چوہدری نثار علی خاں کی دلیل

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

(تنویر احمد ملک)

مزاحیہ ادب میں یکتائے روزگار مشتاق احمد یوسفی اپنی تحریر میں لطافت اور شگفتگی کے رنگ بکھیرنے کے لئے کہاوتوں اور مثالوں کا ایسا بر محل استعمال کرتے ہیں کہ تحریر کی چاشنی کو دو آتشہ کر ڈالتے ہیں۔ یوسفی صاحب اپنے ایک تحریر میں وکیل صفائی نام کے کردار پر جب لطافت اور مزاح کی گہری تہیں جماتے ہیں تو ایک دیہاتی مثل کا سہارا لیتے ہیں۔ اس دیہاتی مثل کے مطابق آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے کہ بندے کو ننگا کر کے چھوڑتے ہیں۔یوسفی صاحب بقید حیات ہیں ۔خدا انہیں سلامت رکھے کہ ان کی زندگی میں اس دیہاتی مثل نے ترقی کی ایک نئی منزل پھلانگ لی ہے۔اب نئی ترکیب میں یہ مثل ’’آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل، کورٹ کے وکیل اور نثار کی دلیل‘‘کی صورت میں جچے گی۔

چکری کے چوہدری نثار علی خان خطہ پوٹھوار کے وہ فرزند ہیں کہ جن کے طولانی خطابات سے ابلنے والے الفاظ کے قلزم سے پارلیمنٹ ہاؤس کی پر شکوہ عمارت عرصہ دراز سے سہمی چلی آتی ہے۔ تیس سال سے زائد عرصے سے پارلیمان کی اس عمارت میں چکری کے اس چوہدری نے اقتدار کے نشیب و فراز کے کئی مراحل اپنی آنکھوں کی پتلیوں میں محفوظ کر رکھے ہیں۔نثار حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز میں ایک لاڈلے بیٹے کا درجہ رکھتے ہیں کہ جن کی بلاوجہ ناراضگی بھی میاں نواز شریف کو بے کل کر دیتی ہے اس لئے تو میاں صاحب چوہدری صاحب کو منانے کے لئے کشاں کشاں چلے جاتے ہیں۔

طولانی خطابات میں ملکہ رکھنا ایک الگ بات ہے اور ان میں کسی حکمت، دانائی اورتدبر کا تڑکا قطعی طور پر ایک الگ میدان ہیں ۔ چوہدری صاحب کی گرمی کلام میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے اس ہتھیار سے اپنے سیاسی حریفوں پر اس طرح پل پڑتے ہیں کہ انہیں دانتوں پسینہ لا کر ہی ان کی جان چھوڑتے ہیں۔ چوہدری صاحب اپنی پاک دامنی پر بھی نازاں ہیں اور ان کے قصیدہ گو ان کی پاکی داماں کی حکایت کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گزرے وقتوں کے ان اساطیری کرداروں کا سا شائبہ ان کی ذات پر ہونے لگتا ہے جو اپنا دامن نچوڑ تے تو فرشتے بھی چلو چلو بھر اس مقدس پانی سے وضو بنانے کا ارفع فریضہ انجام دیتے ۔۔ان چوہدری صاحب کی عظمت و برگزیدگی کے قصے فی الحال طاق نسیاں کی نذر کرتے ہوئے ان کی اس دلیل پر نظر دوڑاتے ہیں جو چوہدری صاحب نے ایوان بالا کے اجلاس میں فرقہ وارانہ تنظیموں کی بابت کہی۔

ان کے بقول قوم کو فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گردی میں فرق روا رکھنا چاہئے۔ اب چوہدری صاحب کے حسن نظر کا یہ کمال ہی ٹھہرا کہ وہ فرقہ وارانہ تنظیموں کو دہشت گرد سوچ سے الگ کرنے کی دعوت دے بیٹھے۔ ہم جیسے عامی چوہدری صاحب کی فہم و ذکاوت کی گرد بھی نہیں پا سکتے۔ انہوں نے اگر حسن تدبیر سے فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان فرق ڈھونڈ ڈالا تو یہ ان جیسے عبقری کے نخل فکر پر ہی پھوٹ سکتا ہے کیونکہ ہم جیسے عامیوں کو اگر یہ فرق سوجھنے لگے تو پھر وزارت داخلہ کے قلمدان کا ہر ایرا غیرا نتھو خیرا دعویدار بن بیٹھے۔چوہدری صاحب نے فرقہ وارانہ تنظیموں کے بارے میں جو دلیل تراشی ہے اس کے بعد ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے اس ہولناک فرقہ واریت کے فسا د کو اپنی موت مر جانا چاہئے جس کے بار ے میں یار لوگ ویسے ہی بے پرکی کی اڑاتے رہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تنازعات اور تضادات دہشت گردی کو ہوا دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر چوہدری صاحب کی فہم و فراست کی ایک ہلکی سی گرد بھی ہم جیسے عامی پا لیں تو ان کی سمجھ دانی میں یہ بات سما سکتی ہے کہ مختلف مسالک کے نام پر فروغ پذیر فرقہ وارانہ تنظیمیں جب ایک دوسرے کے پیروکاروں کو تہہ تیغ کر رہی ہوتی ہیں تو یہ کشت و خون نہیں بلکہ مہر و محبت کے وہ نقش ہیں جو ان تنظیموں کے پیروکار ایک دوسرے پر واری صدقے ہوتے ہوئے قربان ہو جاتے ہیں۔

یہ فرقہ وارانہ تنظیمیں دہشت گردانہ کاروائیاں تھوڑی کرتی ہیں یہ تو فقط دل لگی کے لئے ایک دوسرے کی عبادت کی جگہوں پر دھماکے کچھ ایسی ہی کرتی ہیں جیسے شب برات کے موقع پر پٹاخے ہاتھ میں آتے ہی محلے کے بچے ایک دوسرے کے گھروں کے سامنے پھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ان فرقہ وارانہ تنظیموں کے جانب سے شائع ہونے والا لٹریچر میں ایک دوسرے کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی بجائے محبت کے ایسے زمزے بہہ رہے ہوتے ہیں جن میں ایک دوسرے کی درازی عمر اور سلامتی کے لئے ڈھیروں ڈھیر دعائیں مرقوم ہوتی ہیں۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے مسلح جتھوں کے بندوق برداروں کی بندوقوں سے گولیوں کی بوچھاڑ کی بجائے پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کے بارے میں انتہا پسندانہ سوچ جو وقتاً فوقتاًخونی تصادم میں ڈھلتی ہے در اصل فکر و تخیل کی وہ پرواز ہے جو فقط چوہدری صاحب اور ان فرقہ وارانہ تنظیموں کے قائدین ہی بھر سکتے ہیں۔

چوہدری صاحب خواص میں سے ہیں اس دلیل سے پہلے بھی انہوں نے اپنی گہر افشانیوں سے پارلیمان کے در و بام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ حکیم اللہ محسود جیسے خدا ترس اور وطن پرست شخص کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت پر چوہدری صاحب نے جو آٹھ آٹھ آنسو بہائے تھے اس نے ساری پارلیمنٹ کو دل گرفتہ اور پوری قوم کو افسردہ کر ڈالا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان میں فرقہ وارانہ شدت پسندانہ رجحانات کے خاتمے کے لئے چوہدری صاحب جیسا دیدہ بینا شخص ہی عملی اقدامات اٹھا سکتا ہے کہ انہیں چمکار چمکار کر مارا جائے ،،اب ایسی حکمت عملی عامیوں کی سمجھ میں ایسی آسانی سے سما جائے تو پھر چوہدری خانوادے کے فرزند اور عام شخص میں کوئی تفریق نہ رہے ۔ چوہدری صاحب سے بھول ہو گئی ورنہ صوفی شاعر کہہ اٹھا تھا’’خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں کرِ یں دی‘‘ کیونکہ یہ رمز کی باتیں ہیں رمز والے ہی جانیں۔