بموں کی ماں گرانے والے ملکوں میں پولیس کا خوف مر گیا ہے؟

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش
بموں کی ماں گرانے والے ملکوں میں  پولیس کا خوف مر گیا ہے؟
(ایچ بی بلوچ)
جب سوال بہت سارے اور نامعقول ہوتے ہیں تب کسی ایک جواب سے تشفی نہیں ہوتی۔ تو دراصل سوالوں کا مقصد صرف انا کا تشخص ہوتا ہے۔ کچھ ایسی صورتحال میں سے میں سے بعض صورتحال کچھ ایسی ہوتی ہیں جن میں جوابات کی عدم دستیابی لہجوں کی شدت کو جنم دیتی ہے۔ بہت سی برداشتیں صرف سوال توڑ دیتے ہیں۔
سب سوالوں میں بہت زیادہ اہم سوال عزت کا ہوتا ہے. جس کے آگے مجموعی  انسانی رجحان دم توڑ جاتے ہیں. ایک کے بعد ایک کمتری اور ایک کے اوپر ایک تکبر ہمیں پاگل بنا دیتا ہے.  ہمیں انسان کی کمتری اور مہذبیت کے تفخر نے دیوانہ بنا رکھا ہے. حالانکہ  مختلف معاشرتی علوم انسانی معاشرتی اخلاقیات کی تعریف کرتے ہیں.  جبکہ اس تعریف کے ضابطہ اخلاق کا زندگی پر اطلاق قانون سے مشروط ہوتا ہے۔
فیورباخ نے ضمیر کو پولیس کا خوف کہا تھا:
بلاشبہ سماجی اور ریاستی قوانین اطلاق میں ممنوعات کے حق میں پیدا ہونے والی احتیاط کو ضمیر کہا جاتا ہے۔ ضمیر کی پیدا کردہ وجوہات نسبتی ہیں۔ اور یہ مروجہ مذہبی سماجی اور ریاستی قوانین کے مطابق ایک اطاعت گزار معاشرے کی تعمیر کو ممکن بناتی ہیں۔
الجھی راہیں ہمیشہ سلجھے ہوئے راستوں کو جنم دیتی ہیں.  ہر برے دور نے ہمیشہ خیر کو تعبیر کیا ہے. اور ذاتی قربانیوں سے انسانی تشخص کی تدبیریں کی ہیں. نہ تو انسان کی جبلتی وحشت ہمیشہ گوشت کھانے کے جواز ڈھونڈ لیتی ہے. اور ہر گلی میں ایک قصائی گوشت کو کھانے کے قابل بنا دیتا ہے. درحقیقت ایک دور کے خیر نے دوسرے دور کی اثباتی نفی کی ہے. اور دراصل ہر دور کے پیروکار اپنے ہی دور کے خیر کو مقدس و محترم مانتے آئے ہیں. مگر ہر دور کے خیر میں ایک چیز مماثلت رکھتی ہے.  یہ ہمیشہ خون کے رنگ سے ڈرتا ہے۔
مالتھس کہتا ہے کہ جب آبادی بڑھنے سے وسائل محدود ہونگے تو ضرورتوں کا حصول جنگ کا سبب ہوگا. مگر حالات کی تبدیلی کے ساتھ یہ بہت کچھ پس پردہ چلا گیا ہے. اب وسائل کی ناجائز تصرفات جنگوں کو جنم دینے کا سبب بنی ہوئی ہیں. کسی کے پاس اخلاقی اقدار کو انسانی اعمال کا حصہ بنانے کے جواز ہیں تو کسی کے پاس دہشت گردی کے انسداد کے جواز ہیں. اس کے بیچ و بیچ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بھی دلائل دیئے جاتے ہیں. سچ تو یہ ہے کہ طاقت کا  ثقل ہی کسی فیصلہ کو اہم بنا دیتا  ہے. اور ریاستی محافظت کے قوانین نے ایک دوسرے کو مارنے کے حقوق دے دیئے ہیں.
مقامی زبان میں کسی کو سوال کرنا بھیک مانگنے کا متبادل جملہ ہے۔ اور ہمیں پتا ہے کہ اکثریتی طور سوال کرنے والوں کے خون پسینہ سے ہی بموں کی ماں وجود میں آتی ہے۔
کیا آدھی سے زیادہ اور سوال کرنے والی آبادی،عوامی طور پر سماجی عدالتوں، عدالت عظمی کے ججوں، ایٹم کو توڑنے جوڑنے والے سائنسدانوں بموں کی ماں گرانے والے ملکوں میں  پولیس کا خوف مر گیا ہے؟