نووارد (نظمیں)، از الیاس بابر اعوان، اسلام آباد

نووارد (نظمیں)، از الیاس بابر اعوان، اسلام آباد

نووارد (نظمیں)، از الیاس بابر اعوان، اسلام آباد

تبصرہ کار: نعیم بیگ

الیاس بابر اعوان کی ان نظموں میں تفکر اور احتجاج، دونوں آہنگ یک جا ہیں۔

شمس الرحمنٰ فاروقی، الٰہ آباد، بھارت

میرا تاثر یہ ہے کہ الیاس بابر اعوان ایک ساتھ دو اسالیب کے شاعر ہیں۔ ایک دوسرے سے مختلف اور انھوں نے انھیں یکساں مشاقی کے ساتھ برتا ہے۔

شمیم حنفی، نیو دہلی، بھارت

الیاس نے نظم کی جس بنیاد کو حرزِ جان بنایا ہے وہ اسی دھرتی سے جڑی ہہوئی ہے، جہاں اس نے جنم لیا، ورنہ خاکی مکان، بھینس کا دودھ، کھانستے وقت کا حقہ اور جس کی مٹی میں میری ماں کا جسد سویا ہے جیسے امجیز نظم میں کیسے وقوع پذیر ہوتے۔

اقتدار جاوید، لاہور

الیاس بابر اعوان جس تناظر میں لکھ رہے ہیں اس کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ‘معنی’ پر قادر رہیں۔ جب ہم تناظر کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس تناظر کا مفہوم موضوعیت کی نفی کرتا ہے، تبھی تناظر کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ خارجی دنیا سے ربط میں آنے کا مطلب تناظر کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ تناظر کا ‘حوالہ’ با معنی بننے کے لیے لازمی ہے۔

عمران شاہد بھنڈر، برمنگھم

الیاس بابر اعوان کی یہ نظمیں غزل اورئینٹڈ قاری کو نظم پڑھنے کی طرف مائل بلکہ مجبور کرنے کا کارنامہ ضرور سر انجام دیں گی۔

ظفر اقبال، لاہور

یہ ہیں وہ اعترافات جو اردو ادب کے چند جید نقادوں اور شاعروں نے الیاس بابر اعوان کی نظموں کے مطالعہ کے بعد قاریئن کے سامنے کیے۔

خود الیاس بابر اعوان اپنی نظم ” اعتراف” میں کیا کہتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

وہ ہجر یافتہ لمحے وہ کم نگاہ شہود

مری نظر کے حوالوں میں تھے کبھی موجود

کہیں کہیں کوئی کترن خیال رفتہ کی

کہیں کہیں کسی رعنائی کی لپک عریاں

مرے وجود میں کھلتا ہوا وہ تارِ تبسم

وہ مری سانس میں ٹھہرا ہوا عذابِ نہاں

وہ سمت جیسے ہو بھجتے چراغ کی ساعت

درونِ وہم و گماں چشمِ نیم شب کا سکوت

یہیں فلک کے کواڑوں کا نور نتھرا ہوا

یہیں پروں پہ مرے چادریں سفارت کار

کہاں کہاں کا ہنر بولتا ہوا دل میں

فقظ رہینِ طلسمات جاوداں مری صورت

یہ آئینوں ہنر کیش لذتوں کے وجود

یہ ٹمٹماتی ہوئی ان کہی باتیں

ریاضتوں میں ہمکتے ہوئے وہ خال و خط

وہ تربتوں پہ کھلے پھول کچھ کتابت کے

وہ میرے خواب جنھیں لوگ اشک کہتے ہیں

میرے قلم کی صداقت میں بس یہی کچھ ہے

اعتراف سے پہلے ‘نیو ورلڈ آرڈر’، ‘نوآبادیاتی حیات’ اور ‘ اذیت کے پھندے’ جسی نظموں اور اعتراف کے بعد  ‘بیعت’ ، ‘آؤ ہجرت کریں’ ، ‘ہائپر ریئلٹی’ ، ‘فسردہ پلوں کے گرفتار’  جیسی  بیشمار نظموں کے خلق ہو جانے پر الیاس بابر اعوان مزید فتوحات کے ارادے رکھتے ہیں۔ وہ اپنی نئی کتاب میں اٹھاون نظموں کا ایک گلدستہ پیش کرتے ہیں۔ جسے سانجھ نے قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ الیاس آج کی نوجوان نسل میں ان چند لکھنے والوں میں سے ہیں، جنھوں نے فکری اور سیاسی مدو جزر کو خام شکل میں پیش نہیں کیا، ادب میں منظوم اظہاریے کا سلسلہ اگرچہ آج کل دراز ہے، لیکن الیاس شعر کی ساخت، اس کی ہیئت اور شاعرانہ لطافت کو خوب جانتے ہیں۔

اِن اوپر دیے گئے جید، معروف شاعروں اور نقادوں کی رائے کے بعد اگرچہ میری رائے کچھ اتنی اہم نہیں، تاہم میں اپنا مختصر تاثر ضرور قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔

الیاس کی شاعری کا پیراہن اس لیے زیادہ کشادہ اور متنوع ہے کہ انھوں نے آج کی سماجی اور گلوبل زندگی کے اسرار کو واضح طور پر دیکھ لیا ہے۔ وہ اس سفر میں خاموش طلسم کے ہمراہی بنتے ہیں، وہ جبر اور ظلم کے پہلی سے آخری سطح تک درد کی صداؤں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے شہرِ کم ظرف سے خلاء کی طرف ہجرت کرنے کے خیال کو باندھتے ہیں۔ شہری زندگی کی نعمتوں اور محرومیوں سے جنگ کرتے ہوئے وہ اپنے خواب، آدرشوں اور امکانات کو معدوم نہیں کرتے، وہ خدا کے انسانی تصور کو کچھ یوں بھی بیان کرتے ہیں۔

                         چند لمحوں کی عنایت پہ ہے یہ عمر تمام

                     زندگی دیکھ ترے ہاتھ میں مرتا ہوا میں

الیاس کو لفظوں سے تصویریں بنانے کا ہنر خوب آتا ہے۔  ان کے شعروں میں حسیاتی کیفیات کسی مجرد شکل میں نمودار نہیں ہوتیں، بلکہ ایک مجموعہ خیال کے طور مکمل منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔

الیاس کا جمالیاتی اسلوب اور لطافت فکر کی گہرائیوں اور سوچ کے نئے زاویوں کو شعری استغراق سے گزار کر لاتا ہے۔ وہ جدید عہد کی متلون اور وحشی سوچ اور فکر جدید کے لاینحل مسائل کو اپنے شعروں اور نظموں میں جمالیاتی قبا پہناتے ہیں۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔