مطالعے کے زینے کرشن چندر سے بیدی تک

Khalid Fateh Muhammed
خالد فتح محمد

مطالعے کے زینے کرشن چندر سے بیدی تک

از، خالد فتح محمد 

مجھے سَن یاد نہیں جب میں نے پہلی بار کرشن چندر کو پڑھا تھا۔ یہ یقیناً 55 سے 60 سال پہلے رہا ہو گا۔ جو کتاب میں نے پڑھی وہ میں دوبارہ دیکھ نہیں سکا؛ یہ کوئی اردو کا پہلا یا دوسرا قاعدہ تھا۔ کم عمری میں بھی کرشن چندر کے طنز نے اپنی گرفت میں ایسے لیا کہ آج تک اس کا اسیر ہوں۔ یہ کوئی زلف گرہ گیر نہیں، لیکن اس کی جکڑ سے نکلنا محال ہے۔ 

کرشن چندر کو جب مزید پڑھا تو ان کے ہاں کی رومانویت نے لطف دیا۔ ان کی منظر کَشی، کرداروں کے مزاجوں کی نرماہٹ اور محرومیاں ایک خواب میں لے جاتیں۔ 

شاید خود خواب بُنتا رہتا تھا اس لیے اس رومانویت نے مجھے اپنی ایک دنیا تعمیر کرنے یا بسانے میں مدد دی۔ کرشن چندر کے ساتھ شناسائی بڑھی تو مجھے ان کے ہاں بغاوت نظر آئی۔ اردو فکشن میں بغاوت جا بہ جا نظر آتی ہے، لیکن نظریے کے ساتھ جُڑی بغاوت کرشن چندر کے ہاں ہی ملی۔ 

یہ بغاوت اپنی کسی محرومی کے بدلے میں نہیں تھی، کرشن چندر انسانیت کی سر بلندی میں یقین رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسے فکشن نگار تھے جن کی سوچ گلیوں، کُوچوں، یا اپنی ذات سے نکل کر وقت اور خلاء کی سرحدوں کو پار کر جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ محروم اور پسے ہوئے لوگوں کے ساتھی اور غم خوار رہے۔ 

krishan chander
کرشن چندر

کرشن چندر واحد فکشن نگار تھے جن کے موضوعات میں اتنا تنوّع تھا کہ ساٹھ سے کچھ اوپر کی زندگی میں وہ اردو ادب کو ایک گراں قدر سرمایہ دے گئے، جسے (میرے خیال میں) انسانی ہم دردی کے مخالفین منظرِ عام پر آنے کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اِنھیں صرف ایک رومانوی فکشن نگار ہی سمجھا جائے، اس سرمایے کو ایک طرح سے مقبولِ عام فکشن ہی سمجھا جائے۔ 

آج جب ہم متعدد قسم کے تشدد اور عدمِ برداشت کا شکار ہو چکے ہیں۔ کرشن چندر کا فکشن جو انسانی اقدار کی سر بلندی اور بین الاقوامیت کا نمائندہ ہے، قارئین تک پہنچا چاہیے، تا کہ ہم اس اہم فکشن نگار کو سمجھ سکیں۔ 

کرشن چندر کی سب سے بڑی خوبی ان کی وہ تخلیقی صلاحیت ہے جس سے وہ ایک تنکے میں سے بھی ہمیں طویل کہانی نکال کر دے سکتے تھے۔ آج کرشن چندر کو پڑھنا اور سمجھنا لازم ہو گیا ہے۔

میں چند دن قبل کرشن چندر اور ارنسٹ ہیمنگ وے کا ایک ناول پڑھ چکا تھا، جب راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ” گرہن” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔  

میں ایسی تحریر کا عادی نہیں تھا۔ مجھے یہ افسانہ کھردرا اور کچھ اَن جانا سا لگا اور میں بیدی کے ساتھ آگے نہ چل سکا۔ 

دو سال بعد سال کی بہترین نثر کا انتخاب پڑھا۔ تب ہر سال نثر اور شاعری کا ایسا انتخاب شائع ہوا کرتا تھا، جس میں بیدی کا افسانہ “ٹرمینس سے پرے” شامل تھا۔ وہاں سے بیدی کے ساتھ ایک طویل رفاقت کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ 

rajindar singh bedi
راجندر سنگھ بیدی

اس وقت کا ادب ذات کو ذات سے باہر نکل کر کھوجنا چاہتا تھا، جب کہ بیدی نے ذات کی اپنے اندر ہی ڈھونڈ شروع کر دی۔ یہ ایک مشکل کام ہے پر بیدی نے اسے سادہ اور دل چسپ بنا دیا تھا۔ قاری بیدی کے اندر جانے کے بہ جائے اپنے اندر کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جاتا ہے۔ 

بیدی کی تحریر جادوئی اثر ہوتی ہے، وہ اپنے قاری کو ایسے سفر پر لے جاتی ہے جہاں وہ معاشرے اور اساطیر کو کھنگالتا چلا جاتا ہے۔ 

عموماً فکشن نگار اساطیر میں کہانی لکھتے ہیں جو تخلیقی ہنر وری کا اتنا کمال نہیں۔ بیدی کہانی میں اساطیر لکھتے ہیں جو انھیں ایک نئی ڈائمینش دیتے ہیں۔

اپنی کہانی گوئی میں بیدی ہمیشہ مشکل یا ایسا راستہ اختیار کرتے تھے جو معمول سے ہٹا ہوتا تھا۔ وہ اپنے وقوعے میں ایسی اَن ہونی واردات ڈالتے، اس کی گہرائی میں کسی ٹوبے کی طرح نیچے کیچ تک بھی چلے جاتے، وہ انسانی نفسیات کو سمجھتے تھے اور اور ان کے کرداروں کے رویّوں کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی تھی، کیوں کہ وہ کسی ضابطے یا اصول کے پابند نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہیں بھی بیدی کے تابِع نہیں ہوتے تھے، انھیں ان کی نفسیات ہی متحرک رکھتی۔ بیدی اپنے فکشن کو ہمیشہ متحرک رکھتے تھے۔ 

 بیدی اپنے وقوعے کے ماحول پر مکمل طور پر حاوی ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں ایک جادوئی کیفیت ہوتی ہے: ایسا نہیں کہ وہ کچھ اوپرا اور غیر فطری تخلیق کرتے ہیں، وہ کسی مانوس ماحول کو سِحر انگیز بنا دیتے اور وہاں کردار اپنے معمول کی زندگی میں سے غیر معمولی واقعات میں گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

“ایک چادر میلی سی” ایک مختصر ناول ہے، جسے دنیا کے چند بڑے ناولوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بیدی نے اس معاشرتی کہانی کو ایک جادوئی انداز میں پیش کیا ہے جہاں ہونے کے ساتھ اَن ہونا ہے اور اَن ہونے کے ساتھ ہونا ملتا ہے۔ 

یہ ناول ہی بیدی کو بین الاقوامی ادب میں نمایاں مقام پر فائز کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ تقسیم پر لکھے گئے ان کے افسانے”لاجونتی” کا ہے۔ 

تقسیم پر مَنوں اور ٹنوں کے حساب سے فکشن لکھا گیا تھا؛ کچھ تو صرف دوڑ میں شامل ہونے کے لیے۔ یہ افسانہ ایک نیا رخ سامنے لاتا ہے جہاں مغویہ کو اپنے اِغواء کرنے والے سے محبت ہو جاتی۔ یہ تقسیم کو اجتماعی رویے کے بہ جائے انفرادی سوچ سے دیکھنے کی واردات ہے۔  

ہمارے ہاں کرشن چندر کی طرح بیدی کو بھی شیلف تک محدود رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ “غیر مسلم” ادیب ہیں۔ ان “دانش وروں” کو کوئی سمجھائے کہ ادیب کا کوئی مذہب یا جینڈر نہیں ہوتا۔ بیدی کو نئی نسل کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے ہاں ایک خزانہ ہے جس کا کھوج لگانا ضروری ہے تا کہ “گرہن” جیسے افسانے کی مکمل انٹرپری ٹیشن ہو سکے۔