عالمی کپ 2019 کا دعوے دار کون؟

حسین جاوید افروز

عالمی کپ 2019 کا دعوے دار کون؟

از، حسین جاوید افروز

لیجیے جناب ایک بار دنیائے کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے بخار میں مبتلا ہوچکی ہے اور 30 مئی سے 14جولائی تک انگلستان کے میدانوں میں کرکٹ کے سب سے بڑے اعزاز کو پانے کی جنگ کا طبل اب بجنے کو ہے ۔تمام ٹیمیں اپنے اپنے اسکواڈ کا اعلان کر چکی ہیں اور سب کا گیم پلان بھی اب حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔اگرچہ 1865 سے ہی ٹیسٹ کرکٹ اور پھر 70 کی دہائی کے اوائل سے ون ڈے کرکٹ کا آغاز ہوچکا تھا مگر درحقیقت میں یہ عالمی کپ 1975 ہی تھا جس نے کرکٹ کو مقابلے کی ایک توانا فضا عطا کی اور شائقین کیلئے کرکٹ ایک کھیل سے نکل کر جنون میں ڈھل گئی ۔عالمی کپ کا یہ سفر 1987 تک روایتی انداز یعنی سفید کٹ اور سرخ گیند سے ہی شائقین کے دلوں کو گرماتا رہا لیکن یہ 1992 کا عالمی کپ ہی تھا جس نے رنگین لباس اور سفید گیند کے ساتھ فلڈ لائٹس سے مزین ہو کر عالمی کپ مقابلوں کو ایک نئے سحر سے روشناس کر دیا۔آج یہ سفر بارہویں عالمی کپ تک پہنچ چکا ہے اور اس میگا ایونٹ کیلئے سنسنی خیزی اور ولولہ اپنے عروج پر ہے ۔اس بارہویں ورلڈ کپ میں شامل ٹیموں کی پوزیشن کیا ہے اور کونسی ٹیم عالمی کپ جیتنے کی دعویداری میں فیورٹ سمجھی جارہارہی ہے، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔سب سے پہلے بات کرتے ہیں 2015 عالمی کپ سمیت پانچ بار چیمئین رہنے والی آسٹریلین ٹیم کی جو اس بار بھی ایرون فنچ کی قیادت میں ایک متوازن جتھے کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔فنچ الیون نے حال ہی میں جس طرح پاکستان اور بھارت کو ان کی زمین پر سیریز میں شکست دی ہے اس سے ٹیم کے اعتماد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔جبکہ ڈیوڈ وارنر اور سابق کپتان اسٹیو اسمتھ کی شمولیت سے بھی بیٹنگ کے شعبے کو خاصی تقویت ملی ہے ۔ویسے بھی وارنر نے حالیہ آئی پی ایل مقابلوں میں چھ سو سے زیادہ رزنز بنا کر عالمی باؤلروں کیلئے پہلے ہی خطے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔جبکہ عثمان خواجہ بھی دورہ بھارت میں سنچریاں سکور کر کے ون ڈے سکواڈ میں اپنی جگہ پکی کرچکے ہیں۔ دوسری جانب بطور آل راؤنڈر میکسویل اور سٹائنوس بھی مخالف ٹیم کے چھکے چھڑانے کیلئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔وکٹ کیپنگ کا شعبہ الیکس کیرے کے سپرد ہے جس کو ٹم پین اورمتھیو ویڈ پر فوقیت دی گئی ہے ۔جبکہ باؤلنگ کے شعبے میں مچل سٹارک ،پیٹ کمنز ،کاؤنٹر نائل،زیمپا اور ناتھن لیون کسی بھی ٹیم کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔تاہم ہینڈزکامب جیسے ان فارم بلے باز اور تجربہ کار باؤلرجوش ہیزل وڈ کے ٹیم سے اخراج پر سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں۔مجموعی طور پر آسٹریلیا کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے یہ با آسانی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ ورلڈ چیمپین ٹاپ فور میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے گی ۔اسی طرح انگلش ٹیم مورگن کی زیر قیادت ہوم سیریز کا فائدہ لیتے ہوئے ایک مضبوط ٹیم سمجھی جارہی ہے اور حال ہی میں جس طرح انہوں نے سرفراز الیون کو ہوم سیریز میں شکست دی اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تین بار فائنل ہارنے والی ٹیم اس بار کچھ الگ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے ۔بیر سٹو،ونس اور جیسن رائے پر مشتمل اوپننگ جارحانہ اپروچ لئے انگلش ٹیم کو بھرپور استحکام دیتی دکھائی دے رہی ہے ۔جبکہ مڈل آرڈر میں کپتان مورگن ،جوئے روٹ ، بٹلر،آل راؤنڈر ڈینلی،ٹام کرن اور اسٹوکس ٹیم کی بلے بازی کو مزید گہرائی عطا کرتے ہیں۔علاوہ ازیں باؤلنگ کے شعبے میں بھی انگلش ٹیم ورائٹی سے مالا مال ہے جو کہ پلنکٹ،مارک وڈ،ووکس اور تیز رفتار جیفرا آرچر پر انحصار کئے ہے۔جبکہ اسپن کے محکمے میں تجربہ کار معین علی اور عادل رشید کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔مجموعی طور پر انگلش ٹیم جارحانہ کھیل کی شائق ایک بے خوف سائیڈ دکھائی دیتی ہے جوکہ بلاشبہ اس عالمی کپ کی مضبوط دعویدار کے طور پر ابھری ہے ۔گزشتہ عالمی کپ کی رنر اپ کیوی ٹیم بھی اپنے دلیر کپتان کین ولیم سن کی زیر قیادت منظم جتھے کے طور پر جانی جاتی ہے ۔بیٹنگ میں ولیم سن کے علاوہ تباہ کن بلے باز گپٹل،تجربہ کار اور جارحانہ راس ٹیلر آل راؤنڈرز میں گرینڈ ہومے
اور فرگوسن ٹیم کو پائیدار بنیاد فراہم کرتے ہیں۔جبکہ وکٹ کیپر کے طور پر بلنڈل کی شمولیت کو حیران کن قرار دیا جارہا ہے ۔ گیند بازی کے حوالے سے ٹرینٹ بولٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جن کو تجربہ کار ٹم ساؤتھی اور منرو کا ساتھ میسر آیا ہے ۔علاوہ ازیں اسپن کے شعبے میں سوڈی اور سیٹنرڈٹے ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ ٹیم کی کمی اس کی بیٹنگ میں دکھائی دیتی ہے جہاں گہرائی کا فقدان ہے جبکہ مجموعی طور پر ولیم سن اس ٹیم کو اپنی بے خوف قیادت کے ذریعے سیمی فائنل تک ضرور لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب کچھ چرچا جنوبی افریقی ٹیم پر کرتے ہیں جو کہ ہمیشہ ہر ورلڈ کپ میں ایک خطرناک ٹیم کے طور پر جانی جاتی ہے مگر ہمیشہ اہم موقع پر چوک کرنے کی خصلت اسے فیصلہ کن مرحلے پر ایونٹ سے باہر کرنے کا سبب بن جاتی ہے ۔ماضی میں ہنسی کرونئے ،شان پولاک اور گریم اسمتھ جیسے ماہر کپتانوں کے ساتھ ورلڈ کپ میں اترنے والی ٹیم کو کم از کم اب تک ایک بار ٹائٹل ضرور جیت لینا چاہیے تھا ۔اب قیادت کا تاج فان ڈوپلیسی کے سر ہے ۔بیٹنگ کے شعبے میں عظیم ہاشم آملہ ،تجربہ کاری ڈومنی ،میکرم ،ڈوسن اور جارح مزاج ملر کسی بھی میچ کا پانسہ پلٹنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔جبکہ وکٹ کیپر بیٹسمین ڈی کوک اپنی جارحانہ بلے بازی کے سبب کسی بھی بہترین باؤلنگ اٹیک کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔مگر اس ٹیم کو اے بی ڈویلیر ز جیسے قاتل صفت بلے باز کی کمی بری طرح محسوس ہوگی جو کہ اپنے منفرد اسٹائل سے کسی بھی باؤلر کے اوسان خطا کردیا کرتے تھے ۔ جنوبی افریقی فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ رباڈا، سپیڈ سٹار ڈیل اسٹین ،نوٹجے اور نگبی پر مشتمل ہے جو کہ ایک متوازن سائیڈ کی نشان دہی کرتا ہے ۔جبکہ اسپن باؤلروں عمران طاہر اور تبریز شمسی بھی اپنا کردار نبھانے کو تیار ہیں۔بطور آل راونڈر کر س مورس اور پریٹوریس بھی اپنی چھاپ چھوڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ہمیشہ کی طرح فان ڈوپلیسی کی زیر قیادت ساؤتھ افریقہ سیمی فائنل تک رسائی ضرور حاصل کر سکتی ہے اگر یہ ”چوکر“ کا لیبل اپنے اوپر سے اتار پھینکے ۔ورلڈ کپ کا ذکر ہواور کالی آندھی کا تذکرہ نہ ہو تو بات نہیں بنتی ۔دو بار کی ورلڈ چیمپئین اس بار جیسن ہولڈر کی قیادت میں ایک بار پھر دنیا کو حیران کرنے کیلئے تیار ہے ۔ٹیم کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ کرکٹ کے دہشتگرد کرس گیل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ہمراہ ٹیم میں واپسی کرچکے ہیں اور گیل کی موجودگی کسی بھی مخالف کپتان کی حکمت عملی کو فیل کر سکتی ہے ۔جبکہ ہولڈر کیلئے دوسرا نیک شگون آل راؤنڈر آندرے رسل کی شمولیت ہے جس نے ٹیم کے مورال کو بلند تر کردیا ہے ۔البتہ مڈل آرڈر میں کوئی باعتماد بلے باز ہمیں نظر نہیں آتا ہے اور گیل کے بعد بیٹنگ بارتھ ویٹ اور رسل کے گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش سے تین ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں تازہ شکست کئی سوالات کو جنم دیتی دکھائی دیتی ہے ۔البتہ باؤلنگ میں کیمار راؤچ،گیبریل اور نرس ایک مناسب سکواڈ کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ویسٹ انڈین ٹیم اپنے دن پر کسی بھی بڑی ٹیم کا بھرکس نکالنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اسے کارنر کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہوگی ۔اب باری آتی ہے 1996 کی فاتح سری لنکن ٹیم کی جو کہ اس عالمی کپ سے کچھ ہی دیر پہلے ایک بڑی سرجری کے عمل سے گزری ہے جس کی کسی کو بھی سمجھ نہیں آئی ۔ایک ہی جھٹکے میں چندی مل ،ڈیکویلا ،دھنا جایا اورگونا تھلکا جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی باہر نکال دئیے گئے اور کپتانی کا بوجھ کرونارتنے کے سر پر ڈال دیا گیا ۔وجہ یہ بتائی گئی کہ
کرونارتنے بطور کپتان جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب رہے لہذا ا ن کو ایک سپر کیپٹن کے طور پر لایا گیا ہے۔جبکہ
جیون مینڈس،تھر مانے کی بھی ٹیم میں طویل عرصے بعد واپسی ہوئی ہے ۔سری لنکن سلیکٹرز نے کیوں اتنا بڑا جواء کھیلا اس کا پتہ تو عالمی کپ
کے بعد ہی چلے گا مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ٹیم کی بیٹنگ نہایت کمزور بنیادوں پر قائم ہے ۔سابق کپتان انیجلو متھیوز ،کوشل پریرا کے سوا اور کوئی بلے باز مکمل طور پر اعتماد کے قابل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔جبکہ بطور آل راؤنڈر تشارا پریرا ہی ریڑھ کی ہڈی قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ باؤلنگ میں تجربہ کار مالنگا، لکمل ،وینڈرسے ہی کچھ متاثر کن کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔شائد سری لنکا وہ واحد ٹیم ہوگی جس کا مستقبل دوران عالمی کپ تابناک ہرگز دکھائی نہیں دیتا ۔ اس عالمی کپ میں بنگلہ دیشی ٹیم بھی مشرفے مرتضیٰ کی قیادت میں چند اپ سیٹ کرنے کی حامل ہے جس کا عملی مظاہرہ وہ ویسٹ انڈیز کو حال ہی میں ہرا کر دے چکے ہیں ۔بنگال ٹائیگرز میں مشفق رحیم ،محمود اللہ ،شکیب ،مہدی حسن ،سومیا سرکار اور تمیم اقبال جیسے ہونہار کھلاڑیوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ مسلسل بہتر کارکردگی کی بدولت آج بنگلہ دیش ،سری لنکا سے بہتر کھیل پیش کررہا ہے ۔اگرچہ ابھی مشرفے مرتضیٰ الیون ٹاپ لیول تک تو شائد نہ جاپائے مگر یہ ضرور ہے کہ اپنی نپی تلی پرفارمنس کی بدولت یہ کسی بھی ٹاپ ٹیم کے پاؤں سے قالین کھینچنے کی اہل ضرور ہے ۔اس کے ساتھ افغان ٹیم بھی اپنے جارحانہ اور تیز رفتار مزاج کی بدولت بنگال ٹائیگر کی مانند اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے ۔اگرچہ یہاں بھی اچانک اصغر افغان کو اچانک کپتانی سے برخاست کر کے گلاب دین کو قیادت سونپی گئی ہے جس کی اس مرحلے پر کچھ سمجھ نہیں آتی ۔لیکن اس کے باوجود راشد خان جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی کی وجہ سے افغان ٹیم ،اپنے عوام کو خوشی فراہم کرنے کا سامان ضرور فراہم کرسکتی ہے ۔ آخر میں اب ہم ان دو ٹیموں کی بات کرتے ہیں جن کے بغیر کرکٹ مکمل نہیں ہوسکتی ۔جو کرکٹ کے ہر فارمیٹ میں ہی الگ کشش رکھتی ہیں۔ جی ہاں ”پاکستان اور بھارت “دو دیرینہ حریف دو ایسی ٹیمیں جن کے درمیان کھیل کھیل نہیں رہتا بلکہ میدان سے باہر اور اندر ،یہاں تک کے میڈیا کے لیول پر بھی ایک جنگ کی سی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔اور اسی لئے سبھی شائقین کرکٹ کو 16 جون کو مانچسٹر کے میدان پر پاک بھارت معرکے کا شدت سے انتظار ہے ۔پہلے بھارتی ٹیم کا پوسٹ مارٹم کر لیتے ہیں جو کہ ویرات کوہلی کی قیادت میں انگلستان پہنچ چکی ہے اور نہایت ہی آسانی سے ٹاپ فور ٹیموں میں جگہ بنانے کی مکمل طور پر اہل سمجھی جارہی ہے ۔دنیا کے بہترین بلے بازوں سے سجی اس بیٹنگ لائن میں روہت شرما ،”گبر“ کی عرفیت رکھنے والے شیکھر دھون ،ہندوستانی ٹیم کا دماغ مہندر سنگھ دھونی اور انڈین ٹیم کی جان کپتان ویرات کوہلی ایک لامثال حیثیت اور ساکھ رکھتے ہیں۔جبکہ مڈل آرڈر میں کیدار جادیو ، دنیش کارتک اور آل راؤنڈر ہاردک پانڈیا بھی ٹیم کو سہارا دیتے نظر آتے ہیں۔لیکن ٹیم بلیو سے جارح وکٹ کیپر بلے باز رشبھ پنت اور رائیڈو کی بے دخلی پر میڈیا میں کافی لے دے ہوتی رہی ہے اور کپتان کوہلی کی رائیڈو پر وجے شنکر کو فوقیت دینے کے فیصلے کو بھی ایک جوئے کے طور لیا جارہا ہے جو الٹا بھی پڑ سکتا ہے ۔معروف انڈین سپورٹس جرنلسٹ وکرانت گپتا کے مطابق بھارتی بیٹنگ لائن کیلئے” نمبر چار پر کون کھیلے گا“ ایک اہم سوال کی شکل اختیار کرچکاہے ۔جبکہ بیٹنگ کا سارا بوجھ روہت شرما ،دھونی اور کپتان ویرات کوہلی پر منتقل ہوچکا ہے جو کہ ٹیم بلیو کیلئے ایک بڑی مصیبت بھی بن سکتا ہے ۔البتہ انڈین باؤلنگ لائن میں جسپریت بمرا ،محمد شامی اور بھونیشور کمار کی جوڑی مخالف بلے بازوں کو خاصا پریشان کرنے کی پوزیشن میں ہے خصوصاٰ مائیکل ہولڈنگ کے بقول بمرا اپنے یارکر کی وجہ سے اس ٹورنامنٹ میں کوہلی کے لئے ایک ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتے ہیں۔جبکہ بھارت کے پاس بہترین اسپن جوڑی چہل اور کلدیپ پر مشتمل ہے جو کسی بھی ٹیم کو تگنی کا ناچ نچا سکتی ہے ۔مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب دونوں اسپنرز کو ایک جوڑی کی شکل میں کھلایا جائے ۔بھارتی باؤلروں میں یہ خاصیت اس بار وافر مقدار میں موجود ہے کہ وہ ڈیٹھ اوورز میں بہترین گیند بازی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن پانچواں باؤلر کون ہو یہ نقطہ کوہلی کیلئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔تاہم بھارت کے لئے اہم بات ہر میچ میں اس نکتے پر ٹکی رہے گی کہ ان کوہر حال میں سٹارٹ اچھا ملے۔اور ٹاپ تھری بلے بازوں کا چلنا ہی ٹیم بلیو کیلئے آکسیجن کی حیثیت رکھتاہے ۔گرین شرٹس کے لئے بھی اس ورلڈ کپ میں بہت کچھ ہے بشرطیہ وہ ایک متحرک یونٹ کی طرح سرفراز کی قیادت میں یکسو ہوکر کھلیں۔شاہینوں کیلئے مثبت بات یہ ہے کہ انگلینڈ سے کراری ہار کے باوجود وہ کہیں نہ کہیں انگلش کنڈیشنز کو دوسری ٹیموں کے مقابلے میں بہتر طور پر سمجھتے ہیں ۔جبکہ پاکستانی بیٹنگ لائن اس بار فخر زمان ،بابر اعظم ،انعام الحق کی وجہ سے بھرپور فارم میں دکھائی دے رہی ہے ۔فخر بلاشبہ ٹیم کیلئے ایکس فیکٹر کی پہچان رکھتے ہیں۔جبکہ مڈل آرڈر میں کپتان سرفراز ،حارث سہیل اور آصف علی کو بھی بھرپور انہماک سے اپنے کھیل میں تسلسل لانا ہوگا وگرنہ آگے فیصلہ کن مراحل میں کٹھنائیاں ہوسکتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تجربہ کار شعیب ملک اور منجھے ہوئے آل راؤنڈر حفیظ کی موجودگی بھی سرفراز کیلئے ایک بونس پوائنٹ ثابت ہوسکتی ہے ۔انگلینڈ کے خلاف باؤلروں کی ناکامی کی بدولت کچھ جوہری تبدیلیاں بھی کی گئیں ہیں جن کے مثبت اثرات ملنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے ۔جیسے جنید خان،عابد علی اور فہیم اشرف کو باہر بٹھا کر محمد عامر،شاداب خاب اور تجربہ کار وہاب ریاض کی واپسی نے باؤلنگ ڈیپارٹمنٹ کو متحرک کردیا ہے۔امید ہے کہ اب پاکستانی گیند باز ڈیٹھ اوورزمیں متاثر کن پرفارمنس دکھائیں گے۔جبکہ بطور آل راؤنڈر عماد وسیم کیلئے خود کو ایک کمزور کڑی سے ایک فائٹر کے طور پر ابھرنا ہوگا ورنہ وہ ٹیم پر ایک بوجھ متصور کئے جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ ٹیم کا ایک منفی پہلو اس کی غیر متاثر کن فیلڈنگ بھی ہے جس کا حالیہ سیریز میں انگلش ٹیم نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔ان حقائق کے باوجود کہ گرین شرٹس لگاتار تین ون ڈے سیریز ہار چکے ہیں ماہرین سرفراز الیون کو ہرگز ہلکے میں نہیں لے رہے ہیں۔ کیونکہ ان میں ہمیشہ گر کر اٹھنے کی صلاحیت کبھی بھی پروان چڑھ سکتی ہے ۔اگر شاہینوں نے 31 مئی کو کالی آندھی کے خلاف دھواں دار سٹارٹ لے لیا تو پھر فائٹنگ اسپرٹ کی بدولت یہ ٹیم کسی بھی تگڑی ٹیم کو چاروں شانے چت کر سکتی ہے جس کا واضح ثبوت2017 میں کھیلا جانے والا چیمنیز ٹرافی فائنل ہے جو کہ کوہلی الیون کو ہمیشہ یاد رہیگا۔ ماہرین کے مطابق موجودہ عالمی کپ ایک اوپن ایونٹ ہے جو کہ بلے بازوں کیلئے تو جنت ثابت ہوگا مگر بڑی کامیابی اسی جھتے کو ملے گی جس کی باؤلنگ میں دم ہوگا۔یاد رہے کہ یہ ورلڈ کپ 1992 کے فارمیٹ کے مطابق کھیلا جارہا ہے جس میں تمام ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابل میچ کھیلیں گی ،یوں اس سے عالمی کپ مقابلوں کی سسنی خیزی اور بھی زیادہ بڑھ چکی ہے ۔تاہم میری دانست میں اس بار انگلش ٹیم اور آسٹریلین سائیڈ عالمی کپ جیتنے کی دعویداری میں سرفہرست نظر آتی ہیں۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔