سیال کوٹ میں جلا جسد، جسم سے نفرت کی ثقافت کا ثمرہ 

Naseer Ahmed
نصیر احمد

سیال کوٹ میں جلا جسد، جسم سے نفرت کی ثقافت کا ثمرہ 

از، نصیر احمد

پاکستان میں بہ طور فیکٹری منیجر کام کرتے سری لنکا کے غریبُ الوطن پریانتھا کمارا کے جنونی ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کے سانحے  میں ہمارے نفرتوں اور جنون پر استوار معاشروں کی نفرتوں کی انتہائیں موجود ہیں۔ یہ نفرتیں ہمارے معاشروں کے  غالِب تصوّرِ حیات اور اس تصور حیات پر مبنی معاشرتی حقائق میں موجود ہیں۔

ان نفرتوں میں سے ایک نفرت تو انسانی جسم سے ہے کہ آرزو کا مرکز اور آلائشوں کا مسکن سمجھا جاتا ہے؛ سو جسم کو اذیت دے کر آرزو اور آلائش دونوں کے اثرات کم کیے جاتے ہیں۔ وہ تو ہو نہیں سکتے کہ وہ کوئی اور روپ دھار لیتے ہیں لیکن تشدد زندگی کے ہر زاویے کی اساس بن جاتا ہے۔

جسم کی بے وُقعتی کے افسانے تراشے جاتے ہیں جن میں کنیزوں پر اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ ان کے جسم سے حسن غائب ہو جاتا ہے  تا کہ شہزادے جسم کی بے وقعتی کے قائل ہوجائیں۔

رِشی مُنی، جوگی اور درویش واہموں کے حصول کے لیے جسم کو اتنی اذیت دیتے ہیں کہ واہمے اُنھیں حقائق نظر آنے لگتے ہیں۔ صوفیوں کی شاعری میں ارفع مقامات حاصل ہی تب ہوتے ہیں جب جسم ٹوٹ پھوٹ جائے۔

جب اپنے جسم سے سلوک کی یہ ثقافت ہے تو کبھی اس کا جسم ہاتھ آ جائے جسے شُدھ، پاک یا مُنزّہ نہ سمجھتے ہوں تو اس کے جسم کے ساتھ تو تشدد اور گھناؤنا ہو جاتا ہے۔

 انسانی جسم ہے اس لیے توانائیوں کے سنگ سنگ اس  سے نا توانیاں بھی منسلک ہیں تو ان نا توانیوں کو اِیذا کا ذریعہ بنا کر اغراض و مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔

جسم سے متعلق ایک اور نفرت حِسّی تجربات سے ہے، اور حسی تجربات پارسائی کی رِفعتوں کی تردید کرتے ہیں۔ اس لیے حِسّی تجربات کو بھی کَہتَر سمجھ کر حقائق سے مفرور ہونے کے بہانے کیے جاتے ہیں۔

انسانی دماغ کی ایک صفت حِسّی تجربات کی بناء پر غور و فکر ہے۔ اس غور و فکر سے بھی نفرت ہے۔ اور ان معاشروں میں دماغ کو غور و فکر کے ذریعے حقائق تک پہنچنے کے لیے کون سی کون سی اذیتیں نہیں دی جاتی؟ اور جو فلسفے غور و فکر کے ساتھ حِسّی تجربات منسلک کرتے ہیں، ان کی اہمیت سے بہت کم لوگ واقف ہیں؛ اور منطقیوں کا ذکر بھی کم ہی سننے میں ملتا ہے۔ بس کاملیت پرستی ہی مسلسل چلتی رہتی ہے۔ بیرونی فلسفیوں میں بھی انھی کے نام عام ہیں جو حقائق کی موجودگی کے انکاری ہیں۔

ایک نفرت خِرد سے ہے کہ وہ منطق اور سائنسی طریقوں کے ذریعے حقائق تک پہنچ سکتی ہے۔ اب یہ لوگ اگر منطق اور سائنسی طریقوں کی کچھ عزت کرتے تو کبھی پریانتھا کمارا کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے۔ لیکن خِرد کے خلاف اتنا پروپیگنڈا ہے کہ خِرد مند ہونا حماقت بن گیا ہے۔

اگر خرد کو کچھ عزت ہو تو پیروں کو مرید نہیں ملتے، خطیبوں کو سامِع نہیں ملتے، لیڈروں کو جیالے نہیں ملتے، افسروں کو غیر قانونی کاموں میں مُتابَعَت کرنے والے ما تحت نہیں اور شاعروں کو داد دیتے مجمعے نہیں ملتے، مولویوں کو جنونی پیروکار نہیں ملتے: اس لیے ان سب نے اپنے لیے ایک بہتر صورت حال کے لیے خرد کا ہی خاتمہ کر دیا۔

ہر کوئی کسی نہ کسی سطح پر پیر تو ہے تو معاشرہ خرد کے خاتمے میں اپنے لیڈروں سے زیادہ جوشیلا ہو گیا ہے کہ جتنی بھی پیری ہے بنی رہے۔

ایک نفرت قانون سے ہے کہ اصول بنا دیتا ہے اور ان اصولوں پر مبنی ضابطوں اور قاعدوں کی موجودگی میں دما دم مست قلندر ایک بے ہودہ سی حرکت لگتا ہے۔ ذہن میں موجود بُلوے کی روک تھام کرتا ہے کہ بُلوہ معاشرتی حقیقت نہ بنے۔

لیکن دما دم مست قلندر نہیں ہوا تو مزے نہیں آئیں گے اور بلوہ نہ ہو تو گپ شپ نہیں ہو سکی تو یہ مردار قانون کیوں سر کا وبال بنا رہے۔ اس کی دھجیاں بکھیر دو۔

ویسے بھی یہ غیر ملکی سازش ہے۔ کاغذوں میں بھی قوانین جمہوری نہیں ہیں، لیکن اگر ہو بھی جائیں تو قلندر اور اس کے چیلوں نہ کب اس عمل کرنا ہے۔

ایک نفرت فرد سے بھی ہے کہ فرد کے لیے جو ہمارے تصوراتِ حیات ہیں ان میں جگہ نہیں ہے۔ زندگی میں موجود ہیں تو کسی گروہ سے جنونی وابستگی کی بنا پر۔ اگر اپنے فرد ہونے پر اصرار کرتے ہیں تو جاو تمھارا کچھ نہیں؛ اور اگر آپ کے مرشد ہیں تو آپ انفرادیت سے دست بردار ہو ہی چکے ہیں۔

اور فرد نہیں ہے تو انسانی حقوق بھی غیر ملکی سازش ہیں۔ اقوامِ عالَم سے وعدے کر لو، فنڈنگ بھی لیتے رہو، لیکن فرد کے حقوق کے خاتمے کی مسلسل کوشش کرتے رہو کہ اگر یہ بہ طورِ فرد سوچنے لگا تو واہموں کا سَورگ اجڑ جائے گا؛ اور اگر فرد نہیں ہے تو اس کی جان کی کیا اہمیت؟ اس کے بچے ہیں، اس بات کی کیا اہمیت، اس کی ایک زندگی ہے، اس کی کیا اہمیت؟

زندگی سے بھی تو نفرت ہے۔ شاعر لوگ زندہ ہوتے ہیں تو پسِ مرگ سوچتے ہیں کہ یہ زندگی تو مایا جال ہے۔ اس سے کیا وابستہ ہونا۔ اس سے جتنے اجنبی رہو گے اتنے اعلیٰ مقاصد کے محبوب رہو گے۔

اجنبی سے بھی نفرت ہے؛ اور پریانتھا کمارا بھی ایک اجنبی تھے۔ ایسی ہی کوششیں ہوتی ہیں ناں کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سب اپنے ہوں۔ لیکن یہ ایک اور واہمہ ہے۔ جہاں سب اپنے ہوتے ہیں، وہاں کوئی اپنا نہیں ہوتا۔

ایک نفرت آزادی سے بھی ہے کہ آدمی کی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے۔ ایجاد و تخلیق سہل کرتی ہے۔ مفید اشیاء بنانے کی قابلیت بڑھاتی ہے۔ لیکن آزاد ہوں گے تو دیوانے مقلِّد نہیں بنیں گے۔ اس لیے آزادی کی ایسی کی تیسی۔

ایک نفرت محبت سے بھی ہے اور اس محبت سے تو شدید نفرت ہو جاتی ہے جس کے اوپر کہی ساری باتیں اٹوٹ انگ ہوتی ہیں۔

تو یہ کچھ دولت، شہرت ، طاقت اور ایک جنونی نفسیاتی کیفیت کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

اب ہم سوچ رہے ہیں کہ انسانی اوصاف کے کسی بھی اساسی پہلو کے بارے میں سوچیں تو ہمارے معاشروں میں اس سے نفرت کی انتہائی شکلیں موجود ہیں اور وہ ہر قسم کے سانحوں میں نظر آ جاتی ہے۔

اور رہا مذہب کا سوال تو اس کا تو جواب آ چکا ہے کہ اس کی سیاست سے دوری کے نتائج سیاست میں موجودی سے بہت اچھے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں مذہب سیاست میں موجود ہے اور کاملیت پرستی سے متأثر نظریاتیوں کی گُم راہی کی وجہ سے بدی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

برما میں روہنگیا کے ساتھ وہ کچھ ہو رہا ہے جو یہاں پریانتھا کمارا کے ساتھ ہوا؛ اس بدی کے لیے وہاں مذہب استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس بدی کے لیے بھی مذہب استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بدی کے لیے مذہب کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ تو لوگ اگر مذہبی ہیں تو کاملیت پرستی سے مذہب کو جدا کرنا ان کا فریضہ ہے۔

انسانی جسم سے، خِرد سے، حِسّی تجربات سے، منطق سے، سائنسی طریقوں سے، فرد سے، ضمیر سے، پردیسی سے، محبت سے، قانون سے، شہریت سے،  تہذیب سے، انسانیت سے شدید نفرت  تو خیر نہیں ہے۔

اَبلَہان نہیں سوچتے تو، کم از کم آپ تو سوچیں۔