فلسفے، سائنس اور مذہب میں ایمان بالغیب کا فرق 

Tariq Ahmed Siddiqui aik Rozan
طارق احمد صدیقی، صاحبِ مضمون

فلسفہ، سائنس اور مذہب میں ایمانِ بالغیب کا فرق 

از، طارق احمد صدیقی 

یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ تجدد پسند قرآن کی جدید تعبیرات کیوں کرتا ہے۔ اس سوال کا مفصل اور مدلّل جواب میں نے اب تک نہیں پڑھا۔ میں نے اپنی جگہ اس پر بہت سوچا ہے اور اس کا نتیجہ احباب کے سامنے نظریۂِ ارتقاء کی مثال کے سہارے پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

یہ کائنات اور اس میں انسان کی زندگی اور موت ایک ایسا مسئلہ ہے جو نوعِ انسانی کے افراد کو پریشان کرتا ہے۔ ایک شخص جانتا ہے کہ وہ اگر پیدا ہوا ہے تو ایک نہ ایک دن مرے گا۔ اور مرنے میں بے حد تکلیف ہوتی ہے۔

یہ سوال بھی اس کے سامنے ہوتا ہے کہ آخر مرنے کے بعد کیا ہو گا۔ مذاہب میں ان سوالات کے مختلف جواب دیے جاتے ہیں۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ ان سوالات کا جو جواب بھی دیا جائے وہ سچ تو ہو ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ جواب ایسا بھی ہو جس سے اس کے دل سے موت کا خوف نکل جائے۔

متعدد مذاہب کی طرح اسلام نے بھی ان سوالات کا جواب دیا ہے کہ مرنے کے بعد ایک زندگی ہے جس میں ہر شخص کو خدا کے حضور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور اس کے بعد اس کو اپنے اعمال کے اعتبار سے جنت یا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔

ان تمام باتوں کو اسلام میں اتنے عقلی طریقے سے پیش کیا گیا ہے اور بچپن ہی سے ان پر ایمان لانے کی جو تربیت مسلمانوں میں کی جاتی ہے، اس کے بعد ایک شخص کے لیے بے حد مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی اور کائنات کو کسی اور نقطۂِ نظر مثلاً، بے خدا لوگوں کے نقطۂِ نظر سے سوچ سکے۔


متبادل و متعلقہ آرائے دیگر:

سائنس دانوں میں تلخیاں نہیں ہوتیں از،  مبارک حیدر

مذہب کی ساختیات از، طارق احمد صدیقی

Philosophy needed Muslims, Jews and Christians alike once  by, Peter Adamson


 چُوں کہ انسان کے اصل مسئلہ، یعنی موت اور زندگی بعد موت سے متعلق سوالات کا شافی جواب اس کو مل چکا ہوتا ہے، اس کا قلب اور ضمیر اس پر مطمئن ہو چکا ہوتا ہے، اور اِس کے نتیجے میں وہ اپنی دانست میں ایک سیدھی راہ پر گام زَن ہوتا ہے، اس لیے کسی بَہ ظاہر ملحدانہ نظریہ مثلاً، نظریۂِ ارتقاء کے سامنے آتے ہی اگر اسے ہلکا سا شائبہ بھی گزر جاتا ہے کہ مبادا یہ صحیح ہو تو اس کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔

ایک طرف تو یہ خوف اس سے چمٹ جاتا ہے کہ اس گم راہ نظریے پر ایمان لانے پر مرنے کے بعد ابدی جہنم میں جلنا پڑے گا، دوسری طرف حیات و کائنات کی اس کی بنی بنائی سمجھ پر ایک زَبر دست ضرب پڑتی ہے، تیسری طرف اللہ کی کتاب یعنی قرآن میں چوں کہ دادا آدم اور دادی حوا کے قصے سے تخلیقِ انسانی کی کہانی شروع ہوتی ہے جو اس کے اعتقاد کے مطابق قطعی اور یقینی اور واقعاتی صداقت ہے، اور چوتھی طرف وہ سمجھتا ہے کہ یہ نظریۂِ ارتقاء غیر قوموں کے ضال و مضل فلسفیوں اور سائنس دانوں کا کارنامہ ہے۔ ان چَو طرفہ اسباب سے وہ پہلے پہل نظریۂِ ارتقاء کی سخت مخالفت کرتا ہے:

کہا منصور نے خدا ہوں میں

ڈارون بولے بُوزنا ہوں میں

لیکن واقعات کی دنیا میں نظریۂِ ارتقاء سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں۔ اسی پر تمام سائنسی اور انسانی علوم کا دار و مدار ہے۔ تاریخ کی بنیاد میں یہی نظریہ نصب ہے، اور سماجیات، سیاسیات، نفسیات اور حیاتیات میں اسی کو بنیاد کا درجہ حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ نظریۂِ ارتقاء کی رُو سے خدا کا انکار یا اقرار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا جُزوِ لاینفک یہ ہے کہ تمام زندہ چیزیں ایک دوسرے سے نکلی ہیں اور علیحدہ علیحدہ تخلیق نہیں کی گئی ہیں۔

ارتقاء کے معنی ہی یہی ہیں کہ ایک ہی بے جان شئے ترقی کرتے کرتے جان دار بنے۔ پھر وہ جان دار اپنے جیسے دیگر جان داروں کو وُجود میں لائے اور ترقی کا سلسلہ آگے بڑھے اور رفتہ رفتہ ایک ہی نوع سے بے شمار انواع وُجود میں آ جائیں۔  اور انسان انہیں ان اَنواع میں سے ایک ہے، یعنی انسان جس چیز کا نام ہے وہ انواع کی حیوانی شاخوں میں سے کسی شاخ سے وابستہ ہے۔

بندر کسی شاخ سے، سور کسی شاخ سے، کتا کسی شاخ سے، غرض ہاتھی، گائے، بھینس، بکری ہر ایک کسی نہ کسی شاخ سے ہے اور ان جانوروں بَہ شمول انسان سے متعلق شاخیں کسی ایک ڈال سے نکلی ہیں، اور وہ ڈال کسی اور ڈال سے اور اس طرح شاخیں ڈالوں سے اور ڈالیں تنے سے اور اس طرح شجرِ ارتقاء کا تصور حیاتیات میں کیا جاتا ہے اور یہاں سے تمام تر مغربی سائنسی اور انسانی علوم اس کی بنا پر اپنے ارتقائی تاریخی شعور کے ساتھ استوار اور عمل آراء ہوتی ہیں۔

انسانی عقل کی بناء پر قدیم یونانی اور جدید مغربی فلسفہ میں یہ ساری کہانی کہی گئی ہے۔

اس لیے موجودہ دنیا کا علمی اور تعلیمی نظام یونانی اور مغربی ہے جس میں وحی خداوندی کو سند تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سچ ہے کہ یونانی اور مغربی فلسفہ میں خدا کے انکار یا اقرار پر بہت ساری دلیلیں ہیں لیکن وہاں خدا کا اقرار جبرائیل کے ذریعے لائی جانے والی وحی کی بناء پر نہیں اور نہ خدا کا انکار کسی شیطان کے بہکاوے پر کیا گیا۔ بَل کہ دونوں معاملے میں پہلا اور آخری معیار انسانی عقل اور انسانی تجربہ ہے۔

مغربی فلسفی یا سائنس داں اپنے علمی میدان میں اپنی عقل اور/یا اپنے مشاہدے اور تجربے کو ہی بنیاد بناتا ہے اور کسی بھی روایتی مذہب کو اس میدان میں پھٹکنے نہیں دیتا۔ خدا نے بھی جو جنت بنائی تھی اس میں پہرہ اتنا تنگ نہیں تھا کہ شیطان داخل نہ ہو سکتا لیکن یونانی اور مغربی فلسفہ کے میدان میں وحی الٰہی کا داخلہ قطعی نا ممکن ہے۔ کسی طرف سے اس میں سیندھ نہیں لگائی جا سکتی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں صدق اور کذب کا معیار یہ نہیں ہے کہ فلاں نہایت معتبر شخص ایسا کہہ رہا ہے، یا فلاں شخص کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا گیا کہ اس کی بات سچ اور حق ہے؛ بَل کہ وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بات جو خواہ کسی دروغ گو نے ہی کہی ہو، کیا اپنی پشت پر عقلی اور/یا تجرباتی دلائل بھی رکھتی ہے؟ مثلاً، ایک فلسفی کہتا ہے: زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور ترتیب، موت کیا ہے؟ انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا۔

جو ہے یہی دنیا کی زندگی ہے اور یہاں کے بعد کچھ نہیں ہے۔ تو مغربی فلسفہ میں یہ ایک نظریہ ہو گا۔ دوسرا فلسفی کہتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موت کے بعد ہم مر کر مٹی ہو جائیں؟ اور ہمارا شُعور ہمارے جسمانی اجزاء کے بکھرنے کے ساتھ محو ہو جائے۔ اگر بے جان مادے کی کسی ترکیب سے ایک با شُعور زندگی  وجود پا سکتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بے جان نظر آنے والا مادہ در حقیقت بے جان نہیں۔ بے جان سے بے جان ہی نکل سکتا ہے۔ بے جان سے جان دار اور با شُعور کیسے نکل سکتا ہے؟

اس کے معنی یہ ہوئے کہ جسے ہم بے جان اور بے شعور کہہ رہے ہیں اس میں کسی نہ کسی طرح کی جان اور شعور ہے۔

 جب زمان و مکان اور مادے سب مل کر ایک با شُعور جان دار کو وجود میں لا رہے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ تمام تر وُجود میں کوئی غرض و غایت کارِ فرما ہے؛ بَل کہ تمام تر وجود با شعور اور جان دار ہے اور اس بناء پر یہ بات بعید اَز عقل معلوم ہوتی ہے کہ مر جانے کے بعد اچھے اور برے شخص کا انجام یَک ساں ہو گا۔

ایک با شُعور کائنات جو با شُعور زندگی کو وجود میں لاتی ہے اس سے بعید ہے کہ وہ اس قدر غیرشعوری کام انجام دے۔ پس مرنے کے بعد فطری قوانین کی رُو سے ایک شخص کو اپنی نیکی اور بدی کا اجر ملے گا۔

حاصل یہ کہ دوسرے فلسفی کا نظریہ بھی اپنے دلائل کی بناء پر ایک نظریہ قرار پائے گا۔ پھر پہلے اور دوسرے فلسفیوں کے نظریے میں کیا مسائل ہیں اس پر بحث ہو گی۔ اب یہ دونوں فلسفی اپنی عملی زندگی میں چاہے جتنے اچھے یا برے ہوں، فلسفہ میں ان کے نظریات کو محض ان فلسفیوں کی اچھائی یا برائی کی بناء پر رد یا قبول نہیں کیا جائے گا؛ بَل کہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ان دونوں نظریات کے موافق اور مخالف مزید کیا کیا دلائل اور عملی تجربات و مشاہدات ہو سکتے ہیں۔

یہ دونوں فلسفی جن نتائج تک پہنچے ہیں وہ کسی پیغمبر کے ذریعے نہیں بَل کہ اپنی عقل و خرد کے ذریعے پہنچے ہیں۔ یہاں منقولات کا کوئی اعتبار نہیں کہ خدا کے برگزیدہ بندوں نے ایسا فرما دیا تو یہی صحیح ہے۔

غرض یہ کہ مغرب کا انسانی، عقلی و تجرباتی نوعیت کا ایک علمی نظام ہے اور نظریۂِ ارتقاء اس کا ایک حصہ ہے جس کو مغربی انسانی اور سائنسی علوم کے عُلَماء کی بہت بڑی اکثریت تسلیم کرتی ہے۔ اس طرح عملاً نظریۂِ ارتقاء مغربی علوم کے میدان میں ایک مقتدر نظریہ ہے۔

اس نُکتے کو جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں اور تجدّد پسند اسلامی مفکروں کی بہت بڑی اکثریت نہیں سمجھتی۔ اور جب ان کا سابقہ اس نظریے سے پڑتا ہے تو اوّل اوّل وہ اس کا ابطال کرتے ہیں، اور ظاہر ہے ایک مقتدر نظریے کا ابطال کرنے کی پیہم کوششوں کے با وُجود اکادمک سطح پر اس بے خدا نظریے کی مقبولیت متاثر نہیں ہوتی تو یہ مزید غور و فکر اور مطالعہ کرتے ہیں۔

پھر ان میں سے بعض کو نظریۂِ ارتقاء کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ قرآن تو اللہ کی کتاب ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے Word of God یعنی کتاب اللہ اور ورک آف گاڈ یعنی نیچر (یا بَہ الفاظِ دیگر کائنات اور اس میں جاری قوانین) میں تضاد ہو۔ ایک طرف وہ دیکھتے ہیں کہ کتاب اللہ میں قصۂِ آدم و حوا ہے اور دوسری طرف وہ نظریۂِ ارتقاء اور اس کی بناء پر استوار موجودہ ٹیکسانومی کو دیکھتے ہیں جس کے مطابق تمام تر جان دار بَہ شُمول انسان ایک ہی واحدُالخلیہ بھنگے سے وجود میں آئے ہیں تو وہ قرآن یعنی ورڈ آف گاڈ اور نیچر یعنی ورک آف گاڈ میں تطبیق کی طرف جھک پڑتے ہیں اور ان دونوں میں تعارض کو رفع کرنے کی نا کام سی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں قرآن کا قصۂِ آدم و حوا تمثیلی قرار پاتا ہے۔ آدم کسی ایک شخص کا نام نہیں بَل کہ ایک نسل کا نام ہو جاتا ہے۔

موجودہ علمی اور تعلیمی نظام ایسا ہے کہ اس میں یہ نکتہ نہ تسلیم کیا جا سکتا ہے نہ رد کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اس کے حکم سے فرشتے انبیاء پر وحی کرتے تھے کیوں کہ یہاں بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ ایک شخص اگر کوئی نظریہ قائم کرے تو وہ اس کی اپنی انسانی عقل کی بناء پر ہو اور دوسرے لوگ بھی اس کے طریقۂِ فکر اور طریقِ کار سے کام لے کر اسی نظریے تک پہنچ سکتے ہوں۔

چُوں کہ انسان کے حواس کی رسائی اس دنیا اور اس کی چیزوں تک ہی ثابت ہے اور کسی شخص کا کسی ما فَوق الفطری ماخذ تک رسائی کا کوئی ثبوت نہیں اس لیے سب کے لیے حقائق تک پہنچنے کا واحد شفاف راستہ یہ ہے کہ جو چیزیں ہم دیکھتے، سنتے، چھوتے، چکھتے اور سونگھتے ہیں ان کو ذریعہ بنا کر اپنی عقلوں سے کچھ نتائج اخذ کریں۔

ارسطو نے الٰہیاتی اور طبیعی مفکروں میں یہ فرق بتایا کہ اوّلُ الذِّکر مظاہر کی توجیہ دیوتاؤں کے ارادوں سے اور مؤخّرُ الذّکر عناصرِ فطرت کی خاصیتوں سے کرتا ہے۔ عناصرِ فطرت کی خاصیت سے متعلق انسانی تجربات و مشاہدات کی بناء پر گُوں نا گُوں قیاسات اور مفروضات قائم کیے جا سکتے ہیں اور ان کی تصدیق کی غرض سے تحقیقات جاری رکھی جا سکتی ہیں؛ یعنی جو کچھ کہ کائنات اور حیات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اسی کے اندر فکر و تحقیق کے ذریعے حقائق کا علم حاصل کیا جاتا ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں علمی نکتہ کسی دیوتا یا خدا نے بتایا ہے جس پر ایمان بِالغیب لانا چاہیے۔

حالاں کہ فلسفیانہ و سائنسی علوم میں بھی ایمان بالغیب لانا ضروری ہے، لیکن یہ مذہب کے ایمان بالغیب سے اصلاً مختلف ہے۔ مثال کے طور پر مذہب میں جنت کی لذتوں اور جہنم کی اذیتوں کی جو خبر دی گئی ہے اس کی تصدیق اس دنیا کی زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح قبر کے عذاب یا راحت کی خبر بھی دنیا کی زندگی میں ممکن نہیں اور جو لوگ مر گئے وہ کسی عالمِ برزخ کی تصدیق کے لیے واپس دنیا میں نہیں آتے، لیکن میڈیکل سائنس کی کتب میں کسی پودے کے مسلّمہ خواص کی جو خبر دی جاتی ہے اور اس پر عُلَمائے میڈیکل سائنس فوراً ایمان لے آتے ہیں۔

اس کی باز تصدیق کا موقع ہر وقت حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر رولفیا سرپنٹائنا نامی پودے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس کے استعمال سے بلڈ پریشر کم ہوتا ہے تو گو ایک ڈاکٹر نے خود اس دوا کا اپنے اوپر تجربہ نہ کیا ہو، لیکن میڈیکل سائنس کی کتب میں درج اس کے خواص کو دیکھ کر وہ ایمان بالغیب لائیں گے اور علامتوں کے اعتبار سے مریضوں کا علاج کریں گے۔ کسی ڈاکٹر کو ذرہ برابر شک ہو گا تو وہ تجربات کے ذریعے اس کی باز تصدیق کرنے سے نہ چُوکے گا۔

اسی طرح فلسفہ، یا ریاضی کے مسائل میں ہم جن اُمورِ غیب پر مبنی معلومات پر ایمان لاتے ہیں ان تک غیرمحدود تعداد میں اہل افرادِ مشاہدہ، تجربہ اور عقلی استدلال کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔ ارتقاء اسی قسم کا نظریہ ہے جس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی حیثیت مذہب والے ایمان بالغیب کی ہو۔

فرض کیجیے ایک ارتقائی سائنس داں کسی جزیرے میں گیا اور وہاں اس نے عجیب الخلقت جانور دیکھا، اس نے اس کی تصویر اپنے ہاتھ سے بنائی اور اس کی بناء پر بہت سے اہم ارتقائی نتائج نکالے اور ان کی بناء پر ایک کتاب لکھ کر مر گیا۔ بیس سال بعد اس کے نتائج کی باز تصدیق کے لیے ایک اور سائنس داں وہاں گیا اور اس نے ایسے کسی عجیب الخلقت جانور کا نام و نشان نہ پایا اور متعدد جگہوں پر کھدائی کرنے کے بعد بھی ایسے کسی جانور کی ہڈیاں نہ ملیں تو علمی دنیا پر فرض نہیں کہ وہ پہلے سائنس داں کی کتاب میں درج نتائج پر ایمان لائے؛ یعنی سائنس میں خبرِ واحد یا ایک شخص کے ذریعے دی جانے والی خبر ہر گز حُجت نہیں خواہ اس کا راوی کتنا ہی بڑا عالم و دانا، متقی و پرہیز گار اور عادل و منصف ہو اور اس سے کسی غلطی یا بد دیانتی کی توقع کسی کو نہ ہو؛ اور اگر فلسفہ و سائنس میں کوئی شخص خبرِ واحد کو حُجّت سمجھے گا تو محض اپنے لیے، ساری دنیا سے وہ یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی دی ہوئی خبر پر ایمان لائے۔

لیکن اس کے بر عکس مذہبِ اسلام میں خبرِ واحد کو حجت حاصل ہے بشرط یہ کہ راویوں کا سلسلہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو اور ہر ایک راوی عادل ہو۔ صحابہ جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو خبر واحد کی بنا پر ہی۔ عالمِ اسلام میں ایسے لوگ بہت کم ہوئے ہیں جو دین میں خبرِ واحد کا انکار کریں؛ مثلاً سر سید اور جاوید احمد غامدی اور ان لوگوں کا انکار بھی خبرِ واحد سے متعلق ہر معاملے میں نہیں ہے۔

فلسفہ و سائنس میں خبرِ واحد کو چھوڑ کر جو معاملات و مسائل انسانی تجربہ و مشاہدہ اور عقلی استدلال سے متعلق ہیں ان میں ایمان بالغیب اگر ہوتا بھی ہے تو اس کی باز تصدیق ہمیشہ ممکن ہوتی ہے اور غیر محدود تعداد میں لوگ ان کی دو بارہ جانچ اور تصدیق کر سکتے ہیں۔

حیاتیات میں، جو فلسفیانہ بنیادوں پر قائم سائنس کا ایک علمی شعبہ ہے، جان دار چیزوں کا مطالَعہ کچھ خصائص کی بنا پر ہوتا ہے۔ پانی میں، مٹی میں، زمین پر اور ہوا میں رہنے والے جان داروں کی مختلف اور مشترکہ خصوصیات کی بناء پر ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور ان کے متعلق انسانی مشاہدہ اور انسانی عقل کی بناء پر یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جان داروں کی اتنی قسمیں کیسے وجود میں آئی ہوں گی۔

یہاں اس کہانی کی گنجائش نہیں کہ ایک دور میں خدا نے کُن کہہ کر دفعتاً، یا بَہ تدریج اتنے سارے متنوّع جان داروں کو پیدا کر دیا جن میں سے ایک نوعِ انسان بھی ہے۔ سائنس میں چیزوں کو دلائل کی بنا پر تسلیم کیا جاتا ہے اور دلائل خدا کے عدم و وجود دونوں پر ہیں۔

حیاتیات میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کی قدرت کے قائل ہو کر سَربَہ سُجود ہو جائیں کہ اس نے اتنے متنوع جان داروں کو پیدا فرمایا، بل کہ مسئلہ یہ ہے کہ اتنا سارا تنوع کیسے وجود میں آیا؟ کیسے کا یہ سوال فلسفیانہ اور سائنسی ہے۔

تمام جان دار یک بہ یک، یا بہ تدریج پیدا ہوئے تو کیسے، علیحدہ علیحدہ پیدا ہوئے تو کیسے؟ یا ایک دوسرے سے نکلے تو کیسے؟ ان کے درمیان کوئی رشتہ اگر ہے تو کس قسم کا ہے؟ کیا نئی اَنواع کا وجود میں آنا ممکن ہے؟ اور موجودہ انواع کا مستقبل کیا ہو گا؟ اور ہم ان انواع کی پیدائش میں کیا اور کیسے تغیر کر سکتے ہیں۔ سائنس کے میدان میں یہ مسائل نہایت بنیادی ہیں اوران کے متعلق کسی سائنس داں کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمہیں ان سے کیا سر و کار؟ تمہاری عقل محدود ہے اس لیے تم ان امور میں تجسس نہ کرو۔

(جاری ہے)