مرگ بر دوش

محمد عاطف علیم
محمد عاطف علیم

مرگ بر دوش

کہانی از، محمد عاطف علیم

۱

وہ کہ جانے کس لاڈ بھرے لمحے گُگا کہہ کر پکارا گیا تھا۔ اس سمے موت کے گھیرے میں کھڑا ہانپ رہا تھا۔

وہ کھڑے کانوں دور سے آتی موت کی سرگوشیاں سن رہا تھا اور جبلی طور پر جان رہا تھا کہ اس کی جانب سے کسی بھی غیر محتاط جنبش کا انتظار کیا جارہا ہے تاکہ اس پر پل پڑنے کے لیے اس کی جائے موجودگی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جا سکے۔

جلدی کاہے کی کہ موت نے جب آنا تھا تب آنا تھا وہ اس سے پہلے گھیرا ڈالنے والوں کو کوئی موقع کیوں دے؟ یوں بھی وہ اتنا تو جان ہی چکا تھا کہ موت نے ابھی اپنے ہدف کا تعین نہیں کیا تھا۔ کیا معلوم اسے مار دھاڑ کرکے گھیرا توڑنے اور بچ نکلنے کا موقع مل ہی جائے۔ اس اطمینان بھری جانکاری کا باعث ہانکے والوں کی غیر محتاط حرکات اور بے کار کا شور شرابا تھا جس سے وہ ہرگز متاثر ہونے والا نہیں تھا۔ اس کے چاروں اور اس کی ہلاکت کے درپے ایک غیر منظم ہجوم تھا۔

ان میں سے چند ہی تھے جن کے پاس آگ اگلنے والے ہتھیار تھے، باقی سب کھڑے ہاتھوں میں ڈنڈے تول رہے تھے یا اسے ڈرانے کو شور مچانے والے آلات از قسم ڈھول، تاشے بجائے جارہے تھے۔ وہ محض انتقام سے بولائے ہوئے تھے، کوئی بھی جہد اللبقا کی مجبوری میں مبتلا نہ تھا جبکہ اس کے مقاصد بلند تھے کہ اسے کسی بھی طرح سے موت کو جُل دے کر ان سبزہ زاروں میں حیات جاودواں سے ہمکنار ہونا تھا جن کا ہزاروں ہزار سال پہلے اس کی نوع سے وعدہ کیا گیا تھا۔

دن بھر کی مارا ماری کے بعد اس کی ٹانگوں میں ات کی تھکن اتر آئی تھی۔ وہ زخم زخم تھا اور نڈھال تھا اور اب اس کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا سو اس نے اک ذرا ٹانگیں پھیلا کر گھٹنوں کو موڑا اور اپنے بھاری وجود کو لیے دھپ سے بیٹھ گیا۔ موت کی قربت نے اسے شانت کر دیا تھا یا وہ بے تاب ہجوم کے ساتھ لمبی اعصابی جنگ کے موڈ میں تھاکہ اس نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کسی مہاتما سمان آنکھیں موند لیں۔

آنکھیں موندھ لینے کے باوجود وہ چوکنا تھا اور پورے دماغ سے جاگ رہا تھا۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ وہ طبعاً سست اور پیدائشی طور پر غبی تھا۔ سوچنا اور بہت دور تک سوچنا اس کی خاندانی روایات میں کبھی شامل نہ رہا تھا۔ یوں بھی سوچنے کو رکھا ہی کیا تھا کہ ہر نیا دن پرانے جیسا تھا جس میں کرنے کو عین مین وہی کچھ تھا جو گذرے دن کیا تھا۔ دن بھر کتنا چلنا تھا، کتنے گیڑے گیڑنے تھے، کب آرام کرنا تھا اور کب ہرگز نہیں کرنا تھا اور پھر یہ کہ کتنی مقدار میں کون سی خوراک کھانا تھی،کب اور کتنا سونا تھا اور تو اور دن بھر میں چوں تک کیے بغیر کتنی تعداد میں ڈنڈے کھانے تھے، سب کچھ گویا ازل سے طے شدہ تھا۔ نصیب بھی ایسے پائے تھے کہ جبر و قدر میں سے صرف جبر ہی حصے میں آیا تھا، جس نے جہاں ہانک دیا ہنک گئے اور جہاں بٹھا دیا بیٹھ گئے۔ کوئی درویشی سی درویشی تھی، سو ایسے میں ایک استغنا کی دولت ہی تھی جو کھال اور ڈنڈے کے درمیان چھوٹا موٹا بفر زون قائم کرسکتی تھی، اگر کر سکتی۔

انفعالیت کہہ لو یا وفورِ اطاعت کہ اس کی نوع میں ہر باپ اپنے پسرعزیز کو ہزاروں ہزار برس پرانا لا انتہا پھیلاؤ کے سبزہ زاروں کا وعدہ تو ضرور ذہن نشین کراتا اور گاہے گاہے نا آسودہ مفتوحین میں حالات کی کسی زور دار ٹھوکر کے نتیجے میں جاگ اٹھنے والے جذبہ شہادت کی للک کے ساتھ ارض موعود تک پہنچنے کی کوشش کرنے کی تلقین کرنا بھی نہ بھولتا لیکن معلوم تاریخ میں کوئی ایک باپ بھی ایسا نہ گذرا تھا جس نے خود بھی اس وعدے کا پالن کرنے کی یا کم از کم اسے یاد رکھنے کی ضرورت تک محسوس کی ہو۔

خود اس کی اپنی زندگی میں جب سے وہ ماں سے الگ کیا گیا تھا بس چند ہی روز ایسے آئے تھے جب دو چھوٹے چھوٹے معصوم ہاتھ اس پر فدا ہوئے تھے اور کسی نے اپنی لاڈ بھری آواز میں اسے گُگا کہہ کر پکارا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب پہلی بار محبت نے اس کے در پر دستک دی تھی اور اس نے آنکھیں موند کر اپنے باپ کے بتائے ہوئے سبزہ زار کا تصور کیا تھا جہاں وعدے کے مطابق حیات جاوداں اس کی منتظر تھی۔

تب اس نے بہت شدت سے چاہا تھا کہ وہ اسے جس کے ننھے ننھے کومل ہاتھ اس کے شریر میں محبت کی لہریں جگایا کرتے ہیں، اپنے کندھے پر بٹھائے اور بس دوڑ لگا دے حیات جاوداں کی طرف۔

اس کی کتاب زیست میں قابل تحریر ایک تو خیر بچپن میں محبت کے شیرے سے لتھڑے ہوئے وہ دن تھے یا پھر یہ آج کا پورا دن تھا، انہونے واقعات اور سنسنی خیز وارداتوں سے بھرا ہوا دن۔ پو پھٹے سے اندھیرا پڑے تک کے درمیان میں پھیلا یہ ایک دن جس میں پوری زندگی جی لی تھی اس نے۔ یہی وہ دن تھا جو حاصل زندگی تھا کہ اس کے اندر اس نے محبت اور موت کو ایک دوسرے سے گلے ملتے دیکھا تھا۔ ایک گم گشتہ محبت کی بازیافت اور قدیم بنجر کے پھیلاؤ میں نہایت غیر متوقع طور پر پھوٹتی ایک کونپل جس نے اس کی بے معنویت میں قوس قزح کے رنگ بکھیر دیے تھے۔

وہ ایک میٹھی سی اونگھ میں جانے کو تھا کہ فضا میں تیز سیٹی کے ساتھ ٹھاہ کی آواز آئی جو کچھ دیر تسلسل سے دہرائی جاتی رہی۔ شاید ہانکے والوں کا صبر جواب دے گیا تھا جو کسی نے صریح حماقت کا ارتکاب کرتے ہوئے ہوا میں فائر مارنا شروع کر دیے تھے۔ اس نے سخت ناگواری میں ذرا سے پپوٹے کھول کر دیکھا۔ ایک بار تو جی چاہا کہ اٹھے اور احمقوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادے لیکن جلدی کاہے کی، دو گھڑی آرام تو کر لیا جائے۔

سارے میں اندھیرا پھیل چکا تھا اوراس کے ساتھ ہی چاروں طرف کھٹ کھٹ تیز روشنیاں جل اٹھی تھیں۔ وہ جس کھیت کے درمیان تاریکی میں محبت کی جوت جگائے بیٹھا تھا وہاں فصل اونچی اور گھنی تھی لہٰذا روشنیوں کا شائبہ ہی اس تک پہنچنے پایا تھا۔ فی الحال وہ محفوظ تھا اور اپنے تازہ تازہ جگے ہوئے دماغ کے اندر دور تک جھانکتے ہوئے اپنی کتاب زیست کا ایک فیلسوف کی نگاہ سے جائزہ لینا چاہتا تھا سو اس نے باہر والوں کے شور شرابے کو پر کاہ جتنی اہمیت کے قابل بھی نہ جانا او ر ناسٹلجیا کے نیلے دھندلکوں کو اوڑھ کر دوبارہ اپنی ذات کی بازیافت میں مگن ہوگیا۔

جب اس نے ہوش سنبھالا تو خود کو ایک کھلے احاطے میں پایا تھا۔ وہ جگہ حد سے زیادہ گندی اور کئی طرح کی سرگرمیوں سے عبارت تھی۔ وہاں ایک تو خیر اس کی ماں تھی لیکن ساتھ ہی کئی اور بھی تھیں جو اس کی ماں سے اس قدر مشابہ تھیں کہ اگر جبلت ساتھ نہ دیتی تو وہ ہر ماسی کو ماں سمجھ بیٹھتا۔

ایک بار ایسا ہوا بھی کہ یونہی شرارت میں اس نے کسی اور کے دودھ پر مُنھ مارنا چاہا تھا لیکن جواب میں ایسی لات پڑی کہ دوبارہ اس نے کبھی میچے سے باہر ہونے کی کوشش نہ کی۔ یہ ماں ہی تھی جو بن مانگے خود اسے دودھ کے لیے پکارا کرتی تھی۔ وہ بھی اس وقت کا منتظر رہتا اور جب اس کے بے تاب ہونٹ ماں کی چھاتیوں سے مس ہوتے تووہ دونوں محبت کے پھیلاؤ میں نکتہ سا سمٹ جاتے تھے۔ وہ دودھ پِیے جاتا اور ماں اس کے ماس پکڑتے شریر کو چاٹے جاتی۔ ماں کا دودھ بھی ایسا مزے کا کہ پی چکنے کے بعد وہ اس کی شیرینی زبان پر لیے سرخوشی کے عالم میں دیر تک یہاں وہاں کدکڑے مارا پھرا کرتا تھا۔ گو ایسا کم کم ہی ہوتا تھاکہ اسے پیٹ بھر دودھ پینے کا موقع ملا ہو کہ ہر روز دونوں وقت بیچ میں ہی اسے کھینچ کر دور کر دیا جاتا تھا۔ کم خوراکی کی بھی مگر خیر تھی کہ وہ ادھر ادھر مُنھ ماری کرکے پیٹ تو کسی طور بھر ہی لیا کرتا تھا، اس کے لیے یہی بہت تھا کہ اس بہانے اسے دو گھڑی ماں کی قربت میں رہنے کا موقع تو مل جاتا۔

ماں کے بعد جس کی قربت اسے نصیب تھی وہ اس کا باپ تھا۔ اس کا استھان بھی الگ تھا اور کھرلی بھی الگ تھی۔ بڑا خوب صورت جوان تھا وہ، بلند قامت اور بھرپور جثے والا جس کے پور پور سے نیلی بار سے نسبت کا احساس تفاخر جھلکا کرتا تھا۔ دنیا کے ہر باپ کی طرح اسے مرد ذات ہونے کا فخر ورثے میں ملا تھا۔ یہ اس کا کرونک احساس برتری ہی تھا کہ وہ خود اس کے ساتھ بھی ایک مربیانہ فاصلہ برقرار رکھتا تھا۔

بالکل شروع شروع میں جب اسے اپنے باپ کے ساتھ اپنی نسبت کا علم ہوا تو وہ بے تاب سا اس کی جانب لپکا تھا لیکن اس نے ایک نگاہ غلط انداز میں اس کی جانب دیکھا تو ایک بار تو معصوم دل ٹوٹ ہی گیا تھا۔ انہی دنوں اسے تعجب ہوا کرتا تھا کہ اس کی ماں اور باپ اکٹھے ایک ساتھ کیوں نہیں رہتے۔ جب اس نے ماں سے بات کی تو اس نے ایک زخمی نگاہ سے اپنے شوہر کے الگ ڈھارے کی جانب دیکھا اور پھر ایک آہ بھر کر گردن جھکالی تھی۔ بعد میں اسے معلوم پڑا تھا کہ اس کا باپ حیاتیاتی طور پر ہری چگ تھا اور صرف اس کی ماں کا نہیں اور جانے کس کس کا بلا شرکت غیرے شوہر تھا۔ یوں ظاہر تھا وہاں اس کے اپنے علاوہ جو چند اور بچے بھی کدکڑے مارا کرتے اس کے ہرجائی صفت ہونے کا زندہ ثبوت تھے۔

جب اس نے اس ناگوار صورت کو جیسے تیسے قبول کرلیا تو باپ کے ساتھ تعلق رکھنا قدرے آسان ہوگیا تھا جو بصورت دیگر کچھ ایسا نامعقول بھی نہ تھا اورموڈ بہتر ہونے کی صورت میں اپنے دوسرے بچوں کے علاوہ اس کے ساتھ بھی مناسب طور پر پیش آتا تھا۔ رات سمے جب وہ اس کے استھان میں آتے تو وہ انہیں باہر کی دنیا کے بارے میں بتایا کرتا تھا اور ان سبزہ زاروں کے بارے میں بھی جن کے پار جنگل تھے جہاں سے قرن ہا قرن پہلے انسان جاتی انہیں اطاعت و تعاون کے عوض ان سبزہ زاروں میں مراجعت اور حیات جاوداں کا وعدہ کرکے پھسلا لائی تھی۔

’’سنو‘‘ اس کا باپ ایک تحکم آمیز خاموشی میں کہ جس کے اندر انسان جاتی کے تئیں چھپی نفرت کو صاف محسوس کیا جاسکتا تھا، ان سے مخاطب ہوتا، ’’ کبھی اپنے مالکوں پر اعتبار نہ کرنا، وفا ان کے نصیب میں لکھی ہی نہیں گئی۔ یہ اپنے باپ کے نہیں تمہارے کیا ہوں گے۔ ‘‘

یہاں رک کر وہ کچھ دیر کو کہیں دور کسی نکتے پر نگاہ جماتا اور پھر جگالی کرتے ہوئے بات جاری رکھتا، ’’ہم گائے بیل جاتی کے لوگ ہزاروں ہزار برس پہلے اپنے جنگل میں آزاد زندگی بسر کرتے تھے۔ اپنی محنت کا کھاتے اور اپنی من مرضی سے جیتے تھے۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ ہماری زندگی خطرات سے بھری ہوئی تھی لیکن تب ہمارے سینگ بھی اٹھے ہوئے تھے اور ان میں وحشت بھی کچھ زیادہ تھی۔ تب ہم ہر خطرے کو اپنی سینگوں کی نوک پر رکھتے تھے۔ اور پھر انسان لوگوں نے جنگل میں آنا جانا شروع کردیا۔ انہیں اپنی بستیوں میں بھاڑے کے ٹٹوؤں کی ضرورت تھی۔۔۔بھاڑے کے ٹٹو سمجھتے ہو؟‘‘

ہم یونہی بے سوچے سمجھے سر ہلا دیتے اور وہ ہماری طرف دیکھے بغیر ایک جذبے سے کہتا چلا جاتا، ’’سو انہوں نے ہمارے دلوں میں ڈر اور لالچ پیدا کر دیا اور ہم ٹھہرے ازلی بے وقوف، ہم ڈر گئے اور لالچ میں آگئے۔ ہماری بلا جانے کہ یہ کم بخت جہد اللبقا کیا چیز ہے، یہ انہیں بدبختوں کا چھوڑا ہوا شوشا ہے کہ ہمیں بس کسی طرح سے اپنی کھال بچائے رکھنی ہے۔ سو ہم ڈر گئے اور لا انتہا سبزہ زاروں میں حیات جاوداں پانے کے جھوٹے لارے پر اپنے جنگل چھوڑ بستیوں میں چلے آئے۔ آگے جو ہم پر بیتی وہ تم خود جانتے ہو۔‘‘

یہ موٹی موٹی باتیں اس کے کھلنڈرے دماغ میں بھلا کیا آتیں، وہ تو بس اپنے باپ کے جثے پر پھسلتی چاندنی کو ایک حسرت سے دیکھا کرتا اور سوچا کرتا کہ کبھی وہ بھی اپنے باپ جیسا ہوگا، شروع راتوں کے چاند جیسے سینگوں والا اور پر غرور کوہان والا نیلی بار کا ڈشکرا۔ اور جب ایسا ہوگا تب اس کی بھی بہت سی بیویاں ہوں گی اور وہ بھی اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر مشکل مشکل باتیں سمجھایا کرے گا۔

وہ جو رات سمے اس کے باپ کے پاس مشکل مشکل باتیں سننے کے لیے مل بیٹھتے تھے ان میں ایک پینو بھی تھی۔ پینو کو اپنا نام وہاں آنے والی ایک جوان عورت کے نام پر ملا تھا اور یہ نام بھی اسے مالکوں کے انہی بچوں نے دیا تھا جنہوں نے ایک ٹیڑھی ٹانگوں چلنے والے نوکر گُگا کے نام پر اس کا نام رکھا تھا۔ گُگے کی طرح پینو نام کی عورت بھی مالکوں کی خدمت گذار تھی اور وہاں سے گوبر اٹھانے میں گُگے کی مدد کرنے اور ایک خالی کوٹھڑی میں وقت بے وقت مالکوں کی گرمی دور کرنے پر مامور تھی۔

پینو تب تو ایک یونہی سی بے تالی چال چلنے والی بالڑی سی ہوا کرتی تھی۔ سوائے سخت ناموزوں طور پر لمبے کانوں اور ہڈیالے جسم کے اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ تھی کہ اس کا کوئی ہم عمر سنجیدگی سے اس کا نوٹس لیتا لیکن دیکھتے دیکھتے اس نے چھب نکالنا شروع کر دی تھی جو براہ راست نتیجہ تھا اس کے ندیدے پن کا کہ وہ اپنی باری پر ماں میں دودھ کا ایک قطرہ نہ چھوڑتی تھی اور پھر دوسروں کی معنی خیز نظروں سے لا پرواہ وہ کھرلی میں بھی اس بے تابی سے مُنھ مارتی تھی جیسے اب کا ملا آئندہ ملے نہ ملے۔ جب ذرا بڑی ہوئی تو گُگے کے ساتھ ساتھ پینو بھی مالکوں کے بچوں کا کھلونا بن گئی۔

وہ بچے ابھی خود چھوٹے چھوٹے بالکے تھے۔ ابھی ان کے دلوں پر کدورت اور کٹھور پن کی میل جمنا شروع نہ ہوئی تھی لہٰذا وہ ان دونوں کے ساتھ دیر دیر تک لاڈیاں کرتے، انہیں کھلے میں لے جاتے، ان پر سواری کرتے اور چوری چوری انہیں کھٹی میٹھی چیزیں کھلایا کرتے تھے۔

آہ! کیا دن تھے وہ بھی، سر پر ماں اور باپ کی چھتر چھایہ بھی تھی اور وہ ننھے سنگی بھی جن کی لاڈیاں ان کے لیے کسی سبزہ زار سے کم کیا تھیں۔ اور پھر پینو،جسے کٹھا میٹھا یوں لگا تھا کہ اس کا انگ انگ بھرنے لگا تھا۔ چند ہی دنوں میں وہ الہڑ مٹیار سی دِکھنے لگی تھی جس کی شربتی آنکھوں میں حیات جاوداں کا وعدہ تحریر تھا۔ جانے کیوں اب اس کی طرف نظر بھر کر دیکھتے ہوئے وہ جھجک سا جاتا تھا، خود پینو بھی نامعلوم وجوہ کی بنا پر اکیلے میں اس کا سامنا ہونے پر کترا سی جاتی تھی۔

گُگے کو اپنی ازلی بے وقوفی کے باعث معاملات کی زیادہ سمجھ تو نہ آسکی تھی پھر بھی وہ یہ اندازہ ضرور لگا سکتا تھا کہ اس کے ارد گرد کی دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ اس میں کچھ ایسا نیا پن ضرور آ گیا تھا جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا، مثلاً یہ کہ غیر محسوس طور پر گاؤں کی دھول اڑاتی گلیوں میں بھاگ دوڑ کے دوران پینو اچانک اس کے قریب آتی اور پھر اسی اچانک پن سے دور ہوجاتی تھی، جب بھی اتفاق سے اس کا جسم کسی مادہ کے ساتھ چھوجاتا تواس کے جوان ہوتے پنڈے میں کوئی گرم سی لہر دوڑ جاتی اور یہ بھی کہ دن بھر کتے خصی کرنے کے بعد وہ رات کی نیند میں جانے سے پہلے جگالی کرتے ہوئے کہیں بھی دھیان جماتا پینو زبردستی اس کے دماغ پر قبضہ جمالیتی اور پھر احاطے میں گوبر اور رطوبت کے تعفن بیچ کسی کسی لمحے اچانک کہیں سے خوشبو کا کوئی جھونکا آتا اور اس کے اندر کچھ نیا سا جگا کر چلا جاتا۔

وہ اس دوران جن نشیلی کیفیات سے گذرا کرتا تھا اس کی دانست میں دائم رہنے والی تھیں لیکن اسے بہت بعد میں معلوم ہونے والا تھا کہ کتاب زیست کا یہ باب مزے کا سہی زیادہ طوالت کھینچنے والا نہیں تھا کہ جس منڈلی کے دم سے یہ دنیا آباد تھی اسے آخر کو بکھر جانا تھا۔ جب جدائی کی آندھیاں چلیں تو ان کی اٹھائی گرد میں جو چہرے سب سے پہلے چھپے وہ اس کے سنگی بچے بچونگڑوں کے تھے جو انہیں بھول بھال کر گاؤں سے اپنی شہری دنیا میں واپس سدھار گئے تھے۔ وہ کیا گئے کہ ان کے ساتھ ہی وہ آوارگیاں اور بے فکریاں بھی گئیں جو حاصل زیست تھیں۔ چلو یہ بھی ہوا لیکن یہ کیا کہ ایک روز مالکوں نے گُگے اور پینو کی پسلیوں کوٹٹول کر ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا اور ان کے گلے میں رسیاں ڈال کر ان کے استھان الگ کردیے۔

ماں کا دودھ چھٹنے کا صدمہ تو چلو پینو کی رفاقت نے بھلا دیا تھا لیکن پینو کی رفاقت چھٹنے کا صدمہ کون بھلائے؟

وہ کئی روز اپنے استھان پر بندھا اسی بدمزگی میں رہا تھا۔ ادھر ماں تھی کہ دودھ چھٹتے ہی یوں انجان بن گئی جیسے ان کے درمیان کبھی کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو، رہا باپ تو وہ بھی اب زیادہ وقت اپنے خیالوں میں الجھا رہا کرتا تھا، کوئی بات کرو تو تیوریاں چڑھا لیتا۔ یا وحشت، یہ اچانک سے دنیا کو کیا ہوگیا ہے؟ ۔۔۔ گُگو کو حسرت ہوئی کہ کاش وہ باپ کی طرح کڑی سے کڑی ملا کر بات کا نتارہ کرنے کا ہنر جان سکتا۔

اور پھر وہ قیامت کی رات کہ اسے بھی انہی دنوں میں آنا تھا۔ اماوس کی وہ رات معمول سے کچھ زیادہ تاریک تھی، اس کے باوجود سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ ایک اچھی نیند کے بعد اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا سوچا جائے کہ اچانک دھب کی آواز سے اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی غیر معمولی بات ضرور ہے لیکن کیا؟ اس نے گردن گھما کر جائزہ لیا۔

وہاں سارے لوگ مزے سے سو رہے تھے، مالک لوگوں کے کامے بھی کھیس میں مُنھ چھپائے پڑے تھے۔ تب اس نے صبح کاذب کے دھندلکے میں کچھ سایوں کو زمین کے ساتھ چپکے ہوئے دیکھا۔ یہ ضرور دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے تھے کہ دروازہ اس کی نظروں کے سامنے تھ۔ جس پر اندر کی جانب بدستور بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ وہ تین یا چار لوگ تھے جو اس کی پہچان میں نہ آئے کہ انہوں نے مُنھ پر ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ سب کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ ضرور تھا، کچھ عجیب سا۔

اس نے دیکھا کہ اندر کودنے کے بعد وہ کچھ دیر سانس روکے زمین پر پڑے رہے تھے۔ جب اطمینان ہوا کہ آہٹ پر کسی کی نیند خراب نہیں ہوئی تو وہ اٹھے اور اندھیرے کی آڑ میں کبڑے سے ہو پاؤں جما جما کر آگے بڑھنے لگے۔ سخت راز داری کے ماحول میں ان میں سے ایک سوئے ہوئے دونوں کاموں کے قریب جا کھڑا ہوا۔ دوسروں نے اس کا اشارہ پاکر اپنی جگہ سے جنبش کی اور جلدی جلدی جانوروں کی رسیاں کھولنے لگے۔ تب کاموں کے سر پر کھڑے سایہ جست لگا کر دروازے پر پہنچ گیا اور پتا نہیں کیا کیا کہ دروازہ کھل گیا، باقی لوگوں نے رسیاں کھول جانوروں کو ہانکا اور جانوروں سمیت یہ جا اور وہ جا۔ یہ سب کچھ اس تیزی سے ہوا کہ حواس باختہ جانوروں کو ڈکرانے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ گُگا کرتا بھی تو کیا کہ بات اس کے پلے ہی نہ پڑی تھی۔ یہ تو کہیں صبح جاکر کھلا کہ اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا، اب وہاں ماں رہی تھی نہ پینو۔

بات یہیں پر رکنے والی نہیں تھی، باڑے کی زندگی میں ایک ناسمجھ میں آنے والی تبدیلی آگئی تھی۔ اگلے دوچار روز میں وہاں مالک لوگ آئے اور اس کے شاندار باپ کے جسم پر ہاتھ پھیر کر اسے بھی وہاں سے رخصت کردیا۔ کیوں اور کہاں، کسی کو کیا پڑی تھی کہ گُگے کو بتاتا پھرے؟

اب وہاں اپنوں میں ایک گُگا ہی بچا تھا جسے اب تا دیر پڑے ماتم یک شہر آرزو پر گذارہ کرنا تھا، سو اس کی فرصت بھی معلوم کہ چند ہی روز بعد اسے بھی احاطے سے چلتا کردیا گیا۔ اب وہ کسی نئی جگہ نئے مالکوں کی تحویل میں تھا جنہوں نے اسے ایک بغیر دروازے کے نیم تاریک ڈھارے میں منتقل کر کے بیرونی فضا سے تقریباً کاٹ دیا تھا۔ اس کا باپ بھی اسی طرح احاطے سے الگ ایک تنہا ڈھارے میں رہا کرتا تھا۔

دن بھر کھلے میں رہنا اور رات ہوتے ہی ڈھارے کی تاریکی کے حوالے کر دینا، یہ تھی اس کی نئی زندگی۔

شاید مالکوں کے نزدیک نر لوگوں کو قابو میں رکھنے کا یہی طور ہو۔ وہاں اگلے ہی روز اس کے پاؤں میں پیتل کے چھنکتے ہوئے کڑے اور گلے میں گھنگھروؤں والے سرخ پٹے کو پہنا دیا گیا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ اب وہ اپنا باپ بن چکا ہے اور اسی کی طرح بہت سی ازواج کے ساتھ وظیفہ زوجیت ادا کرنے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ گو یہ اس کے شینہہ جوان ہونے کا اعلان بھی تھا اور اس کے چُیندہ ہونے کا اعتراف بھی جو اس کے نوع کے کسی بھی نرکے لیے گلیوں میں کوہان جھلاتے ہوئے ٹھمک ٹھمک چلنے کا جواز ہوسکتا تھا لیکن اپنے باپ جیسا بننا جانے کیوں اسے اچھا نہیں لگا۔

’’اس موقع پر اگر پینو بھی۔۔۔‘‘ اس نے ماتھے پر سرخ مہندی کا تلک لگواتے ہوئے ایک ادھوری سوچ سوچی اور اپنے نئے کردار کے لیے خود کو آمادہ کرنے میں جُت گیا۔

ایک تو وہ ویسے بھی گرمی خورہ اوپر سے بہار کا موسم، جلد ہی اس کی مردانگی کی دھاک بیٹھ گئی۔ اس کی شہرت سن کر لوگ دور دور سے آتے اور معقول معاوضے کے عوض اپنی گائیوں کو جفت کرا کر خوش خوش لوٹ جاتے۔

شروع شروع میں تو اسے یہ کھیل ایسا بھایا کہ اسے یاد بھی نہ رہا کہ پینو کون تھی اور کیا تھی لیکن آہستہ آہستہ اس دلچسپ کھیل سے وہ اوبھنے لگا۔ لوگوں نے اس عمل کو بہت میکانکی کر چھوڑا تھا، فریق ثانی کے ساتھ کوئی پیار دلار نہ جان پہچان، بس اشارہ ہوا اور ہو جاؤ شروع۔ فارغ ہونے پر جی چاہتا کہ دو گھڑی فریق ثانی پر بے سدھ پڑے رہیں لیکن کسی کو کسے کے جذبات سے کیا لینا دینا۔ سو ادھر فارغ ہوئے، ادھر رسی کھینچ کر اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا جاتا۔ اس پر مستزاد گاہے گاہے کی تذلیل الگ کہ اشارہ ملتے ہی اگر وہ تیار نہ ہو پاتا تو بدبخت پیچھے سے ڈنڈا چڑھانے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ اور پھر اس مقدس عمل کے دوران لونڈوں اور گنواروں کی فقرے بازیاں اور بے کار کی کھی کھی۔

یہ سب کچھ کوئی اور برداشت کرے تو کرے وہ کیوں کرے جس کے باپ نے اس کی آنکھوں کے سامنے سبزہ زاروں کو مصور کر رکھا ہو اور جو اس دغا بازی سے خوب آگاہ ہو جس کاحتمی نتیجہ اس کی نوع کی آزادی کو دائمی طور پر سلب کرنے کی صورت میں نکلا ہو۔ کئی بار اس کا جی چاہا کہ ایک جھٹکے سے کھونٹا اکھاڑے اور بھاگ نکلے مگر آہ! وہ لعنتی صبر اور آج کے کام کو کل پر ٹالنے کی روش۔

اس کے دور جوانی میں جتنی بہاریں بھی آئیں اسی طور شرمناک لذت کی بے کیفی کے مارے اس کے دل کا بوجھ ثابت ہوئیں۔

اس کے آگے گّگے کی کتاب زیست دور تک لایعنی تحریروں سے بھری پڑی تھی کہ اگروہ اچھا ایڈیٹر ہوتا تو ان سارے صفحات پر لکیر پھیر کر انہیں کسی اندھے کنویں میں پھینک چکا ہوتا۔ یہی کہ جوانی کے پہلے موسم بہار کے گذر چکنے پر کھیتوں میں اس کو ہانک دیا جانا کہ دن بھر ہل جوتا کرے اور شام کو اپنے استھان پر پڑا اونگھا کرے۔ کبھی ایک مالک تو کبھی دوجا مالک، کوئی ایسا تو کوئی ویسا۔ کبھی گاڑی کے آگے جوت دیا جانا کہ کچی سڑکوں کی دھول پھانکا کرے اور کبھی رہٹ کا جواگلے میں ڈال دیا جانا کہ پو پھٹے سے شام ڈھلے تک گول گول گھوما کرے اور اپنے بختوں کو رویا کرے۔ اس عمل کے دوران آنکھوں پر کھوپے چڑھا نا شاید اس انسانی عزم یا ڈھٹائی کا اعادہ تھا کہ وہ کبھی کھلی آنکھوں موعودہ سبزہ زاروں کا تصور نہ باندھ سکے۔ آہ! یہ انسانی سامراجیت اور یہ خوئے غلامی و غلام سازی۔

وقت کہ ہر جرم میں شراکت داری پر تلا رہتا ہے یونہی مُنھ دوسری طرف کیے اپنی چال چلتا رہا اور گرمی و جاڑا، بہارو خزاں اسے دم بہ دم کمزور کرتے اس کے وجود کی گہرائیوں سے ہوکر گذرتے رہے۔

ایک روز اس نے سنا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور کسی کام کا نہیں رہا۔ اب وہ زیادہ جلدی جلدی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہونے لگاکہ کہولت کے آثار دھیرے دھیرے نمایاں ہوتے جارہے تھے۔ وہ کبھی ہل جوتنے کی جبری مشقت کے دوران اچانک لڑکھڑا جاتا اور گنوارو مالک سے اپنی کمزوری کی پر تشدد داد پاتا،کبھی رہٹ کے گیڑے گیڑتے ہوئے تھکن سے چور رک جاتا اور ڈنڈا چڑھائے پر بھی رکا رہتا۔

بہت سی مار کٹائی اور بدتہذیبی کے بعد یہی قرار پایا تھا کہ انجام کار وہ کسی گڈکے آگے جتا رہے اور سست قدموں رمکے رمکے لاحاصلی کی جانب بڑھتا رہے۔ سو نئے مالک نے یہی کیا مگر ظالم نے ایک ظلم یہ کمایا کہ گڈ چلانے کے لیے اسے ایک جوان بیل کی دوسراتھ میں دے دیا۔ وہ تازہ کار اور جوش سے بھرپور تھا، اس کی رفتار بھی تیز اور وہ تھکن سے بھی ناآشنا۔ اس کا ساتھ دینے کے لیے اسے اپنی تمام تر توانائیوں کو کام میں لانا پڑتا تھا۔ یوں جلد تھک جانے اور سست پڑنے پر اسے تشدد بھی زیادہ برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک روز ایک کیچڑ بھرے راستے پر گڈ کو کھینچتے ہوئے وہ گر پڑا اور تابڑ توڑ ڈنڈے کھانے پر بھی نہ اٹھا تو فیصلہ ہوگیا۔

اعلان ہوا کہ زندگی بھر کی مشقت اور کم خوراکی کا مارا گُگا اب صرف چھری جوگا رہ گیا ہے۔

مالک نے جیسے تیسے گھر پہنچنے پر اسے گڈ کی گرفت سے آزاد کیا اور اسی روز اس کا رسہ نئے مالکوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے دیکھا کہ چِِٹے صافوں اور چیک دار دھوتیوں والے نئے مالکوں کی آنکھیں لال تھیں اور گلے میں کالے تویت جھول رہے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ٹھٹھا کیا اور اسے اپنے پیچھے لگائے اس احاطے میں لے آئے جہاں اس کی کتاب زیست کا آخری باب لکھا جانا تھا۔

۲

وہاں اس جیسے اور بھی کئی تھے۔ احساس لا حاصلی اور بے کیفی کے مارے اور ڈھیلے پڑتے جسموں پر مہ و سال کا ناقابل برداشت بوجھ لیے وہ سب کے سب بے زار تھے اور خود میں گم تھے۔ وہ اپنے اندر نصب میکانزم کے ذریعے مبہم طور پر جان چکے تھے کہ وہ کہاں ہیں اور کیوں ہیں مگر وہ راضی برضا ہونے کی قدیمی مجبوری کہ جاننے اور سمجھنے کے باوجود وہ حسب دستور حالت مفعولیت میں تھے۔ اس نے دیکھا کہ لال آنکھوں اور کالے تویتوں والے ہاتھوں میں بڑی بڑی چھریاں تھامے اس تاریک احاطے میں آتے اور کسی نہ کسی کے جسم کو ٹٹولتے ہوئے اسے کھول کر لے جاتے۔ اس نے کسی بھی جانے والے کو واپس آتے نہیں دیکھا۔

اگلے روز اس نے دیکھا کہ ایک مادہ کو وہاں لایا گیا اور اس کے قریب باندھ دیا گیا۔ اس نے اس تبدیلی کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ وہاں اس جیسی کئی آئیں اور کئی گئی تھیں اس نے کبھی کسی کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ مگراس روز چارہ کھاتے، جگالی کرتے اور اپنی بے شکل کی سوچ میں ڈوبتے ہوئے اس نے کچھ بے قراری سی ضرور محسوس کی تھی۔

وہاں ایسا نیا کیا تھا جو اس کے ارتکاز کو توڑے دے رہا تھا؟ تب اس نے جانا کہ ایک مانوس سی خوشبو ہے جو مدہم مدہم سی کہیں قریب سے اٹھ رہی ہے۔ اس نے آنکھیں موند کر اس خوشبو کی مانوسیت کو جاننا چاہا۔ بہت کوشش کرنے پر وہ اس خوشبو کے مرکز تک پہنچ گیا۔ اس کی یاد کے پھیلاؤ میں دور کہیں ایک رفاقت نمودار ہوئی: جسم کے تناسب کو گڑبڑاتے دو ازحد لمبے کان، ٹانگوں میں بالی عمریا کی کجی،بے مثال بے وقوفی میں گندھی ہوئی نسوانی سیانپ اور پھر کھلنڈرے بچوں کے ساتھ کھیتوں کھلیانوں اور گلیوں گلیاروں میں دیر تک آوارہ گردیاں اور ان آوارہ گردیوں کے دوران ہی جنم لینے والی ایک پر اسرار سی کشش، ایک انجان جذبے کا گھیرا جس کے دوران وہ ناں ناں کرتے ہوئے بھی اسی کے بارے میں سوچنے پر مجبور رہتا۔ اور پھر یاد کے بے انت پھیلاؤ میں کھلنڈرے بچوں کا ہنس ہنس بے حال ہونا اور اس پھیلاؤ میں گُگے اور پینو کے ناموں کی بازگشت کا ایک دوسرے سے ٹکرائے پھرنا۔

’’پینو۔۔۔؟؟‘‘ اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔

گُگے کی خاموش پکار پر پینو نے آنکھیں کھولیں اور ایک ٹک اسے دیکھے گئی۔

محبت نے موت کی اقلیم میں آکر اسے دعوت مبارزت دے دی تھی۔

دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے اور پھر وقت کے سنگین مذاق پر ہنس دیے۔

اتفاق تھا کہ اس رات وہاں وہی دونوں تھے اور ابھی ان کے جینے کو ایک پوری رات پڑی تھی۔

گُگے نے وفور جذبات میں ایک جھٹکا دیا تو کسی لاپرواہ کے ہاتھوں کھونٹے سے بندھی رسی کی گرہ کھل گئی۔

وہ آزاد تھا اور محبت اپنی داد پانے کو بے تاب تھی۔

رسی کی بندش سے آزاد ہونے پر وہ قریب کھسک آیا اور پینوکے بدن پر ایک محویت کے عالم میں تا دیر اپنا مُنھ پھیرنے لگا۔ اس نے جانا کہ پینو کے وقت کی مار کھائے بدن میں رسیلا پن ابھی تک باقی تھا۔ اس نے یہ بھی جانا کہ خود اس کے اپنے بدن نے وقت کو صاف پچھاڑ دیا تھا۔ وہ دونوں عالم قبولیت میں تھے۔ کہیں دور ہوا نے پتوں کو چھیڑا تو فضا میں دور تک سرگم پھیل گئی۔ اتم پریم کی بوچھاڑ میں وہ دونوں بھیگتے بھاگتے کہیں دور نکل گئے۔

محبت نے وقت اور موت دونوں کو مات دے دی تھی۔

کئی بہاریں آئیں اور کئی گئیں لیکن تاعمر گُگے کی بے کیفی ختم نہ ہوئی تھی۔ اب کے تو بہار بھی نہ تھی، خزاں کا لا انتہا پھیلاؤ بھی تھا پھر یہ توانائی اور یہ سرشاری کیسی؟ تب بے سدھ پڑے گہری گہری سانسیں لیتے گُگے نے جانا کہ اس سے پہلے وہ جس جس کے ساتھ بھی جفت ہوتا رہا تھا ان میں کوئی ایک بھی پینو جیسی نہ تھی۔

پو پھٹے دور کسی گھڑیال نے مہلت تمام ہونے کی منادی کی تو پھوار برساتے بادل کسی اور چھت کی تلاش میں نکل گئے۔ تب دروازہ کھلا اور لال آنکھوں اور کالے تویتوں والے اندر داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں لمبی لمبی چھریاں تھیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹھٹھا کر رہے تھے۔ وہ ان کے پاس آئے، باری باری انہیں ٹٹولا اور پھر ایک توقف کے بعد انہوں نے پینو کا رسہ کھول لیا۔

آج پینو کی باری تھی۔

وہ ٹھٹھا کرتے رہے اور گُگا انہیں ایک ٹک دیکھے گیا۔ یہ وہی لمحہ تھا جب پہلی بار گُگے کا دماغ جگا اور اس نے کھلے دماغ کے ساتھ سوچنا شروع کیا۔

انہیں وہاں نہیں رہنا تھا، دور ارض موعود انہیں پکار رہی تھی، بے انت پھیلاؤ والے سبزہ زار اور حیات جاوداں۔ گُگے نے زندگی میں پہلی بار جانا کہ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا جبکہ پانے کو وہ سب کچھ تھا جس پر اس کا بے ہمتا باپ اکساتا رہا تھا۔

’’پینو، یہ موت کے ہرکارے ہیں، مت جاؤ ان کے ساتھ۔ ان کے ہاتھوں میں چھریاں دیکھو اور ان کی لال آنکھوں میں جھانکو جہاں تمہاری موت لکھی ہے۔‘‘ اس نے اپنے جگے ہوئے دماغ کی مدد سے پینو کو پیغام ارسال کیا۔

پینو نے ایک الجھن سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ ازلی بے وقوف تھی کچھ نہ سمجھی۔

’’یاد کرو ابا کی بات، وہ ہمارے سبزہ زار اور وہ حیات جاوداں۔‘‘ اس نے پینو کے دماغ کو جگانے کے لیے اس کی اور ایک تیز جھٹکا ارسال کیا۔ پینو نے جھٹکا کھا کر سر جھٹکا۔ ’’رسہ چھڑاؤ اور چلو میرے ساتھ۔ یہاں سے نکل چلو اس سے پہلے کہ موت ہم دونوں پر جھپٹ پڑے۔‘‘

شاید گُگے کا لگایا ہوا دماغی جھٹکا کام دکھا گیا تھا کہ پینو کچھ دیر سوچ میں ڈوبی رہی اور پھر اچانک اس نے اپنے پاؤں زمین میں گاڑ دیے۔ موت کے ہرکاروں نے اسے کھینچنے کو زور لگایا لیکن وہ اڑ گئی۔ تبھی غیض کے عالم میں گُگا ڈکرایا اور اس نے زمین پر زور سے پاؤں مار کر دھول اڑائی۔ یہ اشارہ تھا کہ اس کا ضبط اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور وہ اگلے کسی بھی لمحے سر جھکائے گا اور اپنے شروع راتوں کے چاند جیسے سینگ آگے کیے ان پر حملہ آور ہوجائے گا۔ بیل جاتی کی نفسیات سے بے خبر وہ بے وقوف تب بھی نہ سمجھے اور اسے نظر انداز کیے پینو کو کھینچنے کو زور لگاتے رہے۔

نہایت غیر متوقع طور پر پہلا حملہ گُگے نے نہیں، پینو نے کیا تھا۔ ان میں سے ایک ’ہائے ماں‘ پکارتے ہوئے گرا تو دوسرے کو گُگے نے اپنے سینگوں پر دھرلیا۔ وہ توخیر گذری کہ دونوں اٹھتے گرتے وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ کچھ ہی دیر میں دونوں وہاں گوشت کا ڈھیر سا پڑے ہوتے۔ میدان صاف تھا، گُگے نے وحشت زدہ سی کھڑی پینو کو سینگوں سے ٹہوکا دیا اور وہ دونوں وہاں سے دبڑ دبڑ نکل گئے۔

گجر دم تھا اور سارا شہر سویا پڑا تھا۔ وہ کسی بھی سمت جاتے سورج کی پہلی کرن سے پہلے اپنی ارض موعود میں ہوتے (یہ گُگے کے تازہ جگے ہوئے دماغ کی جمع تفریق تھی جس پر یقین کرنا ہی بھلا تھا۔)وہ یوں نکلے کہ ان کی گردنوں سے رسے لٹک رہے تھے اور وہ کسی نامعلوم راستے پر بگٹٹ بھاگے جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں شہر بھی جاگ اٹھا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے گلیاں انسانوں سے اور سڑکیں گاڑیوں سے بھرگئی تھیں۔

گُگے کو ٹھیک سے یاد نہیں تھا کہ راستے میں کب کب اور کیا کیا ہوا تھا لیکن اسے اتنا ضرور یاد تھا کہ ایک خوف سے چیختی چلاتی خلقت ان کے پیچھے لگ گئی تھی۔ انہیں اپنے اور حیات جاوداں کے درمیان حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو بہر طور عبور کرنا تھا لہٰذاجو ان کے راستے میں حائل ہوا ’ہائے ماں‘ پکارتا گیا۔

وہ کسی کو کیا کہتے کہ وہ تو اپنی راہ لگے تھے لیکن پاگل ٹریفک خود ان کی راہ کو کھوٹا کرنے پر تل گئی تھی۔ ان کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ مہذب لوگوں کی طرح شاہراہِ عام پر سگنل کے گرین ہونے کا انتظار کرتے۔ انہیں تو آگے بڑھنا تھا، اگر ان کی وجہ سے گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ہیں تو پڑے ٹکراتی پھریں۔ وہ جس شاہراہ پر تھے وہاں بھیڑ بہت تھی، شور بھی بہت تھا اور تعاقب میں لگی موت کو جل دے کرنکلنے کی مجبوری بھی تھی۔ یوں اس افراتفری میں گُگے کو یاد نہ رہا کہ وہ کب اورکس سمت مڑا اور پینو کب اور کس راہ میں کھوئی گئی۔

۳

وہ زخم زخم اور تھکن سے چور تھا اور شہر سے کہیں دور ایک کھیت کی اونچی فصل میں چھپا اس طوفان بدتمیزی کے تھم جانے کا انتظار کر رہا تھا جو اس کے چاروں طرف بپا تھا اور خوامخواہ میں اسے منزل سے محروم کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اور تو جو تھا سو تھا مگر یہ ڈھول ڈھمکوں اور ٹین پراتوں کا مسلسل شور! وہ اسے مشتعل کرکے باہر نکالنا چاہ رہے تھے۔ وہ ان کی چال میں کب کا آگیا ہوتا اگر اس کے تازہ جگے ہوئے دماغ نے ان کے شیطانی منصوبے اور اس کے مضمرات سے آگاہ نہ کردیا ہوتا۔ اس کے دماغ نے اسے یہ اطمینان بھی دلادیا تھا کہ پینو کب کی کسی اور راستے سے ہوتی سبزہ زاروں میں پہنچ چکی ہوگی اور وہاں اس کی منتظر ہوگی۔

کھیت کے عین درمیان میں پڑا رہنے سے اسے آرام جو ملا تو اس کے زخموں سے ٹیسیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ اس نے اپنی حالت کا اندازہ لگایا تو گھبرا گیا۔ جسم پر جگہ جگہ گہرے گھاؤ تھے جو جانے کب اور کیسے لگے تھے، پھر اندر کی چوٹیں بھی تھیں جو اسے اندر سے کاٹنا شروع ہو رہی تھیں۔ چلو اندر اور باہر کے گھاؤ بھی بھرہی جائیں گے لیکن دکھ تھا تو اپنے شروع راتوں کے چاند ایسے پھیلے سینگوں میں سے ایک کے ٹوٹ جانے کا جو اب ایک دھاگے سے لٹکا جھول رہا تھا اور اس کے اندر قیامت جگائے جارہا تھا۔

پینو اس کے سینگوں پر ہی تو مر مٹی تھی، اب ایک سینگ والا گُگا اس کے سامنے جائے گا توجانے وہ کیا سوچے؟ یہ سوچتے ہوئے وہ اندر سے ڈھ سا گیا۔ تب اس کے دماغ نے سجھایا کہ یہاں پڑے رہنے سے خرابی میں اضافہ ہی ہوگا۔ اسے ہمت کرکے اٹھنا ہوگا اور گھیرا توڑ کر اپنی راہ لگنا ہوگا، کیا پتا مولا سائیں کوئی بہتری کرہی دے۔ اس نے یہ سوچا اور لڑکھڑاتے قدموں اٹھ کھڑا ہوا۔ عین اسی وقت کھیت کے کناروں پر جمع لپاڑوں کا صبر بھی جواب دے گیا جس پراچانک فضا میں دھائیں دھائیں فائر ہونے لگے اور ڈھول ڈھمکوں کے شور میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

گُگا ایک الجھن کے عالم میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس سمت سے گھیرا توڑنے کی کوشش کرے کہ یک بیک بہت سے لوگ شور مچاتے کھیت میں داخل ہوگئے۔ اس نے کئی بے تاب آوازیں سنیں:

’’وہ زیادہ دیر تک شور برداشت نہیں کرسکتا ضرور یہاں سے نکل گیا ہوگا۔ ‘‘

’’بے وقوف، وہ یہاں سے کہاں جاسکتا ہے، چاروں طرف تو گھیرا ہے۔‘‘

’’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکا ہو۔‘‘

’’یہاں سے وہ تمہاری ماں کے پاس ہی جاسکتا ہے بدبخت، تمہارے دماغ میں بھیجا ہے یا کیا ہے؟‘‘

’’دیکھو ماں تک نہ جاؤ ورنہ۔۔۔‘‘

‘‘اوئے چل ورنہ دا پتر نا ں ہووے تے!‘‘

’’احمقو، یہ کوئی وقت ہے لڑنے کا؟ یہ بھی تو سوچو کہ وہ شدید زخمی ہے، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اٹھنے کے قابل ہی نہ رہا ہو۔‘‘

’’بالکل،اور ہم خوامخوا اس کے خوف سے کانپ رہے ہیں۔‘‘

’’چلو پھر آگے بڑھتے جاؤ اور اس نابکار پر اچانک سے ٹوٹ پڑو۔ ‘‘

ایک ساتھ بہت سی تائیدی آوازیں ابھریں جن کے ساتھ ہی ایلی کا نعرہ بلند ہوا اور کھیت میں جیسے تیز روشنیوں اور آوازوں کا طوفان امڈ آیا ہو۔ وہ اسی کی جانب بڑھے آ رہے تھے، کوئی لمحہ جاتا کہ وہ اس کے سر پر ہوتے۔ تب اس نے اپنے جسم کو جھلایا اور ٹانگیں پھیلا کر سر کو جھکا لیا۔ اس کا دماغ اور جسم کا انگ انگ ایک نکتے میں مرتکز ہوگئے تھے، صرف ایک لمحہ، کوئی سا بھی ایک لمحہ اور فیصلہ ہوجاتا۔

اور پھر اچانک اس کے عین سامنے دو ہاتھوں نے فصل کا دبیز پردہ اٹھا دیا۔ بہت سے لوگ تھے رائفلوں، بلموں اور ڈنڈوں سے مسلح، ان کے ہاتھوں میں تیز روشنی والی ٹارچیں تھیں اور چہرے پر خباثت لکھی تھی۔

گُگے کے تازہ جگے ہوئے دماغ نے صلاح دی اور اچانک اس نے رخ بدل لیا۔ دوسری جانب بھی اسی طرح کے لوگ تھے اور ان کے بھی عزائم ویسے ہی تھے۔ اچانک اس نے ایک تیز گھماؤ لیا اور ایک جھونک میں بڑھتا چلا گیا۔ اس کے اچانک حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے احمقوں کا ہجوم چھٹا تو اسے راستہ مل گیا۔

گُگا گھنی فصل کو پردہ کیے بھاگ رہا تھا اورچیختا چلاتا، دھائیں دھائیں کرتا ہجوم اس کے تعاقب میں تھا۔

وہ زخم پر زخم کھائے جارہا تھا لیکن اسے بھاگنا تھا کہ کچھ ہی دور بے انت پھیلاؤ کے سبزہ زار اس کے منتظر تھے جہاں پینو تھی اور جہاں حیات جاوداں تھی۔

* * *

About محمد عاطف علیم 26 Articles
محمد عاطف علیم شاعر، افسانہ اور ناول نگار ہیں۔ مشک پوری کی ملکہ اور گرد باد ان کے اب تک آنے والے ناول ہیں، جنہیں قارئین اور نقادوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔

3 Comments

  1. معذرت کہ کہانی میں محض بے خیالی میں مجھ سے ایک فاش غلطی سرزد ہوگئی ہے کہ جہاں میں نے “اماوس کی رات” لکھنا تھا وہاں “پورن ماشی کی رات” لکھ دیا جو کہ اس کا بالکل ہی الٹ ہے۔ پڑھتے وقت تصیح فرما لیجیے گ۔ نوازش!

2 Trackbacks / Pingbacks

  1. عاطف علیم کی کہانی کاری — aik Rozan ایک روزن
  2. پھر رہا ہے شہر میں مُلّا کھلا — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.