یمن کا نوحہ ہے ، یا کسی مسلم امہ کا نوحہ

Khizer Hayat aik Rozan
خضر حیات، صاحبِ مضمون

یمن کا نوحہ ہے ، یا کسی مسلم امہ کا نوحہ

خضرحیات

یہ کیسی مسلم امہ ہے جس میں ہر طرف پھوٹ ہی پھوٹ ہے۔ کہیں سیاست باہمی نفرت کا باعث بنی ہوئی ہے اور کہیں مذہبی اختلاف ایک دوسرے کو قریب نہیں آنے دیتا۔ شخصی اور گروہی سطح پر پیدا ہونے والے یہ اختلاف ہی کافی تھے مگر اب پورے کے پورے ملک نفرت کی اس صنعت کا ایندھن بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی کا ایران دوست بن گیا تو سعودی عرب کی اس سے دشمنی شروع اور اگر کسی نے قطر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو کئی اسلامی ملک اس ہاتھ کو کاٹنے پر کمر بستہ ہوگئے۔

اب آپ نے اپنی آسانی کے لیے ایک نئی ترکیب نکال لی ہے کہ آپسی لڑائی کے لیے کسی تیسرے ملک کا انتخاب کیجیے اور کوشش کیجیے کہ وہ ملک بھی اسلامی ہو۔ خوب گولہ بارود پُھونکیے۔ مطلوبہ مقاصد بھی حل ہوگئے اور آپ کے اپنے ملکوں کا انفراسٹرکچر بھی محفوظ رہ گیا۔ رہی تیسرے غریب ملک کی بات تو چھوٹے چھوٹے غریب ملک اور کس  لیے ہوتے ہیں، بھائی چارہ بھی تو کسی بلا کا نام ہے آخر۔ ہمیں تو درسی کتابوں میں یہ پڑھایا گیا تھا کہ مسلم امہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے، یہ ایک جسم کے جیسی ہے اور اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف پیدا ہو تو دوسرا کسی بھی صورت چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔

سب درست مگر یمن میں کیا ہو رہا ہے؟ ہماری اکثریت اور خاص طور پر میڈیا کو تو یمن کی خانہ جنگی کوئی ایسی بڑی خبر نہیں معلوم ہوتی جس پر کچھ وقت ضائع کیا جا سکے یا جسے تھوڑی دیر کے لیے ہی اپنی گفتگو کا موضوع بنا لیا جائے۔ جنگ کی کوریج کے لیے ہمارے میڈیا کی ٹیمیں شام میں پہنچ کر حلب سے براہ راست اپ ڈیٹس تو دے سکتی ہیں مگر یمن کا تو نام بھی لینا جرم بن گیا ہے۔

میں غلط کہہ رہا ہوں؟ اچھا کب کہاں اور کس اخبار یا چینل پر اس بارے میں کوئی رپورٹ نشر کی گئی؟ اگر ملے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا وہ کوئی مختلف طرح کے انسان ہیں؟ کیا ان کا اتنا ہی قصور ہے کہ وہ ذرا مختلف عقیدہ رکھتے ہیں؟ کیا عقیدہ الگ ہونے سے آپ اگلے بندے کو انسان بھی نہیں سمجھیں گے؟ اور کیا اُس کے مرنے جینے سے آپ کی زندگی میں ذرا بھی فرق نہیں پڑے گا؟

اول تو غالب امکان ہے کہ آپ کو کانوں کان کوئی خبر نہیں ہوگی کہ یمن میں چل کیا رہا ہے اور بالفرض آپ میں سے کچھ کو وہاں کے حالات کی بھنک پڑ بھی گئی ہے تو آپ پر اس بَھنک کا کیا اثر پڑا ہے۔ اگر آپ کو حالات سے آگاہی ہے تو مجھے حیرت ہے آپ پرسکون کیسے رہ رہے ہیں۔ کیسے آپ اپنے بچوں کو ان کے من چاہے کھلونے لا لا کر دے رہے ہیں اور کیسے آپ دن رات صبح شام ان کی خوراک کا خیال رکھے ہوئے ہیں۔

آپ کے بچے کو ٹھنڈ نہ لگ جائے اسے لُو نہ لگ جائے اسے مچھر نہ کاٹیں اسے کوئی بیماری نہ لگ جائے آپ اس بارے میں کتنا پریشان رہتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جن کی آنکھ یمن میں جاری اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کی داستان سُن کے نم ہوئی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جن کی راتوں کی نیند میں یہ سوچ کر ہلکا سا بھی خلل پڑا ہو کہ یمن میں اب تک لگ بھگ 10 ہزار لوگ جان گنوا بیٹھے ہیں، 50 ہزار زخمی ہوچکے ہیں اور 70 لاکھ لوگ قحط کا شکار ہیں۔ قحط کا شکار ہونے والوں، ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ گندگی جب گلیوں میں جمع ہوتی رہی، صفائی کرنے والوں کو تنخواہ نہیں ملے گی تو صفائی کیسے ہوگی اور ایسی گندگی کے ماحول پر جب بارش برس جائے تو یہ گندگی بہتے بہتے پانی کے ان ذخیروں تک بھی پہنچے گی جن سے لوگ پانی پیتے ہیں۔

اسی گندے پانی کی وجہ سے 3 لاکھ سے زیادہ لوگ ہیضے کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ زمینی، فضائی اور ساحلی راستوں پر سعودی عرب، امریکہ اور متحدہ عرب امارات نے ناکہ بندی کر رکھی ہے یوں خوراک وہاں پہنچے تو کیسے پہنچے۔

اقوام متحدہ نے یمن کی موجودہ صورت حال کو تاریخ کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے یمن میں پھیلنے والی ہیضے کی وباء کو اب تک کی بدترین وبائی صورت حال قرار دیا گیا ہے۔ دیگر اعدادوشمار میں جائیں تو پچھلے تین سال کی خانہ جنگی کے دوران اوسطاً ہر 10 منٹ بعد ایک بچہ اپنی جان گنوا چکا ہے۔ اور ان میں سے اکثر اموات ایسی بیماریوں کی وجہ سے واقع ہو رہی ہیں جو قابل علاج ہیں۔

اب یہ بیماریاں تو قابل علاج ہیں مگر ہسپتالوں میں اتنی گنجائش کہاں کہ ہر بچے کو داخل کیا جا سکے اور اس کی مناسب دیکھ بھال بھی کی جاسکے۔ جگہ مل بھی جائے تو دوائیں کہاں سے لائی جائیں۔ پچھلے سال ستمبر کے بعد سے نرسوں اور ڈاکٹروں کو کوئی تنخواہ نہیں ملی مگر پھر بھی وہ رضاکارانہ طور پر انسانیت کی خدمت کے لیے دن رات اپنے فرائض سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

پچھلے تین سال کی فضائی بمباری نے کسی فرق کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے سکول، ہسپتال، رہائشی عمارتوں، سٹرکوں، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں نیز ہر جگہ کو حسب طاقت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی اسلحہ یہاں بھی کمال دکھا رہا ہے اور ہر مرنے والے بچے کی موت کا اگر بڑا ذمہ دار سعودی عرب ہے تو اس میں شراکت دار امریکہ بھی ہے۔ یہاں بینکنگ کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور لوگ اچھے دنوں تک کوپنز کے ذریعے خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ فی الحال کسی کے پاس چیزیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

یہ کس قسم کی تعلیم ہے، یہ کس زمانے کی سیاست ہے اور یہ کس طرح کا مذہب ہے جو آپ کو انسانیت سے ہی دور  لیے جا رہا ہے۔ یہ کیسا عقیدہ ہے جو آپ کے لیے صرف تب ہی بھائی چارے کا درس دیتا ہے جب اگلا بندہ بھی آپ کے اپنے مسلک سے تعلق رکھتا ہو؟ اگر آپ کا عقیدہ آپ کے اندر اس طرح کی سفاکی پیدا کر رہا ہے تو میں معذرت سے کہوں گا کہ آپ کو اپنے عقیدے پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اگر آپ کو اپنا عقیدہ انسانیت سے زیادہ عزیز ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ چونکہ آج طاقت میں ہیں تو کیوں یہ اعلان نہیں کر دیتے کہ مسلم امہ کا مطلب صرف ایسی امہ ہے جو سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے، شیعہ یا دیگر مسالک کے لوگ اول تو اپنے آپ کو مسلمان ہی نہ سمجھیں اور اگر سمجھیں بھی تو وہ کبھی امت مسلمہ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ سنی مسلمانوں کا اپنا خدا ہے اور شیعہ مسلمانوں کا خدا اوّل تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ جنت میں بہت سکون سے سویا ہوا ہے۔ شاید اسے یہ بتا دیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر طرف چین کی بانسری بج رہی ہے۔

سعودی عرب کس بات پہ ایمان اور اسلام کا ٹھیکہ دار بنا ہوا ہے؟ اسے یہ اتھارٹی کس نے دے دی کہ وہ صحیح اور غلط مسلمانوں میں سرٹیفکیٹ بانٹتا پھرے؟ اس کا یہ احساس تفاخر آخر کب ختم ہوگا؟ اور تُف ہے باقی مسلمان ملکوں پر جو منافقت کی اعلیٰ معراج پہ فائز ہیں اور سعودی عرب کو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ حضور جانے دیں، اپنا غصہ کہیں اور نکال لیجیے گا، یہاں بہت سے بے گناہ لوگ مر رہے ہیں۔ اور اتنی جہالت بھری ہے سعودی دماغ میں کہ اس کے لیے قابل قبول صرف وہی مسلمان ہے جو اس کے اپنے مسلک کا ہے۔ اس کے مسلک سے ہٹا تو وہ کافر تو ٹھہرا ہی ٹھہرا، انسان ہونے سے بھی گیا اور بہتر یہی ہے کہ دھرتی کو ایسے ناپاک عناصر سے پاک کر دیا جائے۔

یمن میں جو کچھ چل رہا ہے اس کے پیچھے آپ کی بھیانک سیاست اور تنگ نظری پر مبنی مذہبی سوچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آپ ایک ایسی ریاست کو کہاں اپنے پائوں پر کھڑا ہوتے دیکھ سکتے ہیں جو کبھی آپ کی محکوم رہی ہو۔ یمن سے آپ کی یہی تو چپقلش ہے اور قطر سے بھی۔ آپ اتنے خود پسند ہیں کہ اس خود پسندی نے آپ کو سفاکیت کا علمبردار بنا دیا ہے۔ کیسے مسلمان ہیں آپ جسے ذرا بھی خوف خدا نہیں ہے، جسے اپنی آخرت بھی نہیں یاد۔ تم معصوم، شیرخوار اور نومولود یمنی بچوں کو مار کر کیا منہ دکھانے والے ہو اللہ تعالیٰ کو؟

اپنی سیاست کو کسی اور طرح سے چلا لو اور خدارا معصوم لوگوں کا قتل عام روکو۔ یمن کے قحط زدہ، خوراک کی کمی کے شکار اور مرتے ہوئے بچوں کی ویڈیوز دیکھ کے میرے جیسا پتھر دل انسان بھی اپنے آنسو نہیں روک سکا اور آپ جو انہیں دھڑا دھڑ مار رہے ہیں آپ لوگوں کی بے حسی تو پتھروں کو بھی شرمسار کرتی ہوگی۔ کیسے مسلمان ہو تم جو ایک مسلمان (چاہے وہ تمہارے مسلک کا نہیں ہے) کے شیرخوار بچوں کو مارنے پر چھاتی پھلائے پھرتا ہے اور حیرت ہے ایسے اتحادیوں پر جو ہدایت کے دو بول بھی تمہارے کانوں میں نہیں بول سکتے۔