تخیل کی دنیا

تخیل کی دنیا

 تخیل کی دنیا

از، آصف لاشاری

تخیل بلند پروازی کا دوسرا نام ہے۔ یہ تخیل ہی ہے جو مستقبل کو حال میں کھینچ لاتا ہے اور پیش گوئی کے انداز میں مخصوص حالات و واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے، کبھی وہ عمرِ رفتہ کو آواز دے کر حال کے شانہ بشانہ لاکھڑا کرتا ہے اور کبھی کبھی ماضی و مستقبل دونوں کو حال میں یکجا کرکے ہمیں متحیر بھی کرتا ہے۔ بعض اوقات تو کسی انوکھی دنیا کا نقشہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ جسے خوابوں کی دنیا بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر کاروباری کامیابی، اچھے اور خوب صورت رشتے، جنسی تعلقات، تفریح، کھیل تماشا، دوسروں کی بھلائی کرنا شامل ہے۔

یہاں تک کہ کچھ لوگ جن کی آنکھ ہی جنگ زدہ علاقوں میں کھلی وہ امن کے خواہاں ہیں، بھی شامل ہیں۔ خوابوں کی دنیا  ہماری اصل دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کچھ لوگ راستوں کا تعین کیے بغیر خوابوں کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے ہیں جبکہ کچھ اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔جو پڑھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔

اس طرح گویا تخیل کا سہارا لے کر کسی بدعنوان معاشرے کی مختلف معاشرتی ناہمواریوں، اپنی ذات کی محرومیوں کو تحریری شکل (نثر یا شاعری) دے کر اپنی اور معاشرے کی تکلیف کو کم کرنے میں مدد کی جاتی ہے۔ اگر شاعری یا کسی بھی تحریر کو جسم فرض کر لیا جائے تو تخیل اس کی روح ہے۔ آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔ کئی بار ذات کے اندر بپا تخلیقی محشر اس قدر ضد کرتا ہے کہ میں بے بس ہو کر ان مبہم سے خاکوں کو خارجی دنیا (دوستوں) کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ لیکن لکھنے کی خواہش کے باوجود تحریری شکل نہیں دے پاتا کیونکہ میرے مطابق ایسی تحریریں ناقابل فہم سمجھ کر رد کر دی جائیں گی۔

انہیں خواب میں بھی نہ دھیان آیا مرا

یہ روح حقیقت گماں تک نہ پہنچی

تصور سے آگے تخیل سے آگے

مرے دل کی وحشت کہاں تک نہ پہنچی

رہی محو طوف چمن برقؔ اکثر

مگر وہ مرے آشیاں تک نہ پہنچی

(شورتنلالبرقپونچھوی)

مشاہدے، تجربے اور سائنسی علوم جو انسانی تخیل کے عمل سے گزر کر حقیقی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اس دنیا کو انسانوں کے  لیے سہل بنا رہے ہیں۔ اسی تخیل کی بنیاد پر انسان نئی دنیا بھی بسانے جا رہا ہے لیکن یہ تمام تخیلات خاص، فکری اور سائنسی طبقہ کے ہیں جو انسان کی جسمانی تکالیف کو کم کرنے کے دائرہ کار کو وسیع سے وسیع تر کر رہے ھیں۔ لیکن ایسا کوئی ادارہ وجود میں نہیں آیا جو تمام طبقہ کے انسانوں کے تخیل سے جنم لینے والی دنیا کو بسانے کے  لیے عملی اقدامات کرے۔ سائنسی، تخلیقاتی اداروں کے طرز پر ایک ایسا ادارہ ہو جو تمام طرح کی تفاریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجموعی تخیل کی بنا پر نئی دنیا بسانے کے لیے کام کرے جہاں کا واحد اور بنیادی قانون محبت ہو۔

جہاں کوئی ایسا صاحب نظر نہ ہو جس کی آنکھ محبت کے سوا دیکھے۔ ایسا کوئی کارخانہ ہو جہاں ہر کوئی اپنے تخیل کو تخلیق کرسکے اس کو جنم دے سکے۔ آسمان کی بلندیوں اور سمندر کی گہرائیوں کو تخیل کی طاقت سے سر کر سکے۔ اپنے ماضی اور مستقبل کو جوڑ کر رشتوں کو وقت کی قید سے آزاد کر سکے۔ کیا ہی خوبصورت ہو کہ تحریر کے مجسم میں تخیل کی روح پھونک کر ایسی زندگی بخش دی جائے جس میں دنیا اس قدر حسین لگے کہ جیسے ماں کی گود جو بنی ہی اُس بچے کی تسکین کے لیے ہے جس کو جنم دیا گیا، ایسا راستہ جو صرف منزل کا تعین کرے، ایسی سانس جس میں زندگی ہو، ایسی آوارگی جس میں تشنگی ہو، ایسی موسیقی جس میں سرور ہو اور ہر لمحہ جس میں زندگی ہو۔ سوچو کیا ہی خوبصورت ہو کوئی تعلق یاد ماضی نہ رہے کوئی خواہش مستقبل کا انتظار نہ کرے۔

اگر مجموعی اور مثبت تخیل عملی طور پر مجسم ہو جائے تو سکھ، آسائشیں،امن اور سکون ہر انسان کا مقدر بن جائے۔