پیرابل اور فیبل ایک مختصر جائزہ

پیرابل اور فیبل ایک مختصر جائزہ
عطاء الرحمٰن،صاحبِ مضمون

پیرابل اور فیبل ایک مختصر جائزہ

عطاء الرحمن خاکی ؔ

پیرابل:

پیرابل (parable) ایک یونانی لفظ (parabole) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے موازنہ، مثال یا قیاس کرنا۔ پیرابل (parable) ادب کی ایک نثری صنف ہے۔پیرابل ہم اس مختصر بنت والی کہانی کو کہیں گے جس میں مذہبی اصول، اخلاقی سبق، نفسیاتی حقیقتیں یا عام سچائی سیدھے سادے طریقے سے بیان کی جاتی ہے، پیرابل میں ہمیشہ حقیقی یا اصل واقعات کے ساتھ کہانی کے متن کو جوڑ کر اخلاقی درس دیا جاتا ہے۔

یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ کچھ قارئین ’’پیرابل ‘‘اور ’’فیبل ‘‘کے مابین فرق نہیں کرپاتے تو مختصراً عرض ہے کہ جہاں ’’فیبل‘‘ میں انسانی صفات والے جانور، پرندے، پتھر، نباتات، بے جان اشیاء، داستانوی مخلوقات اور خیر و شر کی قوتوں کے ذریعے سے وضاحت کی جاتی ہے یا کہانی کو آگے بڑھایا جاتا ہے، جبکہ ’’پیرابل‘‘ میں انسانی کرداروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پیرابل میں سارا زور سبق پر ہوتا ہے اور کہانی کے بیانیہ پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے انسانی افعال کی مماثلث پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ کہانی کی باقی جزئیات جیسے ہیئت، تکنیک، اسلوب ، کردار وغیرہ کا استعمال صرف کہانی کو جاندار، یادگار اور چاشنی پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ آپ پیرابل لکھتے وقت اپنی تحریر کو مناظر اور کرداروں سے بوجھل کردیں اس کے بجائے ایک متوازن کینوس ’’پیرابل‘‘ کو عالمی سطح کی تحریر بنا دیتا ہے۔

پیرابل کو روحانی تحریروں میں اخلاقی تصورات کو دریافت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہاہے۔ نئے عہد نامہ (Bible)، بھگوت گیتا، رامائن، میں پیرابل کی شکل میں کئی کہانیاں موجود ہیں ۔مذہب اسلام میں بھی صوفیائے کرام نے اس صنف کی صورت میں اخلاقی درس دیا ہے۔ مثلاً تذکرۃ غوثیہ، منطق الطیر وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

فیبل:

 فیبل(Fable) ایک ادبی صنف ہے، فیبل کا لفط ایک لاطینی لفظ ’’فیبولا‘‘ (fabula) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’’کہنا‘‘۔ “فیبل”ہم اس مختصر بُنت والی کہانی کو کہتے ہیں جس میں جانور، پرندے، پتھر، نباتات، بے جان اشیاء، داستانوی مخلوقات اور خیر و شر کی قوتوں کے ذریعے وضاحت کی جاتی ہے یا کہانی آگے بڑھائی جاتی ہے اور کہانی ایک خاص اخلاقی سبق پر آکر ختم ہوجاتی ہیں۔

ان جانوروں اور بے جان اشیاء کے تعلق سے انسانی فطرت کا پتہ چلتا ہے۔ فیبل کو پڑھنے والے کرداروں کی حرکتوں اور گفتگو کے ذریعے سے عملی اسباق سیکھ سکتے ہیں۔ تاہم سیکھا ہوا سبق تمثیلی یا علامتی ہونا ضروری نہیں ہے ۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہر جانور یا بے جان شے لازم نہیں ہے کسی انسان کی علامت ہو۔ اس کے بجائے فیبل کو پڑھنے والے قارئین افسانوی متن کو پڑھ کر سبق حاصل کرسکتے ہیں۔

واضح طور پر سب سے پہلے بھارت میں بدھ مت ہدایات کو بیان کرنے کے لیے فیبل کا استعمال کیا گیا۔ گوتم بودھ کی کچھ جاتک کہانیاں، جو گزشتہ جنموں کے ذاتی تجربات سے متعلق ہیں اور بالکل یونانی فیبلز کی طرح اخلاقیات کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ جاتک کہانیاں پانچ صدی قبلِ مسیح کے وقتوں کی ہوسکتی ہیں، اگر چہ کتابی صورت میں ان کو بہت بعد میں لکھا گیا۔ سب سے اہم مجموعہ ’’پنچ تترا‘‘ ہے، اصل کتاب تو وقت کے ہاتھوں ضائع ہوگئی لیکن اس کتاب کو ایک گمشدہ پہلوی ترجمے سے آٹھویں صدی عیسوی میں عربی میں’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا گیا۔ کلیلہ و دمنہ کے متن میں متعدد فیبلز شامل ہیں جو سیاسی حکمت اور دشمنوں کی چالوں کو سمجھنے او ر الٹنے کے لیے تیار کی گئی تھیں ۔ بعد میں یہ کتاب عربی سے دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔

بچوں کے ادب میں اس صنف کو بے حد مقبولیت حاصل ہے بھلا کون ہوگا جس نے اپنے بچپن میں مستقل مزاج کچھوے اور چالاک خرگوش کی کہانی نہیں پڑھی ہوگی۔ ایسوپ (Aesop) جو ایک یونانی ادیب تھا اپنی فیبلز کہانیوں کے لیے بہت مشہور ہے ۔مذہب اسلام میں بھی صوفیائے کرام نے اس صنف کی صورت میں اخلاقی درس دیا ہے جیسے مولاناجلال الدین رومی کی شہرہ آفاق تصنیف ’’مثنوی مولانا رومی‘‘ اور شیخ سعدی کی ’’گلستان بوستان ‘‘میں کئی فیبلز موجود ہیں۔اس کے علاوہ ہندومتھالوجی میں بھگوت گیتا، رامائن اور عربی اساطیر سے ماخوذ الف لیلہ اور طلسم ہوشربا وغیرہ میں کئی فیبلز موجود ہیں۔

پیرابل اور فیبل کا فرق:

۱۔ پیرابل اور فیبل دونوں مختصر کہانیاں ہی ہوتی ہیں جن میں قارئین کے لیے اخلاقی سبق ہوتا ہے لیکن پیرابل میں صرف انسانی کردار وں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ فیبل میں بولنے کی صلاحیت رکھنے والے جانوروں اور پودوں کا اور کبھی کبھار خصوصی مافوق الفطرت صلاحیتوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔

۲۔ فیبل میں تصوراتی دنیا جبکہ پیرابل میں حقیقی انسان حقیقی دنیا کے مسائل کا سامنا کرتے نظر آتے ہیں۔

۳۔ پیرابیل میں عموماً روحانی یا مذہبی پہلو ہوتا ہے لیکن فیبل میں مذہبی تعلیمات سے پرہیز کیا جاتا ہے۔

پیرابل اور فیبل کی مثالیں :

پیرابل ، مثال نمبر۱

(نیا عہد نامہ سے اقتباس)

And he said to them, 147 To you has been given the secret of the kingdom of God, but for those outside, everything comes in parables; in order that 145 they may indeed look, but not perceive, and may indeed listen, but not understand; so that they may not turn again and be forgiven.146148 (NRSV)

Mark 4:1115012:

پیرابل ، مثال نمبر : ۲

(تذکرہ غوثیہ سے اقتباس )

ایک روز ارشاد ہوا کہ ہم لکھنو مکی مسجد میں ٹہرے ہوئے تھے اتفاقاً ایک امیر سیر کو جاتا دیکھا تو سامنے سے سلیمن صاحب انگریز آتا ہے اس خیال سے کہ انگریز کو سلام کرنا پڑے گا وہ امیر جھٹ پٹ مسجد میں چلا آیا جہاں ہم ٹہرے ہوئے تھے ۔ سلیمن صاحب اس بات کو تاڑ گیا وہ بھی پیچھے پیچھے مسجد میں آپہنچا جھک کر اس امیر کو سلام کیا اور کہا کہ دیکھو سلام کرنے سے کیا میری توقیر گھٹ گئی یا آپ کا دین و اسلام کچھ بڑھ گیا۔ آپنے منہ کیوں چھپایا کیاہم خدا کے بندے نہیں ؟ وہ امیر بہت شرمندہ ہوا اس کے بعد سلیمن صاحب ہماری طرف کو آیا تو ہم نے اٹھ کر سلام کیا اس نے پھر امیر سے کہا یہ

مسافر کیا سلام سے کافر ہوگیاپھر میری طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ میں نے کہا کہ صاحب یہ تو مجھ کو بھی خبر نہیں کہ میں کون ہوں ۔

کچھ کھلتا نہیں مجھے میں کون ہوں

صورت حیرت ہوں یا شکل جنون

پھر پوچھا کہ آپ کی قوم کیا ہے؟ میں نے کہا صاحب جو آدم کی قوم ہے کہا آدم کی کیا قوم ہے ؟ میں نے کہا مجھ کو نہیں معلوم یہ آدم سے پوچھیے پھر کہاآپ کہاں سے آئے ہیں ؟ کہا جہاں سے سب آئے ہیں وہ بہت حیران ہوااور بولا کہ صاحب جو بات ہم پوچھتے ہیں اس کا الٹا جواب دیتے ہیں پھر ان کو الفت ہوگئی کبھی کبھی ہمارے پاس آنے لگے ایک روز بڑے تکلف سے دعوت کی غرض فقیر کو چاہیے کہ ہر رنگ کا تماشہ دیکھے اور کسی کو برا نا جانے کیونکہ ذات باری ہر جگہ برابر ہے ۔

خدا ہر شے کے اندر یوں نہاں ہے

کہ جو ں بو گل کی گل کے درمیاں ہے

پیرابل، مثال نمبر : ۳

(منطق الطیر سے اقتباس)

سکندر رومی جب مقبوضہ ممالک میں کوئی قاصد بھیجنا چاہتا تو وہ شاہی لباس اتار کر خود قاصدوں والا لباس پہن کر پوشیدہ ہو کر جاتا ، چنانچہ راز کی بات وہ خود وہاں جاکر کہتا ایسا کرنے سے اس کا مقصد یہ ہوتا کہ یہ راز قاصد پر بھی پوشیدہ رہے ۔ وہاں جاکر وہ یہی کہتا کہ میں سکندر بادشاہ کا قاصد ہوں اور بادشاہ کا یہ پیغام لایا ہوں ، چونکہ دوسرے ممالک کے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ خود اسکندر رومی ہے اور چونکہ وہ سکندر کو پہچاننے والے آنکھ نہیں رکھتے تھے اس لیے اگر وہ خود کہتا کہ میں سکندر رومی ہوں تو لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ ہر دل میں بادشاہ کے لیے راستہ موجود ہے البتہ گمراہ دل میں یہ راستہ نہیں ہوتا ۔ اگر چہ بادشاہ اپنے محل سے باہر بیگانہ بنا ہوا ہے یعنی اسے کوئی نہیں پہچانتا مگر فکر نہیں کرو دل کے محل کے اندر وہ بادشاہ موجود ہوتا ہے۔

فیبل، مثال نمبر ۱:

(ایسوپ کی فیبلز سے اقتباس)

A Wolf found great difficulty in getting at the sheep owing to the vigilance of the shepherd and his dogs. But one day it found the skin of a sheep that had been flayed and thrown aside, so it put it on over its own pelt and strolled down among the sheep. The Lamb that belonged to the sheep, whose skin the Wolf was wearing, began to follow the Wolf in the Sheep146s clothing; so, leading the Lamb a little apart, he soon made a meal off her, and for some time he succeeded in deceiving the sheep, and enjoying hearty meals.

Appearances are deceptive.

فیبل، مثال نمبر ۲:

(جاتک کہانیوں سے اقتباس)

گوتم بودھ جیتاونا میں رہتے تھے، بھکشو ان کے پاس آئے اور کہا، ’’کیا بکریوں ، بھیڑوں اور جانوروں کو بھینٹ دینے کا کوئی لابھ ہوتا ہے‘‘ گوتم بودھ نے کہا، ’’نہیں میرے بھکشووں، کسی جاندار کی بھینٹ دینے سے کوئی لابھ نہیں ہوتا پھر انھوں نے جاتک کہی ’’ بیتے سمے کی بات ہے برہما دت براجتا تھا ، ایک برہمن نے مردوں کے بھوجن واسطے ایک بکری خریدی ور اپنے چیلوں کو دے کر کہا، ’’ اس کو ندیا کنارے لیے جاؤ، اس کو جل سے پوتر کرو، اس کو صاف ستھر کر اس کو ہار پھول پہناؤ اور اس کو کچھ بھوجن دو اور واپس لے آؤ‘‘ ۔ چیلے اس بکری کو لے کر چلے جب ندیا کنارے پہنچے تو وہ بکری ’’ ہنسی اور پھر رودی‘‘ ۔ یہ دیکھ کر بالک گھبرا گئے اور واپس پہنچ برہمن کو پوری کتھا سنائی۔ برہمن نے بکری سے پوچھا’’ تو ہنسی کیوں اور پھر رو کیوں دی‘‘۔ بکری کہنے لگی ’’میں بھی پچھلے جنم میں برہمن تھی اور ویدوں کے انوسار جیون گزارتی تھی میں نے بھی ایک بکری نذر واسطے بھینٹ دی تھی اور اس ایک بکری کی ہتھیا کے کارن میرا گلا چارسو ننانوے بار کٹ چکا ہے ۔ اور میں اس لیے ہنس دی کہ آج میرے گلے پر پانچسویں بار یعنی آخری بار چھری پھرے گی اور روئی اس لیے کہ میرا گلا کاٹنے کے بدلے تجھے پانچ سو بار گلا کٹوانا پڑے گا‘‘۔

برہمن بولا کہ ’’ ہے بکری تو ڈر مت ۔ تیرا گلا نہیں کٹے گا ‘‘۔

بکری بولی ’’ اے مورکھ تو ابھی بھی نہیں سمجھا، اس پاپ کی سزا تو مل کر ہے گی تیری رکھشا سے کچھ بھی نہ ہوگا ‘‘ برہمن نے بکری کو آزاد کیا اور چیلوں کو بولا ’’ اس کی رکھشا کرنا ہی اب تمھارا دھرم ہے ‘‘ ۔

چیلوں نے بہت رکھشا کی پر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ بکری نے ایک اونچے پیڑ کی ٹہنیوں پر منہ مارا تب زور دار کڑاکا ہوا ، بجلی اس پیڑ پر گری اور پیڑ بکری پر اور بکری کا سروناش ہوگیا ۔اسی پیڑ کے برابر میں دیوا پیڑ یہ سب دیکھتا تھا اور اس نے بکری کی خریداری سے لے کر اس کی موت تک کی گھٹنا کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔ گوتم بودھ نے یہ کہہ کر اس جاتک کو ختم کیا ’’اس سمے میں نے دیوا پیڑ کے روپ میں جنم لیا تھا ‘‘۔

فیبل، مثال نمبر ۳:

(گلستان سعدی سے اقتباس)

میں نے کہا ایک لومڑی کا قصہ تیرے حال کے مناسب ہے۔ جس کو لوگوں نے بھاگتے اور گرتے پڑتے دیکھا۔ کسی نے اس سے پوچھا کیا مصیبت ہے جو تیرے ڈر کا سبب ہے۔ اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ شیر کو بیگار میں پکڑ رہے ہیں ۔ اُس نے کہا اے بیوقوف تجھے شیر سے کیا نسبت اور اس کو تجھ سے کیا مشابہت؟ ۔ اُس نے کہا چپ رہ اگر حاسدوں نے دشمنی میں کہہ دیا یہ بھی شیر کا بچہ ہے اور میں پکڑی جاؤں تو مجھے چھڑانے کا کسے غم ہوگا۔