سیکس ایجوکیشن ناگزیر

سیکس ایجوکیشن ناگزیر
علامتی تصویر

سیکس ایجوکیشن ناگزیر

از، عمران مشتاق چوہان

ہمارے معاشرے کے اندر نیگیٹیویٹی (negativity) کی شرح پازیٹیویٹی (positivity) سے کئی فیصد زیادہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور میں انٹرمیڈیٹ پارٹ ون کا سٹوڈنٹ تھا، اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت ہمارے خطے میں چونکہ موجودہ وقت جتنی عام نہیں تھی، کم کم لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی تھی۔ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کیفے پر جا کر ہی انٹرنیٹ استعمال کیا کرتے تھے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت نایاب ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کو انٹرنیٹ کے بارے میں علم نہیں تھا۔

ایک دن ہمارے کمپیوٹر ٹیچر نے انٹرنیٹ کے فوائد بتاتے ہوئے ہمیں انٹرنیٹ کا استعمال سیکھنے، روز مرہ زندگی میں استعمال کرنے اور کالج سے ملنے والی اسائنمنٹس انٹرنیٹ کی مدد سے تیار کرنے کی ہدایت کی۔ ہوا یوں! ٹھیک اگلے دن کمپیوٹر ٹیچر نے بتایا کہ آپ میں سے کسی ایک کا بڑا بھائی مجھ سے ملا اور بڑے کرخت لہجے میں دریافت کیا کہ: آپ نے کلاس میں بچوں کو انٹرنیٹ جیسی بے حیا چیز استمعال کرنے کا سبق دیا ہے؟ ہم بچوں کو بے راہ روی سیکھنے کے لیے کالج بھیجتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔

یہ مثال ہمارے معاشرے کی اکثریتی سوچ کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ہماری اکثریت کسی نئی چیز کے بارے میں علم رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو، اسے بے جا تنقید کا نشانہ بنانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اب آئیے تحریر کے سبجیکٹ (subject) یعنی “سیکس ایجوکیشن” (جنسی تعلیم) کی طرف۔۔۔ بات جب لفظ “سیکس” کی ہوتی ہے تو ہمارے ہاں اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے مراد صرف انٹر کورس (intercourse) ہی لیتے ہیں۔ سیکس ایجوکیشن کی عدم فراہمی کے باعث ہمارے سماج میں جنس سے متعلق مسائل بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بسوں، بازاروں، ہسپتالوں، دفاتر و دیگر شعبہ ہائے زندگی میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے (sexual harassment) اور ریپ (rape) جیسے کیسز بہت تیزی سے عام ہو رہے ہیں۔

سیکس ایجوکیشن علم ہی کی بے شمار شاخوں میں سے ایک اہم ترین شاخ ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں سیکس ایجوکیشن بنیادی تعلیم کا لازمی حصہ ہے۔ اسی تعلیم کی بدولت بڑھتے ہوئے بہت سے جنسی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ماہرین تعلیم کو بھی چاہیے کہ “سیکس ایجوکیشن” کو ہر صورت نصاب میں شامل کریں۔ علم کی اس شاخ میں طلبا کو جنس سے متعلق وہ تمام بنیادی ضروری معلومات دی جاتی ہے جس کا ہونا ہر انسان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ “سیکس ایجوکیشن” میں عمر کے ساتھ ساتھ لڑکے، لڑکی یا ٹرانس جینڈر (transgender) کے جسم میں رونما ہونے والی تمام فطری تبدیلوں کے بارے میں مکمل آگاہی دی جاتی ہے۔ مرد و عورت کے جنسی ملاپ سے پھیلنے والی بیماریوں (sexually transmitted diseases) اور ان سے تحفظ کے لیے تمام ضروری احتیاطی تدابیر بھی دی جاتی ہیں۔

آج کل بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ہراساں کیے جانے جیسے واقعات آئے روز پیش آرہے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زینب نامی سات سالہ بچی کے ساتھ ہونے والا مکروہ عمل اس معاشرتی برائی کی صرف ایک مثال ہے۔ ہر روز اس طرح کے بیسیوں واقعات سامنے آتے ہیں لیکن ان کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ صرف سزائیں دینے سے یہ برائی کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ جرم کے خاتمے کے لیے جرم کے اسباب ختم کرنا اشد ضروری ہے۔ اس کے لیے بنیادی جنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں۔ بچوں کو اس قدر ڈرا دھمکا کر نہیں رکھنا چاہیے کہ بچے والدین یا ٹیچرز کو اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی ناخوش گوار واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے بھی ڈرتے یا شرماتے رہیں۔ سیکس ایجوکیشن سٹوڈنٹس کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور ریپ جیسی برائیوں سے تحفظ کے آسان طریقہ کار سکھا دیتی ہے۔

جہالت کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیکس کے مسائل پر لکھنا یا بولنا بے ہودگی و بے شرمی تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ چوری، ڈکیتی، قتل وغیرہ کی طرح sexual harassment اور ریپ بھی سنگین معاشرتی مسائل بن چکے ہیں۔ جن کے کنٹرول اور خاتمے کے لیے باقی برائیوں کی طرح باقاعدہ تعلیم اور آگاہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ بچے سیکس کے بارے میں اگر اپنی نصابی کتب سے نہیں سیکھیں گے تو سکول سے باہر کسی جاننے والے سے اس بارے میں لازمی طور پر پوچھیں گے۔ ہوسکتا ہے بتانے والا شخص بچے کی معصومیت اور سیکس سے متعلق لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بچے کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی کردے، جسے بچہ گھر یا سکول میں بتاتے ہوئے بھی گھبراتا، شرماتا اور ڈرتا رہے۔ ایسے حالات میں بچہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں کسی کو بتا دیے جانے یعنی بلیک میلنگ (blackmailing) جیسے خوف سے آئیندہ زندگی میں بھی جنسی زیادتی کا شکار بنا رہتا ہے۔

جس طرح معاشرتی جرائم کو سمجھنےاور ان کے خاتمے کے لیے کریمینالوجی (criminology) یعنی علم الجرائم حاصل کرنا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی مسائل اور برائیوں پر قابو پانے کے لیے جنسی تعلیم (sex education) کا حصول بھی اشد ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میں “جنسیات” سے متعلق باقاعدہ معیاری تعلیم دینے کے بغیر قصور جیسے اذیت ناک واقعات کی محض زبانی و تحریری مذمت بالکل فضول ہے۔ انسانی فلاح و بہبود کے علم پر خود ساختہ فتوے لگا کر “سیکس ایجوکیشن” کے خلاف نفرت اور غلط فہمیاں پھیلانے والوں کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ علم حاصل کرنا عبادت بھی ہے اور انسانی ضرورت بھی۔ اس سلسلے میں آگاہی مہم چلانے کے لیے ہر باشعور شخص کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بقول شاعر:

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا فراز

کہ اپنے حصے کی کوئی شمع ہی جلاتے جاتے