کارپوریشنز کی انتظامیہ اور    تعلقات عامہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں ان کا کام  ایک ایسا بیانیہ گھڑنا اور اسے قابل قبول بنانا ہوتا ہے جو کہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ہر سیاہ و سفید  کے لیے عوامی حمایت  حاصل کرے ۔اس کی ایک مثال ہمیں میکسم گورکی کے ناول ماں میں بھی  ملتی ہے جب مل کی انتظامیہ  دلدل کی  صفائی کے نام پر مزدور کے تنخواہ سے پیسے کاٹنے لگتی ہے اور مزدور وں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے یہ کام ان کی فلاح کے لیے کیا جا رہا ہے جبکہ درپردہ وہ جگہ مل نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنی ہوتی ہے ۔

امریکہ میں کول اور آٗئل  کارپوریٹ جائنٹ راک فیلر فیملی کو انیس  سو تیرہ  میں کول مائن کے مزدوروں کے  ریاست کولوراڈومیں  قتل عام کے بعد  آئیو لی  جیسے تعلقات عامہ کے  ماہرین کی خدمات میسر ہوئیں جہنوں نے اس خاندان کے کھوئےہوئے تشخص کو بحال کرنے کے لیے  سخاوت اور خیرات کے کام شروع کروا کے ان کا امیج عوام میں بہتر کیا

بی بی سی ریڈیو کے ریتھ  لیکچر سیریز میں ایڈورڈ سعید نے ایڈورٹائزئنگ  کے شعبے میں کام کرنے والوں کو حوالہ دیا کہ وہ کس طرح  کارپوریٹ سیکٹر کا بیانیہ  تشکیل دیتے ہیں اور پھر اس کو پرچار کرتے ہیں ۔

گرامچی کی ہجمنی  تھیوری کے مطابق  حکمران اشرافیہ کے خیالات ہی میڈیا کے ذریعے عام بیانیہ کا حصہ بنتے ہیں اور یہی خیالات معاشرے میں پھلتے  پھولتے ہیں اور اخبارات  ان خیالات کو پھیلانےکا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں ۔انیس سو سولہ میں  اپنے ایک آرٹیکل نیوز پیپرز اینڈ ورکرز میں گرامچی نے لکھا کہ ورکرز کو بوژوا  پیپرز کا بائیکاٹ اس لیے کرنا چاہیے کیونکہ یہ اخبارات  مل مالکان کی پالیسوں اور ان کے مفادات کا ہی تحفظ کرتے ہیں

اب ذرا ایک نظر پاکستان کے حالات پر ڈالتے ہیں کہ اس ملک میں کس طرح  سرمایہ داری  کے فروغ کے لیے میڈیا ،دانشور ، تعلقات عامہ اور اشتہاری ایجنساں کام کر رہی ہیں ۔

اپریل میں روزنامہ ڈان نے پاکستان کی سب سے مہنگی اور بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی کے بارے میں ایک تحقیقاتی  رپورٹ شائع کی ۔جس کے مطابق یہ رئیل اسٹیٹ کمپنی کس طرح  کراچی میں اپنی ہاوسنگ سکیم کے لیے گوٹھوں کی زمین پر قبضہ کر رہی ہے اور کس طرح  سیاسی  حکومت  قانونی سازی  کر کے اور پولیس کے ذریعے اس کمپنی کو قبضہ کرنے میں مدد کر رہی ہے ۔اس سوسائٹی کے زد میں صرف وہاں کا غریب آباد کار ہی نہیں بلکہ وہاں کاماحولیاتی نظام بھی ہے ۔ گزشتہ ماہ اسی رئیل اسٹیٹ کا نام پبلک اوکانٹ کمیٹی میں گونجا جب اس کی ایک اور سکیم پر سوالیہ نشان کھڑا کیا گیا تو پتہ چلا کہ جماعت اسلامی نے ایک لیڈر نے علم و عرفان  کے ترقی کے نام پر جو پلاٹ سی ڈی اے  سے لیا تھا وہ اس سوسائٹی کے پاس چلا گیا ۔

قومی خزانے کو نقصان پہنچانے ،مقامی لوگوں کی زمین ہڑپ کرنے کا دوسرا پہلو ہمیں ان دستر خوانوں ،ہسپتالو ں ،دنیا کی سب سے بڑی مساجد کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں کے شکل میں نظر آتا ہے جو کہ اس   کارپوریٹ فرم کے لیے نیک نامی کما رہا ہے ۔ڈان کی تحقیاتی خبر شائع ہو نے سے پہلے اور بعد کے عرصہ میں پاکستانی ٹی وی چینلز پر اس  ہاوسنگ جائنٹ کے اشتہارات کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ہر نیوز کلاک سے پہلے اور بعد  تین منٹ سے زائد دورانیے کا اشتہار نشر کیا جاتا تھا ۔ان اشتہارات کا  کاونٹینٹ  یہ ثابت کرتا تھا کہ کس طرح اس رئیل اسٹیٹ جانئٹ  نے منظر پر نمودار ہو کر  جہاں اس کا ٹاون بن رہا ہے ،وہاں کے رہنے والے لوگوں کی قسمت بدل دی ۔ڈان کے علاوہ کسی ٹی وی چینل نے اس خبر پر کوئی پروگرام تو کیا ایک ٹیکر بھی ڈالنا  گورا نہیں کیا۔ ایک  اینکر کے ساتھ میں  نے کچھ عرصہ کام کیا ۔ان  کا خیال ہے کہ اینکر  اس وقت  کے لینن ہیں ۔افسوس ان صاحب نے بھی اس خبر  پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔

اسی  رئیل اسٹیٹ کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی مسجد میں ایک ایسے مولوی کا نماز جمعہ پڑھانا، جس کو ملک کے سارے ٹی وی چینل   ان گنت ایر ٹائم دیتے  ہوں ،  اس رئیل اسٹیٹ جائنٹ کو مذہبی  لیجٹیمسی  دینا ہے۔یوں گرامسچی  کی تھیوری کے مطابق مذہبی  دانشور بھی  اس کلاس کے ساتھ  گٹھ جوڑ کرتا نظر آتا ہے ۔

تعلقات عامہ ، ایڈورٹائزنگ اور میڈیا  نے لوٹ کھسوٹ کے اس کلچر کی ایک توجہیہ بنا دی ہے جو کہ بڑی سادہ اور آسان ہے کہ لوٹ کھسوٹ کے کچھ مال میں سے   خیرات کرو اور نیک نامی کماو۔خیرات کے کلچر کی طرف ابھی واپس آتے ہیں ابھی ایک دو مثالیں اور دیکھتے ہیں

رمضان میں روز ہ اور تزکیہ نفس کا  عمل پیچھے چلا جاتا ہے جبکہ خیرات کا پہلو نمایا ں ہو جاتا ہے ۔وہ تمام فوڈ ملٹی نیشل کمپیناں جو پاکستان میں مزدور کو پورے حقوق دینے کو تیار نہیں جو ہمشہ مزدور کے ساتھ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ میں رہتی ہیں خیرات کا درس دیتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔دو سے تیں سافٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیاں ایسی بھی جہاں مزدور وں کو ملکی قوانیں کے مطابق نہ تو تنخواہیں دی گئیں اور نہ دیگر مراعات اور اس پر ستم یہ کہ بہت سے مزدور وں کو نوکری سے نکل کر ان کے واجبات بھی نہیں ادا گئے ۔ایک کمپنی  اپنی کامیابی کے ڈیڑہ سو سال کا جشن منا رہی ہے ۔اس کمپنی نے پاکستان میں بوتل واٹر متعارف کروایا ۔یہ کمپنی ہماری زمین کا پانی نکل کر ہمیں بیچ رہی ہے اور منافع بیرون ملک ٹرانسفر ہو رہا ہے ۔کراچی میں جب اس کمپنی نے واٹر پمپنگ پلانٹ لگانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ  میں  ایک درخواست  دائر کی گئی جس میں عدالت نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے قدرتی ذرائع کی اس قدر لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہیں دے سکتی ۔کمپنی کو پلانٹ لگانے سے روک دیا گیا لیکن اس کمپنی نے کسی اور جگہ پلائنٹ لگا لیا(تفصیل کے لیے ایس یو آئی ٹی  بنام  نیسلے  ملاحظہ ہو  )۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسی کئی اور کمپنیاں ہمیں  خیرات  اور نیکی  کا درس دینے   میں پیش پیش ہیں

فوڈ کمپنیوں کے اشتہارات کا بیانیہ  بڑا سادہ ہے ۔جو طبقاتی  معاشرے کی بہت سی پیچیدگیوں کو خاطر میں لائے بنا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو جس جگہ ہے وہ اس کی قسمت ہے ۔ان اشتہارات میں جن لوگوں کے دسترخوانوں پر  کھانے کے انبار پڑے ہوئے جو زیادہ کیلوریز  کے ذخیرے پر بیٹھے ہیں وہ ان میں کچھ حصہ نکال کر غریبوں میں تقسم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔جوخیرات کرنے والوں کو دعائیں دیتے اور خدا کا شکرادا کرتے نظر آتے ہیں۔

غربت  تشدد کی ایک قسم ہے ۔ریاست کچھ ایسے قوانین بناتی ہے جس کی وجہ سے غربت پھلتی اور بڑھتی ہے ۔دنیا کے ہر ملک میں لیبر لاز کا بڑا مقصد  سستی لیبر کی فراہمی ہوتا ہے ۔ انہیں قوانیں کا استعال کرتے ہوئے   مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے ، ناجائز منافع کمایا جاتا ہے اور پھر اس منافع سے کچھ حصہ تعلقات عامہ اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو دیا جاتا ہے جو میڈیا کے ذریعے اس بیانیے کو تشکیل دیتے ہیں جو سرمایہ داری کو قائم رکھنے معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے ۔

رمضان کی ٹرانسمیشن  خیرات  کے اس کلچر کو پروموٹ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔جس کا ایک بڑا فائدہ بڑی بڑی کارپوریٹ فرمز کو نیک نامی کی شکل میں ملتا ہے اور دوسرا   خیرات دینے کے عمل کے گرد ایسا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے کہ لینے والا اپنی قسمت پہ قانع ہو جائے اس تقسیم کو خدا کی تقسیم سمجھے ۔ خیرات کا کلچر ایسے معاشروں میں اس لیے پروان چڑھایا جاتا ہے کہ پھیلا ہوا ہاتھ حق لینے کے اٹھنے والے ہاتھ  سے زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔

پاکستان کی عوام کے ساتھ اس کے دانشوروں نے سب سے بڑا ہاتھ یہ کیا وہ انہوں نے کارپوریٹ سیکٹر اور سیٹھ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ۔اور اس گٹھ جوڑ کی مدد سے انہوں نے عوام کو افیوں کی گولیاں کبھی مذہب ،کبھی تصوف اور کبھی  خیرات کے لبادے میں اوڑھ کی دیں ۔اب یہ من چلے کا سودا ہی تو ہے کہ آپ  یا تو ٹی وی پر مذہب اور تصوف  کی تجارت کریں یا پھر جالب کے طرح نعرہ لگا دیں کہ میں نہیں مانتا   

1 Comment

  1. کیا عمدہ کالم لکھا ھے لیکن یہاں کچھ مارکسی دانشوروں کے حوالہ جات سے کچھ دوست خفا ھو جائیں گے جنہوں نے مارکسی فلسفہ اور مزدور مارکہ ادب کو متروک قرار دے دیا ھے ۔ اور این جی اوز کے دوست جو اس مہم میں سرمایہ دار کا دست راست ھیں ان کو بھی گلہ ھو گا کہ کیوں ان غربت کے ماروں کو موضوع سخن بنایا جا رھا ھے۔ کیا اور کوئ مسلہ نہیں جس پر تفکر کیا جاۓ۔ مثلا رنگوں پر بات کی جاۓ موسیقی پر شاعری پر دنیا کے تبدیل شدہ منظر نامے پر ۔ جدید تھیوریز پر۔۔۔۔ یہ کیا صدیوں سے ایک ھی رونا۔۔ غربت ٖغربت غربت۔۔۔۔۔۔
    لیکن آپ نے کمال انداز سے اعداد شمار کے ذریعے خیرات کا پردہ فاش کیا ھے۔ اور خیرات یوں بھی انسانی عزت نفس کی توہین ھے۔ خیرات کیوں ؟؟؟؟؟ جائز حق کیوں نہیں۔۔۔۔ اس کو لوگ انقلاب کا نام دیتے ھیں اور اس لفظ “انقلاب” پر بہت سی انگلیاں اٹھتی ھیں۔۔۔ تو یہی مقدر ھے اس ہجوم کو جن کے دانشور یہ خیال رکھتے ھوں کہ تبدیلی آنی چاھیے ( یہ تبدیلی عمران خان والی نہیں ) لیکن اسی سسٹم کے اندر رہ کر۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام بھلا تبدیلی کا راستہ دے گا ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟

1 Trackback / Pingback

  1. مولوی، مدرسہ بحث میں طبقاتی نظام کا حوالہ — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.