ہمارے شناختی کارڈ میں ولدیت کا خانہ نہیں ہے

Sidrah Sahar Imran Book Title

ہمارے شناختی کارڈ میں ولدیت کا خانہ نہیں ہے

از، سدرہ سَحَر عمران

آپ کے سونے جیسے ہاتھ سائیں

ہمارے ہونٹوں کی کالک سے

نیلے پڑ جاتے ہیں

آپ کے چاندی جیسے پیر سائیں

ہماری گناہ گار پیشانیوں سے

داغ دار ہو گئے

آپ کے سفید سُوٹ سائیں

ہمارے کفنوں کو خدا غارت کرے

ان کی برابری کا سوچتے ہیں

آپ کے اونچے شملے سائیں

ہمارے جھونپڑوں کا تاج ہیں

آپ کے حکم کے صدقے سائیں

ہماری نمازیں

پچھلی صفوں میں مری پڑی ہیں

آپ کی اوطاق سائیں

ہماری اوقات کا پیمائشی فیتہ ہے

آپ کی مسہریاں سائیں

ہماری عورتوں کی گندمی مہک سے

بھری ہوئی ہیں

آپ کے مزار سائیں

ہمارے جسم کے چراغوں سے

روشن رہتے ہیں

آپ کا حسب نسب سائیں

شاہوں اور سیدوں کی لڑیوں کا

سنہری پھول

اور …

ہم سائیں

آپ کی پاک زمینوں پر بندھے ہوئے

حرام زادے…!

خیموں پر لکھی ہوئی نظمیں 

ماں!

میں تمہیں یاد نہیں کرتا

لیکن میرے بچپن کی دیوار پر

ایک ہنستی ہوئی خوب رُو عورت کی تصویر ہے

ماں! تم اس تصویر سے بالکل بھی نہیں ملتی ہو

بارشوں نے تمہاری آنکھیں

کس قدر ڈبو دی ہیں

میں انہیں اپنے ہونٹوں سے چھونا چاہتا ہوں

تو میرے ہونٹ بہنے لگتے ہیں۔

… 

جنت کو ہنسی نہیں آتی؟

تم نے اپنی سونے کی چین

نیند

اور بھوک فروخت کرتے ہوئے

کیا اپنی ہنسی بھی بیچ دی تھی؟

… 

موت نے میری دونوں جیبیں کاٹ لی ہیں

میرا باپ اے ٹی ایم کارڈ تھا

جس دن سے کھویا ہے

میں نے کوئی خوشی نہیں خریدی

میری ماں اور میرا اسکول بیگ

دونوں سے ایک ہی رنگ کی خوش بُو آتی تھی

دونوں بم دھماکے میں اڑ گئے

… 

چار برس میں چار روٹیاں

فاختاؤں کے موسم میں

گولیوں کی جگہ گندم اگا دی جائے

تو بھی چار روٹیوں کے لیے

میرے ہاتھ کم پڑ جاتے ہیں

آخر یہ چھوٹی قبریں کس دن بڑی ہوں گی؟

… 

بے وطن عورت کا مارچ 

مٹی خارش کی طرح

میرے جسم سے چمٹی ہوئی ہے

آزادی کی سرخ چیونٹیاں

میری آنکھوں میں بِل بناتے ہوئے

آٹے کی بوریوں پر نعرے لکھتی ہیں

“ایک عورت کے بدلے، وطن کی ایک اینٹ”

نہیں، نہیں

وطن عورتوں کا متبادل نہیں ہوتے

عورتیں تو غنمیت کی لاٹھیوں سے ہانک کر

کتوں کی شکار گاہ میں لائی جاتی ہیں

اور بدن سونگھنے والے

مٹی کو کھجلی میں بدل دیتے ہیں

دوسری عورتوں کو

سورۂِ نور والے مرد ملتے ہیں

اور ہمیں

خارش زدہ کتے

جنتی لوگو! تم دوزخ میں کیا لینے آئے؟

ہم پیدا ہوئے تو ہمارے کانوں میں

مٹی نے اذانیں دیں

ہم نے دھول جیسی آنکھوں سے

زندگی کی ریل گاڑیاں کھینچیں

یہ خچر نہیں، ہمارے پاؤں ہیں

ہم نے گرد و غبار کی روٹیاں

پانی کی بوند سے چپیڑ کر کھائیں

ہمارے مور رقص کرتے مر گئے

کوئی گھنگھرو لے کر نہیں پہنچا

زندگی تمہارے لیے ایک طوائف

ہمارے لیے پانی کی بوند ہے

دیکھو! ہمارے تماشے سے تمہارے دن بہلتے ہیں

تمہاری راتوں سے ہماری موت قہقہوں کی طرح چپکی ہے

یہ گندگی کے ڈھیر نہیں… مکان ہیں

جہاں تم نے تھوکا… وہ میرے کھانے کا برتن تھا

جسے تم مٹی سمجھے … وہ ہمارا لباس ہے

انھیں تم جانوروں کی طرح مت ششکارو

یہ ہماری اولادیں ہیں

جن کا گوشت تم نگل گئے اور ہڈیاں ہمیں مل گئیں!

مجھے

تمہارے

ہونٹوں پر

ہنسی کے

پھول

کاڑھنے

ہیں

مجھے ہنسنے کا سبق بغیر پڑھے یاد ہوا

اور رونے کی باری آئی

تو میری آنکھیں مٹی ہو گئیں

اس نے مٹی سے آنسو بنائے

آنسووں سے مجھے

اور… مجھ سے موت

… 

تم نے اپنے دکھ میری راتوں میں سی دیے

اور… دن کا کرتا پھاڑ کر اپنے لیے

کشتی بنا لی

تم مجھ میں بہہ سکتے تھے

لیکن …

میں نے آنسووں کی ہڑتال منظور کر لی

اب دریا میرے خلاف بھونکتا ہے۔

… 

پہاڑ کتنے بانجھ ہوتے ہیں

یہ کوئی اس ہنسی سے پوچھے

جس کی نسل ختم ہو گئی!