انگریز اپنا ذہن تو لے گیا پر ذہن سازی کے کار خانے چھوڑ گیا

Farrukh Nadeem

انگریز اپنا ذہن تو لے گیا پر ذہن سازی کے کار خانے چھوڑ گیا

از، فرخ ندیم

ہجرت، نژادیت اور کارٹوگرافک موضوعات انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میں لکھے گئے فکشن میں موجود ہیں جن میں، نو آبادیاتی تناظر میں، کرداروں کا اپنا سپیس، طور اطوار، بُود و باش، رہن سہن، ذہن سازی سمیت سبھی حالتیں اور ساختیں بھی متاثر ہوتی نظر آتی ہیں۔ یوں، ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس خطے کا کثیر الجہت معاشرتی اور طبقاتی تنوع معاشی اور شناختی بحرانوں کو فروغ دیتا رہا ہے جس کا عکس ما بعد تقسیم فکشن میں بھی واضح طور پر موجود ہے۔ انگریز اپنا ذہن واپس لے گیا، ذہن سازی کے کار خانے یہاں ہی رہ گئے جو اب بھی دو گونی متون پیدا کر رہے ہیں۔

نائن الیون کے بعد لکھے گئے ان فکشنل متون میں جنہیں مغرب نژاد پاکستانی ادیبوں نے تخلیق کیا ان میں (مسلم) شناخت کے تلخ تجربات کی واضح تصویر ملتی ہے۔ ترقی یافتہ ریاستوں کے مختلف حصوں میں میں تارکینِ وطن آباد ہیں۔ ان کی نسلوں کا سفید فام انسانوں سے تفاعل زندگی کا حصہ ہے۔ اس تفاعل میں جب کوئی غیر معمولی رشتہ بنتا ہے تو دو انسانوں کے پسِ منظر اور لا شعور میں دو طرح کی سماجی نفسیات کام کر رہی ہوتی ہیں۔

جہاں کہیں سفید فام عمومیت نے اپنی نظریاتی آنکھ (جسے تنقید کی رُو سے سٹیریو ٹائپنگ کہا جاتا ہے) کو نہیں بدلا وہیں گندمی نفسیات بھی نظریاتی مچان پر کھڑی فیصلے اور فاصلے صادر کرنے میں پیش پیش ہے۔ اگر چِہ انگریزی زبان میں لکھنے والے ادیب اِس مکان کی افسانویت تخلیق کرنے میں کافی حد تک کام یاب کوششیں کر چکے ہیں لیکن بعد از نائن الیون وہ جس مقامیت کے نوسٹیلجیا کا شکار رہتے ہیں، اس کی طبقاتی تقسیم ان کے متون کا حصہ کم ہی بنتی ہے۔ نائن الیون کے بعد تہذیبوں کے تصادم جیسے بیانیوں کلامیوں کے شور میں مسلم اقلیت عدم تحفظ اور بے چینی کا شکار ہے۔

انگریزی اور اردو دنیا کے مقامی لکھاریوں کا نو آبادیاتی تجربہ بھی ویسا ہی ہے جیسا دولتِ مشترکہ کی دوسری ریاستوں کے معاشروں کا ہے۔ لیکن جہاں تک ردِ عمل کا تعلق ہے، مقامی دنیا میں ایسا کیوں نظر نہیں آتا جیسا افریقی اور کیریبین ثقافتوں میں ملتا ہے۔ یعنی اس کی آواز بہت دھیمی رہی ہے۔ یہاں کوئی نیگری ٹیوڈ جیسی تحریک نظر نہیں آتی۔ جس مکان سے یہ کہانیاں لکھی گئی ہوتی ہیں اس میں ’’پہلے‘‘ کا سپیس زبر دست اور ’’دوسرے‘‘ کا زیر دست دکھایا جاتا ہے اور تیسرا مکان بھی عام طور پر ثقافتی ساختوں میں طبقاتی اور نظریاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بائنری (ثنوی نظام) کے انہدام کی کوشش ثنویت ہی کے تسلسل پر ختم ہوتی ہے۔

پوسٹ کولونیل تنقید میں، ثقافتی ملغوبیت، غلط ترجمانی، نفسیاتی دو گونیت، شناختی بحران اور عالم گیریت پر ہی اکتفا کرنے والوں سے معذرت کے ساتھ کہ بورژوا (ادبی) ذہنیت کے لیے، کسی سماجی تفاعل میں، ’’پہلے‘‘ کی مِتھ ’’دوسرے‘‘ کی موت یا سپردگی یا غلامی پر قائم کی جاتی ہے۔ (ایڈورڈ سعید کا تھیسز اپنی جگہ درست لیکن انسانی تفاعل کی نئی ثقافت اور عالم گیریت کے پیش نظر بھابھا کے مکانات کو سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔)


متعلقہ تحریریں:  متن اور بیانیہ معصوم نہیں ہوتے؟  از، فرخ ندیم

مشرق و مغرب میں ناول کی ابتدا کی سیاست و ثقافت  از، فرخ ندیم


اس دور میں عالم گیریت ہی کی ایک شکل ۲۰۰۶ میں ریلیز ہونے والی فلم Outsourced ہے۔ کہانی کی ابتداء ہی سے احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ فلم کا نام علامتی ہے۔ mode of representation اسی اداریاتی اور نشر و اشاعتی ثقافت سے طے پاتا ہے جس کی طرف ایڈورڈ سعید اور دوسرے ما بعد نو آبادیاتی نقاد اشارہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی ثقافت کی تعبیر میں کہیں محاکاتی سیاست اور کہیں تصویرِ باطل دکھائی دیتی ہے۔

سفید فام مرد اور گندمی رنگت کی انڈین لڑکی کی محبت کا غیر روایتی انداز بھی اس بات کا غماز ہے کہ کہانی جس غیر التباسی مکان سے لکھی گئی وہ کسی انڈین لکھاری کا نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک (کولونیل اور پوسٹ کولونیل ادوار میں) پدر سر مرکزیت کا تعلق ہے تو یہ کلامیہ خود ہندی/ اردو فلموں میں غالب خیال رہا ہے، لیکن ۲۰۰۶ کے ہالی وڈ میں کسی عورت کو محض رسیونگ اینڈ پر دکھانا ’’دوسری‘‘ کو سٹیریو ٹائپ کرنے کے مترادف ہے۔ ’’دوسری‘‘ کا رضا کارانہ طور پر اپنے مکان یعنی سپیس سے نکلنا بھی مکانی مسئلہ بن جاتا ہے۔

اسی طرح ایک اور ’’دوسری‘‘ ۲۰۰۷ میں بننے والی فلم Before the Rains جو ۱۹۳۷ کے نو آبادیاتی ’’دوسری‘‘ محبت کے تجربے کے طور پر پیش کی گئی ہے، اس میں عہد میں پہلے سے عقیدت اور سپردگی کے عمل سے گزرتی موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ اس عہد میں صرف ایک دو کہانیاں نہیں، جتنے بھی ملاپ یا تفاعل ہوئے سب کی الگ الگ کہانیاں ہیں، البتہ یہ کہانیاں کچھ انسانوں کے (لا) شعور میں موجود رہتی ہیں اور کچھ زندگی سے چلے جانے والوں کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں۔

ایڈورڈ سعید زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج بھی روشن خیالی، ما بعد جدیدیت اور لبرل ازم کی انتہاؤں پر بھی موڈ آف پروڈکشن بدلے نہ موڈ آف ریپریزنٹیشن۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ دوسرے کو پہلے میں کس قسم کی دل کشی محسوس ہوتی ہے۔

یہاں کچھ اہم سوالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا پہلے سے رضا کارانہ مرعوب کیوں رہتا ہے، اس کے معاشرے میں سکونت کیوں اختیار کرتا ہے، زیادہ تر پوسٹ کولونیل نقاد اور محققین ’’پہلے‘‘ کی معاشرت کو آئیڈیالائز کرتے ہیں یا نہیں، اس کی تہذیب اور ثقافت کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں یا نہیں، یا دیکھنے پر مجبور ہیں؟

کیا مقامی سماجی ساختیں ترقی یافتہ اقوام کے سوشل سپیسِیز سے مقابلہ کرنے کا دعویٰ کر سکتی ہیں؟ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے سے غیر ضروری جڑت کی وجہ سے کچھ دوسرے دوسروں کو ہی سٹیریوٹائپ کرنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی روشن خیال اور دیسی لبرل کی مقامیت شک کا شکار ہو جاتی ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ’’پہلے‘‘ کی غیر ضروری طرف داری تاریخی مادیت کو نظر انداز کرتے ہوئے موجودہ ثقافتی حالتوں سے موازنہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔

اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سامراجی اور استعماری طاقتوں کا کسی بھی روشن خیال پراجیکٹ کی تکمیل کی خاطر دوسری ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ جائز ہے۔ انگریزی میں لکھنے والے تارکینِ وطن ادیب مقامیت میں طبقاتی تضادات کو تقویت دیتے ہیں۔ پوسٹ کولونیل تناظر میں طبقاتی زیر و زبر نفسیاتی اجارہ داری کی جنگ بن جاتی ہے جس میں زبان کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی سماج کے اندر کوئی گروہ سامراج یا استعمار کی صورت نہیں بیٹھا ہوتا؟ کیا کوئی مقامی استحصالی قوت مقامی کلچر میں عام آدمی اور اس کے خاندان کے وسائل پر قبضہ نہیں جماتی؟ کیا ایک ریاست کے اندر، طاقت اور سرمایے کے گَٹھ جوڑ سے، مختلف نجی ریاستیں ظہور پذیر نہیں ہوتیں؟ ما بعد نو آبادیاتی معاشروں کی اکثریت ان تجربات سے گزری ہے جس کا نتیجہ دو بارہ پہلے سے دوستی اور نظریاتی، نسلی، لسانی ثقافتی طور پر اپنے جیسے دوسرے سے مغائر ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

دُہری شناخت کا مطلب دُہری وفا داری، دُہری اذیت اور دُہری خوشی بھی ہے۔ انگریزی زبان میں لکھے گئے فکشنل متون میں البتہ بیانوی بے باکی کا تناسب قدرے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ اس کا نفسیاتی رجسٹر ہے جس میں (ا)مکانی وسعت موجود ہے۔ فکشن انگریزی زبان میں لکھا جائے یا اردو میں، اس میں عام طور پر فکشن کے متون فکشن سے زیادہ سیاحتی تجربات محسوس ہوتے ہیں۔

تاریخی مادیت کا گہرا شعور اور احساس نہ ہو تو فکشنل متون میں سیاحتی کلچر ہی فروغ پائے گا۔ ترقی پسند تحریک میں تو ’’انگارے‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی ہلچل شروع ہو چکی تھی لیکن یہ افسانوی مجموعہ مقامی مہا بیانیوں پر تنقیدی اور تنقیصی یلغار ہونے کا تاثر دیتا ہے نا کہ نو آبادیاتی نظام کی نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت۔ پھر اس دور کی نقشہ جاتی سیاست نے ادیبوں کے نظریاتی مباحث کا بھی نقشہ تبدیل کر دیا۔

جہاں تک پوسٹ کولونیل اردو تناظر میں نسائی اور تانیثی مزاحمتی بیانیہ کا تعلق ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر رشید جہاں کی موت استعمار کے خلاف بلند ہونے والی ایک اہم تانیثی آواز کی موت ثابت ہوئی۔ رشید جہاں کے ’’انصاف اور قانون ‘‘جیسے افسانے کو نو آبادیاتی مزاحمت کا شاہ کار افسانہ کہا جا سکتا ہے۔

اردو تنقید نے ایسے بہت سے افسانوی متون کو نظر انداز کر دیا ہے جس میں اسے منٹو اور غلام عباس جیسی افسانویت نہیں ملی۔ یہاں تک کہ افسانہ بُو کو پوسٹ کولونیل رد عمل دیکھنے کی بجائے لفظ بُو کی جمالیات پر فوکس رہا ہے۔

پنجابی اردو فلموں میں بھی ما بعد نو آبادیاتی موضوعات مل جاتے ہیں مگر ان پر کسی بھی قسم کا تنقیدی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اردو میں ما بعد نو آبادیاتی مزاحمتی آوازوں کا فقدان اس بات کا بھی غماز ہے کہ مقامی فکری دھارا موجودہ سیاسی و ثقافتی حالات سے مطمئن نہیں۔ وہ ’’پہلے‘‘ کی سرمایہ دارانہ سوچ کے با وجود اس کی معاشی، علمی اور ثقافتی سر گرمیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہے۔