اردو کی مکتبی تنقید کا المیہ

ایک روزن لکھاری
معراج رعنا، صاحبِ مضمون

اردو کی مکتبی تنقید کا المیہ

معراج رعنا                                                                                                                                                                                         اردو کی تین کتابیں یعنی آبِ حیات، مقدمۂ شعر و شاعری اور موازنۂ انیس و دبیر مکتبی تنقید پر اس بری طرح متغالب ہیں کہ ان سے آزادی کی فی الوقت کوئی سبیل ممکن نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ مکتبی تنقید کے اکثر و بیشتر ناقدین اس غلبے کو در اصل غلبہ نہیں بلکہ اپنے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں۔ یہاں  نعمتِ غیر مترقبہ اس لیے کہا گیا کہ ہماری مکتبی تنقیدکے کارخانۂ تحریر میں مذکورہ کتابیں جوہری توانائی کا کام انجام دیتی آرہی ہیں اور تنقیدی کتابوں کی اشاعتِ کثیرہ کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا۔

جب ہم آزاد، حالی اور شبلی کے متعلق غور کرتے ہیں تو یہ سوال نہ چاہتے ہوئے بھی قائم ہوجاتا ہے کہ آج کے موجودہ علمی تناظر میں ان حضرات کی تحریریں ہمارے جدید ادب کے ساتھ ساتھ ہمارے کلاسیکی ادب کو پڑھنے اور سمجھنے میں کس حد تک معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہاں اس سوال کے اٹھانے کا مقصد یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ ان بزرگوں کی تحریروں کی علمی اور استدلالی رمق میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے بلکہ محض یہ سمجھنے کی کوشش ہے کہ جس بصیرت کے ساتھ حالی نے غالب کو پڑھنے، سمجھنے ،سمجھانے اور ان کی معنویت متعین کرنے کی کوشش کی تھی، کیا آج ہم اسی بصیرت کے ساتھ غالب کو پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی کے اصولوں کی روشنی میں ہم غالب کو بآسانی پڑھ سکتے ہیں لیکن آسانی کے ساتھ غالب کے وہی معنی بھی متعین ہوں کے جو معنی حالی نے اپنے زمانے میں متعین کیے تھے۔ لیکن یہ بات قطعی تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ ہم حالی کی تنقیدی بصیرت سے ایک ایسے غالب کو دریافت کر سکتے ہیں جو انیسویں صدی کے غالب سے مختلف ہو۔ مطلب یہ کہ وہ غالب جس کا ایک مبہم سا تصوراتی عکس تک مولانا حالی کے ذہن میں موجود نہ رہا ہو۔

محمد حسین آزاد کی آبِ حیات کو بار بار پڑھنے کے باوجود بھی اسے تنقید تو دور کسی مبسوط تذکرے کے زمرے میں رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ہزار پردوں کے باوجود بھی آزاد کی نو آبادیاتی فکری اسیری کبھی تعصب تو کبھی ذاتی پسند و ناپسند کی شکل میں آبِ حیات سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ زبان و بیان کے حوالے سے ہم آبِ حیات کا جس قدر چاہیں قصیدہ پڑھ لیں مگر اسے ایک ایسی کتاب کے طور پر قطعی نہیں پڑھ سکتے جس سے کسی ادبی نظریے کی ابتدا ہوتی ہو۔

آبِ حیات میں ہزاروں انشائیے اور ہزاروں خاکے موجود ہوں تو ہوں لیکن تنقیدی نوعیت کا ایک بھی ایسا جملہ موجود نہیں جس سے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلی ہو جائے کہ آبِ حیات لکھتے وقت آزاد نے شعر و ادب کی ماہیت پر آزادی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی کوشش کی ہو۔رہا سوال شبلی کا تو ان کا رشتہ بھی ادبی اور تقابلی تنقید سے اس قدر مضبوط نظر نہیں آتا ،جس قدر اسے مضبوط بنا کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔اسلامی تاریخ سے شبلی کا شغف قابلِ صد تحسین لیکن شعر العجم کی جلدیں فارسی شعرا کا تذکرہ ہی ہیں لیکن یہ تذکرہ آبِ حیات سے اس معنی میں مختلف ہے کہ اس میں شبلی نے تاریخی شعور کے ساتھ ساتھ اپنی علمی دبازت کا بھی بھر پور ثبوت دیا ہے۔

فرق و امتیاز کاہنر اور تحقیقی باریک بینی شبلی کو ایک انفرادی حیثیت عطا کرتی ہے۔ لیکن جب یہی انفرادی حیثیت موازنۂ انیس و دبیر تک پہنچتی ہے تو وہ عمومیت میں گم سی ہو جاتی ہے۔ ایک ہی عہد کے ایک ہی صنف کے دو شعرا کا تقابل کر کے شبلی نے بظاہر تقابلی تنقید کی بنا تو ڈال دی لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ شبلی کے ذریعے ڈالی گئی تقابلی تنقید کی یہ بنیاد بعد کے زمانوں میں کتنی مستحکم ثابت ہوئی؟ شبلی کا یہ کام بھی تاریخی اور حالی کی طرح ہی اجتہادی نوعیت کا حامل ہے۔ تاریخی شعور اور اجتہادی کد و کاوش اچھی چیز ہے لیکن اسی حد تک جس حدتک اس سے کسی مثبت نتیجے کے برآمد ہونے کی امید متوقع ہو۔

یہاں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ شبلی کی اس کتاب سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوا کہ نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اس کتاب کے توسط سے اردو کے ادبی معاشرے میں استناد سازی ایک بیماری کی طرح دبے پاؤں داخل ہوئی جس کی بے دخلی کا عمل ہنوز مشکلات میں شامل ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو استناد سازی کی پہلی کوشش آزاد کے نام سے ہی منسوب معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ ان کی یہ کوشش غیر مرتب اور ضمنی نوعیت کی حامل تھی اس لیے اس کا ذکر بھی آبِ حیات کے حوالے سے ضمنی طور پر ہی ہونا چاہیے۔

وجد و سرور کے عالم میں آزاد سودا کو انوری اور ذوق کو خاقانی لکھ تو گئے لیکن انھوں نے یہ لکھنے سے پہلے اور لکھنے کے بعد بالکل نہیں سوچاکہ انوری کی ہجویت سودا کی ہجویت سے کتنی مماثل ا ور کتنی متخالف ہے۔ یا پھر یہ کہ ذوق اور خاقانی میں کوئی ایسی شعری قدر مشترک ہے جس کی بنیاد پر ذوق کو اردو قصیدے کا خاقانی کہا جانا مناسب ثابت کیا جا سکے۔ کسی فارسی قصیدے کو سامنے رکھ کر اسے اردو قالب عطا کرنا الگ بات ہے اور کسی فارسی طرزِ اظہار کو اردو طرزِ اظہار میں شامل کرنا دوسری بات۔ پہلی بات کا تعلق نقل یا سرقہ (Plagiarism ) سے ہے جسے ذخیرۂ الفاظ کے وسیلے سے نہایت آسانی کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے جب کہ دوسری بات کا رشتہ خلقی اور تحلیلی عمل سے ہے جسے ذخیرۂ الفاظ سے نہیں بلکہ شعورِ تجدید سے ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔

غالب کی غزلیہ شاعری شعورِ تجدید کی غیر معمولی مثال ہے۔شبلی کے موازنے میں انیس کو دبیر پر جس بنیاد پر افضل قرار دیا گیا ہے ،حق کی بات تویہ ہے کہ وہی بنیادیں کم و بیش مرزادبیر کے یہاں بھی موجود ہیں یعنی دبیر کے مراثی میں بھی فصاحت و بلاغت اور منظر نگاری کی وہی شان اور وہی سج دھج نمایاں ہے جوانیس کے مرثیے کا اختصاص ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ شبلی جیسے متبحر کو یہ بات معلوم نہیں تھی لیکن چو نکہ انھیں یہ احساس بھی تھا کہ موازنے کی صورت میں وہ ایک ایسی نظری تحریر کی بنیاد ڈال رہے ہیں جو صرف ان کے نام سے مخصوص ہوگی۔

ممکن تھا کہ اگر دبیر کے اس پہلو کو نمایاں کیا جاتا تو شبلی کا یہ احساس کوئی ٹھوس صورت اختیار نہ کرتا۔ شبلی کے یکجہت مطالعے سے انیس کو فائدہ تو ہوا لیکن اس افادی طریقِ کار نے اردو کی مکتبی تنقید کو یہ ہنر مندی بھی سکھا دی کہ کس طرح کشادہ ذہنی کو تنگ نظری میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ حالی کا نظریۂ شعر و ادب آج کس حد تک با معنی ہے،یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ محمد حسن عسکری سے اختلاف کرنے والے اختلاف کریں لیکن حالی کی مصلحانہ فکر کے بارے میں جو انھوں نے لکھا یا کہا ہے ،اسے غلط ثابت کرنے کی ان لوگوں میں نہ تو علمی استعداد ہے اور نہ سچ کو سچ کہنے کی جرات۔ سچ تو یہ ہے کہ بیس پچیس کتابیں پڑھ کر یا بیس پچیس برس تک کسی مکتب میں فرضِ معلمی انجام دے کریا پھر دو تین کتابیں لکھ کر کسی کے اند ر یہ جرات پیدا نہیں ہو سکتی۔

یہ جرات مندی تو اسی شخص کا طرۂ امتیاز ثابت ہوتی ہے جو اپنے مطالعات کو لامحدوداور اپنی فکر کو مرتب اندازمیں متشکل کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ ان بزرگوں کے متعلق یہ بات بڑی فکر انگیز ہے کہ ان سبھی کا علمی اور ادراکی پس منظر عربی اور فارسی ادبیات کا تھا۔ حالی نے تو عربی شعریات کے مفسرین اور عربی و فارسی نقد و نظر کے اہم نظریہ سازوں کے جگہ جگہ حوالے بھی دیے ہیں۔لیکن جب ہم ان بزرگوں کی تحریریں پڑھتے ہیں تو ان میں اکتسابِ فیض کے بعد کی وہ صورتِ حال نظر نہیں آتی جو انھیں بھی نظریہ سازی کی صفت سے متصف کرتی ہو۔

یعنی یہ کہ قدامہ اور قتیبہ کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص (خواہ وحالی ہی کیوں نہ ہوں) اگر شاعری کوتہذیب الاخلاق کا وسیلہ اور شاعر کو معلمِ اخلاق کہنے پر مصر ہو تو صرف حیرت ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں کے با وجود اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ ان حضرات نے پہلی بار اپنے نقطۂ نظر سے شعر و ادب کے متعلق نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی انقلاب آفریں کوشش کی جس کی تنقید بھی ہوئی حد درجہ تحسین بھی۔

ہم یہاں آزاد، حالی اور شبلی کے حوالے سے لاکھ سوالات کھڑے کریں لیکن جواب ایک ہی ہوگا کہ بھئی انھیں جو لکھنا تھا سو انھوں نے لکھ دیا آپ کا جی چاہے تو پڑھیے اور اگر جی نہ چاہے تو نہ پڑھیے۔ در اصل اردو کی پوری مکتبی تنقید اسی جی چاہنے اور نہ چاہنے والے دونہایت تن آسان جملوں کے درمیان گھوم رہی ہے۔ آزاد، حالی اور شبلی کے بعض تنقیدی افکار سے اختلاف کے بعد اگر ہم ادب کے ساتھ چند سوالات قائم کر تے ہیں تو اس سے کچھ نہیں تو کم سے کم ہماری فکر کی ایک مثبت سمت ضرور متعین ہو جاتی ہے۔

لیکن مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے مکتبی ناقدین اس نوع کے سوالات قائم کرنے سے یوں ڈرتے ہیں جیسے کوئی سگ گزیدہ پانی سے ڈرتا ہو۔ اس نوع کی کم ہمتی کا تعلق در اصل ڈر سے کم اور لا علمی سے زیادہ ہے۔ انھیں یہ احساس ہی نہیں کہ تنقید کا کا م باز گوئی نہیں بلکہ تازہ گوئی ہے، اور اس تازہ گوئی کا احساس انھیں اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ میر یا غالب کو ماضی کے کسی غالب رویے کے حوالے سے پڑھنے اور سمجھنے کے بجائے خود اپنے ذہن سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔

حالانکہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے انھیں اپنے ادبی مطالعات کے خطوط تبدیل کرنے ہوں گے جس کے سرے یا تو کسی پیش پا افتادہ فکر سے مربوط ہیں یا پھرکسی ایسے نظریے سے جو نظریہ کم اورتاثرات کا مجموعہ زیادہ ہے۔
مثال کے لیے مندرجۂ ذیل سطریں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:

” شرر بنیادی طور پر تاریخی ذہن لے کر آئے تھے۔حالی کا

               مسدس اور شبلی کی تاریخی کتابیں مخصوص طبقے میں
محدود ہو کر رہ گئیں اور شرر اپنا پیغام ہر طبقے میں پہنچانا

               چاہتے تھے۔اس لیے انھوں نے اپنے خیالات کی خوشگوار

                ترسیل کے لیے ناول جیسی صنف کا انتخاب کیا “

(عبد الحلیم شرر، علی احمد فاطمی، ص ۔۲۱۴، قومی کونسل، دہلی،۲۰۰۷)

” گؤدان میں انھوں نے ٹالسٹائی کی طرح اپنے کرداروں

               کو ایک بار متعارف کرا کے اظہار اور عمل کی مکمل

                آزادی دے دی ہے۔ وہ ایک کھلی فضا میں اپنے خارجی

              محرکات اور داخلی تہلکات کے زیرِ اثر نشو و نما پاتے ہیں”

(پریم چند کا تنقیدی مطالعہ،ڈاکٹر قمر رئیس، ص۔۳۱۷، قومی کونسل، دہلی،۲۰۰۵ )

مذکورہ اقتباسات مکتبی تنقید کے عبرت آموز نمونے ہیں۔ پہلے اقتباس میں شرر کی ناول نگاری کی بھونڈی تحسین اور جملے کی بے ربطی کے علاوہ کہیں تنقید موجود نہیں۔ اگر یہاں یہ بات تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کر بھی لی جائے کہ شرر کی عظمت اُن کے تاریخی ذہن اور پیغام رسانی کے جذبے میں پوشیدہ ہے تو پھر اُن لوگوں کے بارے میں بھی یہی بات صادق آنی چاہیے جنھوں نے تاریخی نوعیت اور عوامی تفریحَ طبع کے لیے ناول لکھے۔ لیکن جب یہ بات کہی جاتی ہے تو قضیے کی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ قضیہ اُس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک اُن عوامل کو دریافت نہ کر لیا جائے جن کی موجودگی کسی تاریخی شعور یا واقعے کو ادب بناتی ہے۔

یہاں ضرورت اُن امور کو زیرِ بحث لانے کی تھی جو کسی فکر کو ادب پارہ بناتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ شرر کے تمام ناولوں میں فردوسِ بریں ہی ایک ایسا ناول ہے جہاں اُن کا ادبی شعور اُن کے تاریخی شعور کو زیر کر سکا ہے۔اسی غلبے کا فیض ہے کہ شیخ علی وجودی جیسا زندہ اور متحرک کردار اپنی تمام تر تہہ داری کے ساتھ معرضِ ظہور میں آسکا ۔ اسی طرح دوسرے اقتباس میں بھی گؤ دان کے کرداروں کے متعلق چند سرسری اور عمومی تاثرات بیان کیے گئے ہیں۔

یہاں دعویٰ تو ہے لیکن اُس کی کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔فکشن کی تنقید میں یہ بات حقیقتِ مسلمہ کی طرح رائج ہے کہ کرداروں کی مضبوطی کا رشتہ اُن کی آزادیِ اظہار سے نہیں بلکہ اُن کہ تہہ داری(بقول ای۔ایم۔فارسٹر) مربوط ہوتا ہے۔ اگر مصنفِ مذکور کی بات مان لی جائے تو گؤ دان کا مرکزی کردار ہوری نہ آزادی اظہار کا حامل ہے اور نہ ہی تہہ داری کا۔اگر اُس کی ذات میں یہ دونوں چیزیں ہوتیں تو وہ کسان سے مزدور کبھی نہ بنتا۔ی عنی یہ کہ اُس کا بتدریج زوال نہ ہوتا۔اگر مطالعہ کیا جائے تو اردو کی مکتبی تنقید میں اس نوع کی تحریریں بھری پڑی ہیں۔

محمد حسن عسکری اور کلیم الدین احمد کو اس لحاظ سے اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے پہلی بار اردو کی مکتبی تنقید اور اس کی فارمولا بندی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا تھا، لیکن مکتبی تنقید کی یکسانیت سے بیزاری کا پہلا باقاعدہ احساس شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ محمد حسن عسکری کی شخصیت اس اعتبار سے بھی قابلِ رشک ہے کہ انھوں نے ادب کے غالبا تمام موضوعات پر ایک نئے انداز سے سوچا اور لکھا۔ یوں تو کلیم الدین احمد کی تنقید میں بھی ایک انفرادی شان موجود ہے لیکن بعض مقامات پر ان کی تنقیدی انتہا پسندی اس طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ ان کی دلیلیں بھی خود ان کے خلاف کھڑی ہونے لگتی ہیں۔

غزل کے نیم وحشی پن کا معاملہ ہو یا پھر فنِ داستان گوئی کا ،کہیں نہ کہیں ایک خلا کا احساس ہوتاہے۔غزل کے نیم وحشی پن والے معاملے میں تو پھر بھی ایک استدلالی نقطہ موجود ہے اور جو انھیں عظمت اللہ خاں کی گردن زنی والے بے سرو پا بیان سے بالکل الگ کرتا ہے لیکن فنِ داستان گوئی میں ان کی وہ قوت نظر نہیں آتی جو اردو شاعری کی تنقید میں صاف صاف نظر آتی ہے۔