مجید اچکزئی کا مقدمہ : دھوم دھڑکے سے پرے کچھ سنجیدہ معروضات

ایک روزن لکھاری
عابد میر ، مدیر حال حوال صاحب مضمون

مجید اچکزئی کا مقدمہ : دھوم دھڑکے سے پرے کچھ سنجیدہ معروضات

(عابد میر)

کوئٹہ میں ٹریفک پولیس اہلکار کی، رکن اسمبلی کی گاڑی سے ٹکر کے نتیجے میں ہونے والی ہلاک کے بعد گزشتہ دس روز سے جو گرد ہمارے ہاں اس معاملے پر اٹھی ہے، وہاں کوئی سنجیدہ بات کرنا آ بیل مجھے مار کے مصداق ہی ہے۔

اس لیے کہ اس معاملے پر دو واضح دھڑے تشکیل پا چکے ہیں؛ ایک طرف وہ ہیں جو رکن اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کو ایک سفاک قاتل اور درندہ سمجھتے ہیں اور فوری پھانسی کا حق دار قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب وہ ہیں جو انہیں بالکل ہی معصوم اور بے گناہ خیال کرتے ہیں، اور اس سارے عمل کا کسی گہری سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ایسے میں ان دونوں سے ہٹ کر جو بھی کوئی سنجیدہ بات کرے گا، دونوں کے مابین سینڈوچ تو بنےگا ہی۔

لیکن جب ہر طرف آگ لگی ہو تو اپنی چونچ میں پانی بھر کر لانے والی چڑیا کی اہمیت مزید دگنی ہو جاتی ہے۔

سو، آئیے اس معاملے کی کچھ سنجیدہ معروضات پہ بات کرتے ہیں۔

1۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ 20 جون کی شام کوئٹہ کے زرغون روڈ پہ ایک حادثہ پیش آیا۔ ایسا حادثہ، جیسا دنیا میں، پاکستان میں، بلوچستان میں کہیں پر بھی پیش آ سکتا ہے۔ یہ ماننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ حادثہ بہرحال غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے، اس میں قصد شامل نہیں ہوتا۔ غفلت کی بھی سزا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ قصد کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اب دوسری بات یہ کہ غفلت کی سزا کا تعین، اس کے نتیجے پر ہو گا۔ نتیجہ ایک بے گناہ انسان کی موت کی صورت برآمد ہوا۔ سزا و جزا کا اختیار اب مکمل طور پر متاثرہ فریق کے پاس ہے۔ ضروری ہے کہ صلح کی خواہش رکھی جائے۔ خیر کی اور نیکی کی خواہش کی جائے۔

2۔ مجید اچکزئی نے اپنا مقدمہ خود کم زور کیا اور اسے خود اپنی حرکتوں سے بگاڑا۔
(الف) انہوں نے ابتدائی طور پر اپنے گارڈ کو پولیس کے حوالے کیا۔ بعدازاں اسے بھی چھڑا کر لے گئے اور ایف آئی آر میں نامعلوم افراد لکھوا دیا۔
(ب) میڈیا میں انہوں نے ازالے کی بات تو کی لیکن گرفتاری تک پیش نہیں ہوئے، گاڑی خود چلانے کا اقرار نہیں کیا تاوقتیکہ تصاویر سامنے نہیں آئیں۔
(ج) صحافیوں کے لیے غیر ضروری طور پر انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
(د) غلطی ماننے کی بجائے اس میں میڈیا کی سازش تلاش کرتے رہے۔

البتہ میڈیا نے بھی اس معاملے میں معمول سے ہٹ کر پھرتی دکھائی، اس کے اسباب پہ آگے چل کر بات ہو گی۔

3۔ مجید اچکزئی قصور وار ہیں، یہ بات درست ہے۔ ان سے قانون کے مطابق معاملہ ہونا چاہیے، یہ بھی درست ہے۔ لیکن اس کی آڑ میں کسی قسم کی نسل پرستی کا مظاہرہ کسی صورت درست نہیں۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ایسے کوئی لوگ جو عام طور پہ سوشل میڈیا پہ اتنے ایکٹو نہیں رہتے، انہوں نے بھی محض پشتون دشمنی میں ایک غفلت کو جرم اور قتلِ عمد بنا کر پیش کیا۔ بعض احباب اس کیس میں یوں دلچسپی لیتے رہے، گویا بلوچستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہی ہے، اس کے حل ہوتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔

4۔ ان کے مقابلے میں پشتون دوستوں کے ہاں بھی ایسے نسل پرست سامنے آئے جو ایک طرف اچکزئی صاحب کو معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے پہ تلے رہے تو دوسری جانب یہ زہر پھیلاتے رہے کہ اس کی آڑ میں بلوچ ان کے خلاف اپنی نفرت اور بغض کا اظہار کر رہے ہیں۔ گو کہ جیسا ہم نے ذکر کیا کہ بعض نسل پرستوں نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اس کی آڑ میں بلوچ، پشتون روایات اور رشتوں کو بہ طور مجموعی نشانہ بنانا ایک اور نسل پرستانہ رویہ ہے۔ یہ اتنا ہی قابلِ مذمت ہے جتنا کہ اولذکر۔ بلوچ ایکٹوسٹ اس سے پہلے بلوچ پارلیمانی لیڈروں پہ بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال میگا کرپشن کیس کی ہے۔ جس میں نامزد سیکرٹری اور مشیر خزانہ دونوں بلوچ تھے۔ لیکن ان سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی گئی۔ مجموعی طور پر پورے سماج نے ان کے اس اقدام کو رد کیا۔ بلکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس لیے نسل پرستی کے جواب میں نسل پرستی ایسے ہی ہے، جیسے گدھا انسان کو دولتی مار دے تو جواب میں انسان بھی وہی عمل دہرائے۔

عابد میر کے ہی قلم سے: جلتے خوابوں کی کہانیاں

5۔ میڈیا کی اس معاملے میں دلچسپی غیرمعمولی اور حیران کن تھی۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ بلوچستان کے اہم ترین مسائل بھی مرکزی میڈیا میں اتنی جگہ نہیں پاتے اور بلوچستان کو ہمیشہ میڈیا سے شکوہ رہا ہے۔ لیکن اس معاملے میں جو پھرتی دکھائی گئی، وہ میڈیا کی نیت میں کھوٹ کی چغلی کھاتی ہے۔ کچھ اور تانے بانے ملائیں تو کہانی کی کڑیاں جڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جیسے کہ مجید اچکزئی کو ان کے گھر سے گرفتار ایف سی نے کیا، حالاں کہ یہ سیدھا سیدھا پولیس کا معاملہ تھا۔ پھر یہ کہ گھر سے ہونے والی گرفتاری کی موبائل سے ویڈیو کس نے بنائی؟ سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا کو کہاں سے حاصل ہوئی؟ حتیٰ کہ گارڈ سے تفتیش کے دوران بھی چوری چھپے ایک ویڈیو بنائی گئی جسے سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کر دیا گیا۔ یہ سب کس نے کیا اور ایسا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

6۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا اس واقعہ کا ازخود نوٹس لینا سر آنکھوں پہ، لیکن اسی کوئٹہ شہر میں غیرقانونی طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین کے ایک کیمپ کو تین ہزار ایام ہونے کو آئے۔ اک نظر اِدھر بھی ہو اے مہرباں۔ میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پہ بھی کبھی اتنی ہی کوریج دے دیں۔ بلوچستان میں غیرقانونی آپریشن، لوگوں کی گم شدگی، اغوا، قتل و غارت گری۔۔۔اچھا یہ نہ سہی، بلوچستان کی ’اچھائیوں‘ پر ہی کبھی کوئی بات کر لیں!

7۔ تازہ معاملے میں کہا جا رہا ہے کہ مجید اچکزئی 2009 کے ایک اغوا کے مقدمے میں عدالت سے اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ لیکن ان کے اشتہاری قرار دیے جانے پہ بغلیں بجانے کی بجائے متعلقہ اداروں سے، حکومت سے، ریاست سے پوچھا جانا چاہیے کہ ایک اشتہاری قرار دیا گیا شخص اسمبلی تک کیسے پہنچا؟ یعنی یہ واقعہ نہ ہوتا تو عدالت بھی اس معاملے پر خاموش ہی رہتی؟۔ اس معاملے میں جو جو ادارے ملوث ہیں، ان سب کو اشتہاری قرار دینا چاہیے۔

8۔ اب اس پس منظر میں اگر بعض سوشل میڈیا ایکٹوسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کی طاقت سے ہوا ہے، اور ’عوامی دباؤ‘ کے باعث ادارے اس کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئے ہیں، توانہیں اس خوش فہمی سے نکل آنا چاہیے۔ وگرنہ ثبوت کے لیے ایسی ہی ایک کمپین کسی لاپتہ ہونے والے فرد کے لیے چلائیں اور پھر’عوامی طاقت‘ کا نتیجہ دیکھ لیں۔ اچھا یہ نہیں تو بلوچستان حکومت کی نااہلی، کروڑوں روپے کے فنڈز کے لیپس ہونے پہ، سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کے فقدان پہ، کسی ایک عوامی مسئلے پہ سوشل میڈیا پہ مہم چلائیں، اور اداروں کا ردِ عمل دیکھ لیں، اپنی چادر کا اندازہ ہو جائے گا۔

المختصر، یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ مذکورہ حادثہ ایک اتفاقی واقعہ تھا، لیکن مجید اچکزئی کی گرفتاری اور ان سے متعلق معاملات معمول کا معاملہ نہیں۔ موجود ثبوتوں کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ حادثہ اتفاقی تھا، لیکن اس کے بعد کا سارا کچھ پلانٹڈ ہے۔ ویڈیوز بنانا، انہیں لیک کرنا، تصاویر بنا کر میڈیا میں لے آنا، یہ سب کسی کی ایما پہ ہے۔ اور یہ اب محض ایک روڈ حادثے کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ اب ایک سیاسی جماعت اور چند طاقت وراداروں کی رسہ کشی کا معاملہ بن گیا ہے۔ جہاں اس کی آڑ میں ایک دوسرے سے پرانے معاملات چکتا کرنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ اب سیاسی لین دین کا معاملہ بن چکا ہے۔

ایکٹوسٹوں کو چاہیے کہ وہ صرف متاثرہ فریق کے انصاف کے لیے کوشش کریں۔ اور انصاف محض موت کے بدلے موت سے نہیں ہوتا۔ جو ہونا تھا ہو چکا، اب جو زندہ ہیں، ان کے لیے ہر ممکن آسانی تلاش کی جائے۔ جرم کی سزا ملنی چاہیے، لیکن اس کی آڑ میں ہر نوع کے نسل پرستانہ خیالات کی مذمت کرنی چاہیے۔ سیاسی قوتوں کو نشانہ بنانے کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ غیرقانونی، غیر آئینی اقدامات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اور اس قول کو دہراتے رہنا چاہیے کہ نفرت جرم سے کرنی چاہیے، مجرم سے نہیں!


Courtesy: haalhawal.com