انقلاب، اصلاحات اور تحریک انصاف

محمد حسین چوہان

انقلاب، اصلاحات اور تحریک انصاف 

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

انقلاب و تبدیلی کا راستہ روکا نہیں جا سکتا، یہ کسی کے کہنے سے نہیں آتی بل کہ ماضی میں انقلاب کا آتش فشاں مادہ مختلف معاشی نا ہمواریوں، سیاسی وعوامی مفادات و ترجیحات اور کم زور حکومتی ڈھانچے کی بنیادوں کے نیچے الاؤ کی شکل میں پکتا رہتا ہے اور اچانک زور دار دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑتا ہے، اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، طبقاتی تفریق میں وسیع خلاء، معاشی ابتری، استحصالی بالائی حکم ران طبقے کی لوٹ مار، عوامی امنگوں اور تقاضوں کے بر عکس مخصوص خاندانوں کا اقتدار پر قبضہ، عوامی مفادات کے بر عکس مراعات یافتہ طبقہ کی فرماں رَوائی اور دیگر کئی پہلو ہیں جو انقلاب کا سبب بنتے ہیں۔

مگر معاشی ابتری وغربت اس کا نمایاں سبب ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس عوامی شعور اور معاشی و تجارتی سرگرمیاں جتنی زیادہ تیز تر ہوں وہاں جدید طبقہ قوت حاصل کر لیتا ہے اور روایتی سیاسی ڈحانچے کو تبدیل کر دیتا ہے۔ لازمی نہیں کہ عوام ہی اس تبدیلی میں شامل ہوں، ملک کے مقتدر ادارے بھی عوامی آواز کی حمایت میں شامل ہو جاتے ہیں، سیاسی و سماجی ارتقاء کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ سب پر برابر اثر انداز ہوتا ہے۔

طبقوں کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں، مڈل کلاس اشرافیہ کو پسند نہیں کرتی، اسی طرح عوامی طبقہ اسی وقت مذکورہ طبقات کی فرماں روائی کو قبول کرتا ہے، جب تک وہ منظم نہیں ہو جاتا۔ سیاسی و سماجی ارتقائی عمل میں معاشرے کا ہر فرد اور ہر طبقہ شامل ہوتا ہے۔ تبدیلی کے تمام تر اسباب مادی و سماجی ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں  تبدیلی کسی بہانے کی تلاش میں رہتی ہے، انقلاب ہمیشہ اندھے ہوتے ہیں، وہ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں اور ایک نئے معاشی و سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھتے ہیں۔

انقلاب قانون، کلچر، سماجی اور معاشی بنیاد و اقدار اور روایات کو یک سر تبدیل کر دیتے ہیں۔ حقیقی انقلاب وہی ہوتا ہے جس کی بنیاد معاشی بنیادوں پر استوار ہو اور اجتماعی سماجی حرکت سے ہم آہنگ ہو، اور اکثریتی عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ وہ کبھی حقیقی انقلاب و تبدیلی نہیں ہوتی جس کے ثمرات سے عوام مستفید نہ ہوں، مگر انقلاب کا سفر بَہ تدریج اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتا ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ متوسط طبقے کا لایا ہوا انقلاب کام یاب رہا، کیوں کہ انہوں نے محروم طبقات کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ 1785 کا امریکن انقلاب، 1789 کا فرانسیسی انقلاب1848 کا یورپین انقلاب1917 کا روسی انقلاب 1940 کا چینی انقلاب اور1959 کا کیوبن انقلاب معروف معنوں میں قابلِ ذکر ہیں، جہاں فرانسیسی انقلاب نے روایتی جاگیر داری نظام کا قلع و قمع کیا وہاں شخصی آزادی وجمہوریت کی بھی داغ بیل ڈالی۔

یہ ایک مثالی سوشلسٹ انقلاب تھا، جس کی ارتعاش  کے اثرات یورپ بھر میں مرتب ہوئے اور تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اسی طرح روسی اور چینی انقلاب نے بھی نہ صرف اپنے ملکوں میں معیاری تبدیلی لائی، بل کہ ان کے اثرات دنیا بھر پر مرتب ہوئے، جزوی اور کلی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ آج کی جدید تہذیب ان انقلابات دہر کا نتیجہ ہے۔ جو معاشرہ انقلابی فکرسے آگاہ نہیں ہوتا اور اس کو اپنے عمل کا حصہ نہیں بناتا، اپنے اندر ہی گل سڑ جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں مفاداتی اور استحصالی گروہ زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں، لیکن انقلاب کے ثمرات سے متمتع ہونے سے زیادہ انقلاب کے زخم ایک نسل کو ضرور سہنے پڑتے ہیں۔

کسی بھی قسم کے روایتی ڈھانچے کو مسمار کرنے کا جذبہ قوموں کی انقلابیت اور خلاقانہ جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک انقلابی ہزاروں سرکار کے مطیع و فرماں برداروں پر بھاری اور قابلِ تکریم ہوتا ہے، جس سے قوم کے حقیقی مسائل کا مداوا یقینی ہوتا ہے۔

مذکورہ  متشدد اور خونیں انقلابات کے بعد سماجی ارتقا کا سفر تیز تر ہو گیا، جمہوری سوچ پروان چڑھتی گئی، انقلاب کا کام اصلاحات سے لیا جانے لگا۔ علوم و فنون کی ترقی نے نئے مفاہیم کو جنم دیا۔ کلیت پسندی اور کٹر پن کی جگہ افہام و تفہیم اور سمجھوتہ کی راہیں ہموار کی گئیں، کیوں کہ عوامی شعور و جمہوریت مضبوط ہو چکے تھے، ٹریڈ یونین اور مزدور یونین اپنے مطالبات منوا رہی تھیں، تعلقات پیدا وار میں مطابقت اور توازن پیدا ہو چکا تھا۔

 ٹیکس اور اصلاحات کے ذریعے سماجی تحفظ قائم ہو چکا تھا۔ یہ سب سیاسی مہا بیانیہ کے بر عکس تجزیہ و انصاف پر مبنی تھا، آئیڈیالوجی کے بر عکس محنت و مشق کو اہمیت دی گئی، اس کے بر عکس انقلاب وقت کی ضرورت تھے ان کے لیے ماحول ساز گار تھا، زمانہ انقلاب کی ہول ناکیوں اور تباہیوں سے بھی آگاہ ہوا۔ انسانی شعور اور تجربات سے بھی آگاہ ہوا اور سیاسی وسماجی تشکیل کے لیے اس نے نئے راستے بھی تلاش کیے اور بہترین سماج کی تشکیل اور تعمیر کے لیے نئے سیاسی بیانیوں سے بھی کام لیا۔

جہاں قوت کے کم استعمال سے بہتری لائی جا سکتی تھی، وہاں اس نے افہام وتفییم اور سمجھوتے کا راستہ بھی تلاش کیا کیا، یہ انسان کا سیاسی و سماجی ارتقا تھا، جس نے کلیت پسندی اور کٹر پن کی جگہ قطرے میں دجلہ اور لفظ  و معنی میں مفاہیم کے آباد جہاں دیکھے، سوشل ڈیموکریسی انسانی سیاسی فکر کے ارتقائی سفر میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے، کیمونسٹ اور سوشلسٹ انقلاب کی مرصع و معتدل شکل سوشل ڈیموکریسی کی شکل میں ظاہر ہوئی، جس کو زمانۂِ حال میں ایک بہترین اور کام یاب نمونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ انقلاب کی دشمن نہیں مگر اس کے تسلسل کو حکمت سے جاری رکھنے کا سیاسی عمل ہے۔ انقلاب کے بر عکس آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے بہ تدریج سوشلزم کے اہداف، جمہوری و لبرل انداز سے حاصل کرنے کا طریقِ کار ہے، جس کا مقصد معاشی وسائل کی سماج میں منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے، اور عدلِ اجتماعی کے ذریعے ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے، یہ سخت گیری کے بر عکس بہ تدریج تبدیلی کی خواہاں ہے۔

یہ تاریخی جبر کو قوتِ ارادی سے ختم کرتی ہے کیوں کہ زمانۂِ حال کی عمارت ماضی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، اور انسان ماضی کے جبر کے نیچے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔

اس مجبوری اور جبر کو وہ جد و جہد اور قوت ارادی سے توڑنے کا فطری جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے، اس کے پاس تاریخی جبر سے لڑنے کا ہتھیار عقل وشعور اور نت نئے تجربات سے گزرنا ہے اور یہی قوتِ ارادی کا جذبہ ہے جو تاریخی جبر کو جد و جہد کے ذریعے ختم کرتا ہے، بہ قول مارکس انسان کو حالات اپنی مرضی سے ملے ہوئے نہیں ہوتے۔ مستقبل کی حسین وادیوں میں قدم رکھنے اور حال کا مالک بننے کے لیے اس کو زمانے کے سمندر سے گوہرِ فردا نکالنا ہوتا ہے، جو جد و جہد سے مَشتق ہے۔

اگر چِہ انسان کے سماجی وجود کا تعین شعور کے بر عکس اس کا سماجی وجود ہی متعین کرتا ہے، لیکن شعور و ارادہ مسلسل تبدیلی کے خواہاں اور آمادۂِ بغاوت بھی رہتے ہیں، سماجی وجود جو تاریخی جبر سے قائم ہوا ہے، مُصمّم قوتِ ارادی سے  شکست و ریخت سے دو چار ہو جاتا ہے، شعوری جد و جہد سیاسی معاشیات کی بھی رہینِ منت ہوتی ہے۔ ساز گار سیاسی نظام فرد کے ارادہ و شعور کے لیے مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

سوشل ڈیموکریسی میں مکالمہ اور عمل برابر چلتے ہیں اور معتدل راستہ تلاش کیا جاتا ہے، شخصی آزادی کا تصور احساس ذمہ داری کے ساتھ نتھی ہو گیا ہے۔ احتساب اور جواب دہی کا تصور معیار اور میرٹ کو قائم رکھتا ہے۔

یہ انقلاب کی ضرب سے جسم سے خون نہیں بہاتی مگر چیخیں آسمانوں تک ضرور بلند ہوتی  ہیں۔ جذبۂِ محرکہ سے ذاتی نشو و نما وترقی کے باب کھلتے ہیں۔ یہ خونیں انقلاب کا کام اصلاحات سے لیتی ہے، مگر جہاں ضرب کاری لگانی پڑتی ہے وہاں لیت و لعل سے کام نہیں لیتی۔

انقلاب کی چھڑی سے بھی استحصا لی قوتوں کو ہانکنے کا کام لے لیتی ہے۔ مارکس نے آخر میں آئئین و قانون  یعنی پارلیمنٹ کے ذریعے انقلابی تبدیلیوں کی حمایت کی تھی۔ اس نے طبقاتی جد و جہد کے بر عکس طبقاتی تفریق کا خاتمہ پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کو جائز قرار دیا تھا۔ اس بنا پر مغربی ممالک نے تبدیلی کا راستہ آئین و قانون کی بالا دستی کو قرار دیا۔

مگر پسماندہ سماج میں اصلاح احوال کے لیے ما ورائے قانون اقدامات ترقی کا سفر تیز تر کر دیتے ہیں، جہاں عوامیت اور مفاد عامہ کا پہلو غالب ہو، کیوں کہ سوشل ڈیموکریسی معاشرے کی مقتدر طبقات اور اشرافیہ کو ساتھ لے کر چلتی  ہے مگر ان کومستحسن نظروں سے نہیں دیکھتی جب تک وہ آئین وقانوں اور ریگولیشن کے پابند نہ ہو جائی۔

سوشل ڈیموکریسی کا خاصا ہے کہ وہاں قانون سب کے لیے ایک ہوتا ہے، جہاں عوامی مفاد کو طبقاتی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے، جس کا بہترین ماڈل سیکنڈینوئین ممالک ہیں، جنہوں نے ایک صدی کی مسلسل کوششوں سائنسی و صنعتی ترقی اور اداروں کی مینجمنٹ میں ایک مثال قائم کی۔ تمام قدرتی وسائل کو بہ رُوئے کار لا کر خود کفالت پیدا کی۔

1959 میں سویڈش ماہر تعلیم نے کہا، سائنس سماجی ترقی کی بہت متحرک قوت ہے…  فلاحی ریاست سائنس کی مدد کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی، جان ڈی برنال نے کہا، فطری سائنس اور تکنیکی علوم نے بہت سے مسائل حل کر دیے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سیاست وسائنس اکھٹی ہو گئی تھی، ماہرین نے تعمیرِ وطن میں اہم کردار ادا کیا۔ کلچر اور سیاست پر معاشی پالیسیاں سبقت لے گئیں۔

عوام کا معیارِ زندگی بلند ہوتا گیا، طبقات سکڑنے شروع ہو گئے۔ طبقاتی شعور اور طبقاتی جد و جہد نے ایک فلاحی ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ناروے میں ہمیشہ سے مارکسی تحریک مضبوط رہی، سویڈن میں بایاں بازو کمزور تھا، جس کی بنا پر اصلاحات وترقی کا عمل ناروے میں تیزی سے جاری رہا، جو عصر حاضر میں دنیا کی ایک بہترین اور مثالی فلاحی اور پُر امن ریاست ہے۔ طبقاتی جد و جہد میں کیمونسٹوں اور سوشلسٹوں نے تمام راہیں ہموار کر دی تھیں، مگر ملک کے تمام طبقات سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کی حمایت میں اکھٹے ہو گئے۔ جنہوں نے طبقات کی تفریق  کو ختم کرنے کا اصلاحات کے ذریعے بِیڑا اٹھایا۔

طبقات کو بَہ راہِ راست ضربِ کاری لگانے کی بَہ جائے قانون سازی اور اصلاحات کے ذریعے  قابلِ قبول بنایا۔ روسی سائنسی مینجمنٹ کے ساتھ عقلیت پسندی، افادیت پسندی اور عملیت پسندی کے فلسفوں کو اپنے قومی اور سیاسی فیصلوں میں جگہ دی۔ لیکن یہ سب کچھ طبقاتی جد و جہد اور طبقاتی شعور کا ہی نتیجہ تھا، قوتِ ارادی اور عقلی فیصلوں کی قوت نے آخر میں ایک  ایسے سماج کی بنیاد ڈالی جہاں طبقات پسِ منظر میں چلے گئے اور غیر طبقاتی معاشرے کا احساس ابھرنے لگا، کامل غیر طبقاتی سماج کا تصور فطری اصولوں کے خلاف بھی ہے جو ایک خواب کی دنیا سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا، غیر طبقاتی سماج وہیں ہوتا ہے، جہاں طبقاتی تفریق کا شدت سے احساس نہ ابھرے۔ سوشل ڈیموکریسی نے سرمایہ داری اور سوشلزم کی شادی ایک  فلاحی ریاست میں کر دی جہاں دونوں ہنسی خوشی سے رہنے لگے۔

 سوشل ڈیموکریسی نے اپنے آپ کو ایک غیر نظریاتی ریاست، ازم سے پاک، مہا بیانیہ سے آزاد بنانے کی بھر پور کوشش کی، جو ماضی کے تجربات کو عصری تقاضوں اور عوامی شعور سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ عملیت پسندی کو سیاسی بیانیہ میں مرکزی جگہ دیتی ہے، سیاسی دشمنوں سے لڑتی نہیں مگر تضادات کو بھی قبول نہیں کرتی، روا داری، عالم گیریت اور برداشت  کو بھی قبول کرتی ہے جو اس کو نیو لبرل ازم کے قریب کر دیتا ہے۔

اداروں میں ریاستی مداخلت، کنٹرول مارکیٹ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اس کو سوشلزم سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ ہر شُعبۂِ حیات میں سائنسی طرزِ فکر اور طرزِ عمل اختیار کرنے پر زور دیتی ہے۔ روایتی اندازِ سیاست کو رد کرتی ہے۔ مذہبی سیاست کو حقائق و تجربات کے بر عکس جانتی ہے، مگرہمیشہ تجربے کو تجرید پر فوقیت دیتی ہے۔ خیال پرستی اور روایت پسندی کو زمانۂِ حال کے فیصلوں میں شامل نہیں کرتی، مگر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کی راہیں تلاش کرتی ہے، جہاں سیاست عملیت پسندی اور افادیت پسندی کے سوا کچھ نہیں رہتی۔

سیاسی انتشار کو ختم کرکے خاموش انقلاب اور جہدِ مسلسل کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ نظریہ کا پرچار نہیں کرتی، صرف عمل سے نظریہ کا اظہار ہوتا ہے۔ جدید مادیت اور ٹیکنالوجی سے سماجی ترقی کا آغاز کرتی ہے اور عوامی مسائل کا حل پیش کرتی ہے، جہاں سیاست سائنس کی چھاتیوں سے دودھ پیتی ہے۔ انقلاب کے بر عکس سوشل ڈیموکریسی نے یہ سفر وسیع ماضی کے تجربات سے گزر کر طے کیا ہے، جو مسلسل سیاسی تحریکوں اور سائنسی و علمی ترقی کا نتیجہ ہے۔

فکری اعتبار سے یہ  لندن کی فیبین فلاسفیکل سوسائٹی اور امریکن عملیت پسندانہ فلسفے سے زیادہ متاثر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جو سوشلزم کے انقلابی فلسفے کو اصلاحات کے ذریعے بھی قبول کرتی ہے، اس کے نزدک نظریہ و ازم کے مقابلے میں صداقتِ علمی  اور حقائق کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، مگر عقلیت پسندی اور ریاست کے تصور سے بھی آزاد نہیں، اس بنا پرمکمل ازم سے یہ بھی پاک نہیں ہو سکی، مگر سوشلزم کی سخت گیری اور قدامت پسندی کی ماضی کے حقائق کو تجریدی شکل دینے کی کوشش میں بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی، دوسرے سیاسی نظاموں سے بہت کچھ مستعار لے کر اپنی ایک الگ انفرادیت قائم کرتی ہے، مگر اس کے علمی وسیاسی رشتے دوسرے سیاسی نظاموں سے بھی جڑے رہتے ہیں، یہ بلا عذر کہا جا سکتا ہے موجودہ سیاسی نظاموں میں یہ سب سے زیادہ مہذب و شائستہ اور ترقی یافتہ نارڈک سیاسی ماڈل ہے، جس کو علم و تجربات اور عقلِ سلیم سے تیار کیا گیا ہے۔

مگر جہاں ایک ریاست کا تصور آتا ہے وہاں یہ بھی آئیڈیالوجی کے تصور سے آزاد نہیں ہو سکتی، مگر اس کا حسن یہ ہے کہ کٹر پن اور تجرید کو بھی قبول نہیں کرتی۔ اگر اس کا کسی نظام فکر سے تضاد دیکھنا ہو تو روایتی سرمایہ داری اور سوشل ڈیموکریسی کے ما بین  نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان میں ابھی تک لبرل یا سوشل ڈیموکریسی کا آغاز نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی اتنا جلدی ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہاں ابھی تک عملیت پسندی اور افادیت پسندی کے بر عکس انتشاری اور مفاداتی طبقہ حکم ران چلا آ رہا ہے۔ قوم خاندانوں، فرقوں اور علاقوں کی سیاست سے  باہر نہیں نکل سکی۔ شخصیات عوامی مسائل پر ترجیح رکھتی ہیں۔ قانون کی حکم رانی کا خواب شرمندۂِ تعبیر نہیں ہوا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے صرف چند خاندانوں اور ایک مخصوص طبقے کو جنم دیا ہے۔ طبقاتی شعور عوام میں پیدا نہیں ہوا ہے اور جس کی وجہ سے طبقاتی تفریق بڑھی ہے۔ امراء و اشرافیہ اور جاگیر دار طبقہ کو ابھی تک نجات دہندہ سمجھا جا رہا ہے۔

لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے ہے، جس کو مسلسل روایتی سیاست دان فکری مغالطوں میں الجھا کر بے وقوف بنا رہے ہیں۔ سماجی ارتقاء تیزی سے جاری ہے مگر عوام کو اٹھ کر چلنے کی سَکت نہیں ہے۔ وہ مسلسل ماضی کے جبر کے نیچے جینے پر مجبور ہیں۔ ماضی کے معاشی جبر سے نکلنے کے لیے موجودہ حکومت کو اپنا سب کچھ داؤ پر لگانا ہو گا۔

عملی اقدامات اور ترقی کے  منافع بخش منصوبہ جات کے آغاز کے بَہ غیر کوئی خواب شرمندۂِ تعبیر نہیں ہو گا، کیوں کہ ماضی کا معاشی جبر جس کا عملی اظہار حال میں ہوا ہے، اس  سے نمٹنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اور جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔ کلچرل تبدیلی نا گزیر ہو گئی ہے، حکمران طبقہ کو ایک مثالی و حقیقی جمہوری اور سادہ کلچر متعارف کرنے کی ضرورت ہے، ہر وزیر کو کار کردگی اور محنت سے ترقی کی ایک مثال قائم کرنی ہو گی۔

اشرافیہ اقدار کی نفی کرتا ہو گی جو طبقاتی تفریق اور محرمیوں کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ ملک کو بیرونی دشمنوں کے بر عکس اندرونی سیاسی مفاداتی گروہوں سے زیادہ خطرہ ہے جو ملکی معیشت کی کئی عشروں سے جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں، احتساب کی چھڑی کا بے لاگ چلنا تبدیلی کے سفر کو آسان بنا دیتا ہے، اگر مجرم سزا کے مستحق ہیں تو عوام جزا بھی تو چاہتی ہے، جب تک عوام کو ریلیف نہیں ملے گا، حکم رانوں پر اعتماد بَہ حال نہیں ہو سکے گا۔

لیکن عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ معاشی بحران موجودہ حکم رانوں کا پیدا کردہ نہیں مگر اس کا خاتمہ بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر موجودہ حکومت ایک بہترین سیاسی کلچر اور مؤثر نظام دینے میں کام یاب ہو گئی۔ میرٹ اور انصاف کے عملی مظاہر عوامی شعور کا حصہ بن گئے، معاشی ترقی کے لیے تمام شعبہ ہائے حیات کو سائنسی بنیادوں پر استوار کر کے ترقی کے سفر کا آغاز ہو گیا، تو سوشل ڈیموکریسی  کے خواب کو کوئی شرمندۂِ تعبیر ہونے سے روک نہیں سکے گا۔

عمران خان  اور اس کے مخلص کا رکنوں کی کوششیں رنگ لائیں گی۔ یہ لوگ نیت کے صاف اور ارادے کے پکے ہیں.مگر حکمت، تجربہ اور ٹھوس عملی اقدامات کے بَہ غیر سب خواب ادھورے اور منصوبے نا مکمل ہیں۔