مردانگی پر ایک پُر فتن مضمون

مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ، طور کلینک اچھرہ بازار لاہور

از، یاسر چٹھہ

درجۂِ ثانوی تک تعلیم حاصل کر کے درجۂِ اعلیٰ ثانوی کی ترلیم (تَرلے اور علم کی جمع بَہ مطابقِ ثقافتی قاعدہ) حاصل کرنے کے لیے یہ سطر کار لاہور گُھس بیٹھا۔ نام اس درس گاہ کا ایف سی کالج لاہور تھا۔

یہ نوے کی اس دھائی کی بات ہے جب ملکی سیاست کا پہیہ وہیں تھا جہاں سے ہمارا سب کا محبوب قاعدۂِ اعظم عمران خان 22 برسی جد و جہد کے تانے بانے بُن رہا تھا۔ دیس پنجاب میں عام طور پر 12 برسِیں جد و جہد عام تھی، لیکن بیچ میں مشرف صاحب کے آنے کی وجہ سے 22 برس تک مؤخر ہو گئی۔

وطنِ مالُوف حافظ آباد سے 25 روپے کرایہ دے کر لاہور کے ریلوے سٹیشن پر اترا کرتے تھے۔ وہاں سے کالج آنے کے لیے ہائی ایس ویگنیں ہوتی تھیں۔ ہمارے کالج تک وہاں سے جو ویگن آتی تھی اسے چؤدہ-چؤنتی روٹ کہتے تھے۔

پر یہ چؤدہ-چؤنتی کیا بَلا تھی؟

اچھا بتاتا ہوں کہ یہ شہرِ لاہور کے بیچ میں دو رُوٹ، چودہ نمبر اور چونتیس نمبر تھے جن کا راستہ کافی حد تک مشترک یعنی overlapping تھا۔

تو سٹیشن سے اترتے ہی بھان٘ویں چؤدہ نمبر پر بیٹھو، بھلے چؤنتیس پر، بھان٘ویں چودہ بٹہ چونتیس کے بورڈ والی ویگن پر بیٹھو، دھکے، کرایہ اور رُوٹ تقریباً یک ساں رہتا تھا۔

آج یاد کرتا ہوں تو لاہوری کنڈَکٹروں کا مختلف سٹاپوں کے نام لینے کا لہجہ اپنے syllabic اتار چڑھاؤ، یعنی intonation اور stress patterns کے ساتھ یاد آ رہا ہے… لیکن میں ان صَوتوں کو اور ان کی جُزئیات کو اسی طرح پسِ پُشتہ ڈالتا ہوں جیسے ہمارے عصری فکشن نگار ڈال پھینکتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں مارتے… (جگر ہیں، دل ہیں، پیارے ہیں، سات سو بارہ خون معاف… کوئی بات نہیں!)

جو کچھ یاد آ رہا ہے اس میں سے چُن کر اتنا ہی لکھوں گا کہ چلتے چلتے در… بار اہ… در… بار اے… اَہ… سے ری.. ی… ی.. گَل چوک آتا… ان کے بیچ سَیک ٹَرے ایٹ، سیک ٹرے ایٹ آتا…. پھر اچھرہ بازار آتا… وہاں سٹیشن سے کالج آتے چودہ ہو یا چونتی سب طور کلینک کے بالکل سامنے کھڑی ہوتیں۔

طُور کلینک فیروز پور روڈ پر اچھرہ کے اس اوور ہیڈ لیکن صرف ڈیکوریشن بن چکے پیدلی پُل کے آزُو بازُو میں ہوتا تھا۔ پر اس وقت کے… اب تو رنگ اور ڈھنگ ہی بدل چکے… بعد میں کرپٹ ترین میٹرو وہاں سے گزر چکی اور یہ سطر کار کار دار ہو چکا تو اس طرف جانا موقوف ہو چکا ہے۔

طُور کلینک کے دھاتی شٹر کے اندر چوبی دروازے میں لگے شیشے پر سرخ رنگ سے لکھا ہوتا تھا:

مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا!

طور کلینک کے مستند اتائی جانے اس سے ویاگرا کیپسولوں کی مارکیٹنگ کو دھول چٹاتے تھے، یا بڑھاوا دیتے تھے، یا مردانہ انا کو دیسی گھی کا موبل آئل ڈالتے تھے… یہ تشنۂِ تحقیق رہے گا۔ ادب و معاشرت کے مشرقی نقدی مکاتب ہائے (ہائے ہائے) فکر کو اس کا مطالعہ جاری کرنا چاییے۔

اب چُوں کہ ہم تک وہ مشرقی تحقیق نہیں پہنچی، تو ہم اس پر by default عین الحق کے درجے کا اعتقاد باندھے رکھے تھے۔

اعتقاد کا ویسے کسی عربی لغت نے مطلب ہی ‘باندھ کر رکھنا’ فرمایا تھا… (کیوں جی ایسے ہی ہے کہ وہ بھی طور کلینک والا کوئی لغتی عالم ہی تھا؟)

اب یہ ظالم مغربی عالم ہمارے اعتقاد پر ہمیشہ نشانے باندھے رکھنے کے چکر میں بہت کینہ پرور واقع ہوئے ہیں۔ کل ہی بی بی سی فیوچر پر آرٹیکل پڑھا کہ مرد کے semens بھی 40 سے 45 برس کے بیچ گوڈے گِٹّے ٹھنڈے کرا بیٹھتے ہیں: مطلب کہ ان کی mobility پشاور میٹرو پر ہونے والے تعمیری کام جتنی ہی رہ جاتی ہے؛ اور اگر انھیں ‘کام یابی’ مل بھی جائے تو ‘نتیجے’ ٹُٹِے بَھجّے ہی نکلتے ہیں۔

اب جانے کس سے کہوں کہ پتا کرا کے اس سطر کار کو بتائے کہ لاہور کے اِچھرہ بازار کے نوّے کی دھائی کے بھنڈارا سنٹر کے دوسری طرف__ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا__ کے جملے کے حرفِ ازل کہنے والے اس چوبی دروازے کی شیشے پر لکھی عبارت ابھی قائم ہے کہ بوڑھی ہو چکی؟

ہے کوئی آدم زاد جو یہ بتائے، یا پھر اپنے طور پر ہی مجاہدہ و اجتہاد کر کے مغربی علوم کو مشرقیت کے خلاف سازش کہہ کر بی بی سی فیوچر کے اس مضمونِ پُر فِتن کو بَہ یک جنبشِ قلم و قلب اور دھڑکن رَد کر دوں؟

مرد بوڑھا ہو جاتا ہے… لہٰذا کوشش کرے کہ جلد انسان بن جائے!

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔