وادئِ نیلم کے سو رنگ

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

وادئِ نیلم کے سو رنگ

از، حسین جاوید افروز

وادئِ جموں و کشمیر کے متعلق مغل شہنشاہ جہاں گیر کہا کرتے تھے کہ اگر دنیا میں جنت کہیں ہے تو یہیں ہے، یہیں ہے اور یہیں ہے۔

کشمیر کی مسحُور کن وادی سے ان کی بے پناہ لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تقریباً ہر سال چھٹیاں گزارنے یہاں کا رخ کیا کرتے تھے۔ جب کہ شہنشاہ شاہ جہاں اور اکبرِ اعظم تین، تین بار اپنے اپنے ادوار میں کشمیر تشریف لائے۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کہ کیا واقعی کشمیر خوب صورت مقامات، وادیوں اور پربتوں سے مزین، سب سے حسین مسکن قرار دیا جا سکتا ہے، یا دوسرے مقامات دشوار گزار اور دور ہونے کے سبب کشمیر کو ہی خوب صورتی کا تاج پہنایا گیا؟

بہ ہر حال، اس میں کوئی کوئی شک نہیں کہ پیر پنجال سے شوالک کے پہاڑی سلسلوں، لداخ کے بلند ترین درّوں سے سری نگر کی دل فریب ڈل جھیل تک اور وہاں سے مظفر آباد تک جانے والی جہلم ویلی روڈ تک وادئِ کشمیر اپنے اندر قدرت کی رعنائیوں کے بے شمار رنگ سمیٹے کُرّۂِ ارض کے چند خواب ناک مقامات میں سے ایک مقام ہے۔

ایسے میں اگر پاکستانی کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں وادئِ نیلم اپنے بے مثال قدرتی مناظر، اونچائیوں سے بہتے جھرنوں اور سرسبز پربتوں سے لپٹی دھند سے بھر پُور ایک خوابیدہ جنت کا سا تصور پیش کرتی ہے۔

اٹھمقام سے تاؤ بٹ تک یہ وادی ایک جانب استور، دوسری جانب وادئِ کاغان اور تیسری جانب بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے بانڈی پورہ سے جڑتی نظر آتی ہے۔

240 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی وادئِ نیلم سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش کا باعث ہے، جہاں سالانہ ہزاروں سیاح کشمیر میں پوشیدہ جنتِ ارضی کو کھوجنے کے لیے رخ کرتے ہیں۔

دریائے نیلم، تاؤ بٹ کے مقام سے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر سے پاکستانی زیرِ انتظام خطے میں داخل ہوتا ہے اور مظفر آباد اور کوہالہ سے ہوتا ہوا خود کو دریائے جہلم کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس رومانوی مگر ہر لمحے بپھرے ہوئے دریا کا قدیم نام کِشن گنگا ہے۔

یوں بھی اسے بھارتی زیرِ انتظام علاقے میں کِشن گنگا کے نام سے ہی جانا جاتا ہے لیکن پاکستانی حدود میں اسے اب نیلم کا نام دے دیا گیا ہے۔

اگست 2017 میں ہم نے نیلم ویلی کے لیے رختِ سفر باندھا اور لاہور سے بَہ راستہ مری جاتے ہوئے کشمیر کی حدود میں داخل ہو گئے۔

پنجاب میں حبس سے جھلسے ماحول کو جھیلنے کے بعد اب کشمیر کا خنکی سے بھر پُور موسم طبعیت کو باغ باغ کر رہا تھا۔ لاہور سے مظفر آباد کا سفر 8 گھنٹے میں تمام ہوا جہاں مقامی ریسٹورنٹ سے ہم نے ناشتہ کیا۔

مظفر آباد شہر میں چینیوں کے تعاون سے بنا پل اب تیار ہو چکا ہے اور شہر کے ٹریڈ مارک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ شہر میں سڑکوں کی صورت حال بہتر ہو چکی ہے اور ہر طرف چہل پہل نظر آتی ہے۔

اس کے بعد اب ہم اٹھمقام جانے والی سڑک پر گام زن ہو گئے جو کہ وادئِ نیلم کا صدر مقام ہے۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے راستہ بھی سرسبز پہاڑوں سے گزرتا ہوا بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔

کچھ دیر بعد ہم نے دھنی آبشار کے پاس قیام کیا، جہاں کھانے پینے کے چند ڈھابے بھی قائم کیے گئے تھے۔ اٹھمقام ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کے فوراً بعد کنڈل شاہی اور پھر چلیانہ کا مقام آیا جہاں سے لائن آف کنٹرول شروع ہو جاتی ہے۔ خیال رہے نیلم وادی میں ہر وقت شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔

اب جا بَہ جا فوجی چوکیاں دکھائی دے رہی تھیں اور مستعد فوجی اہل کار شناختی کارڈ کی چیکنگ کر رہے تھے۔ کچھ ہی دور ہمارے دائیں طرف وادئِ نیلم کے پار نیچے گہرائی میں ایک چھوٹا سال قصبہ نظر آیا، جہاں ایک سکول کا میدان اور اس کے آس پاس گھر نظر آ رہے تھے۔

یہ ٹیٹوال کا قصبہ تھا جو کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا سرحدی علاقہ ہے۔ یہاں سے ایک سڑک تیزی سے بھارتی زیرِ انتظام وادی کے اندر جاتے دکھائی دے رہی تھی۔

ٹیٹوال دیکھ کر مَنٹو کا افسانہ، ٹیٹوال کا کتا بہت شدت سے یاد آیا۔ یہاں سے لائن آف کنٹرول اگلے تین گھنٹے کے سفر میں ہمارے شانہ بَہ شانہ چلتی ہے۔ مقامِ شکر تھا کہ اس وقت دونوں طرف کراس فائرنگ کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، کیوں کہ گزشتہ سال اس علاقے میں پاک فوج اور بھارتی فوج کے درمیان فائرنگ اور شیلنگ سے یہ راستہ بند کیا گیا تھا۔

کنڈل شاہی سے ایک راستہ جاگران کی طرف جاتا ہے جہاں ایک خوب صورت آبشار اور بجلی گھر بھی سیاحوں کے لیے خاصی کشش رکھتا ہے۔ آخرِ کار مظفر آباد سے تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہم اپنی پہلی منزل کیرن پہنچ گئے۔

کیرن میں سیاحوں کے لیے بہت ہی حسین ریزارٹ دریائے نیلم کے کنارے پر واقع ہیں۔ جہاں نیلم کے دوسری طرف بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا گاؤں واقع ہے جو کہ کیرن ہی کہلاتا ہے۔

دونوں حصوں کے درمیان حدِ فاضل دریائے نیلم ہے جس کا پاٹ یہاں کچھ وسیع ہو جاتا ہے۔ یہاں دونوں اطراف بلند و بالا اور سبزے سے مزین پہاڑ موجود ہیں جن پر چیڑ کے گھنے جنگلات ماحول کو رومانویت سے بھر دیتے ہیں۔

یہاں مجھے کیرن کے دونوں حصوں میں نمایاں فرق محسوس ہوا۔ پاکستانی کیرن میں جا بَہ جا کشمیری پشمینہ شالوں کی دکانیں موجود ہیں جہاں سری نگر سے مال لایا جاتا ہے۔ لوگ کشمیر کے روایتی پکوڑوں اور دیگر کھانوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔

نیلم ریزاٹ میں ہر طرف گہما گہمی ہے۔ مگر دوسری جانب بھارتی کیرن کی خالی خالی سی پگ ڈنڈیوں میں کبھی کبھار کچھ بچے دوڑتے نظر آتے ہیں اور کہیں کہیں دیہاتی لوگ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہاں لکڑی کے کئی مکانات موجود ہیں۔ مگر جیسے ان کے مکین ان میں ایک خاموش، اداس زندگی بسر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمارے ریزاٹ کے ملازم شاہد کے بَہ قول دریا پار بنے ان گھروں میں انڈین فوج ہمہ وقت لائن آف کنٹرول پر نظریں گاڑے موجود رہتی ہے۔ ذرا اوپر ہمیں پہاڑ کی چوٹیوں پر سرحدی باڑ بھی دھوپ میں چمکتی دکھائی دی۔

بھارتی فوجی اپنے کیرن کے لوگوں کی با قاعدہ گنتی کرتے ہیں۔ اسی لیے اس علاقے میں خوف کی فضا ہر وقت موجود رہتی ہے۔

جب کہ دوسری طرف پاکستانی کیرن میں ہر لمحہ زندگی اپنے جوبن پر نظر آتی ہے اور جگہ جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتے نظر آ تے ہیں۔ شاید کیرن کے دونوں کے اطراف بَہ یک وقت اداسی اور خوشی کا فرق اس لیے بھی نظر آتا ہے کیوں کہ ہمارے کیرن میں آزاد فضا کا تأثر ہر لمحہ جا گزین رہتا ہے۔ جب کہ ہماری طرف بھی پاک فوج کے چاق و چوبند جوان اپنے مورچوں میں براجمان مادر وطن کا دفاع جاں  فشانی سے کرتے نظر آتے ہیں۔

کیرن میں نیلم کنارے یہ شام اب خنک ہوتی جا رہی تھی کہ بھارتی کیرن سے مغرب کی اذان سنائی دی جس نے فضا میں گویا ایک آسودگی سی بھر دی۔ کیرن سے اوپر ہی ایک کچا راستہ نیلم گاؤں کی طرف بھی نکلتا ہے جہاں سے مقبوضہ علاقے کا خاصی گہرائی میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

اگلی صبح ہم شاردہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں دیواریاں کا مقام آیا جہاں سے رتی گلی کے لیے جیپ ٹریک کا راستہ نکلتا ہے۔ اٹھارہ کلومیٹر پر مشتمل یہ ٹریک دو گھنٹے میں آپ کو کشمیر کی دل کش جھیل رتی گلی کے درشن کرا دیتا ہے۔

یہاں سے ناران کی جانب بھی راستے نکلتے ہیں۔ کیرن سے تقریباً ایک گھنٹے بعد نیلم کنارے، اور شاردہ کا حسین مقام آ جاتا ہے۔ جہاں ایک پل کراس کر کے شاردہ ٹورسٹ ویلج جایا جا سکتا ہے۔ یہاں شاردہ کی قدیم یونی ورسٹی کے کھنڈرات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

شاردہ میں نیلم دریا میں کشتی رانی کا لطف بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ شاردہ میں کسی وقت بھی پہاڑ بادلوں سے ڈھک جاتے ہیں اور پھر موسلا دھار بارش کا راج قائم ہو جاتا ہے۔ تب یہ سارا منظر یوں دھل کر نکھر جاتا ہے کہ کشمیر کے جنت ہونے کا گمان حقیقت میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔

شاردہ میں کچھ دیر ٹھہر کر اب ہم کیل کی جانب روانہ ہو گئے جو کہ شاردہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک نہایت دل فریب قصبہ ہے۔ خیال رہے یہ راستہ جیپ ٹریک ہے یہاں کار لانے سے گریز کرنا چاہیے۔

کیل دفاعی لحاظ سے ایک حساس علاقہ ہے۔ یہاں فوج کی ایک بریگیڈ تعینات ہے۔ ہماری منزل اب اڑنگ کیل تھا، اس جو کہ کیل کے بالکل ساتھ ایک پہاڑ کے اوپر واقع ایک دل کش چراگاہ ہے۔ اس چراگاہ کے پار گھنے جنگلات سے مزین پہاڑ کے پیچھے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا گریز کا علاقہ موجود ہے۔ پاک فوج نے یہاں پیلے رنگ کی ایک محفوظ لفٹ کا بندوبست کر رکھا ہے۔ جس کے ذریعے اڑنگ کیل پہنچا جا سکتا ہے۔

یہ لفٹ پہاڑ پر ایک مقام پر اتار دیتی ہے جہاں سے چالیس منٹ کا ٹریک کر کے اڑنگ کیل کا دیدار کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے سارے پہاڑ کی چار گھنٹے کی جان توڑ ٹریکنگ کے بعد اڑنگ کیل تک رسائی ممکن ہوتی تھی۔

لفٹ جس کو ڈولی بھی کہا جاتا ہے، نے اس فاصلہ کو محض چالیس منٹ تک سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ ہم اپنی سٹک تھامے لفٹ کے ذریعے اڑنگ کیل پہنچے۔ اور ٹریکنگ شروع کی۔ یہ ٹریک خاصا نا ہموار اور اونچائی کی جانب واقع ہے لہٰذا دوران ٹریکنگ سٹک اپنے ہم راہ ضرور رکھیے گا۔

یکا یک آسمان پر گہرے بادل چھا گئے اور پھوار برسنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں پھوار موسلا دھار بارش میں بدل گئی اور سارا ٹریک کیچڑ سے بھر گیا۔ کئی لوگ تو ٹریکنگ سے اسی وقت تائب ہو گئے جب کہ کچھ سرفروش ہمارے ساتھ اڑنگ کیل کی طرف بڑھنے لگے اور کیچڑ، پھسلن اور بارش کے با وُجود آخرِ کار اڑنگ کیل پہنچ گئے۔

یقین مانیے اتنی جد و جہد کے بعد اوپر ایک اور ہی منظر ہماری راہ دیکھ رہا تھا۔ ہمارے سامنے سبز گھاس کا جیسے ایک فرش ایستادہ تھا۔ اوراس پر لکڑی کے خوب صورت گھر بنے ہوئے تھے۔ جب کہ اس گھاس کے عقب میں گھنے جنگل سے بھر پُور سرسبز پہاڑ، ماحول کو مزید تاب ناک بنا رہا تھا۔

ہم بارش میں مکمل بھیگ چکے تھے، لہٰذا ہم نے پاس ہی ایک سرائے سے چائے نوش کی اور اڑنگ کیل کے سبزہ زار میں برستی بارش کا لطف اٹھایا۔ ہمارے ساتھیوں حسن، عمر، شیخ اویس اور مصطفیٰ نوید نے دوران ٹریکنگ زخموں اور دشواریوں کی پروا نہ کرتے ہوئے جس طرح اڑنگ کیل ٹریک عبور کیا وہ واقعی قابل تعریف تھا۔

واپسی کا سفر بھی تیز بارش میں بہت احتیاط سے طے کیا گیا۔ اس وقت تک اڑنگ کیل بارش میں بھیگ چکا تھا اور رفتہ رفتہ بادلوں میں گم ہو رہا تھا۔ رات گئے ہم کیل پہنچے جہاں ایک کشمیری خاندان نے ٹریکرز کو اپنے گھروں میں بارش سے بچاتے ہوئے چائے پیش کی۔

کشمیریوں کی بے مثال مہمان نوازی نے سب کے دل جیت لیے۔ ہم تیز بارش میں رات گئے شاردہ پہنچے۔ رات بارہ بجے گولے داغنے کی آوازوں نے سارا شادرہ دہلا دیا۔ پتا چلا کہ چودہ اگست شروع ہو چکی ہے۔ پاک فوج اس خوشی میں آتش بازی کے مظاہرے کر رہی ہے۔

صبح صبح پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے شاردہ پل پر پرچم کشائی کی پُر نور تقریب منعقد کی۔ اور سارا شاردہ سبز ہلالی پرچم سے لپٹا ہوا تھا۔

وادئِ نیلم کے اس سفر میں جہاں کیرن، شاردہ اور اڑنگ کیل کے دل کش نظاروں نے دل موہ لیے وہاں کشمیریوں کی تعلیم کے حصول کے لیے لگن، چودہ اگست کے موقع پر پاکستانیت کے جذبے کی تڑپ اور مہمان نوازی نے بھی یقیناً ہم کو اَز حد متاثر کیا۔

کشمیر کے اس حسین خطے نیلم ویلی ضرور آئیے جہاں روح کو تازگی بخشنے کے لیے قدرت نے سارا سامان وافر مقدار میں جمع کر رکھا ہے۔

شہنشاہ جہاں گیر نے کشمیر کے متعلق درست ہی کہا تھا کہ دنیا میں اگر کہیں جنت ہے تو یہیں ہے، یہیں ہے، یہیں ہے۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔