مذہب اور نظریے کی دعوت میں فرق

Tariq Ahmed Siddiqui aik Rozan
طارق احمد صدیقی، صاحبِ مضمون

مذہب اور نظریے کی دعوت میں فرق

از، طارق احمد صدیقی 

موجودہ دور میں مذہب کی دعوت اور نظریے کی دعوت میں فرق ہے۔ مذہب کی دعوت قبول کرنے کے نتیجے میں ایک شخص اپنے معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔

جب ایک فرد اپنا مذہب بدلتا ہے تو اس کے نکاح و طلاق، وراثت، پوجا پاٹھ، تیج تیوہار، اور پیدائش و موت کی رسومات بدل جاتی ہیں۔ وہ جن معاشرتی روابط و تعلقات میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ان کا ہر تار کٹ جاتا ہے سوائے حسنِ سلوک کے جو وہ اپنے رشتے داروں سے کر سکتا ہے۔

وہ اپنے آبائی معاشرے کے لیے بالکل اجنبی بن جاتا ہے حالاں کہ اپنے خاندان والوں سے اس کو نسبت ہوتی ہے اور دوستوں اور رشتے داروں سے ملتا جلتا رہ سکتا ہے۔

اس کے خاندان والوں اور حلقۂِ احباب کے لیے یہ سخت اذیت ناک بات ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اپنا مذہب بدلنے والا شخص اپنے پرانے مذہب کو باطل سمجھتا ہے۔

اکثر صورتوں میں نیا مذہب اختیار کرنے والے اپنے پرانے مذہب کو باطل یا تحریف شدہ ہی سمجھتے ہیں۔

جب تبدیلئِ مذہب کی اِکّا دُکّا مثالیں نظر آنے لگتی ہیں تب مَدعُو قوم میں سخت بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس کے تدارک کے طریقے سوچنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ دور ِ جدید میں یہ ممکن نہیں کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب عقلی اعتبار سے انسانی افراد کو اتنے وسیع پیمانے پر مطمئن کر دے کہ قوم کی قوم اس نئے مذہب کو اپنا لے۔

فی زمانہ حقیقت یہی ہے کہ تبدیلئِ مذہب کی مثالیں آٹے میں نمَک کے برابر یا چھٹ پٹ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن مدعُو قوم کے بہت سے افراد اِن گنی چنی مثالوں کو اپنے قومی وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ لیتے ہیں۔

فرقہ پرستی کی تاریخ اور اس کے اسباب پر اگر آپ تحقیق کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کی تہہ میں ایک بڑا سبب یہی مذہبی دعوت ہے جو ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں پر پیش کرتے ہیں۔

اس مذہبی دعوت کے مقابلے میں کسی نظریے کی دعوت بالکل مختلف چیز ہے۔ نظریے کی دعوت افراد سے ان کے خاندانی و معاشرتی روابط اور تعلقات کو نہیں چھڑاتی۔ ان کے جینے اور مرنے کے طریقے میں ایسی تبدیلی پیدا نہیں کرتی کہ اس کے نتیجے میں ان کی قوم یا تہذیب صفحۂِ ہستی سے مٹتی چلی جائے۔

دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص کسی بھی فلسفیانہ یا سائنسی نظریے کو قبول کر سکتا ہے اور بَہ دستور اپنے پرانے مذہب میں رہ سکتا ہے، اور رہتا ہے۔ یہاں فرقہ پرستی اور اس پر مبنی تصادم کا خطرہ نہیں ہوتا۔

غرض، مذہب کی طرف دعوت دینا اور نظریہ کی طرف دعوت دینا ان دونوں میں بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔