تعلیم و علم کیاہے: انسانی رویے اور تعلیم کی اہمیت

تعلیم

(ڈاکٹر نعمان نیر کلاچوی)

علم دراصل انسان کے انفرادی اعمال کے نتائج کو کہتے ہیں جبکہ تعلیم کسی دوسرے انسان کے مشاہدات و تجربات کے بیان کا نام ہے۔ انسان جب کوئی عمل سرانجام دیتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلتا ہے، قطع نظر اِس سے کہ وہ مثبت ہو یا منفی بہرحال نتیجہ ضرور نکلتا ہے، پس اسی نتیجے کا نام علم ہے اور اگر ہم اپنے ان نتائج کو یکجا کرکے الفاظ میں بیان کر دیں تو وہ دوسرے انسانوں کے لئے تعلیم کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ پس علم اور تعلیم میں یہی بنیادی فرق ہے۔ تعلیم دراصل معلومات کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو انسان کے انفرادی تجربات سے منزہ ہو، اگر انسان خود عمل کرکے نتائج حاصل کرلے تو وہ عالم کہلاتا ہے۔ معلومات کے اجتماع کے حامل کو عالم نہیں کہا جا سکتا، پس خالص علم عامہ کے لئے ضروری نہیں جس قدر کہ تعلیم ضروری ہے کیونکہ ہر انسان کو ہر قسم کے تجربات کی بھٹی سے نہیں گزارا جا سکتا۔ اس لئے اسے دوسروں کے تجربات کا خلاصہ دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے رویے کو مزین کر لے۔

انسانی رویے اور تاریخ پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ انسانی سوچ کبھی جامد نہیں رہی گوکہ انسان اسے حتی الوسع منجمد و مطلق کرنے کی کوشش ضرور کرتا رہا ہے مگر آج تک اس سرتوڑ کاوش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ انسان کو ایسا محسوس ہوا کہ جو شعور آج اس کے پاس ہے ویسا شعور آنے والے کل میں انسان کے پاس نہیں رہے گا، چنانچہ انسان نظریات و اخلاقی اقدار کو جامد کرتا چلا گیا

 

علم کی حقیقت و غایت کی تلاش میں سرگرداں انسان شعور کی روشنی سے بہرہ مند ہونے کے بعد سے سوچنے اور سمجھنے کا اہل ہو چکا تھا چنانچہ سب سے پہلے انسان نے مظاہرِ فطرت پر غور کیا اور پھر بہت سی خود ساختہ تعبیرات متعین کیں جن کو شعور کی بہتری کے ساتھ ساتھ مزید متشرح و منطقی کرتا چلا گیا۔ چنانچہ علم کی ابتدا مظاہرِ فطرت پر غور کرنے سے ہوئی۔ ابتدا میں انسان نے مظاہرِ فطرت کے متعلق عجیب و غریب اور موجودہ شعور کے مطابق تخریب الحواس آرا قائم کی تھیں جنہیں موجودہ شعور ایک ایک کرکے نہ صرف رد کر چکا ہے بلکہ اسکی جگہ عملی تجربات کی بنیاد پر تازہ ترین سائنسی و تکنیکی علوم حاصل کر چکا ہے۔ علم کی حقیقت فی نفسہٖ نہیں بلکہ اضافی ہے جیسا کہ ماہرِ طبعیات آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت میں واضح کر دیا تھا کہ کائنات کی ہر چیز اضافی ہے۔ نظریہ اضافیت سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز یا سوچ دراصل مطلق نہیں ہوتی بلکہ وہ ارد گرد کے ماحول کے سبب وقوع پذیر ہوتی ہے۔ گویا جیسا ماحول ویسی سوچ یا اشیاء۔ چنانچہ جب تک اس سوچ یا شے کو مطلوبہ ماحول میسر رہے گا وہ سوچ یا شے اپنا وجود برقرار رکھے گی جیسے ہی وہ ماحول خراب ہوا تو وہ سوچ یا شے بکھر کر کسی نئی شکل میں وقوع پذیر ہو جائے گی طبعیات میں اسے سروائیول آف دی فٹٹسٹ کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ کسی نظریہ یا شے کے متعلق حتمی رائے ایک مستقل جہالت ہے۔

انسان کسی نظریے کو وجود و قبولیت تو بخش سکتا ہے لیکن اس نظریے یا فلسفے کو حتمی و لامحدود نہیں کہہ سکتا کہ شعور جامد نہیں بلکہ جاری و ساری ہے۔ انسان ابتدا سے ہی اپنے مجرب اعمال سے سیکھتا رہا ہے اور سیکھتا رہے گا پس ضروری ہے کہ اب اس فطرتی مظہر کا اقرار کر لیا جائے کہ کوئی بھی سوچ، نظریہ، قانون یا اخلاقی قدر دراصل حتمی و لامحدود نہیں ہو سکتی کیونکہ انسان کا شعور حتمی و مطلق نہیں۔ مطلق سے مراد انسانی سوچ یا نظریہ کو عالمگیر اطلاقی حیثیت حاصل ہونا ہے، چنانچہ دنیا کا کوئی بھی نظریہ یا قانون ایسا نہیں جو انسان کے لئے ہمیشہ قابلِ عمل رہے کیونکہ انسانی طبیعت میں زبردست نیرنگی اور ماحول میں بے پناہ تغیراتی وسعت ہے جس کے سبب کوئی ایک سوچ یا قدر مطلق نہیں ہو سکتی۔

نظریات تغیرات کے مختلف النوع مراحل سے گزر کر انسانی اعمال کا درجہ حاصل کرتے ہیں پھر وہ شعور کی تازگی کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہو کر کسی نئی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔ انسانی رویے اور تاریخ پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ انسانی سوچ کبھی جامد نہیں رہی گوکہ انسان اسے حتی الوسع منجمد و مطلق کرنے کی کوشش ضرور کرتا رہا ہے مگر آج تک اس سرتوڑ کاوش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ انسان کو ایسا محسوس ہوا کہ جو شعور آج اس کے پاس ہے ویسا شعور آنے والے کل میں انسان کے پاس نہیں رہے گا، چنانچہ انسان نظریات و اخلاقی اقدار کو جامد کرتا چلا گیا اور ان پر تقدیس کی چھاپ لگا دی تاکہ بعد میں آنے والے تازہ ترین شعور کا حامل انسان گزشتہ شعور کے حاملین کی قائم کردہ اخلاقی اقدار و نظریات کے خلاف بغاوت نہ کر سکے مگر حقیقت یہ ہے کہ بغاوت بھی ہوتی رہی ہے اور تنقید و تنکیر بھی کیونکہ شعور جاری ہے جامد نہیں۔

 

علم کی غرض و غایت دراصل انسان کے اندر احساسِ انس بیدار کرنا ہے، جیسے جیسے انسان علم حاصل کرتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ ہر معاملے میں حساس ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ احساس بہت ہی انمول طاقت ہے۔ یہ دراصل انسانیت کا پوشیدہ جوہر ہے جس کو علم بیدار کرتا ہے۔ گویا علم احساس کی کنجی ہے اور احساس آدمی کے اندر انسیت پیدا کرتا ہے، علم کا مقصد خود دریافت ہو گیا، جب انسان غور و فکر میں مصروف رہا تو اس فعل کا نتیجہ حساسیت کی شکل میں انسانی رویے میں شامل ہو گیا۔ انسان جوں جوں غور و فکر کا عادی ہوتا گیا تُوں تُوں اس کے لئے ہر معاملہ حساس ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ وہ انسانیت کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو گیا۔ انسانی رویہ اتنا پرپیچ اور فکر اِس قدر وسیع تر ہے کہ انسان کیلئے کسی چیز کے متعلق حتمی آگہی حاصل کرنا قریباً ناممکن ہے۔ بعینہٖ زمان و مکان کا عالم ہے کہ کائنات اور اوقات میں اتنا افراط و تنوع ہے کہ انسان کی سوچ کسی مطلق و حتمی آگہی تک نہیں پہنچ پا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط نے فرمایا تھا کہ ’’میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘سقراط کے اس قول سے مراد یہ نہیں تھا کہ وہ صاحبِ جہل تھا بلکہ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کسی چیز کے متعلق حتمی آگہی ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے متعلق حتمی آگہی ممکن نہیں تو پھر علم کی غایت کیا ہوگی؟ جیسا کہ ہم عرض کر چکے کہ علم کی غایت دراصل احساسِ انس ہے اور یہی حقیقتِ عظمیٰ بھی ہے۔ دنیائے علم و حکمت کے معروف ترین صوفی دانشور حضرت جلال الدین رومی المعروف مولانا روم فرماتے ہیں کہ’’میں نے حقیقت کو مختلف صورتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے حقیقت احساس (محبت) کی صورت میں میسر ہوئی‘‘ گویا لب لباب یہ ہوا کہ علم انسان کے اندر احساسِ انس بیدار کرتا ہے احساسِ انس آدمی کو ایک باشعور اور حساس انسان بناتا ہے پس یہی احساسِ انس دراصل مذہبی اصطلاح میں ’’حق‘‘ صوفیانہ اصطلاح میں ’’عرفان‘‘ فلسفے میں’’انس پرستی‘‘ اور عام اصطلاح ’’محبت‘‘ کے نام سے معروفِ عام ہے۔

 

علم کی غرض و غایت دراصل انسان کے اندر احساسِ انس بیدار کرنا ہے، جیسے جیسے انسان علم حاصل کرتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ ہر معاملے میں حساس ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ احساس بہت ہی انمول طاقت ہے۔ یہ دراصل انسانیت کا پوشیدہ جوہر ہے جس کو علم بیدار کرتا ہے۔ گویا علم احساس کی کنجی ہے اور احساس آدمی کے اندر انسیت پیدا کرتا ہے،

 

دنیائے علم و حکمت کے معروف ترین صوفی دانشور حضرت جلال الدین رومی المعروف مولانا روم فرماتے ہیں کہ’’میں نے حقیقت کو مختلف صورتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے حقیقت احساس (محبت) کی صورت میں میسر ہوئی‘‘ گویا لب لباب یہ ہوا کہ علم انسان کے اندر احساسِ انس بیدار کرتا ہے احساسِ انس آدمی کو ایک باشعور اور حساس انسان بناتا ہے پس یہی احساسِ انس دراصل مذہبی اصطلاح میں ’’حق‘‘ صوفیانہ اصطلاح میں ’’عرفان‘‘ فلسفے میں’’انس پرستی‘‘ اور عام اصطلاح ’’محبت‘‘ کے نام سے معروفِ عام ہے۔

 

تعلیم مخصوص ہو سکتی ہے تعلیم و تربیت مخصوص و جامد ہو سکتی ہے لیکن فکر جامد نہیں ہو سکتی کیونکہ فکر بہتے دریا کی مانند ہے اور بہتے دریا کبھی نہیں رکتے۔ عام قاعدہ ہے کہ کھڑا پانی جوہڑ بن جاتا ہے پس یہی صورتحال فکر کی بھی ہے فکر جامد ہونے سے انسانی روح و جسم پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

 

تعلیم کی حقیقت و غایت تعلیم کا مقصدِ اصلی دراصل تہذیب النفس ہے۔ تعلیم کا مقصد ڈگریاں حاصل کرنا یا اپنی معیشت کے اسباب پیدا کرنا نہیں۔ ہاں خدمت کے جذبے سے، تعلیم کے وسیلے سے روزگار کے مواقع سے معاشی فوائد حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ یہ بھی انسان کے لئے انتہائی اہم ہے البتہ تعلیم کا مقصد حصولِ معیشت نہیں بنانا چاہئے نہ ہی اس مقصد کی تکمیل کو تعلیم کا نام دینا چاہئے۔ سب سے مستند ڈگری تجربہ اور بہترین معیشت ذہنی و جسمانی محنت ہے۔ فی زمانہ تعلیم کو محض بہترین روزگار کا وسیلہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے تعلیم کا مقصدِ اصلی ہی فوت ہو گیا ہے۔ دنیا کی ہیئت بدلنے والی کئی ایک اہم شخصیات نے نہ تو کسی تعلیمی ادارے میں باقاعدہ رسمی تعلیم حاصل کی تھی نہ ہی اعلی ڈگری ہولڈرز تھے۔ یہاں پر ہم چند ایک اہم شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن دنیا کے لئے وہ ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دے گئے کہ رہتی دنیا تک ان کے نام اور کام زندہ و تابندہ رہیں گے۔ معروف تھیوریٹکل فزیسٹ آئن سٹائن کے نام سے کون واقف نہیں وہ منطقی اور طبیعی نظریہ اضافیت تھیوری آف ریلیٹیوٹی کے بانی تھے یہ نظریہ اس وقت دنیا میں اخلاقیات سے لے کر سماجیات و سیاسیات میں جوہری تبدیلیاں رونما کر چکا ہے۔

 

مائیکل فراڈے دنیائے سائنس کے بااثر ترین کیمیادان تھے، انہوں نے برقی مقناطیسیت ایجاد کرکے برقی سائنس کی بنیاد رکھ دی۔ انسانیت بالخصوص حبشی قوم کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنے والے ابراہم لنکن بھی کسی تعلیمی ادارے میں رسمی تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ جدید امریکہ کے بانی بینجمن فرینکلن بھی ایک غیر تعلیم یافتہ شخصیت تھے۔ ماہرِ ہندسہ جات شری واستو رامانوجن جنہوں نے ریاضیات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا، اے ٹی ایم مشین سے کون واقف نہیں یہ مشین انہی کی محنت کا نتیجہ ہے۔ معروف ترین ادیب اور رومانوی نثر کے ماہر ولیم شیکسپیئر بھی رسمی تعلیم کے حامل نہیں تھے۔ جدید زمانے میں ایپل کمپنی سے کون واقف نہیں، بچے سے لے کر جوان اور بوڑھے تک ایپل کے لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز استعمال کر رہے ہیں، ایپل جو موبائل ٹیکنالوجی کی دنیا کا انتہائی مستند اور معتبر ترین نام ہے، اس کے بانی سٹیو جابز بھی مڈل پاس تھے۔ کالج سے نکالے جانے والے بل گیٹس بھی جدید دور کی انتہائی معتبر شخصیت ہیں۔ کمپیوٹر بغیر بل گیٹس کے تذکرے کے نامکمل ہے۔ مائیکرو سافٹ اس وقت دنیا کی انتہائی قابلِ اعتماد اور مستند ترین کمپنی ہے، بل گیٹس اس کے مالک ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تعلیم یافتہ صرف وہ نہیں جن کے پاس بھاری بھرکم ڈگریاں ہیں یا جو بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں۔ زندگی سے بڑی کوئی یونیورسٹی نہیں اور تجربے سے بڑی کوئی ڈگری نہیں انسان صرف تجربات سے سیکھتا ہے تخیلات سے نہیں، کالج یا یونیورسٹی میں آپ کو کسی علم یا فن کے قواعد و ضوابط تو پڑھائے جا سکتے ہیں لیکن حقائق نہیں، حقائق تجربات سے حاصل ہوتے ہیں اور تجربات سے قبل رہنمائی سودمند ثابت ہو سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی کی رہنمائی آپ کے تجربات کو مثبت بنا دے، ہاں بعض اوقات بنا بھی سکتی ہے لیکن یہ کوئی مستقل قاعدہ نہیں کہ کسی کی علمی یا منطقی رہنمائی آپ کے تجربات کے نتائج مثبت بنا دے۔ دانشِ اصلی وہی ہے جو آپ کو غور و فکر اور مشاہدات و تجربات سے حاصل ہوتی ہے۔ ہاں سوچ اور تجربات و مشاہدات پر پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا کا کوئی بھی نظریہ یا خیال مطلق حقیقت نہیں رکھ سکتا کیونکہ حقائق بدلتے رہتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانی طبع یک رنگی اور جمود سے منزہ ہے۔ انسان فطرتاً متغیر پسند واقع ہوا ہے۔ وہ جلدروّیوں سے‘ افکار سے اور اعمال سے اُکتا جاتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو فطرتی آزادی کے ساتھ اپنی فکر اور عمل متعین کرنا چاہئے کہ یہ انسان کا خارجی نہیں بلکہ فطرتی اور جوہری حق ہے۔ تعلیم مخصوص ہو سکتی ہے تعلیم و تربیت مخصوص و جامد ہو سکتی ہے لیکن فکر جامد نہیں ہو سکتی کیونکہ فکر بہتے دریا کی مانند ہے اور بہتے دریا کبھی نہیں رکتے۔ عام قاعدہ ہے کہ کھڑا پانی جوہڑ بن جاتا ہے پس یہی صورتحال فکر کی بھی ہے فکر جامد ہونے سے انسانی روح و جسم پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسان کی روحانی ترقی مسدود ہو جاتی ہے بلکہ انسان جسمانی طور پر بھی اضمحلال کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ فکر ڈرائیو کرتی ہے وجود کو، پس وجود تابع ہوتا ہے فکر کا۔ اسی فکر کا خلاصہ دانش کہلاتا ہے، پس دانش کی مثال سورج کی کرنوں کی مانند ہے جو ابد تک چمکتی رہے گی۔ دانش انسانی رویے کو مزّین کرتی اور انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل بناتی ہے اس معاملے میں صرف انسان کو رہنمائی چاہئے ہوتی ہے صراطِ دانش کی۔

 

(خصوصی شکریہ:ڈاکٹر نعمان نیر اور ’الہلال‘)