مولوی، مدرسہ بحث میں طبقاتی نظام کا حوالہ

Aamish Hassan Askari

مولوی، مدرسہ بحث میں طبقاتی نظام کا حوالہ

از، آعمش حسن عسکری

قصور کا زخم ابھی تازہ تھا کہ کراچی کے علاقے بن قاسم سے ایک اور معصوم کی ہلاکت کی خبر ملی۔ تفصیلات کے مطابق بچے کو مدرسے کے استاد نے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اس کی جان چلی گئی۔ بعض اطلاعات میں اس امکان کو بھی بحث کا موضوع بنایا گیا کہ بچے پر جنسی تشدد بھی کیا گیا۔ اس خبر کے ملتے ہی سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ اس بحث کا احاطہ تو یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سوشل میڈیا کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی تبصرہ بازی چلتی رہی۔

چند ایک پوسٹیں جو راقم کی نظر سے گزریں ان میں مدرسے کی تعلیم اور مولوی کی بد دیانتی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ حالاں کہ یہ ایسا موقع تھا جہاں بحث قدرے گہرائی میں جانا چاہیے تھی۔ سوال مدرسے کی تعلیم سے نکل کر طبقاتی نظامِ تعیلم تک جانا فطری تھا، لیکن ایسا رحجان نہیں دیکھا گیا۔

مدرسے میں ایسی ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ جسمانی سزا معمول ہوتا ہے۔ بَل کہ اکثر والدین تو خود تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے بچے کو جسمانی سزا دی جائے۔ بلا شبہ یہ وہ موقع ہے کہ مدرسے کے طریقۂِ تدریس پر بحث ہو۔ وہ جو مدرسے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ ان کا والدین کو کوسنا بھی بہ جا۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ مولوی کی سفاکی اپنی جگہ، لیکن یہ کہانی مولوی کی سفاکی سے کہیں آگے جاتی ہے۔

مولوی کی سفاکیت وہ ہے جو سب کو نظر آتی ہے۔ اللہ جانے وہ طبقاتی جبر اور استحصالی نظام تعلیم کسی کو کیوں نظر نہیں آتا جس میں تعلیم ایک بکاؤ مال بنا دی گئی ہے۔ آپ کا بچہ کیسی تعلیم لے سکتا ہے اس سوال کا جواب آپ کی جیب دے گی۔ اس سے اتفاق ہے کہ سکول کی تعلیم اب بہت حد تک والدین کی پہنچ میں ہے۔ کتابیں مفت ہیں اور فیسیں سب کی پہنچ میں۔ لیکن سکول کے بعد کیا؟ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم تو ہر کسی کی پہنچ میں نہیں ہے۔ تو والدین کیوں نہ اپنے بچے کو کسی ایسی جگہ بھیجیں جہاں قرآن کی چند سورتیں یاد کر کے روز گار کا مستقل یقینی وسیلہ تو بن ہی جائے لیکن ساتھ جنت میں گھر بھی پکا ہو جائے کہ حافظِ قرآن بچہ والدین اور پانچ سات اور قریبی منتخبہ لوگوں کی نجات کا ضامن ہوتا ہے۔


مزید دیکھیے:  خیرات کے کلچر کا بیانیہ  از، عامر رضا

صدقہ و خیرات کے ذریعے مزدوروں کا استحصال  از، ڈاکٹر عرفان شہزاد


ادھر بچے نے حفظ کیا اُدھر لڑکے کے ڈاڑھی نکل آئی اور دور کسی دیہات کی چھوٹی مسجد میں امامت مل گئی۔ رمضان کے تیس دنوں میں کار کردگی اچھی رہی اور اگر مسجد کے منتظمین سے معاملات طے ہو گئے تو نوکری پکی۔

اب آئیے ذرا اس غریب دیہاتی کی طرف جس نے تحصیلِ علم کی غرض سے کسی شہر کا رُخ کیا۔ اور والدین کی “قوتِ خرید” سے کہیں زیادہ داخلہ فیس بھری۔ اپنے وسائل کے مطابق کسی رہائش کا بند و بست تو ہو گیا، اب مسئلہ یہ کہ دوستوں سے برابری کی بنیاد پر روابط بنانا چاہے تو ایک خاص طرح کا لباس اور وضع داری اپنائی جو بلا شبہ پیسے  کے بنا تو ممکن نہیں۔

کوششِ بِسیار سے قصباتی اخلاقیات کے اوپر شہری چمک دمک کی پان چڑھائی۔ کبھی دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا تو کبھی ان کو کھلایا۔ کتابوں کا خرچ الگ ہے تو شہر سے گاؤں اور گاؤں سے شہر کا کرایہ الگ۔ کسی طرح یونیورسٹی پاس کر لی۔ اب والدین کو انتظار کہ کب روز گار ہاتھ آئے۔ لیکن نوکری ہے کہ ملنے میں نہیں آتی۔ اور اگر خدا نخواستہ لڑکے نے چار کتابیں زیادہ پڑھ لیں، کسی استاد یا کسی ہم جماعت نے تاریخ اور فلسفہ کی چند بنیادی باتیں رگوں میں انڈیل دیں تو ایمان جانے کا خطرہ الگ ہے۔ ‘غریب کی طاقت اس کا ایمان ہوتی ہے۔’ ایسے دلائل بھی تربیت کا حصہ رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر ایمان بھی چلا جائے تو پیچھے کیا رہ جائے گا۔ اب نہ نوکری ہے نہ ایمان۔ گویا دنیا تو تباہ تھی ہی آخرت بھی تباہ ہو گئی۔

اس ساری صورتِ حال کے بعد غریب والدین کو اپنے بچے کے لیے کسی ایسی راہ کا انتخاب کرنے پر کوسنا جس پر ان کے مطابق دین و دنیا کی بھلائی ہو ایک خاص قسم کہ تعلیم یافتہ احساس تفاخر کا نتیجہ ہے۔ مدرسہ کے نظام تعلیم اور مولوی کی سفاکیت پر مضمون و تبصرہ لکھنا اس سماج کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اور بِلا شُبہ مذہب کی باگ ڈور جُہَلاء کے ہاتھ میں ہے اور اس جہالت کا مقابلہ کرنا کسی بھی مُونسِ دانش کی مثبت ذمہ داری ہے۔ لیکن اس بحث کو طبقاتی نظام سے جدا تصور کرنا علمی بد دیانتی کے سوا کچھ نہیں۔

ایک روشن سماج کی بنیاد مذہبی طبقے کی اجارہ داری کے خاتمے کے ساتھ ساتھ طبقاتی پرتوں کی توڑ پھوڑ کے بغیر ممکن نہیں۔