توحید پرستوں میں شخصیت پرستی کیوں؟ مسلم معاشروں کا المیہ

توحید پرستوں میں شخصیت پرستی کیوں ؟
رجب طیب اردوان

توحید پرستوں میں شخصیت پرستی کیوں ؟ مسلم معاشروں کا المیہ

(ملک تنویر احمد)

اسلامی معاشروں میں شخصیت پرستی کا رجحان ایک ایسا مہلک عارضہ ہے جس نے ان معاشروں میں اداروں کی تعمیر اور ارتقاء کے سامنے سد سکندری تعمیر رکھی ہے۔ اس رجحان کے پہلو بہ پہلو’’ناگزیر پن‘‘ کی وہ ذہنیت بھی ان معاشروں میں اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ جہاں اقتدار پر قابض یا فائز قیادت اختیارات کے ارتکاز کے خبط میں اس بری طرح مبتلا ہے کہ وہ اس کے لئے ہر جائز و ناجائز اقدام بروئے کار لانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ترکی اسلامی دنیا میں تہذیبی، معاشی اور سماجی سطح پر ایک قابل تقلید مثال ہے۔ خلافت کی عمارت کو منہدم کر کے جدید ترکی کی بنیادیں سیکولر اقدار پر رکھی گئیں۔ سیاسی آویزشوں اور مارشل لاء کے ادوار کے باوجود جدید ترکی نے معاشی اور سماجی شعبے میں کچھ ایسی نمایاں ترقی کی کہ اسلامی دنیا میں اس کا مقابل نہیں۔

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحب مضمون

طیب ایردوان کی کرشماتی شخصیت نے دور جدید میں ترکی کی معاشی و سماجی ترقی کے لئے جو انقلابی اقدامات اٹھائے اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ان کے دور میں معیشت کے شعبے میں ترکی نے ترقی کی جو منزلیں پھلانگی ہیں وہ ان کی قیادت کے سایے میں ممکن ہوا۔ سماجی شعبے میں بھی روز افزوں ترقی نے ترکی کو اسلامی دنیا میں مہمیز کر دیا ہے۔ اس ترقی و کامرانی کے باوجود ترکی ابھی بھی اپنے پڑوس کے یورپ سے کوسوں پیچھے ہے جس کی یونین میں شمولیت کا وہ خواہاں ہے۔طیب ایردوان دو بار وزیر اعظم رہنے کے بعد جب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس عہدے کو اختیارات سے فیض یاب کرنے کے لیے ریفرنڈم کی راہ چنی گئی۔ ترک عوام نے بظاہر آئینی اصلاحات کے رنگین نعرے تلے اس ریفرنڈم میں آئینی اصلاحات کے حق میں ووٹ ڈال کر صدر کے عہدے کو اختیارات سے کچھ یوں نواز دیا ہے کہ ان پر آمر ہونے کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔
طیب ایردوان نے اس تاثر کو یکسر مسترد کیا کہ اس ریفرنڈم کے ذریعے انہوں نے ایک آمر کو روپ دھا ر لیا ہے۔ طیب ایردوان کی ترکی اور اسلامی دنیا کے لئے خدمات سر آنکھوں پر اور ترک عوام کا ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے عہدے میں اختیارات کا ارتکاز کا فیصلہ ان کا جمہوری فیصلہ ہے تاہم اس نے مسلم سماج سے جڑے اس المیے کو پھر طشت ازبام کر دیا ہے کہ شخصیت پرستی کا رجحان کس قدر گہری میں پیوستہ ہے کہ اس سے نکلنے کی کوئی سبیل ابھی تک بروئے کار نہیں لا جا رہی ۔ اسلامی دنیا کے تقریباً تمام ممالک اس شخصیت پرستی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستیں تو سر تا پا بادشاہت کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں جہاں جمہوریت طرز حکومت کی گنجائش تاحال دور دور تک نظر میں نہیں ہے۔دوسری جانب فوجی آمرتیوں نے کچھ ممالک میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں تو کہیں پر لولی لنگڑی جمہوریت خاندانی اجارہ داریوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ کبیدہ صورت حال مسلم معاشروں میں اداروں کی تعمیر و ارتقاء کی راہ میں مزاحم ہے۔یہ شخصیت پرستی کا خبط صدیوں پرانی اس ذہنیت کی عکاس ہے جب مطلق العنان بادشاہ ’’ظل الہی‘‘ کی صورت میں اپنے اقتدار کو طوالت اور دوام بخشنے کے متمنی ہوا کرتے تھے۔
مغربی دنیا میں فکر کے خشک سوتوں کوجب احیاء، جدت اور ارتقاء نے سیراب کیا تو شخصیت پرستی کے بت پر بھی وار پڑا جس نے ان معاشروں پر مطلق العنان بادشاہتوں کی صورت میں پنجے گاڑے ہوئے تھے۔انسانی زندگی اور معاشروں کی بقا ارتقاء میں پنہاں ہے اور ارتقاء تبدیلی کا دوسرا نام ہے کہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔

صدیوں کی محکومی اور زوال نے مسلم معاشروں میں جہاں افکار تازہ کی آبیاری کو روکے رکھا وہیں پر اداروں کی تعمیر و ترقی کو بھی چنداں اہمیت نہ دی جو کسی بھی فروغ پذیر انسانی معاشرے کی علامت ہوتی ہے۔مغربی دنیا میں اداروں کی تعمیر اور ارتقاء کا ہی یہ فیض ہے کہ وہاں پر کوئی جمہوری رہنما اپنے آپ کو ’’ناگزیر ‘‘ قرار دے کر قوم کی گردن پر تا دم مرگ سوار نہیں رہتا۔فقط چند ماہ تک دنیا کو اپنے لاٹھی سے ہانکنے والا باراک اوبامہ اب کہیں بھولے سے بھی نظر نہیں آتا۔ آج ٹونی بلئیر، گورڈن براؤن، ڈیوڈ کیمرون ہمیں کہیں پر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔

یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال برقرار ہے جہاں شخصیات کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن ادارے اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔ دور جدید میں نیلسن منڈیلا ایک ایسا معتبر اور قابل احترام نام ہے کہ جن کی نسلی امتیاز کے خلاف جدو جہد سنہری حروف میں لوح تاریخ پر ثبت ہو چکی ہے۔یہی نیلسن منڈیلا اپنی مدت صدارت پورا کرنے کے بعد جنوبی افریقہ میں اگلی مدت کے لئے انتخاب لڑنے کی بجائے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اداروں کی تعمیر و ترقی کا مفاد زیادہ عزیر تھا۔
مسلم معاشرے آج اندرونی طرح پر جس تباہی و بربادی اور خانہ جنگی کا شکار ہیں اس میں بڑی حد تک ہاتھ ان مطلق العنان حکومتوں کا ہے جو شخصیت پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ لیبیا، تیونس، مصر اور شام میں ان آمروں کے خلاف جب آوازیں بلند ہوئی ہیں تو اندرونی طور پر عناصر کے متحر ک ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی طور پر طاقتور ممالک نے بھی اس صورت حال سے فائد ہ اٹھا کر انہیں جس تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اس کی خوفناک اور اندوہناک جھلک اس وقت شام کے گلی کوچوں میں دکھائی دیتی ہے۔طیب ایردوان نے ترکی کی ترقی کے لئے بے پناہ خد مات انجام دیں لیکن آج تاریخ کے اس نازک مرحلے پر وہ اسی عارضے کا شکار ہیں جو ’’ناگزیرپن‘‘ کی بیمار فکر سے لاحق ہوتا ہے۔
طیب ایردوان فانی ہیں اور آج نہیں تو کل مٹی میں مل جائیں گے لیکن اس نازک صورت حال میں اپنی ذات میں اختیارات کا ارتکاز کر کے وہ کوئی ایسی روشن اور قابل تقلید مثال قائم نہیں کر رہے کہ جو انہیں تاریخ میں امر کر دے۔ ان کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت بر پا ہو چکی ہے اور مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لئے ان رجحانات کا قلع قمع کرنا ہوگا جو معاشروں میں شخصیت پرستی کے رویوں سے جنم لیتا ہے اور جہاں حکمران اپنی ذات کو اختیار کا منبع قرار دینے کی بجائے اداروں کو وہ پائیداری اور دوام بخشتے ہیں جو ملک و معاشرے کی ترقی کے لئے شرط اول ہے جس پر بد قسمتی سے ابھی تک کوئی مسلم معاشرہ پورا نہیں اتر پا رہا۔