پیپلز بس سروس اور کہانی کفیل کی، طیارہ پہلوان کا

asad lashari
Asad Lashari

پیپلز بس سروس اور کہانی کفیل کی، طیارہ پہلوان کا

از، اسد لاشاری 

ستّر اور اسّی کی دھائی کی بات ہے۔ شمالی سندھ کے سرحدی شہر کشمور سے سکھر، شکارپور سے لاڑکانہ بسیں چلا کرتی تھیں۔ والدِ محترم اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ بسوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ پگڈنڈی نُما سڑک تھی، جس پر ویگن دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھیں۔

اب گڑھے ہیں اور گڑھوں کے درمیان کہیں کہیں سڑک بنی ہوئی ہے، جہاں صرف ویگنیں ہی چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ مسافروں سے ٹُھنسی ویگنوں میں سفر کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

بسوں کی اگر بات کی جائے تو اس زمانے میں کچھ ہماری بسیں بھی تھیں۔ جو کشمور سے شکارپور اور بعد ازاں سکھر روٹ پر چلا کرتی تھیں۔ٹرانسپورٹ کے شعبے سے جڑے ابّا کے کُچھ دوست گزرے ہیں، جن میں کفیل خان اور پہلوان طیارے کے مالک پہلوان چاچا قابل ذکر ہیں۔

ابا جب ان کا ذکر کرتے ہیں تو، ان کی آنکھوں میں عجب سی چمک آ جاتی ہے۔ گزرے وقتوں کے قِصّے کچھ اس طرح سے سناتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ ماضی کے ان کرداروں سے مل لیا جائے۔

لیکن وہ جن کرداروں میں ڈھلے تھے، وہ کردار نبھا چکے۔ اب ان سے ملنا، انھیں پہچاننا نا ممکن ہے۔

خاکی عمارت کے مکین، وقت کی قید سے آزادی چاہتے تھے۔ آزادی کی قیمت مگر بھاری ہوتی ہے۔ بدن کے شکستہ کھنڈر سے رہائی پانے کو اگر آزادی کہا جاتا ہے تو پھر شاید وہ آزاد ہیں۔ پہلے ہم ذرا پہلوان چاچا کا ذکر کر لیں، پھر آپ کو کفیل خان کی کہانی سنائیں گے۔

ابا بتاتے ہیں کہ پہلوان کے پاس دو بسیں تھیں۔ ان کی بسوں کے اوقاتِ کار کچھ ایسے تھے کہ ایک کشمور سے سکھر، دوسری سکھر سے کشمور کے لیے شام کے وقت نکلا کرتی تھی۔

کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ سواری نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ جس پر ہم پہلوان سے کہتے کہ آج سواری کم ہے، لہٰذا بس کشمور یا سکھر کے لیے بھیجنا گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا۔

وہ سامنے سے جواب دیتے کہ سواری ہو نہ ہو، مگر پہلوان طیارہ سڑک پر چلتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ خالی بس سڑک پر دوڑانے کا مقصد اصل اپنے مخالفین کو یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ پہلوان جُھکا نہیں، طیارہ رکا نہیں۔

کچھ ایسا ہی حال سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن کا ہے، جب سے انھیں وزارت ٹرانسپورٹ کا قلم دان سونپا گیا ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ سندھ میں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے وہ دن رات کام کر رہے ہیں۔

کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں لال بسوں کا انقلاب لانے کے بعد اب سکھر میں بھی لال بس چلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

جب کراچی میں پیپلز بس سروس شروع کی گئی تو ابتدائی طور پر دو روٹس پر بسیں چلائی گئیں؛ بعد ازاں مزید سات رُوٹس کا اضافہ کیا گیا۔

شہرِ قائد کے باسی ابھی سکون کا سانس لے کر بس میں سوار ہی ہوئے تھے کہ مون سون بارشوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ سڑکوں کی ابتر حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ روٹس کو کم کیا گیا، اور کچھ کی سروس کو یہ کہہ کر معطل کیا گیا کہ سڑکوں کی مرمت کے بعد دوبارہ ان روٹس کو بحال کیا جائے گا۔

مٹر گشت مزاج ہونے کے ناتے شہرِ نا پُرساں کی سڑکوں کے بارے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بارشوں سے پہلے بھی ان کی حالت کوئی مثالی نہیں تھی۔

حسبِ روایت جو کام پہلے کرنا تھا وہ بعد میں کیا جا رہا ہے، یعنی کہ بسیں پہلے چلائی گئیں اور اب سڑکیں بنائی جا رہی ہیں۔

شاید وزیرِ موصوف پہلوان چاچا کی طرح اپنے مخالفین پر رعب جمانا چاہتے ہیں۔ خیر یہ تو ہو گئی کراچی کی بات اب ذرا شمالی سندھ کے ثقافتی و تجارتی مرکز سکھر کی بات کر لیں جہاں آزمائشی سروس کے بعد اب کسی بھی وقت با ضابطہ طور پر پیپلز بس سروس کے آغاز کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

غمِ روزگار کی وجہ سے کراچی سے سکھر منتقل ہونا پڑا ہے۔ صبح، کلاس، شام شہر میں آوارہ گردی کرتے گزرتی ہے۔ گزشتہ چار ماہ میں شہر کے مرکزی علاقے گھوم لیے ہیں۔

بکھر سے نکھر کر سکھر بننے والے شہر کی سڑکیں خستہ حال ہیں، جابَہ جا پھیلی گندگی اور ٹوٹی پھوٹی مُنھ چِڑاتی سڑکوں نے شہریوں کو بے ہنگم زندگی جینے پر مجبور کر رکھا ہے۔

امید ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہُرانے سے گریز کیا جائے گا اور شہر میں لال بسیں، سڑکوں کی مرمت کے بعد چلائی جائیں گی۔

کفیل کی کہانی

خوش حال گھرانے سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے دوست کفیل کی کہانی کافی دل چسپ ہے۔

مصیبت میں گِھرے دوستوں کی مدد کرنے میں ہمیشہ سب سے آگے رہنے والے کفیل کے جو بس میں ہوتا وہ کر گزرتے۔ لیکن اس کی کچھ ایسی عادتیں بھی تھیں جو شاید اس کے اندر چھپے شرارتی بچے کی نشان دہی کرتی تھیں۔ 

اسے ہر بس کے اگلے اور پچھلے شیشے پر اپنا نام لکھا ہوا دیکھنے کی خواہش تھی۔ وہ جب سکھر میں رکتے تو دیکھتے کہ جن بسوں کے شیشے پر گرد جمی ہے، وہ اٹھتے اور خاموشی سے جا کر اپنا نام لکھتے اور پھر دیر تک اسے دیکھتے رہتے۔

دوست یار منع کرتے، نا راضی کا اظہار کرتے کہ ایسا مت کیا کرو، لیکن وہ عادت سے مجبور تھے۔ کچھ ایسے ہی ہمارے سیاسی رہ نُما ہیں جو پہلے سے بنے منصوبوں پر اپنے نام کی تختی لگا نے کے شوقین ہیں۔

رائے عامہ بدلنے کے لیے اپنے نام کی تختیاں ضرور لگائیں، تصاویر بنوائیں مگر کام بھی پھر پکے کریں کفیل خان کی طرح، وہ مسافروں کی سہولیات کا خوب خیال رکھتے تھے کیوں کہ مسافر ہی اس کے لیے سب کچھ تھے۔

وہ اصولوں کے پکے، سچے اور کھرے انسان تھے۔ جہاں ملازمین کے دکھ درد میں سنگی ساتھی ہوتے، وہیں فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتنے پر ان کو نوکری سے برخاست کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے تھے۔ 

کیا ہمارے سیاست دان کفیل خان کی طرح ہیں جو فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے والوں کو چلتا کریں، اور عوام کا بھی خوب خیال رکھیں؟