میر گل خان نصیر مصور بلوچستان

Abid Mir
عابد میر

میر گل خان نصیر مصور بلوچستان

از، عابد میر

 پابلو نرودا نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف Memoirs میں ایک جگہ لکھا ہے:

Anyone who has not been in the Chilea’s forest does not know this planet.

یعنی جو شخص چلی کے جنگلات میں نہیں رہا، وہ اس کرۂِ ارض کو نہیں جان سکتا۔ بَہ عینہٖ یہی بات بلوچستان کے معاملے میں کہی جا سکتی ہے کہ جو بلوچستان کے پہاڑوں، صحراؤں اور میدانوں میں نہیں رہا، وہ اس سیارے سے واقف نہیں ہو سکتا۔

لیکن وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ نے گل خان نصیر کی شاعری پڑھ لی (اور محسوس کر کے پڑھی) تو سمجھیں آپ نے آدھا بلوچستان جان لیا۔ آدھا اس لیے کہ محبت کا بیاں خواہ کتنا ہی حسیں کیوں نہ ہو، اس میں محبت کرنے جیسا لطف نہیں ہو سکتا۔

سو، بلوچستان کو مکمل جاننے کے لیے تو وہاں ہونا ضروری ہے، اور اگر وہاں تک رسائی نہیں، تو گل خان کا کلام ہے نا۔ ایک مکمل ٹُورِسٹ گائیڈ!

میر گل خان نصیر بلوچستان کے سماجی حقیقت حقیقت نگار تو ہیں ہی، ساتھ ہی انھوں نے اپنی شاعری میں بلوچستان کی خوب صورت نقش کاری بھی کی ہے۔ کبھی وہ دریائے جیونی کے کنارے بیٹھے آنسو بہا رہے ہوتے ہیں، تو کبھی بولان سے گزرتے ہوئے لاری میں بیٹھے بیٹھے اس منظر کو الفاظ میں قید کر لیتے ہیں، تو کبھی اس دیس کے مختلف مناظر کو میرا دیس پیارا کے عنوان سے تفصیلاً قلم بند کرتے ہیں۔

گل خان نصیر کی یہ لفظی نقش کاری ذرا رک کر، ٹھہر کر، ذرا سی توجُّہ بھرے مطالَعہ کا تقاضا کرتی ہے۔ اصل میں بلوچستان ہر معاملے میں سنجیدگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ یہاں آپ کہیں بھی سرسری نہیں گزر سکتے۔ اس کے تو دشوار گزار راستے، استاد ڈرائیوروں سے بھی مشاقی مانگتے ہیں۔

کہتے ہیں ٹرک ڈرائیور کو جب اپنے اسسٹنٹ کو ڈرائیونگ کی فائنل کلاس دینی ہو تو بَہ طورِ امتحان وہ اسے بولان کی پُر پیچ پہاڑیوں میں لے آتا ہے۔

کسی سرکاری اہل کار کا امتحان مقصود ہو تو اسے سوئی یا کوہلو کے کالا پانی میں بھیج دیا جاتا ہے؛ یعنی یہ سر زمین سہل پسندی کو گوارا نہیں کرتی، یہ ہر معاملے میں perfection مانگتی ہے۔

حسن سے لے کر فن تک، محبت سے لے کر سیاست تک، اگر آپ بلوچستان میں ہیں، تو آپ کو سنجیدہ ہونا ہو گا، بھاری پن چاہیے ہو گا، اعلیٰ ظرفی چاہیے ہو گی۔

یوں تو بلوچستان گل خان نصیر کی شاعری کے مرکزی موضوعات میں سے ہے، بَل کہ موضوع کوئی بھی ہو، بلوچستان اس کا complimentary حصہ ہوتا ہے۔ یہی شاعر کا اول و آخر ہے۔ یہی اس کی حمد و نعت ہے۔ یہی اس کا بسم اللہ ہے۔ البتہ ان کے اردو مطبوعہ کلام میں دو تین نظمیں ایسی ہیں جنھیں بلوچستان کا شعری پورٹریٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں ہمارا مطالَعہ انھی نظموں سے متعلق ہے۔

پہلی نظم بولان کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔ جس کی ذیلی سرخی میں گل خان نصیؔر نے اس کا سببِ ورُدو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

مورخہ ١٥ مارچ سِنہ ١٩٤٨ کو بولان سے گزرتے وقت لاری میں لکھے گئے۔ (۱)

نیز اس کے آخر میں نا تمام بھی لکھا ہے، حالاں کہ اپنے موضوع اور تأثر کے لحاظ سے یہ ایک مکمل نظم ہے۔

ممکن ہے شاعر کے ذہن میں اس کی وسعت سے متعلق کوئی خیال موجود ہے، جسے وہ مذکورہ نظم کا حصہ بنانا چاہتا ہو، لیکن آگے اس کا کوئی تذکرہ نہیں آیا۔

آئیے پہلے نظم کی قرأت کرتے ہیں:

خشک و بے مہر چٹانوں کا تراشیدہ حصار

تپشِ مہر سے جھلسی ہوئی سنگین دیوار

جھریاں چہرۂِ پر ہول پہ ادواروں کی

گھاؤ رِستے ہوئے، شمشیر سے قہاروں کی

پیرِ فرتوتِ کہن سالہِ زابل کی طرح

بُھنویں سکڑی ہوئی ابھرے ہوئے ماتھے پہ تناؤ

جیسے کوہ زاد سے رستم کے بگڑ جانے پر

اس نے زابل کے بلوچوں پہ نظر ڈالی تھی!

اس طرح آج بھی بولان کی گھاٹی ہر دم

اُسی مشتاق مگر تُند نظر سے ہم کو دیکھتی ہے!

کسی کوہ زاد سے ٹکرانے کو

یہ پوری نظم منظر کشی کا شاہ کار ہے۔ اس کے اوّلین مصرعے ہی ہمیں بلوچستان کے لینڈ اسکیپ کا بھر پُور عکس دکھاتے ہیں:

خشک و بے مہر چٹانوں کا تراشیدہ حصار

تپشِ مہر سے جھلسی ہوئی سنگین دیوار

آپ نے کبھی بولان کا سفر کیا ہو تو یہ لینڈ اسکیپ آپ کے لیے ہر گز اجنبی نہ ہو گا، اور اگر کبھی یہ سفر کرنے کی تمنا ہے تو پھر یہ آپ کے لیے زبردست متخیلہ، imagination کا باعث بنے گا۔

دوسری جانب شاعرانہ خیال ملاحظہ ہو: چٹانیں تراشیدہ ہیں، گویا کسی نے تراش کر وہاں رکھی ہوں۔ لیکن شاعر چٹانوں کے اس حصار کو خشک و بے مہر قرار دیتا ہے۔ محض چٹانوں کا ذکر ہو تو اس سے بلوچستان کا لینڈ اسکیپ ذہن میں نہیں ہوتا، لیکن اگر خشک و بے مہر چٹانوں کی تشبیہ استعمال ہو تو واضح ہے کہ بلوچستان کے پہاڑوں کا ذکر ہو رہا ہے۔

اگلے مصرعے میں پھر شاعر سنگین دیوار کو مہر (آفتاب) کی تپش سے جھلسا ہوا ظاہر کرتا ہے۔

یعنی پہاڑ خود تو بے مہر ہیں لیکن یہاں آفتاب کی ایسی گرمی پڑی ہے کہ سنگین دیواریں اس سے جھلسی ہوئی ہیں۔ یہ خیال بلوچستان کے طبعی ماحول سے بھی رُو شناس کراتا ہے۔

اب منظر کشی سے جُزئیات نگاری کا شاہ کار دیکھیے:

جھریاں چہرۂِ پُر ہول پہ ادواروں کی

گھاؤ رِستے ہوئے، شمشیر سے قہاروں کی

کبھی چٹانوں کے چہرے پہ جھریاں دیکھی ہیں آپ نے؟ یہی تو کمال ہے شاعر کا! یہ آپ کو ان جزئیات سے آگاہ کراتا ہے، جن کی جانب کبھی آپ کی توجُّہ ہی نہیں گئی ہوتی۔


یہ بھی دیکھیے:

جلتے خوابوں کی کہانیاں  تبصرۂِ کتاب از، عابد میر

کوئٹہ میں کچلاک،  افسانہ از، محمد حمید شاہد

بلوچستان میں اُردو کا اولین مشاعرہ  از، آغا گل

میر یوسف عزیز مگسی، سامراج دشمن تاریخ کا ایک اہم بلوچ ہیرو  از، ملک تنویر احمد


چٹانوں سے سامنا بھلے آپ کا روز کا معمول ہو، لیکن آپ نے کبھی ان کے چہرے پہ موجود جُھریوں پہ غور نہیں کیا ہو گا۔ اس لیے کہ یہ شاعرانہ خیال ہے، اور صرف شاعر کے ذہنِ رِسا میں ہی آ سکتا ہے۔ نیز جھریاں خواہ چٹانوں پہ ہوں یا انسانی چہرے پہ، یہ حسن پہ داغ ہیں۔ اس لیے شاعر جھریوں بھری چٹانوں کے چہرے کو پُر ہول کہتا ہے۔

یہ چہرہ اس لیے بھی پُر ہول ہے کہ اس کے زخموں سے اب تک قہاروں کی شمشیر کا لہو رِس رہا ہے۔ یہ وہ جھریاں ہیں جو، وقت نے چٹانوں نے چہروں پہ ڈال دی ہیں۔ گویا چٹانوں کے چہروں پہ موجود یہ جھریاں اور رِستے ہوئے زخم، گزرے ہوئے ایام و ادوار کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔

ان جھریوں میں آپ گزرے ہوئے ادوار کی داستانیں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ چٹانیں گزرے ہوئے زمانوں کی عینی شاہدین ہیں، آپ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گزرے ہوئے زمانے کی سبھی یادیں تازہ کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ آپ ان چٹانوں کے چہرۂِ پُر ہول پہ ادوار کی پڑی جھریوں کے کوڈز کو ڈی کوڈ کرنے کی کس قدر صلاحیت رکھتے ہیں!

پہلے دو مصرعوں میں ہم نے منظر کشی، پھر اگلے دو مصرعوں میں جزئیات نگاری کا فن دیکھا۔ اب اگلے دو مصرعوں میں سراپا نگاری کا کمال دیکھیں:

پیرِ فرتوت کہن سالہ زابل کی طرح

بُھنویں سکڑی ہوئی، ابھرے ہوئے ماتھے پہ تناؤ

تراشیدہ چٹانوں اور تپشِ مہر سے جھلسی ہوئی دیواروں کی بھنویں تنی ہوئی ہیں اور ماتھے پہ تناؤ ہے، پیرِ فرتوت کہن سالہ زابل کی طرح کس قدر حسیں ترکیب اور تلمیح کا زبردست استعمال ہے۔ ایک پاگل بڈھے اور زابل کی قدیم دیواروں کی مانند، بولان کی تراشیدہ چٹانوں کی بھنویں سکڑی ہوئی دکھائی ہیں اور ماتھے پہ تناؤ۔

اس کیفیت کا سبب، اگلے مصرعوں میں بیان کیا ہے:

جیسے کوہ زاد سے رستم کے بگڑ جانے پر

اُس نے زابل کے بلوچوں پہ نظر ڈالی تھی!

شاعر کا تاریخی شعور منظر کشی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ محض دو مصرعوں میں وہ ہمیں تاریخ کا پورا ایک باب سنا جاتا ہے۔ رستم و سہراب (کوہ زاد) کا پورا قصہ ہم نے دو مصرعوں میں پڑھ ڈالا۔ دریا، کوزے میں بند ہو گیا۔

اور پھر شاعر آخری حصے کی طرف بڑھتا ہے:

اس طرح آج بھی بولان کی گھاٹی ہر دم

اُسی مشتاق مگر تند نظر سے ہم کو

دیکھتی ہے! کسی کوہ زاد سے ٹکرانے کو

کہانی مکمل ہوتی ہے، ساتھ ہی بولان کی منظر کشی بھی۔

تراشیدہ چٹانوں کے حصار، سکڑی ہوئی بھنووں اور تناؤ بھرے ماتھے والی دیواروں کا سفر اب بولان کی گھاٹیوں تک آ پہنچا، جن کی نظروں میں اشتیاق بھی ہے، ساتھ ہی وہ تند بھی ہیں۔

 اب اگر ان تمام منظروں کو ایک ترتیب وار فہرست میں لے آئیں تو یہ ترتیب کچھ یوں ہو گی:

… بولان کی تراشی ہوئی چٹانوں کا حصار

… دیواریں کہ آفتاب سے جھلسی ہوئی ہیں

… جن کے چہرے پہ گزرے ہوئے ایام نے جُھریاں ڈال دی ہیں

… جن کے زخموں سے اب تک لہو ٹپک رہا ہے

… کسی خبطی بڈھے کی طرح ان چٹانوں اور دیواروں کی بُھنویں تنی ہوئی ہیں

… ماتھے پر جیسے تناؤ کی کیفیت ہے

… بولان کی گھاٹیوں کی نظر تُند مگر مشتاق ہے!

 اس اشتیاق کی وجہ شاعر یہ بتاتا ہے کہ یہ گھاٹیاں، یہ چٹانیں، یہ دیواریں پھر کوہ زاد سے ٹکرانے کو تیار ہیں۔ شاعر کا اشارہ کس جانب ہے؟

یہ نظم 15 مارچ سِنہ 1948 کو لکھی گئی، جب بلوچستان کو پاکستان میں ضم کیے ہوئے صرف چار دن گزرے تھے!

***

دوسری نظم میرا دیس پیارا کی تخلیق کی تاریخ 14 فروری سِنہ 1949 ہے۔ (۲) اس کا بنیادی موضوع تو گل خان نصیؔر کی شاعری کے عمومی موضوع سے جڑا ہوا ہے، لیکن مرکزی موضوع تک جاتے جاتے گل خان نے بلوچستان کا نقشہ کھینچا ہے، اس سے بہتر بلوچستان کی لفظی مصوری شاید ہی ممکن ہو۔

نظم کا آغاز بلوچستان کے ساحلی حصے کی تصویر کشی سے ہوتا ہے:

وہ رنگین و دل کش زمیں کا کنارا

یہ نیلا سمندر جسے چومتا ہے

یہ موجوں کا ٹکراؤ جس کے کنار

جہاں چاندنی نور پھیلا رہی ہے

یہ آنکھوں کا تارا

میرا دیس پیارا

آپ نے کبھی بلوچستان کی سمندری پٹی پہ سفر کیا ہو تو یہ لینڈ اسکیپ آپ کو خیرہ کردے گا۔ اسی لیے شاعر اسے زمین کا رنگین و دل کش کنارا کہتا ہے، جسے نیلے سمندر کے بوسے نصیب ہوتے ہیں۔

اس نیلے سمندر کی موجوں کے ٹکراؤ کے کنارے چاندنی کا نور پھیلا ہو تو کوئی اندھا ہی ہوگا جو اس منظر کو آنکھ کا تارا نہ بنائے۔ میں پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ بلوچستان کے نیلے سمندر کی سیر اگر آپ نے نہیں کی تو گل خان کے بیان کردہ اس منظر کو دل سے پڑھیے، آپ خود کو اُس نیلے سمندر کے کنارے محسوس کریں گے۔

اگلا منظر ہمیں بلوچستان کے کہساروں اور چٹانوں کے پاس لے جاتا ہے:

یہ کہسار و نیلے چٹانوں کے قَلعے

گھٹائیں جنھیں جھوم کر چومتی ہیں

سمندر کے انمول موتی کی لڑیاں

نچھاور کیے پھیلتی ہیں فضا میں

یہ دل کش نظارا

 میرا دیس پیارا

سمندر کے دامن میں ہی وہ بلند و بالا کہسار اور قَلعہ نما چٹانیں ہیں، جنھیں شاعر کے بَہ قول گھٹائیں جھوم کر چومتی ہیں۔

میرے بس میں ہوتا تو میں اس خیال کو یوں بدل دیتا کہ گھٹائیں جنھیں چوم کر جھومتی ہیں کہ ان چٹانوں میں نیلے سمندر کی وہ مدہوش کر دینے والی نمی شامل ہے، جسے چوم کر گھٹائیں بھی جھومنے لگ جائیں۔

جب کہ شاعر نے ان چٹانوں کو شمع اور گھٹاؤں کو پروانہ بنا دیا ہے، جو پروانہ وار جھوم کر ان چٹانوں کو چومتی ہیں، اور سمندر کے انمول موتی کی لڑیاں ان پہ نچھاور کر کے فضا میں پھیل جاتی ہیں۔

اس نظارے کے لیے دل کش کا لفظ بالکل بھی نا مکمل ہے۔ شعری ضرورت کے سوا، اس لفظ کے استعمال کا اور کوئی سبب نہیں۔ ورنہ ذہن میں نیلے سمندر کے دامن میں واقع کوہ ساروں اور قَلعے نما چٹانوں کو لائیے، جھومتی گھٹاؤں اور موتیوں کی لڑیوں سے بھری فضا کو ذہن میں رکھیں اور پھر سوچیں کیا الفاظ میں اس کا بیان ممکن ہے؟ … ما سوائے گل خان کی شاعری کے!

اگلا منظر دیکھیں؟

یہ وادی، یہ سر سبز و شاداب خطے

جہاں سبزہ و گل کی بھینی مہک سے

دماغوں میں ایک کیف و اک جذبِ مستی

نگاہوں میں اک نور سا پھیلتا ہے

یہ رنگیں دُلارا

میرا دیس پیارا

بلوچستان سے نا واقف قاری حیرت سے کہہ سکتا ہے کہ بلوچستان میں سرسبز و شاداب خطہ کہاں سے آ گیا؟ … یہ بے مہر چٹانوں، اور خشک میدانوں کا دیس نہیں ہے؟ … جی ہاں، یہی تنوع تو بلوچستان کا حسن ہے۔

زمین نامی سیارے پہ قدرت کے جتنے رنگ ہیں، فطرت نے وہ سب اسے ودیعت کیے ہیں۔ بلوچستان کا سرسبز و شاداب خطہ دیکھنا ہو تو بولان سے نیچے (مشرق کی جانب) آئیے۔

نصیر آباد سے لے کر جعفر آباد اور جھل مگسی کے اندرون سفر کیجیے: ”جہاں چاول کی فصل پکے تو رات کی ہواؤں میں اس کی مہک، محبت کی ایک ایسی کہانی بن جاتی ہے جسے ہر ادیب اپنے انداز سے لکھتا ہے…۔“ (۳)

جسے گل خان نے اپنے انداز میں لکھا۔ آپ بلوچستان کے اس حصے میں آئیے، گل خان کے بَہ قول یہاں سبزہ و گل کی بھینی مہک سے دماغوں پہ ایک کیف و اک جذب و مستی اور نگاہوں میں اک نور سا نہ پھیل جائے تو گل خان کی شاعری کو بَہ طورِ سزا سرکاری نصاب میں شامل کر دیں۔

 آئیے اب بلوچستان کے ایک اور حصے کی سیر کرتے ہیں۔

یہ صحرا، یہ بد مست جھونکوں کا طوفاں

یہ ریتوں کا فرشِ درخشندہ و رنگیں

جہاں مہرِ تاباں کی ضو باد کرنیں

فضاؤں میں قوس و قزح کھینچتی ہیں

یہ زریں شرارا

میرا دیس پیار

صحراؤں میں بد مست جھونکوں کو طوفان… کس قدر سخت مگر کیسا رومان پرور نظارہ ہے۔ بھلا ریت کا فرش آپ نے کبھی دیکھا ہے؟ … (ریتوں کا فرش بَہ لحاظِ زبان غلط سہی، پر شاعر کا تخیل تو دیکھیے!) اور وہ بھی درخشندہ و رنگیں؟ … یہی تو وہ متخیلہ ہے، جسے ایس ٹی کالرِج نے شاعر کے لیے لازم قرار دیا تھا۔ (۴)۔

گل خان تو متخیلہ سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنے دیس کی فضاؤں میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیرنے والی کرنوں کو ضُو باد قرار دیتے ہیں۔

بلوچستان کے صحرا ہوں، دور تلک ریت کے چمکیلے ذرے ہوں، ان کے اوپر مہرِ تاباں کی ضو باد کرنوں نے قوسِ قزح کی لکیریں کھینچیں ہوں … اور اس منظر کا بیاں کرنے والے گل خان نصیؔر ہوں تو وہ اسے دو لفظی ترکیب میں سمو دیتے ہیں: زریں شرارامیرا دیس پیارا!

ہمارا یہ گائیڈ کشاں کشاں ہمیں آگے لیے چلتا ہے:

یہ تپتا ہوا دشت دنیا میں یکتا

سرابوں کی دنیا، یہ پانی کا دھوکا

مسافر کو بہلا کے، ہمت بڑھا کے

دِکھاتا ہے منزل کا خموش رستا

یہ دل کا سہارا

میرا دیس پیارا

دشت اور بلوچستان لازم و ملزوم ہیں۔ بلوچستان کا تذکرہ، دشت بنا نا مکمل ہے۔ دشت، سرابوں کی دنیا۔ جہاں پانی نامی بنیادی انسانی ضرورت نا پید … اس لیے قدم قدم پہ پانی کا دھوکا۔

دھوکا کی اصطلاح ہی جگر بُرد ہے۔ دشت میں کسی مسافر کو پانی کا دھوکا (سراب) مل جائے، تو گویا اس کے حوصلے توڑنے کے مترادف ہے۔

لیکن یہاں صورتِ حال اس کے بر عکس ہے۔ یہاں یہ سراب، یہ دھوکا مسافر کو بہلا کے، ہمت بڑھا کے منزل کا راستہ دکھاتا ہے … تبھی تو شاعر اس تپتے ہوئے دشت کو دنیا میں یکتا قرار دیتا ہے۔

دشت کے تو معنی ہی سراب کے ہیں۔ دشت و سراب لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن بلوچستان کا دشت بھی، رہ نُما بن جاتا ہے، بَہ شرط یہ کہ راہی دیدہ ور ہو۔ خموش رستوں کی زباں سمجھتا ہو …اگر آپ یہ زباں نہیں سمجھتے تو گل خان کی عام فہم شاعری پڑھیے، جو ان سارے کوڈز کو ڈی کوڈ کرتی ہے، تبھی تو دشت، دشمن کی بَہ جائے دل کا سہارا بن جاتا ہے!

اور اب ایک آخری نظارہ دیکھیے:

یہ اسپید عمامۂِ برف طلع

جو ہے کوہِ ماران و چلتن کے سر پر

فضیلت کی پگڑی ملی ہے ازل سے

میرے دیس کی پُر شکوہ رفعتوں کو

یہ عظمت کا تارا

میرا دیس پیارا

واہ، واہ … پہلے میری داد گل خان کو پہنچے۔ اب آئیے اس نظارے میں شریک ہوتے ہیں۔ اس نظارے کا حقیقی لطف تو کوہِ ماران و چلتن کی چوٹیوں کو برف کی سفید چادر اوڑھے دیکھنے میں ہی ہے۔ آپ نے بھی برف بوش پہاڑوں کے لیے سفیدی کی چادر کی اصطلاح سنی اور پڑھی ہو گی (ہم نے بھی یہی سنی اور پڑھی ہے۔)

لیکن کبھی آپ نے اسے بَہ طورِ فضیلت کی پگڑی کے دیکھا یا سوچا؟ … سوچ بھی کیسے سکتے ہیں، میں اور آپ گل خان تھوڑی ہیں۔ یہ گل خان کی متخیلہ ہے جو شال کی پہاڑیوں پہ برف کی سفیدی کو فضیلت کی پگڑی قرار دیتی ہے، جو شاعر کے بَہ قول میرے دیس کی پُر شِکَوہ رفعتوں کو ازل سے ملی ہوئی ہے۔ تب اگر وہ اسے عظمت کا تارا کہتے ہیں، تو کچھ غلط تو نہیں کہتے!

بلوچستان کا ایسا بھر پُور شعری لینڈ اسکیپ گل خان کے بعد عطا شادؔ کے سوا آپ کو اور کہیں نہیں ملے گا۔ شرطیہ…!

***

اس  سلسلے کی تیسری نظم بلوچستان کا ایک اور ہی لینڈ اسکیپ لیے ہوئے ہے۔ آپ بلوچستان کے سماجی حالات سے نا واقف ہیں، تو محض گل خان کی اس ایک نظم کی قرأت کر لیجیے، محض خالی خولی پڑھ لینے والی قرأت نہیں، بل کہ الفاظ کے جسم میں دھڑکتی روح کو محسوس کرنے والی قرأت کے ساتھ …۔ تبھی اس نظم میں بلوچستان کا سماجی ڈھانچہ اکھڑی ہوئی سانسیں لیتا ہوا ملے گا آپ کو۔

تصویرِ زیست نامی یہ نظم سات مختلف مناظر پر مشتمل ہے۔ ہر بند ایک نظارے کی عکاسی کرتا ہے۔ اور ہر نظارہ  بلوچستان کے ایک سماجی ناسُور کی لفظی تصویر کشی لیے ہوئے ہے۔ گل خان کے الفاظ میں اگر آپ کو یہ تصویر مکمل اور واضح نظر نہیں آتی، تو اپنی شعری جمالیات پہ ایک بار شک ضرور کیجیے گا۔

اس نظم کی قرأت سے قبل یوں تصور کریں کہ آپ بلوچستان نامی آرٹ گیلری میں داخل ہوتے ہیں، جہاں بلوچستان نامی خطے کی کہانی سات مختلف تصاویر میں بیان کی گئی ہے۔

آئیے پہلی تصویر دیکھتے ہیں:

خشک و چٹیل دشتِ نا پیدا کنار

اور اس میں جھونپڑیوں کی قطار

کڑکڑاتی دھوپ، تپتا ریگ زار

ہر طرف چھایا ہوا گرد و غبار

چند جانیں نیم عریاں بے قرار

صاحبانِ جاہ و دولت کے شکار

سر چھپائے جھگیوں میں اشک بار

موت کا کرتے ہیں اپنی انتظار

لوگ کہتے ہیں کہ یہ تقدیر ہے

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

اگر آپ نے بلوچستان میں دشت نہیں دیکھا تو آپ دشتِ نا پیدا کنار کی ترکیب کی وسعت کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ خشک و چٹیل میدان جس کا دوسرا کنارا ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ تا حدِّ نظر پھیلا ہوا ایک سراب۔ اس پہ کڑکڑاتی دھوپ اور تپتا ریگ زار، جو گرد و غبار میں اَٹا ہوا ہے۔

اب اس منظر میں ایک اور تصویر کا اضافہ ہوتا ہے … چند جانیں نیم عریاں، بے قرار … چند جانوں کی اصطلاح بھی تبھی سمجھ آئے گی جب آپ بلوچستان کی کم ترین آبادی کے پسِ منظر سے آشنا ہوں۔ جہاں درجنوں کلومیٹر کے فاصلے پہ ایک فرد کی آبادی ہو، وہاں دشتِ نا پیدا کنار میں چند جانوں کا نظر آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، بل کہ یہی حقیقی صورتِ حال کی عکاسی ہے، اور اس سے بھی آگے مزید تلخ اور ننگی حقیقت یہ کہ یہ چند جانیں بھی نیم عریاں و بے قرار ہیں۔

اب یہاں نیم عریاں ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، بے قراری کا سبب ذرا پنہاں ہے۔ اس کا جواب ہمیں اگلے مصرعے میں ملتا ہے: صاحبانِ جاہ و دولت کے شکار۔ تو یہ سرداروں اور زرداروں کا استحصال ہے جو انھیں ہر دم بے قرار رکھتا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی، ما سوائے موت کے۔

سو، وہ اپنی جھگیوں میں سر چھپائے اشک بار رہتے ہیں، اور اپنی موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے شاعر اس پہ یہ طنزیہ تبصرہ کرتا ہے کہ اس انسانی استحصال کو لوگ تقدیر کا لکھا کہتے ہیں۔

یوں یہ تصویر مکمل ہوتی ہے اور شاعر ہمیں اگلی تصویر کی جانب لے جاتا ہے:

جوئبار و سبزہ و اونچے مکان

جن کی رفعت کو نہ پہنچے آسمان

جا بَہ جا بجلی کے پنکھے سائبان

سرد رُویا آفریں جنت نشان

سیج پھولوں پر پڑے آسودۂِ جان

دادِ عشرت دے رہے ہیں ہر زمان

کچھ خیالِ سود و نہ خوفِ زیاں

یہ زمیں ان کی ہے ان کا آسمان

دولت و سرمایہ کی تنویر ہے

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

آگے بڑھتے ہیں تو اس دشتِ نا پیدا کنار سے آگے، جھونپڑیوں کی لمبی قطار سے آگے وہ اونچے محل نما مکان نظر آتے ہیں کہ جن کی رفعت کے سامنے آسماں بھی ہیچ لگتا ہے۔

ان محلوں میں بجلی کے پنکھے بھی لگے ہوئے ہیں، جنھوں نے ان مکانوں کو گرمی کی تپش سے بچا کر، سرد کر کے جنت آفریں بنایا ہوا ہے۔ بھلا بجلی کا ایک پنکھا، جنت آفریں کیسے ہوا؟ … نہیں، یہ علامات تب تک نہیں سمجھی جا سکتیں جب تک آپ ان علامات کی تشکیل کے کرب سے نہ گزرے ہوں۔

وہ بلوچستان جہاں بجلی نامی شئے نا پید ہو، جہاں گھروں میں ہاتھ کے پنکھے کاہونا بھی عیاشی سمجھا جاتا ہو، جہاں انسان اور جانور ایک ہی باڑے میں ساتھ ساتھ سوتے ہوں… وہاں بجلی کے پنکھے کو جنت کی ٹھنڈک کی علامت ہی جانا جائے گا ناں۔ جس کے ہوا تلے انسان خود کو پھولوں کی سیج پہ محسوس کرے، اور جسے پھولوں کی ایسی سیج نصیب ہو اسے بھلا کیوں کر خیالِ سود و زیاں ستانے لگا۔

انھیں درست طور پر یہ گماں گزرتا ہے کہ یہ زمیں اور آسماں انھی کے تصرف میں ہیں۔ البتہ شاعر یہ جانتا ہے کہ یہ ساری تنویر، یہ تمام شان و شوکت محض دولت و سرمایہ کے ارتکاز کی وجہ سے ہے۔ اور شاعر کے دیس میں بیتنے والی زندگی کا یہ بھی ایک منظر ہے۔

یہ بتا کر شاعر اگلے منظر کی جانب آتا ہے:

نیم عریاں فاقہ کش مزدور ہے

پیٹ پل سکتا نہیں مجبور ہے

خانماں برباد ہے، رنجور ہے

محنتِ پیہم سے چکنا چُور ہے

محنت اس کی سعئِ نا مشکور ہے

جھونپڑی اس کی سدا بے نور ہے

زیست کی آسائشوں سے دور ہے

نا تواں ہے اس لیے مقہور ہے

نا توانی کی یہی تفسیر ہے

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

منظر بدلتا ہے۔ اگلی تصویر میں پھر ہمیں ایک نیم عُریاں مخلوق نظر آتی ہے۔ یہ مزدور ہے۔ ہمارے دیس کا وہ مزدور جو اپنی محنت کو کوڑیوں کے مول بیچنے پہ مجبور ہے۔ اپنی محنت کے عوض وہ اتنا بھی ثمر نہیں پاتا کہ دو وقت کی روٹی کھا سکے۔

اسی لیے شاعر اس کی مسلسل محنت کو سعئِ نا مشکور سے تشبیہ دیتا ہے، وہ کاوش جو بار آور ہوتی ہی نہیں، اور وہ جو اپنی محنت سے دوسروں کی زندگیوں کو روشن کرتا رہتا ہے، تمام تر محنت کے با وُجود اس کی اپنی جھونپڑی سدا بے نور ہی رہتی ہے۔

سرمایہ داری استحصال کی اس بڑھ کر بھلا کیا تفہیم ہو سکتی ہے۔ قدرِ زائد کا سارا فلسفہ اسی ایک منظر میں نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ داس کیپٹل کا پورا ایک باب، اس ایک بند میں سما جاتا ہے۔ جس کے آخر میں شاعر ہمیں مزید بتاتا ہے کہ اپنی محنت سے دوسروں کو آسائشیں فراہم کرنے والا یہ مزدور خود زندگی کی آسائشوں سے محروم ہے۔ اور پھر شاعر ہمیں اس کی اس بے کَسی کی وجہ بھی بتاتا ہے، اور یہ انقلاب کے سارے فلسفے کو ایک لفظ میں سمو کر بتاتا ہے کہ اس کا سبب ہے: نا توانی اور یہ سارا منظر نامہ نا توانی کی تفسیر ہے۔ کھونے لیے صرف زنجیریں اور پانے کے لیے پورا جہاں کا شعری مفہوم کیا یہی نہیں ہو گا؟

آئیے اگلا منظر دیکھیں:

عیش میں کھویا ہوا سرمایہ دار

جس کی آنکھوں سے چھلکتا ہے خمار

عقل پر چھایا ہے دولت کا غبار

لوٹنا مزدور کو اس کا شِعار

خواب دولت کے اُسے لیل و نہار

مضطرب رکھتے ہیں بے صبر و قرار

روح اس کی طائرِ مردار خوار

منڈلاتا سر پہ ہے دیوانہ وار

گردشِ سرمایہ کی نخچِیر ہے

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

اس تصویر میں ایک بار پھر ایک سرمایہ دار کی شکل دکھائی گئی ہے، جو عیش و طرب میں کھویا ہوا ہے، جس کی آنکھوں میں دولت کا خمار اور عقل پہ اسی سرمایے کا غبار چھایا ہوا ہے۔

شاعر اس کا تعارف کراتے ہوئے بتاتا ہے کہ مزدوروں کو لوٹنا اس کا شیوہ ہے۔ نا جائز منافع سے کمائی ہوئی بے تحاشا دولت کے خواب اسے مسلسل بے چین و بے تاب کیے رہتے ہیں۔

اس لیے شاعر اس کی روح کو مردہ خور پرندے دے تشبیہ دیتا ہے، جو ہَمہ وقت مزدور کے سر پہ دیوانہ وار منڈلاتا رہتا ہے۔ وہ محنت کش کی محنت کو کھانے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ کسی مردہ خور پرندے کی مانند اس کی روح تعفن زدہ ہو چکی ہے۔

شاعر کا اس کا سبب سرمایے کی مخصوص گردش کو قرار دیتا ہے۔ سرمایے کی یہی مخصوص و منحوس گردش ایک کو امیر ترین اور دوسرے کو کم زور ترین بنائے جاتی ہے۔ ہم جس زندگی کو بھگتنے پہ مجبور ہیں، یہ بھی اس کی ایک تصویر ہے۔

یوں اس تصویر کو مکمل کر کے، وہ اگلی تصویر کی جانب آتا ہے:

کڑکڑاتی دھوپ میں ننگا کسان

ہل چلاتا ہے ضعیف و نا توان

کاٹتا بوتا ہے لیکن رائیگاں

لُوٹتے ہیں اس کا حاصل مالکان

خود نہیں ملتا ہے اس کو نیم نان

دوسروں کے سامنے رکھتا ہے خوان

ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن نیم جان

مٹ رہا ہے اس کی ہستی کا نشان

کینہ پرور آسمانِ پیر ہے

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

بلوچستان کی آرٹ گیلری کی ایک اور مکمل تصویر__ فیوڈلز کا بلوچستان__ جہاں ایک طرف چند لوگ ہزاروں ایکڑ زمینوں پہ قابض، پھولوں کی سیج پہ رقص کناں اور دوسری طرف ہزاروں بے زمین انسان اس زمین کا سینہ چیر کر مسلسل محنت کرنے کے با وجود دو وقت کے روٹی کے محتاج۔

ایک بار پھر مصور شاعر تصویر کو حقیقی رنگ دیتے ہوئے کڑکڑاتی دھوپ میں ہل چلاتے کسان کو ضعیف و ناتواں اور نیم عریاں دکھاتا ہے۔ اس کا تعارف کرواتے اور اس کی صورتِ حال بتاتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ یہ وہ انسان ہے جو بوتا ہے اور کاٹتا ہے لیکن اس کا یہ بونا اور کاٹنا اس کے لیے رائیگاں ہے کیوں کہ اس کا ثمر مالکان لوٹ کر لے جاتے ہیں، اور اسے کھانے کو روٹی تک نہیں ملتی۔

یہ کیسا ظلم ہے کہ وہ کسان جو دانۂِ گندم اگا کر دوسروں کے پیٹ بھرنے کا انتظام کرتا ہے، خود اس دانۂِ گندم سے اس قدر محروم ہے کہ نیم جاں ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی ہستی کا نشاں تک مٹنے کو ہے۔

شاعر یہاں آسماں کو اس کے حق میں کینہ پرور قرار دیتا ہے، کیوں کہ اس کو لوٹنے والے یہ دلیل لاتے ہیں کہ اس کی قسمت آسمانوں میں یہی لکھی ہوئی ہے۔ کوئی ہاتھ پیر ہلائے بَغیر ہزاروں ایکڑ زمیں کا مالک ہو اور کوئی نسل در نسل زمیں پہ محنت کرنے کے با وُجود زمین تو کیا روٹی تک سے محروم رہے، یہ آسمانوں میں طے ہو چکا ہے۔

شاعر ایسے آسمان کو کینہ پرور قرار دے کر، زندگی کی اس تصویر سے ہمارا تعارف مکمل کراتا ہے۔ اور اگلی تصویرد کھاتے ہوئے بتاتا ہے:

اور وہ جاگیر دارِ جونک خُو

چوستا ہے جو کسانوں کا لہو

کر رہا ہے خدمتِ جام و سبو

بے نیازِ انتقامِ ما و تو

عہدِ نو کی ہر گھڑی ہے جستجو

لوٹتا ہے  بے کسوں کی آبرو

خونِ دہقاں سے وہ کرتا ہے وضو

ظلم کا گہوارہ یا جاگیر ہے؟

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

فیوڈل بلوچستان کی ایسی لفظی تصویر کشی کی بلوچستان میں آج تک کوئی شاعر جرأت ہی نہیں کر سکا۔ یہ گل خان ہی ہیں جو ان جاگیر داروں کو للکارتے بھی ہیں اور ان کا حقیقی چہرہ بھی ہمیں دکھاتے ہیں۔

فیوڈل جاگیر دار کے لیے جونک خُو سے بہتر تشبیہ شاید ہی کوئی ہو۔ جونک جس طرح مسلسل کسی جان ور کا خون چوستی رہتی ہے، اور اس کا پیچھا تب تک نہیں چھوڑتی جب تک کہ جان ور مر نہ جائے یا وہ خود نہ مر جائے، بَہ عینہٖ جاگیر دار تب تک کسان کا لہو چوستا رہتا ہے جب تک کہ کسان زندگی کی قید سے آزاد نہ ہو جائے، یا جاگیر دار خود جونک کی طرح خون چوس چوس کے مر نہ جائے۔

اس کی وحشت و بربریت کو مزید عیاں کرنے کے لیے شاعر اس کا تعارف کراتے ہوئے ہمیں بتاتا ہے کہ یہ وہ وحشی ہے جو نہ صرف بے کسوں کی آبرو لوٹتا ہے بل کہ دہقانوں کے خون سے وضو کرتا ہے۔ کیسا نفرت انگیز و کراہت آمیز تصور ہے نا؟ … تبھی تو شاعر نہایت تحقیر آمیز انداز سے اس کی جاگیر کو ظلم کے گہوارے سے تعبیر کرتے ہوئے اس تصویر کا تعارف مکمل کراتا ہے، اس قدر کراہت آمیز کہ گویا وہ اس تصویر کے سامنے ایک پل بھی مزید نہ رکنا چاہتا ہو…۔

اور پھر وہ ہمیں اس آرٹ گیلری کی آخری تصویر کی جانب لے آتا ہے:

اور شاعر کا دلِ اندوہ گیں

دیکھ کر یہ حال ہوتا ہے حَزیں

بے نوا مزدور کا کوئی امیں

ڈھونڈھنے سے بھی یہاں ملتا نہیں

سب غلامِ صاحبِ تاج و نگیں

چوکھٹِ شاہی پہ ہے سب کی جبیں

چاہیے اک انقلابِ آتشیں

سرخ شعلوں سے لپٹ جائے زمیں

یہ دعائے شاعرِ دل گیر ہے

زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے

اچھا، تو آخری تصویر شاعر کی اپنی ہے! ایک حُزن زدہ، اندوہ گیں دل لیے شاعر۔ جو دیکھتا ہے کہ بے نواؤں کا، بے کسوں کا، مزدوروں کا، دہقانوں کا کوئی امین نہیں، تو اس کا دل غم کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔

وہ ہمیں نہایت دکھی دل کے ساتھ بتاتا ہے کہ یہاں سبھی تاج و کلاہ کے غلام ہیں۔ سبھی سرمایے کی گردش پہ سر دھننے والے ہیں۔ بادشہوں کی چوکھٹ پہ سبھی کی جبینیں جھکی ہوئی ہیں۔

تب ایسے میں کیا کیا جائے؟… اب ہمارا شاعر ہمیں اس کا حل بھی سجھاتا ہے۔

وہ بتاتا ہے کہ اس منظر کو بدلنے کو لیے ایک انقلابِ آتشیں چاہیے۔ شاعر یہ دعا مانگتا ہے کہ یہ زمیں سرخ شعلوں سے لپٹ جائے، جس میں یہ کریہہ مناظر جل کر خاکستر ہو جائیں۔

ایک لمحے کو تعجب ہوتا ہے کہ ہمیشہ عملی جد و جہد پہ اکسانے والا ہمارا یہ انقلابی شاعر محض دعا پہ کیسے قناعت کر لیتا ہے؟ … لیکن پھر خیال آتا ہے کہ یہ شاعر کی فکری نظم نہیں بل کہ وہ تو ہمیں اپنے دیس کے مختلف مناظر کی تصاویر دکھا رہا تھا۔ جس میں ایک تصویر یہ بھی تھی کہ اس دیس کے شاعر اپنے دیس کی حالت پہ کڑھتے رہتے ہیں، لیکن ان کے بس میں محض دعاؤں کے اور کچھ نہیں۔ وہ عملاً کچھ نہیں کرتے، محض دکھی دل کے ساتھ سرخ انقلاب کی دعا کرتے رہتے ہیں، اور انقلاب بھلا دعاؤں سے کب آئے ہیں۔

سو، اس دیس میں بھی انقلاب نہیں آتا، نہ یہ مناظر بدلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر نے جو مناظر آج سے رُبع صدی قبل بیان کیے تھے، آج کا بلوچستان انھی مناظر کا سماں پیش کر رہا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دیس کے شاعر، اہلِ قلم تبدیلی کے عمل میں شریک ہونے کے بَہ جائے، جب تک محض تبدیلی کے لیے دعا گو رہیں گے، اس دیس کا منظر نامہ نہیں بدلنے کا!

حواشی

 ۱۔ میر گل خان نصیر، کارواں کے ساتھ مہردر، کوئٹہ، ص: ۸۶

۲۔ ایضاً، ص: ۲۹

۳۔ اعجاز منگی، روزنامہ امت کراچی، (ادارتی صفحہ)٣١ اگست ٢٠١٤ء

۴۔ دیکھیے ایس ٹی کالرج کا مضمون، قوتِ تخیل، مشمولہ ارسطو سے ایلیٹ تک از، جمیل جالبی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ص: ٣٠٧

عابد میر، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، سریاب روڈ، کوئٹہ میں اُردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اور حال حوال کے گَراں قدر آن لائن جریدہ کے مدیر بھی ہیں۔